خطبہ (۲۳)
(٢٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۳)
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْاَمْرَ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ كَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ اِلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِیَادَةٍ اَوْ نُقْصَانٍ، فَاِذَا رَاٰى اَحَدُكُمْ لِاَخِیْهِ غَفِیْرَةً فِیْۤ اَهْلٍ اَوْ مَالٍ اَوْ نَفْسٍ فَلَا تَكُوْنَنَّ لَهٗ فِتْنَةً، فَاِنَّ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ مَا لَمْ یَغْشَ دَنَآءَةً تَظْهَرُ فَیَخْشَعُ لَهَاۤ اِذَا ذُكِرَتْ، وَ تُغْرٰى بِهَا لِئَامُ النَّاسِ، كَانَ كَالْفَالِجِ الْیَاسِرِ الَّذِیْ یَنْتَظِرُ اَوَّلَ فَوْزَةٍ مِّنْ قِدَاحِهٖ تُوْجِبُ لَهُ الْمَغْنَمَ، وَ یُرْفَعُ بِهَا عَنْهُ الْمَغْرَمُ.
ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہوتا ہے، اسے لے کر فرمان قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرات، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کے اہل و مال و نفس میں فراوانی و وسعت پائے تو یہ چیز اس کیلئے کبیدگی خاطر کا سبب نہ بنے۔ جب تک کوئی مرد مسلمان کسی ایسی ذلیل حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا کہ جو ظاہر ہو جائے تو اس کے تذکرہ سے اسے آنکھیں نیچی کرنا پڑیں اور جس سے ذلیل آدمیوں کی جرأت بڑھے، وہ اس کامیاب جواری کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے مرحلے پر ہی ایسی جیت کا متوقع ہوتا ہے جس سے اسے فائدہ حاصل ہو اور پہلے نقصان ہو بھی چکا ہے تو وہ دور ہو جائے۔
وَ كَذٰلِكَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ الْبَرِیْٓءُ مِنَ الْخِیَانَةِ یَنْتَظِرُ مِنَ اللهِ ﴿اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ﴾: اِمَّا دَاعِیَ اللهِ فَمَا عِنْدَ اللهِ خَیْرٌ لَّهٗ، وَ اِمَّا رِزْقَ اللهِ فَاِذَا هُوَ ذُوْ اَهْلٍ وَّ مَالٍ، وَ مَعَهٗ دِیْنُهٗ وَ حَسَبُهٗ.
اسی طرح وہ مسلمان جو بد دیانتی سے پاک دامن ہو، وہ دو اچھائیوں میں سے ایک کا منتظر رہتا ہے: یا اللہ کی طرف سے بلاوا آئے تو اس شکل میں اللہ کے یہاں کی نعمتیں ہی اس کیلئے بہتر ہیں اور یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے (دنیا کی) نعمتیں حاصل ہوں تو اس صورت میں اس کے مال بھی ہے اور اولاد بھی اور پھر اس کا دین اور عزتِ نفس بھی برقرار رہے۔
اِنَّ الْمَالَ وَ الْبَنِیْنَ حَرْثُ الدُّنْیَا، وَ الْعَمَلَ الصَّالِحَ حَرْثُ الْاٰخِرَةِ، وَ قَدْ یَجْمَعُهُمَا اللهُ لِاَقْوَامٍ، فَاحْذَرُوْا مِنَ اللهِ مَا حَذَّرَكُمْ مِّنْ نَّفْسِهٖ، وَ اخْشَوْهُ خَشْیَةً لَّیْسَتْ بِتَعْذِیْرٍ وَ اعْمَلُوْا فِیْ غَیْرِ رِیَآءٍ وَّ لَا سُمْعَةٍ، فَاِنَّهٗ مَنْ یَّعْمَلْ لِغَیْرِ اللهِ یَكِلْهُ اللهُ اِلٰى مَنْ عَمِلَ لَهٗ. نَسْئَلُ اللهَ مَنَازِلَ الشُّهَدَآءِ، وَ مُعَایَشَةَ السُّعَدَآءِ، وَ مُرَافَقَةَ الْاَنْۢبِیَآءِ.
بیشک مال و اولاد دنیا کی کھیتی اور عمل صالح آخرت کی کشتِ زار ہے اور بعض لوگوں کیلئے اللہ ان دونوں چیزوں کو یکجا کر دیتا ہے۔ جتنا اللہ نے ڈرایا ہے اتنا اس سے ڈرتے رہو اور اتنا اس سے خوف کھاؤ کہ تمہیں عذر نہ کرنا پڑے۔ عمل بے ریا کرو اس لئے کہ جو شخص کسی اور کیلئے عمل کرتا ہے، اللہ اس کو اسی کے حوالہ کر دیتا ہے۔ ہم اللہ سے شہیدوں کی منزلت، نیکوں کی ہمدمی اور انبیاءؑ کی رفاقت کا سوال کرتے ہیں۔
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ لَا یَسْتَغْنِی الرَّجُلُ وَ اِنْ كَانَ ذَا مَالٍ عَنْ عَشِیْرَتِهٖ، وَ دِفَاعِهِمْ عَنْهُ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ هُمْ اَعْظَمُ النَّاسِ حِیْطَةً مِّنْ وَّرَآئِهٖ وَ اَلَمُّهُمْ لِشَعَثِهٖ، وَ اَعْطَفُهُمْ عَلَیْهِ عِنْدَ نَازِلَةٍ اِذَا نَزَلَتْ بِهٖ. وَ لِسَانُ الصِّدْقِ یَجْعَلُهُ اللهُ لِلْمَرْءِ فِی النَّاسِ خَیْرٌ لَهٗ مِنَ الْمَالِ يُوَرِّثُهٗ غَیْرَهٗ.
