خطبہ (۱۳) اہل بصرہ کی مذمت میں
(۱٣) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۳)
فِیْ ذَمِّ اَھْلِ الْبَصْرَةِ
اہل بصرہ [۱] کی مذمت میں
كُنْتُمْ جُنْدَ الْمَرْاَةِ وَ اَتْبَاعَ الْبَهِیْمَةِ، رَغَا فَاَجَبْتُمْ، وَ عُقِرَ فَهَرَبْتُمْ. اَخْلَاقُكُمْ دِقَاقٌ وَّ عَهْدُكُمْ شِقَاقٌ، وَ دِیْنُكُمْ نِفَاقٌ، وَ مَآؤُكُمْ زُعَاقٌ، وَ الْمُقِیْمُ بَیْنَ اَظْهُرِكُمْ مُرْتَهَنٌۢ بِذَنْۢبِهٖ، وَ الشَّاخِصُ عَنْكُمْ مُتَدَارَكٌۢ بِرَحْمَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ. كَاَنِّیْ بِمَسْجِدِكُمْ كَجُؤْجُؤِ سَفِیْنَةٍ، قَدْ بَعَثَ اللهُ عَلَیْهَا الْعَذَابَ مِنْ فَوْقِهَا وَ مِنْ تَحْتِهَا، وَ غَرِقَ مَنْ فِیْ ضِمْنِهَا.
تم ایک عورت کی سپاہ اور ایک چوپائے کے تابع تھے۔ وہ بلبلایا تو تم لبیک کہتے ہوئے بڑھے اور وہ زخمی ہوا تو تم بھاگ کھڑے ہوئے۔ تم پست اخلاق و عہد شکن ہو۔ تمہارے دین کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ۔ تمہاری سر زمین کا پانی تک شور ہے۔ تم میں اقامت کرنے والا گناہوں کے جال میں جکڑا ہوا ہے اور تم میں سے نکل جانے والا اپنے پروردگار کی رحمت کو پالینے والا ہے۔ وہ (آنے والا) منظر میری آنکھوں میں پھر رہا ہے، جبکہ تمہاری مسجد یوں نمایاں ہو گی جس طرح کشتی کا سینہ در آنحالیکہ اللہ نے تمہارے شہر پر اس کے اوپر اور اس کے نیچے سے عذاب بھیج دیا ہو گا اور وہ اپنے رہنے والوں سمیت ڈوب چکا ہو گا۔
[وَ فِیْ رِوَایَةٍ]
[ایک اور روایت میں یوں ہے:]
وَایْمُ اللهِ لَتَغْرَقَنَّ بَلْدَتُكُمْ حَتّٰۤى كَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰى مَسْجِدِهَا كَجُؤْجُؤِ سَفِیْنَةٍ، اَوْ نَعَامَةٍ جَاثِمَةٍ.
خدا کی قسم! تمہارا شہر غرق [۲] ہو کر رہے گا، اس حد تک کہ اس کی مسجد کشتی کے اگلے حصے یا سینے کے بل بیٹھے ہوئے شتر مرغ کی طرح گویا مجھے نظر آرہی ہے۔
[وَ فِیْ رِوَایَةٍ]
[ایک اور روایت میں اس طرح ہے:]
كَجُؤْجُؤِ طَیْرٍ فِیْ لُجَّةِ بَحْرٍ.
جیسے پانی کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔
[وَ فِیْ رِوَایَةٍ اُخْرٰى]
[ایک اور روایت میں اس طرح ہے:]
بِلَادُکُمْ اَنْتَنُ بِلَادِ اللهِ تُرْبَةً، اَقرَبُهَا مِنَ الْمَاءِ وَ اَبْعَدُهَا مِنَ السَّمَآءِ وَ بِهَا تِسْعَةُ اَعْشَارِ الشَّرِّ، الْمُحْتَبَسُ فِيْهَا بِذَنْۢبِهٖ، وَ الْخَارِجُ بِعَفْوِ اللهِ. کَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰی قَرْيَتِکُمْ هٰذِهٖ قَد طَبَّقَهَا الْمَآءُ، حَتّٰی مَا يُرٰی مِنْهَا اِلَّا شُرَفُ الْمَسْجِدِ، کَاَنَّہٗ جُؤْجُؤُ طَیْرٍ فِیْ لُجَّةِ بَحْرٍ.
