خطبات

خطبہ (۱۶) جب مدینہ میں آپ کی بیعت ہوئی تو فرمایا:

(۱٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۶)

لَمَّا بُوْيِـعَ بِالْمَدِيْنـَةِ

جب مدینہ میں آپؑ کی بیعت ہوئی تو فرمایا

ذِمَّتِیْ بِمَاۤ اَقُوْلُ رَهِیْنَةٌ، ﴿وَ اَنَا بِهٖ زَعِیْمٌ۝﴾. اِنَّ مَنْ صَرَّحَتْ لَهُ الْعِبَرُ عَمَّا بَیْنَ یَدَیْهِ مِنَ الْمَثُلَاتِ حَجَزَتْہُ التَّقْوٰى عَنْ تَقَحُّمِ الشُّبُهَاتِ، اَلَا وَ اِنَّ بَلِیَّتَكُمْ قَدْ عَادَتْ كَهَیْئَتِهَایَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبِیَّکُمْ ﷺ، وَ الَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً، وَ لَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَ لَتُسَاطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّٰى یَعُوْدَ اَسْفَلُكُمْ اَعْلَاكُمْ، وَ اَعْلَاكُمْ اَسْفَلَكُمْ، وَ لَیَسْبِقَنَّ سَابِقُوْنَ كَانُوْا قَصُرُوْا، وَ لَيَقْصُرَنَّ سَبَّاقُوْنَ كَانُوْا سَبَقُوْا. وَاللهِ! مَا كَتَمْتُ وَشْمَةً وَّ لَا كَذَبْتُ كِذْبَةً، وَ لَقَدْ نُبِّئْتُ بِهٰذَا الْمَقَامِ وَ هٰذَا الْیَوْمِ.

میں اپنے قول کا ذمہ دار اور اس کی صحت کا ضامن ہوں۔ جس شخص کو اس کے دیدۂ عبرت نے گزشتہ عقوبتیں واضح طور سے دکھا دی ہوں، اسے تقویٰ شبہات میں اندھا دھند کودنے سے روک لیتا ہے۔ تمہیں جاننا چاہیے کہ تمہارے لئے وہی ابتلاآت پھر پلٹ آئے ہیں جو رسول ﷺ کی بعثت کے وقت تھے۔ اس ذات کی قسم جس نے رسول ﷺ کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا! تم بری طرح تہ و بالا کئے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے) ہنڈیا، یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے جو پیچھے تھے آگے بڑھ جائیں گے اور جو ہمیشہ آگے رہتے تھے وہ پیچھے چلے جائیں گے۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی بات پردے میں نہیں رکھی، نہ کبھی کذب بیانی سے کام لیا۔ مجھے اس مقام اور اس دن کی پہلے ہی سے خبر دی جا چکی ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ الْخَطَایَا خَیْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَیْهَاۤ اَهْلُهَا، وَ خُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِی النَّارِ، اَلَا وَ اِنَّ التَّقْوٰى مَطَایَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَیْهَاۤ اَهْلُهَا، وَ اُعْطُوْاۤ اَزِمَّتَها، فَاَوْرَدَتْهُمُ الْجَنَّةَ.

معلوم ہونا چاہیے کہ گناہ ان سرکش گھوڑوں کے مانند ہیں جن پر ان کے سواروں کو سوار کر دیا گیا ہو اور باگیں بھی ان کی اتار دی گئی ہوں اور وہ لے جا کر انہیں دوزخ میں پھاند پڑیں۔ اور تقویٰ رام کی ہوئی سواریوں کے مانند ہے جن پر ان کے سواروں کو سوار کیا گیا ہو، اس طرح کہ باگیں ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہوں اور وہ انہیں (با اطمینان) لے جا کر جنت میں اتار دیں۔

حَقٌّ وَّ بَاطِلٌ، وَ لِكُلٍّ اَهْلٌ، فَلَئِنْ اَمِرَ الْبَاطِلُ لَقَدِیْمًا فَعَلَ، وَ لَئِنْ قَلَّ الْحَقُّ فَلَرُبَّمَا وَ لَعَلَّ، وَ لَقَلَّمَاۤ اَدْبَرَ شَیْءٌ فَاَقْبَلَ.