تمہارا شہر اللہ کے سب شہروں سے مٹی کے لحاظ سے گندا اور بدبودار ہے۔ یہ (سمندر کے) پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے۔ برائی کے دس حصوں میں سے نو حصے اس میں پائے جاتے ہیں جو اس میں آ پہنچا وہ اپنے گناہوں میں اسیر ہے اور جو اس سے چل دیا عفو الٰہی اس کے شریک حال رہا۔ گویا میں اپنی آنکھوں سے اس بستی کو دیکھ رہا ہوں کہ سیلاب نے اسے اس حد تک ڈھانپ لیا ہے کہ مسجد کے کنگروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور وہ یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے سمندر کے گہراؤ میں پرندے کا سینہ۔
۱ابنِ میثم لکھتے ہیں کہ: جب جنگِ جمل ختم ہو گئی تو اس کے تیسرے دن حضرتؑ نے بصرہ کی مسجد جامع میں صبح کی نماز ادا کی اور نماز سے فارغ ہو کر مصلّٰی کی دائیں جانب دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اہل بصرہ کی پستی اخلاق اور ان کی سبکی عقل کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے دوسروں کے بھڑکانے پر بھڑک اٹھے اور ایک عورت کے ہاتھوں میں اپنی کمان سونپ کر اونٹ کے پیچھے لگ گئے اور بیعت کے بعد پیمان شکنی کی اور دو رخی کر کے اپنی پست کرداری و بد باطنی کا ثبوت دیا۔ اس خطبہ میں عورت سے مراد حضرت عائشہ اور چوپائے سے مراد وہ اونٹ ہے کہ جس کی وجہ سے بصرہ کا معرکہ کار زار ’’جنگ جمل‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
اس جنگ کی داغ بیل یوں پڑی کہ جناب عائشہ باوجودیکہ حضرت عثمان کی زندگی میں ان کی سخت مخالفت کیا کرتی تھیں اور محاصرہ میں ان کو چھوڑ کر مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئی تھیں اور اس اعتبار سے ان کے قتل میں ان کا کافی ہاتھ تھا جس کی تفصیل آئندہ مناسب موقعوں پر آئے گی، مگر جب آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف پلٹتے ہوئے عبد اللہ ابن ابی سلمہ سے یہ سنا کہ عثمان کے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام خلیفہ تسلیم کر لئے گئے ہیں تو بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا:
لَيْتَ اَنَّ هٰذِهِ انْطَبَقَتْ عَلٰى هٰذِهٖ اِنْ تَمَّ الْاَمْرُ لِصَاحِبِكَ! رُدُّوْنِیْ رُدُّوْنِیْ!.
اگر تمہارے ساتھی کی بیعت ہو گئی ہے تو کاش! یہ آسمان زمین پر پھٹ پڑے، مجھے اب مکہ ہی کی طرف جانے دو۔
چنانچہ آپ نے مکہ کی واپسی کا تہیہ کر لیا اور فرمانے لگیں:
قُتِلَ وَاللّٰهِ عُثْمَانُ مَظْلُوْمًا، وَ اللّٰهِ لَاَطْلُبَنَّ بِدَمِهٖ.
خدا کی قسم عثمان مظلوم مارے گئے اور میں ان کے خون کا انتقام لے کر رہوں گی۔
عبد اللہ ابن ابی سلمہ نے جب یوں زمین و آسمان بدلا ہوا دیکھا تو حیرت سے کہا کہ: یہ آپ کیا فرما رہی ہیں؟ آپ تو فرمایا کرتی تھیں: «اُقْتُلُوْا نَعْثَلًا فَقَدْ كَفَرَ» : ’’اس نعثل [۱] کو قتل کر دو، یہ بے دین ہو گیا‘‘۔ آپ نے فرمایا: میں کیا سب ہی لوگ یہ کہا کرتے تھے، مگر چھوڑو ان باتوں کو، جو میں اب کہہ رہی ہوں وہ سنو، وہ زیادہ بہتر اور قابل توجہ ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ پہلے تو ان سے توبہ کرنے کیلئے کہا جاتا ہے اور پھر اس کا موقع دیئے بغیر انہیں قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ اس پر ابن ابی سلمہ نے آپ سے مخاطب ہو کر یہ شعر پڑھے:
فَمِنْكِ الْبَدَآءُ وَ مِنْكِ الْغِيَرْ
وَ مِنْكِ الرِّيَاحُ وَ مِنْكِ الْمَطَرْ
وَ اَنْتِ اَمَرْتِ بِقَتْلِ الْاِمَامِ
وَ قُلْتِ لَـنَا اِنَّهٗ قَدْ كَفَرْ
فَهَبْنَاۤ اَطَعْنَاكِ فِیْ قَتْلِهٖ
وَ قَاتِلُهٗ عِنْدَنَا مَنْ اَمَرْ
وَ لَمْ يَسْقُطِ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِنَا
وَ لَمْ يَنْكَسِفْ شَمْسُنَا وَ الْقَمَرْ
وَ قَدْ بَايَعَ النَّاسُ ذَا تُدْرَءٍ
يُزِيْلُ الشَّبَا وَ يُقِيْمُ الصَّعَرْ
وَ يَلْبَسُ لِلْحَرْبِ اَثْوَابَهَا
وَ مَا مَنْ وَّفٰى مِثْلُ مَنْ قَدْ غَدَرْ
’’آپ ہی نے پہل کی اور آپ ہی نے (مخالفت کے) طوفانِ باد و باراں اٹھائے اور اب آپ ہی اپنا رنگ بدل رہی ہیں‘‘۔
’’آپ ہی نے خلیفہ کے قتل کا حکم دیا اور ہم سے کہا کہ وہ بے دین ہو گئے ہیں‘‘۔
’’ہم نے مانا کہ آپ کا حکم بجا لاتے ہوئے یہ قتل ہمارے ہاتھوں سے ہوا، مگر اصلی قاتل تو ہمارے نزدیک وہ ہے جس نے اس کا حکم دیا ہو‘‘۔
’’(سب کچھ ہو گیا مگر) نہ آسمان ہمارے اوپر پھٹا اور نہ چاند سورج کو گہن لگا‘‘۔
’’اور لوگوں نے اس کی بیعت کر لی جو قوت و شکوہ سے دشمنوں کو ہنکانے والا ہے، تلواروں کی دھاروں کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا اور (گردن کشوں کے) بل نکال دیتا ہے‘‘۔
’’اور لڑائی کے پورے ساز و سامان سے آراستہ رہتا ہے اور وفا کرنے والا غدار کے مانند نہیں ہوا کرتا‘‘۔[۲]
بہر حال جب آپ انتقامی جذبے کو لے کر مکہ پہنچ گئیں تو حضرت عثمان کی مظلومیت کے چرچے کر کے لوگوں کو ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے ابھارنا شروع کیا۔ چنانچہ سب سے پہلے عبد اللہ ابن عامر حضرمی نے اس آواز پر لبیک کہی جو حضرت عثمان کے عہد میں مکہ کا والی رہ چکا تھا اور ساتھ ہی مروان ابن حکم، سعید ابن عاص اور دوسرے بنی امیہ ہم نوا بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ ادھر طلحہ ابنِ عبيد اللہ اور زبیر ابنِ عوام بھی مدینہ سے مکہ چلے آئے۔یمن سے یعلی ابن منبہ جو دورِ عثمان میں وہاں کا حکمران تھا آ پہنچا اور بصرہ کا سابق حکمران عبداللہ ابنِ عامر ابن کریز بھی پہنچ گیا اور آپس میں ایک دوسرے سے گٹھ جوڑ کر کے منصوبہ بندی میں لگ گئے۔ جنگ تو بہر حال طے تھی مگر رزم گاہ کی تجویز میں فکریں لڑ رہی تھیں۔ حضرت عائشہ کی رائے تھی کہ مدینہ ہی کو تاخت و تاراج کا نشانہ بنایا جائے، مگر کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ اہل مدینہ سے نپٹنا مشکل ہے اور کسی جگہ کو مرکز بنانا چاہیے۔ آخر بڑی رد و کد اور سوچ بچار کے بعد طے پایا کہ بصرہ کی طرف بڑھنا چاہیے، وہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہمارا ساتھ دے سکیں۔ چنانچہ عبداللہ ابن عامر کی بے پناہ دولت اور یعلی ابن منبہ کی چھ لاکھ درہم اور چھ سو اونٹوں کی پیشکش کے سہارے تین ہزار کی فوج ترتیب دے کر بصرہ کی طرف چل کھڑے ہوئے۔
راستے میں معمولی سی رکاوٹ پیدا ہوئی جس کی وجہ سے اُمّ المومنین نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ ایک مقام پر آپ نے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنی تو ساربان سے پوچھ لیا کہ اس جگہ کا کیا نام ہے؟ اس نے کہا کہ: ’’حواَب‘‘۔ پیغام سنتے ہی پیغمبر ﷺ کی تنبیہ یاد آ گئی کہ انہوں نے ایک دفعہ ازواج سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا: «لَيْتَ شِعْرِیْ اَيَّتُكُنَّ تَنْبَحُهَا كِلَابُ الْحَوْاَبِ» [۳]: ’’کچھ پتہ تو چلے کہ تم میں کون ہے جس پر حواَب کے کتے بھونکیں گے‘‘۔ چنانچہ جب آپ کو معلوم ہوا کہ ازواج کے پردے میں میں ہی مخاطب تھی تو اونٹ کو تھپکی دے کر بٹھایا اور سفر کو ملتوی کر دینے کا ارادہ کیا، مگر ساتھ والوں کی وقتی سیاست نے بِگڑے کام کو سنبھال لیا۔ عبداللہ ابن زبیر نے قسم کھا کر یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ مقام حواَب نہیں۔ طلحہ نے بھی اس کی تائید کی اور مزید تشفی کیلئے وہاں کے پچاس آدمیوں کو بلوا کر اس پر گواہی بھی دلوا دی۔ اب جہاں پوری قوم کا اجماع ہو وہاں ایک اکیلی رائے کیا بنا سکتی تھی؟ آخر انہی کی جیت ہوئی اور اُمّ المومنین پھر اسی جوش و خروش کے ساتھ آگے چل پڑیں۔