ایک حق ہوتا ہے اور ایک باطل اور کچھ حق والے ہوتے ہیں، کچھ باطل والے۔ اب اگر باطل زیادہ ہو گیا تو یہ پہلے بھی بہت ہوتا رہا ہے اور اگر حق کم ہو گیا ہے تو بسا اوقات ایسا ہوا ہے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اس کے بعد باطل پر چھا جائے۔ اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی چیز پیچھے ہٹ کر آگے بڑھے۔

اَقُوْلُ: اِنَّ فِیْ هٰذَا الْكَلَامِ الْاَدْنٰى مِنْ مَّوَاقِعِ الْاِحْسَانِ مَا لَا تَبْلُغُهٗ مَوَاقِعُ الْاِسْتِحْسَانِ، وَ اِنَّ حَظَّ الْعَجَبِ مِنْهُ اَكْثَرُ مِنْ حَظِّ الْعَجَبِ بِهٖ، وَ ــ فِيْهِ مَعَ الْحَالِ الَّتِیْ وَصَفْنَا ــ زَوَآئِدُ مِنَ الْفَصَاحَةِ، لَا يَقُوْمَ بِهَا لِسَانٌ ، وَ لَا يَطَّلِعُ فَجَّهَا اِنْسَانٌ، وَ لَا يَعْرِفُ مَاۤ اَقُوْلُ اِلَّا مَنْ ضَرَبَ فِیْ هٰذِهِ الصِّنَاعَةِ بِحَقٍّ، وَ جَرٰى فِيْهَا عَلٰى عِرْقٍ، ﴿وَ مَا یَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۝﴾.

علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس مختصر سے کلام میں واقعی خوبیوں کے اتنے مقام ہیں کہ احساس خوبی کا اس کے تمام گوشوں کو پا نہیں سکتا اور اس کلام سے حیرت و استعجاب کا حصہ پسندیدگی کی مقدار سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس حالت کے باوجود جو ہم نے بیان کی ہے اس میں فصاحت کے اتنے بے شمار پہلو ہیں کہ جن کے بیان کرنے کا یارا نہیں، نہ کوئی انسان اس کی عمیق گہرائیوں تک پہنچ سکتا ہے۔ میری اس بات کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس فن کا پورا پورا حق ادا کیا ہو اور اس کے رگ و ریشہ سے واقف ہو اور’’جاننے والوں کے سوا کوئی ان کو نہیں سمجھ سکتا‘‘۔

[وَ مِنْ هٰذِهِ الْخُطْبَةِ]

[اسی خطبے کا ایک حصہ یہ ہے:]

شُغِلَ مَنِ الْجَنَّةُ وَ النَّارُ اَمَامَهٗ، سَاعٍ سَرِیْعٌ نَجَا، وَ طَالِبٌۢ بَطِیْءٌ رَّجَا، وَ مُقَصِّرٌ فِی النَّارِ هَوٰى. الْیَمِیْنُ وَ الشِّمَالُ مَضَلَّةٌ، وَ الطَّرِیْقُ الْوُسْطٰى هِیَ الْجَادَّةُ عَلَیْهَا بَاقِی الْكِتَابِ وَ اٰثَارُ النُّبُوَّةِ، وَ مِنْهَا مَنْفَذُ السُّنَّةِ، وَ اِلَیْهَا مَصِیْرُ الْعَاقِبَةِ.

جس کے پیشِ نظر دوزخ و جنت ہو، اس کی نظر کسی اور طرف نہیں اٹھ سکتی، جو تیز قدم دوڑنے والا ہے وہ نجات یافتہ ہے اور جو طلبگار ہو، مگر سست رفتار اسے بھی توقع ہو سکتی ہے، مگر جو (ارادةً) کو تاہی کرنے والا ہو اسے تو دوزخ ہی میں گرنا ہے۔دائیں بائیں گمراہی کی راہیں ہیں اور درمیانی راستہ ہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس راستے پر اللہ کی ہمیشہ رہنے والی کتاب اور نبوت کے آثار ہیں۔ اسی سے شریعت کا نفاذ و اجرا ہوا اور اسی کی طرف آخر کار بازگشت ہے۔

هَلَكَ مَنِ ادَّعٰى، وَ خَابَ مَنِ افْتَرٰى، مَنْ اَبْدٰى صَفْحَتَهٗ لِلْحَقِّ هَلَكَ، وَ كَفٰى بِالْمَرْءِ جَهْلًاۤ اَلَّا یَعْرِفَ قَدْرَهٗ، لَایَهْلِكُ عَلَى التَّقْوٰى سِنْخُ اَصْلٍ، وَ لَا یَظْمَاُ عَلَیْهَا زَرْعُ قَوْمٍ. فَاسْتَتِرُوْا فِیْ بُیُوْتِكُمْ، ﴿وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِكُمْ۪ ﴾، وَ التَّوْبَةُ مِنْ وَّرَآئِكُمْ، وَ لَا یَحْمَدْ حَامِدٌ اِلَّا رَبَّهٗ، وَ لَا یَلُمْ لَآئِمٌ اِلَّا نَفْسَهٗ.