جب یہ سپاہ بصرہ کے قریب پہنچی تو اس میں اُمّ المومنین کی سواری دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ جاریہ ابنِ قدامہ نے آگے بڑھ کر کہا کہ: اے اُمّ المومنین قتل عثمان تو ایک مصیبت تھی ہی لیکن اس سے کہیں یہ بڑھ کر مصیبت ہے کہ آپ اس ملعون اونٹ پر بیٹھ کر نکل کھڑی ہوں اور اپنے ہاتھوں سے اپنا دامنِ عزت و حرمت چاک کر ڈالیں۔ بہتر یہی ہے کہ واپس پلٹ جائیں۔ مگر جب حواَب کا واقعہ عناں گیر نہ ہو سکا اور ﴿وَقَرْنَ فِىْ بُيُوْتِكُنَّ﴾[۴]: ’’اپنے گھروں میں ٹک کر بیٹھی رہو‘‘ کا حکم زنجیر پا نہ بن سکا تو ان آوازوں کا کیا اثر ہو سکتا تھا۔ چنانچہ آپ نے سنی اَن سنی کر دی۔
جب اس لشکر نے شہر میں داخل ہونا چاہا تو والی بصرہ عثمان ابنِ حنیف فوج کا ایک دستہ لے کر ان کی روک تھام کیلئے بڑھے۔ جب آمنا سامنا ہوا تو دونوں فریقوں نے تلواریں نیاموں سے نکال لیں اور ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ جب دونوں طرف سے اچھی خاصی تعداد میں آدمی مارے گئے تو حضرت عائشہ نے اپنے اثر سے کام لے کر بیچ بچاؤ کرا دیا اور فریقین اس قرارداد پر صلح کیلئے آمادہ ہو گئے کہ جب تک امیرالمومنین علیہ السلام خود آ نہیں جاتے موجودہ نظم و نسق میں کوئی ترمیم نہ کی جائے اور عثمان ابن حنیف اپنے منصب پر بحال رہیں۔ مگر دو ہی دن گزرنے پائے تھے کہ انہوں نے سارے عہد و پیمان توڑ کر عثمان ابن حنیف پر شبخون مارا اور چالیس بے گناہوں کو جان سے مار ڈالا اور عثمان ابن حنیف کو زد و کوب کرنے کے بعد ان کی داڑھی کا ایک ایک بال نوچ ڈالا اور اپنی حراست میں لے کر بند کر دیا پھر بیت المال پر حملہ کیا اور اسے لوٹنے کے ساتھ بیس آدمی وہیں قتل کر ڈالے اور پچاس آدمیوں کو گرفتار کرنے کے بعد تہ تیغ کیا، پھر غلہ کے انبار پر دھاوا بول دیا جس پر بصرہ کے ایک ممتاز سر برآوردہ بزرگ حکیم ابنِ جبلہ تڑپ اٹھے اور اپنے آدمیوں کو لے کر وہاں پہنچ گئے اور عبداللہ ابن زبیر سے کہا کہ اس غلہ میں سے کچھ اہل شہر کیلئے بھی رہنے دیا جائے، آخر ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، تم نے ہر طرف خونریزی و غارت گری کا طوفان مچا رکھا ہے اور عثمان ابنِ حنیف کو قید میں ڈال دیا ہے۔ خدا کیلئے ان تباہ کاریوں سے باز آؤ اور عثمان ابن حنیف کو چھوڑو، کیا تمہارے دلوں میں اللہ کا خوف نہیں؟ ابنِ زبیر نے کہا کہ: یہ خونِ عثمان کا بدلہ ہے۔ آپ نے کہا: جن لوگوں کو قتل کیا گیا ہے کیا وہ عثمان کے قاتل تھے، خدا کى قسم! اگر میرے پاس اعوان و انصار ہوتے تو میں ان مسلمانوں کے خون کا بدلہ ضرور لیتا جنہیں تم لوگوں نے ناحق مار ڈالا ہے۔ ابنِ زبیر نے جواب دیا کہ: نہ تو ہم اس غلہ میں سے کچھ دیں گے اور نہ عثمان ابنِ حنیف کو چھوڑا جائے گا۔ آخر ان دونوں فریق میں لڑائی کی ٹھن گئی، مگر چند آدمی اتنی بڑی فوج سے کیونکر نپٹ سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم ابنِ جبلہ اور ان کے بیٹے اشرف ابن حکیم اور ان کے بھائی رعل ابنِ جبلہ اور ان کے قبیلہ کے ستر آدمی مار ڈالے گئے۔ غرضیکہ ہر طرف مار دھاڑ اور لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری تھی، نہ کسی کی جان محفوط تھی اور نہ کسی کی عزت و مال کے بچاؤ کی کوئی صورت تھی۔