جس نے (غلط) ادّعا کیا وہ تباہ و برباد ہوا اور جس نے افترا باندھا وہ ناکام و نامراد رہا [۱] ۔ جو حق کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے اور انسان کی جہالت اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ وہ اپنی قدر و منزلت کو نہ پہچانے [۲] ۔ وہ اصل و اساس، جو تقویٰ پر ہو برباد نہیں ہوتی اور اس کے ہوتے ہوئے کسی قوم کی کشت (عمل) بے آب و خشک نہیں رہتی۔ تم اپنے گھر کے گوشوں میں چھپ کر بیٹھ جاؤ، آپس کے جھگڑوں کی اصلاح کرو، توبہ تمہارے عقب میں ہے۔ حمد کرنے والا صرف اپنے پروردگار کی حمد کرے اور بھلا برا کہنے والا اپنے ہی نفس کی ملامت کرے۔

۱؂بعض نسخوں میں: «مَنْ اَبْدٰى صَفْحَتَهٗ لِلْحَقِّ هَلَكَ» کے بعد «عِنْدَ جَهَلَةِ النَّاسِ» بھی مرقوم ہے۔ اس بنا پر اس جملہ کے یہ معنی ہوں گے کہ جو حق کی خاطر کھڑا ہو وہ جاہلوں کے نزدیک تباہ و برباد ہوتا ہے۔

۲؂عظمت و جلالِ الٰہی سے دل و دماغ کے متاثر ہونے کا نام تقویٰ ہے جس کے نتیجے میں انسان کی روح خوف و خشیت الٰہی سے معمور ہو جاتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عبادت و ریاضت میں سر گرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ ناممکن ہے کہ دل میں اس کا خوف بسا ہو اور اس کا اظہار انسان کے افعال و اعمال سے نہ ہو اور عبادت و نیاز مندی سے چونکہ نفس کی اصلاح اور روح کی تربیت ہوتی ہے، لہٰذا جوں جوں عبادت میں اضافہ ہوتا ہے، نفس کی پاکیزگی بڑھتی جاتی ہے۔ اسی لئے قرآن کریم میں تقویٰ کا اطلاق کبھی خوف و خشیت پر، کبھی بندگی اور نیاز مندی پر اور کبھی پاکیزگی قلب و روح پر ہوا کرتا ہے۔ چنانچہ ﴿وَّاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ﴾[۱] میں تقویٰ سے مراد خوف ہے اور ﴿اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ﴾ [۲] میں تقویٰ سے مراد عبادت و بندگی ہے اور ﴿وَيَخْشَ اللّٰهَ وَيَتَّقْهِ فَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الْفَآٮِٕزُوْنَ‏﴾[۳] میں تقویٰ سے مراد پاکیزگی نفس اور طہارتِ قلب ہے۔

احادیث میں تقویٰ کے تین درجے قرار دیئے گئے ہیں:

پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان واجبات کی پابندی اور محرمات سے کنارہ کشی کرے۔

دوسرا درجہ یہ ہے کہ مستحبات کی بھی پابندی کرے اور مکروہات سے بھی دامن بچا کر رہے۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ شبہات میں مبتلا ہونے کے اندیشہ سے حلال چیزوں سے بھی ہاتھ اٹھالے۔

پہلا درجہ عوام کا، دوسرا درجہ خواص کا اور تیسرا درجہ خاص الخواص کا ہے۔ چنانچہ خداوندِ عالم نے ان تینوں درجوں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے:

﴿لَـيْسَ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْۤا اِذَا مَا اتَّقَوا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوا وَّاَحْسَنُوْا‌ ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْ﴾

جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے اعمال بجا لائے ان پر جو وہ (پہلے) کھا پی چکے ہیں اس میں کچھ گناہ نہیں۔ جب انہوں نے پرہیز گاری اختیار کر لی اور ایمان لے آئے اور نیک کام کئے، پھر پرہیز گاری کی اور ایمان لے آئے پھر پرہیز گاری کی اور اچھے کام کئے اور اللہ اچھے کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔[۴]

امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسی عمل کیلئے جماؤ ہے جس کی بنیاد تقویٰ پر ہو اور وہی کشتِ عمل پھلے پھولے گی جسے تقویٰ کے پانی سے سینچا گیا ہو، کیونکہ عبادت وہی ہے جس میں احساس عبودیت کارفرما ہو، جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:

﴿ اَفَمَنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰى تَقْوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ اَمْ مَّنْ اَسَّسَ بُنْيَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهٖ فِىْ نَارِ جَهَـنَّمَ﴾

کیا وہ شخص کہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی خوشنودی پر رکھی، وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک گرنے والی کھائی کے کنارے پر رکھی کہ جو اسے لے کر جہنم کی آگ میں گر پڑے۔[۵]

چنانچہ ہر وہ اعتقاد جس کی اساس، علم و یقین پر نہ ہو اس عمارت کے مانند ہے جو بغیر بنیاد کے کھڑی کی گئی ہو، جس میں ثبات و قرار نہیں ہو سکتا اور ہر وہ عمل جو بغیر تقویٰ کے ہو اس کھیتی کے مانند ہے جو آبیاری کے نہ ہونے کی وجہ سے سوُکھ جائے۔

[۱]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۴۱۔

[۲]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۰۲۔

[۳]۔ سورۂ نور، آیت ۵۲۔

[۴]۔ سورۂ مائدہ، آیت ۹۳۔

[۵]۔ سورۂ توبہ، آیت ۱۰۹۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button