جب امیر المومنین علیہ السلام کو بصرہ کی روانگی کی اطلاع دی گئی تو آپ اس پیش قدمی کو روکنے کیلئے ایک فوج کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے، اس عالم میں کہ ستر بدریین اور چار سو بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ آپ کے ہم رکاب تھے۔ جب مقامِ ذی قار پر پہنچ کر منزل کی تو حسن علیہ السلام اور عمار ابنِ یا سر کو کوفہ روانہ کیا کہ وہاں کے لوگوں کو جہاد کی دعوت دیں۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعری کی رخنہ اندازیوں کے باوجود وہاں کے سات ہزار نبرد آزما اٹھ کھڑے ہوئے اور امیر المومنین علیہ السلام کی فوج میں مل گئے۔ یہاں سے فوج کو مختلف سپہ سالاروں کی زیر قیادت ترتیب دے کر دشمن کے تعاقب میں چل پڑے۔
دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ:
جب یہ سپاہ بصرہ کے قریب پہنچی تو سب سے پہلے انصار کا ایک دستہ سامنے آیا جس کا پرچم ابو ایوب انصاری کے ہاتھ میں تھا۔
اس کے بعد ہزار سواروں کا ایک اور دستہ نمودار ہوا جس کے سپہ سالار خزیمہ بن ثابت انصاری تھے۔
پھر ایک اور دستہ نظر پڑا جس کا علم ابو قتادہ ابن ربعی اٹھائے ہوئے تھے۔
پھر ایک ہزار بوڑھے اور جوانوں کا جمگھٹا دکھائی دیا جن کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان چمک رہے تھے، چہروں پر خشیت الٰہی کے نقاب پڑے ہوئے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا جلالِ کبریا کے سامنے موقف حساب میں کھڑے ہیں۔ ان کا سپہ سالار سبز گھوڑے پر سوار سفید لباس میں ملبوس اور سر پر عمامہ باندھے بآواز بلند قرآن کی تلاوت کرتا جار ہا تھا۔ یہ حضرت عمار ابن یاسر تھے۔
پھر ایک دستہ نظر آیا جس کا علم قیس ابنِ سعد ابن عبادہ کے ہاتھ میں تھا۔
پھر ایک فوج دیکھنے میں آئی جس کا قائد سفید لباس پہنے اور سر پر سیاہ عمامہ باندھے تھا اور خوش جمال اتنا کہ نگاہیں اس کے گرد طواف کر رہی تھی۔ یہ عبد اللہ ابن عباس تھے۔
پھر اصحاب پیغمبرؐ کا ایک دستہ آیا جس کے علمبردار قثم ابن عباس تھے۔
پھر چند دستوں کے گزرنے کے بعد ایک انبوهِ کثیر نظر آیا جس میں نیزوں کی یہ کثرت تھی کہ ایک دوسرے میں گتھے جا رہے تھے اور رنگا رنگ کے پھریرے لہرا رہے تھے۔ ان میں ایک بلند و بالا علم امتیازی شان لئے ہوئے تھا اور اس کے پیچھے جلال و عظمت کے پہروں میں ایک سوار دکھائی دیا جس کے بازو بھرے ہوئے اور نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی تھیں اور ہیبت و وقار کا یہ عالم تھا کہ کوئی نظر اٹھا کر نہ دیکھ سکتا تھا۔ یہ اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے جن کے دائیں بائیں حسن اور حسین علیہما السلام تھے اور آگے آگے محمد ابن حنفیہ پرچم فتح و اقبال لئے ہوئے آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہے تھے اور پیچھے جوانانِ بنی ہاشم، اصحابِ بدر اور عبد اللہ ابن جعفر ابن ابی طالب تھے۔ جب یہ لشکر مقام زاویہ پر پہنچا تو امیر المومنین علیہ السلام گھوڑے سے نیچے اتر آئے اور چار رکعت نماز پڑھنے کے بعد خاک پر رخسار رکھ دیئے اور جب سر اٹھایا تو زمین آنسوؤں سے تر تھی اور زبان پر یہ الفاظ تھے:’’اے آسمان و زمین اور عرشِ بریں کے پروردگار! یہ بصرہ ہے، اس کی بھلائی سے ہمارا دامن بھر اور اس کے شر سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھ‘‘۔
پھر یہاں سے آگے بڑھ کر میدانِ جمل میں اتر پڑے کہ جہاں حریف پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ حضرتؑ نے سب سے پہلے اپنے لشکر میں اعلان فرمایا کہ: دیکھو کوئی کسی پر ہاتھ نہ اٹھائے اور نہ لڑائی میں پہل کرے۔ یہ فرما کر فوج مخالف کے سامنے آئے اور طلحہ و زبیر سے کہا کہ: تم عائشہ سے خدا اور رسولؐ کی قسم دے کر پوچھو کہ کیا میں خونِ عثمان سے بری الذمہ نہیں ہوں؟ اور جو کچھ تم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کیا میں بھی وہی کچھ کہا کرتا تھا؟ اور کیا میں نے تم کو بیعت کیلئے مجبور کیا تھا یا تم نے خود اپنی رضامندی سے بیعت کی تھی؟ طلحہ تو ان باتوں پر چراغ پا ہونے لگے، مگر زبیر نرم پڑ گئے اور حضرتؑ اس گفتگو کے بعد پلٹ آئے اور مسلم مجاشعی کو قرآن دے کر ان کی طرف بھیجا، تا کہ انہیں قرآن مجید کا فیصلہ سنائیں۔ مگر ان لوگوں نے دونوں کو تیروں کی زد پر رکھ لیا اور اس مردِ با خدا کا جسم چھلنی کر دیا۔ پھر عمار یا سر تشریف لے گئے تا کہ انہیں سمجھائیں بجھائیں اور جنگ کے نتائج سے آگاہ کریں، مگر ان کی باتوں کا جواب بھی تیروں سے دیا گیا۔
ابھی تک امیر المومنین علیہ السلام نے ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی تھی جس کی وجہ سے دشمن کے حوصلے بڑھتے گئے اور وہ لگاتار تیر برساتے رہے۔ آخر چند جانبازوں کے دم توڑنے سے امیر المومنین علیہ السلام کی فوج میں بوکھلاہٹ سی پیدا ہوئی اور کچھ لوگ چند لاشیں لے کر آپؑ کے سامنے آئے اور کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! آپؑ ہمیں لڑنے کی اجازت نہیں دیتے اور وہ ہمیں چھلنی کئے دے رہے ہیں۔ بھلا کب تک ہم اپنے سینوں کو خاموشی سے تیروں کا ہدف بناتے رہیں گے اور ان کی زیادتیوں پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے۔
اس موقع پر حضرتؑ کے تیور بدلے، مگر ضبط و حلم سے کام لیا اور اسی حالت میں بے زرہ و سلاح اُٹھ کر دشمن کی فوج کے سامنے آئے اور پکار کر کہا کہ: زبیر کہاں ہے؟ پہلے تو زبیر سامنے آنے سے ہچکچائے، مگر جب دیکھا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے تو وہ سامنے بڑھ کر آئے۔ حضرتؑ نے فرمایا: کیوں اے زبیر! تمہیں یاد ہے کہ ایک دفعہ رسول ﷺ نے تم سے کہا تھا کہ: «یَا زُبَیْرُ! اِنَّكَ تُقَاتِلُ عَلِيًّا وَّ اَنْتَ لَهٗ ظَالِمٌ» [۵]: ’’اے زبیر! تم علیؑ سے ایک دن جنگ کرو گے اور ظلم و زیادتی تمہاری طرف سے ہو گی‘‘۔ زبیر نے کہا کہ: ہاں فرمایا تھا۔ تو آپؑ نے کہا: پھر کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ: ذہن سے اتر گیا تھا اور اگر پہلے سے یاد آ گیا ہوتا تو کبھی ادھر کا رخ نہ کرتا۔ فرمایا: اچھا اب تو یاد آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں! اور یہ کہہ کر وہ سیدھے اُمّ المومنین کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ: میں تو واپس جا رہا ہوں۔ اُمّ المومنین نے کہا کہ: اس کی وجہ؟ کہا: ابو الحسن علیہ السلام نے ایک بھولی ہوئی بات یاد دلا دی ہے۔ میں بے راہ ہو چکا تھا، مگر اب راہ پر آ گیا ہوں اور کسی قیمت پر بھی علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام سے نہیں لڑوں گا۔ اُم المومنین نے کہا کہ: تم اولادِ عبد المطلب کی تلواروں سے ڈر گئے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں اور یہ کہہ کر باگیں موڑ لیں۔ بہر صورت یہی غنیمت ہے کہ ارشاد پیغمبرؐ کا کچھ تو پاس و لحاظ کیا، ورنہ مقامِ حواَب پر تو رسول ﷺ کی بات یاد آ جانے کے باوجود وقتی تاثر کے علاوہ کوئی دیرپا اثر نہیں لیا گیا تھا۔
بہر حال جب امیر المومنین علیہ السلام اس گفتگو کے بعد پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ دشمنوں نے فوج کے داہنے اور بائیں حصے پر حملہ کر دیا ہے۔ حضرتؑ نے یہ دیکھا تو فرمایا کہ: بس اب حجت تمام ہو چکی ہے، میرے بیٹے محمد کو بلاؤ۔ وہ حاضر ہوئے تو فرمایا: بیٹا! اب حملہ کر دو۔ محمد نے سر جھکايا اور علم لے کر میدان کی طرف بڑھے، مگر تیر اس کثرت سے آ رہے تھے کہ ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے۔ امير المومنین علیہ السلام نے یہ دیکھا تو پکار کر کہا کہ: محمد! آگے کیوں نہیں بڑھتے۔ کہا کہ: بابا! تیروں کی بوچھاڑ میں آگے بڑھنے کا کوئی راستہ بھی ہو، بس اتنا توقف فرمائیے کہ تیروں کا ذرا زور تھم جائے۔ فرمایا کہ: نہیں! تیروں اور سنانوں کے اندر گھس کر حملہ کرو۔ ابنِ حنفیہ کچھ آگے بڑھے، مگر تیر اندازوں نے اس طرح گھیرا ڈالا کہ قدم روک لینے پڑے۔ یہ دیکھ کر امیر المومنین علیہ السلام کی جبین پر شکن آئی اور آگے بڑھ کر تلوار کا دستہ محمد کی پشت پر مارا اور فرمایا: «اَدْرَكَكَ عِرْقٌ مِّنْ اُمِّكَ» [۶]: ’’یہ مادری رگ کا اثر ہے‘‘۔ اور یہ کہہ کر علم ان کے ہاتھ سے لے لیا اور آستینوں کو چڑھا کر اس طرح حملہ کیا کہ ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک فوج دشمن میں تہلکہ مچ گیا۔ جس صف کی طرف مڑے وہی صف خالی تھی اور جدھر کا رُخ کیا لاشے تڑپتے ہوئے اور سر گھوڑے کے سموں سے لنڈھکتے ہوئے نظر آتے تھے۔جب صفوں کو تہ و بالا کر کے پھر اپنے مرکز کی طرف پلٹ آئے تو ابنِ حنفیہ سے فرمایا کہ: دیکھو بیٹا! اس طرح سے جنگ کی جاتی ہے اور یہ کہہ کر پھر علم انہیں دیا۔ فرمایا کہ: اب بڑھو! محمد انصار کا ایک دستہ لے کر دشمن کی طرف بڑھے۔ دشمن بھی نیزے ہلاتے ہوئے اور برچھیاں تولتے ہوئے آگے نکل آئے، مگر شیر دل باپ کے جری بیٹے نے سب پرے اُلٹ دیئے اور دوسرے جانباز مجاہدوں نے بھی میدانِ کار زار کو لالہ زار بنا دیا اور کشتوں کے ڈھیر لگا دیے۔
ادھر سے بھی جاں نثاری کا حق پوری طرح ادا کیا جا رہا تھا۔ لاشوں پر لاشیں گر رہی تھیں، مگر اونٹ کے گرد پروانہ وار جان دیتے رہے اور بنی ضبہ کی تو یہ حالت تھی کہ اونٹ کی نکیل تھامنے پر ہاتھ کہنیوں سے کٹ رہے تھے اور سینے چھد رہے تھے، مگر زبانوں پر موت کا ترانہ گونجتا تھا:
اَلْمَوْتُ اَحْلٰى عِنْدَنَا مِنَ الْعَسَلْ
نَحْنُ بَنُوْ ضَبَّةَ اَصْحَابُ الْجَمَلْ
نَحنُ بَنُو الْمَوْتِ اِذَا الْمَوْتُ نَزَلْ
نَنْعَى ابْنَ عَفَّانَ بِاَطْرَافِ الْاَسَلْ
رُدُّوْا عَلَيْنَا شَيْخَنَا ثُمَّ بَجَلْ
’’ہمارے نزدیک موت شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ ہم ہیں بنو ضبہ اونٹ کے رکھوالے‘‘۔
’’ہم موت کے بیٹے ہیں جب موت آئے۔ ہم ابنِ عفان کی سُنانی نیزوں کی زبانی سناتے ہیں‘‘۔
’’ہمیں ہمارا سردار واپس پلٹا دو (ویسے کا ویسا) اور بس‘‘۔[۷]
ان بنی ضبہ کی پست کرداری اور دین سے بے خبری کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے جسے مدائنی نے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
میں نے بصرہ میں ایک شخص کا کان کٹا ہوا دیکھا تو اس سے اس کا سبب پوچھا۔ اس نے بتایا کہ میں ’’جمل‘‘ کے میدان میں کشتوں کا منظر دیکھ رہا تھا کہ ایک زخمی نظر آیا جو کبھی سر اٹھاتا تھا اور کبھی زمین پر دے مارتا تھا۔ میں قریب ہوا تو اس کی زبان پر دو شعر تھے:
لَقَدْ اَوْرَدَتْنَا حَوْمَةَ الْمَوْتِ اُمُّنَا
فَلَمْ نَنْصَرِفْ اِلَّا وَ نَحْنُ رِوَآءُ
اَطَعْنَا بَنِیْ تَيْمِ لِشِقْوَةِ جَدِّنَا
وَ مَا تَيْمٌ اِلَّاۤ اَعْبُدٌ وَ اِمَآءُ
’’ہماری ماں نے ہمیں موت کے گہرے پانی میں دھکیل دیا اور اس وقت تک پلٹنے کا نام نہ لیا جب تک ہم چھک کر سیراب نہ ہو لئے‘‘۔
’’ہم نے شومیٔ قسمت سے بنی تیم کی اطاعت کر لی، حالانکہ ان کے مرد غلام اور ان کی عورتیں کنیزیں ہیں‘‘۔
میں نے اس سے کہا کہ اب شعر پڑھنے کا کون سا موقع ہے، اللہ کو یاد کرو اور کلمہ شہادت پڑھو۔ یہ کہنا تھا کہ اُس نے مجھے غصہ کی نظروں سے دیکھا اور ایک سخت قسم کی گالی دے کر کہا کہ: تو مجھ سے کہتا ہے کہ میں کلمہ پڑھوں اور آخری وقت میں ڈر جاؤں اور اب بے صبری کا مظاہرہ کروں؟ یہ سن کر مجھے بڑی حیرت ہوئی اور مزید کچھ کہنا سننا مناسب نہ سمجھا اور پلٹنے کا ارادہ کیا۔ جب اُس نے جانے کیلئے مجھے آمادہ پایا تو کہا کہ ٹھہرو، تمہاری خاطر اسے پڑھ لیتا ہوں، لیکن مجھے سکھا دو۔ میں اُسے کلمہ پڑھانے کیلئے قریب ہوا تو اس نے کہا اور قریب آؤ میں اور قریب ہوا تو اس نے میرا کان دانتوں میں دبا لیا اور اُس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ اُسے جڑ سے نہ کاٹ لیا۔ میں نے سوچا کہ اس مرتے ہوئے پر کیا ہاتھ اٹھاؤں اسے لعن طعن کرتا ہوا پلٹنے کیلئے تیار ہوا تو اس نے کہا کہ: ایک بات اور سن لو۔ میں نے کہا کہ وہ بھی سنا لو تا کہ تمہیں کوئی حسرت نہ رہ جائے۔ اس نے کہا کہ: جب اپنی ماں کے پاس جانا اور وہ پوچھے کہ یہ کان کس نے کاٹا ہے تو کہنا کہ عمرو ابن اہلب ضبی نے کہ جو ایک ایسی عورت کے بھرے میں آ گیا تھا جو امیر المومنین بننا چاہتی تھی۔[۸]
بہر صورت جب تلواروں کی کوندتی ہوئی بجلیوں نے ہزاروں کے خرمنِ ہستی کو بھسم کر دیا اور بنی ازد و بنی ضبہ کے سینکڑوں آدمی نکیل پکڑنے پر کٹ مرے تو حضرتؑ نے فرمایا: «اعْقِرُوا الْجَمَلَ، فَاِنَّهٗ شَيْطٰنٌ» [۹]: ’’اس اونٹ کو پے کرو، یہ شیطان ہے‘‘۔ اور یہ کہہ کر ایسا سخت حملہ کیا کہ چاروں طرف سے الامان و الحفیظ کی صدائیں آنے لگیں۔ جب اونٹ کے قریب پہنچے تو اشتر نخعی سے کہا کہ: دیکھتے کیا ہو اسے پے کرو۔ چنانچہ اشتر نے ایسا بھرپور ہاتھ چلایا کہ وہ بلبلاتا ہوا سینہ کے بل زمین پر گرا۔ اور اونٹ کا گرنا تھا کہ فوج مخالف میں بھگدڑ مچ گئی اور جنابِ عائشہ کا ہودج یکہ و تنہا رہ گیا۔ اصحابِ امیر المومنینؑ نے بڑھ کر ہودج کو سنبھالا اور محمد ابنِ ابی بکر نے امیرالمومنین علیہ السلام کے حکم سے حضرت عائشہ کو صفیہ بنت حارث کے مکان پر پہنچا دیا۔
۱۰ جمادی الثانیہ۳۶ ھ کو یہ معرکہ ظہر کے وقت شروع ہوا اور اسی دن شام کو ختم ہو گیا۔ اس میں امیر المومنین علیہ السلام کے بائیس ہزار کے لشکر میں سے ایک ہزار ستر اور دوسری روایت کی بنا پر پانچ سو افراد شہید ہوئے اور اُمّ المومنین کے تیس ہزار کے لشکر میں سے سترہ ہزار، دوسرے قول کی بنا پر بیس ہزار کام آئے اور پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی پوری تصدیق ہو گئی کہ: «لَنْ يُّفْلِحَ قَوْمٌ وَّلَّوْا اَمْرَهُمُ امْرَاَةً» [۱۰]: ’’وہ قوم کبھی کامرانی کا منہ نہیں دیکھ سکتی جس کی قیادت عورت کے ہاتھ میں ہو‘‘۔ (کتاب الامامۃ و السیاسۃ، مروج الذہب، عقد الفرید، تاریخ طبری)↑
۲ابنِ ابی الحدید نے لکھا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کی اس پیشین گوئی کے مطابق بصرہ دو دفعہ غرقاب ہوا: ایک دفعہ قادر باللہ کے دور میں اور ایک دفعہ قائم بامر اللہ کے عہد حکومت میں۔ اور غرق ہونے کی بالکل یہی صورت تھی کہ شہر تو زیر آب تھا اور مسجد کے کنگرے پانی کی سطح پر یوں نظر آتے تھے جیسے کوئی پرندہ سینہ ٹیکے بیٹھا ہو۔
[۱]۔ فیروز آبادی نے قاموس میں لکھا ہے کہ ”نعثل“ کے معانی نربجو اور بوڑھے احمق کے ہوتے ہیں اور مدینہ میں ایک یہودی اس نام کا تھا اور ایک دراز ریش شخص بھی تھا جس سے حضرت عثمان کو تشبیہ دی جاتی تھی۔
[۲]۔ الکامل فی التاریخ، ابن الاثیر، ج ۲، ص ۵۷۰، مطبوعہ دار الکتاب العربی، بیروت، ۱۹۹۷ ء۔
[۳]۔ الکامل فی التاریخ، ابن الاثیر، ج ۲، ص ۵۷۳۔
[۴]۔ سورۂ احزاب، آیت 33۔
[۵]۔ کنز الاعمال ج ۱۱، ص ۴۵۷، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۸۹ ء۔
[۶]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۴۳۔
[۷]۔ دیوان الحماسۃ، ج ۱، ص ۱۰۴۔
[۸]۔ مروج الذہب، ج ۱، ص ۳۲۱۔
[۹]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۵۳۔
[۱۰]۔ صحیح البخاری، ج ۱۰، ص ۵۲۲، حدیث ۴۴۲۵، مطبوعہ دار طوق النجاۃ، ۱۴۲۲ ھ۔