اے لوگو! کوئی شخص بھی اگرچہ وہ مالدار ہو اپنے قبیلہ والوں اور اس امر سے کہ وہ اپنے ہاتھوں اور زبانوں سے اس کی حمایت کریں بے نیاز نہیں ہو سکتا اور وہی لوگ سب سے زیادہ اس کے پشت پناہ اور اس کی پریشانیوں کو دور کرنے والے اور مصیبت پڑنے کی صورت میں اس پر شفیق و مہربان ہوتے ہیں۔ اللہ جس شخص کا سچا ذکرِ خیر لوگوں میں برقرار رکھتا ہے تو یہ اس مال سے کہیں بہتر ہے جس کا وہ دوسروں کو وارث بنا جاتا ہے۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
اَلَا لَا یَعْدِلَنَّ اَحَدُكُمْ عَنِ الْقَرَابَةِ یَرٰى بِهَا الْخَصَاصَةَ اَنْ یَّسُدَّهَا بِالَّذِیْ لَا یَزِیْدُهٗ اِنْ اَمْسَكَهٗ وَ لَا یَنْقُصُهٗ اِنْ اَهْلَكَهٗ، وَ مَنْ یَّقْبِضْ یَدَهٗ عَنْ عَشِیْرَتِهٖ، فَاِنَّمَا تُقْبَضُ مِنْهُ عَنْهُمْ یَدٌ وَّاحِدَةٌ، وَ تُقْبَضُ مِنْهُمْ عَنْهُ اَیْدٍ كَثِیْرَةٌ، وَ مَنْ تَلِنْ حَاشِیَتُهٗ یَسْتَدِمْ مِنْ قَوْمِهِ الْمَوَدَّةَ.
دیکھو تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے قریبیوں کو فقر و فاقہ میں پائے تو ان کی احتیاج کو اس امداد سے دور کرنے میں پہلو تہی نہ کرے جس کے روکنے سے یہ کچھ بڑھ نہ جائے گا اور صرف کرنے سے اس میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ جو شخص اپنے قبیلے کی اعانت سے ہاتھ روک لیتا ہے تو اس کا تو ایک ہاتھ رکتا ہے لیکن وقت پڑنے پر بہت سے ہاتھ اس کی مدد سے رُک جاتے ہیں۔ جو شخص نرم خو ہو وہ اپنی قوم کی محبت ہمیشہ باقی رکھ سکتا ہے۔
اَقُوْلُ: «الْغَفِيْرَةُ» هٰهُنَا الزِّيَادِةُ وَ الْكَثْرَةُ مِنْ قَوْلِهِمْ لِلْجَمْعِ الْكَثِيْرِ: اَلْجَمُّ الْغَفِيْرُ، وَ الْجَمَّآءُ الْغَفِيْرُ، وَ يُرْوٰى عَفْوَةً مِّنْ اَهْلٍ اَوْ مَالٍ، وَ الْعَفْوَةُ الْخِيَارُ مِنَ الشَّيْءِ، يُقالُ: اَكَلْتُ عَفْوَةَ الطَّعَامِ اَیْ: خِيَارَهٗ.
شریف رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہاں پر «الْغَفِيْرَةُ» کے معنی کثرت و زیادتی کے ہیں اور یہ عربوں کے قول: اَلْجَمُّ الْغَفِيْرُ، وَ الْجَمَّآءُ الْغَفِيْرُ : (اژدہام) سے ماخوذ ہے اور بعض روایتوں میں ’’غفیرہ‘‘ کے بجائے عَفْوَةً ہے اور عَفْوَةً کسی شے کے عمدہ اور منتخب حصہ کو کہتے ہیں۔ یوں کہا جاتا ہے: اَكَلْتُ عَفْوَةَ الطَّعَامِ یعنی میں نے منتخب اور عمدہ کھانا کھایا۔
وَ مَآ اَحْسَنَ الْمَعْنَى الَّذِيْ اَرَادَهٗ ؑ بِقَوْلِهٖ: «وَ مَنْ يَّقْبِضْ يَدَهٗ عَنْ عَشِيْرَتِهٖ» اِلٰی تَمَامِ الْكَلَامِ، فَاِنَّ الْمُمْسِكَ خَيْرَهٗ عَنْ عَشِيْرَتِهٖۤ اِنَّمَا يُمْسِكُ نَفْعَ يَدٍ وَّاحِدَةٍ فَاِذَا احْتَاجَ اِلٰى نُصْرَتِهِمْ وَ اضْطَرَّ اِلٰى مُرَافَدَتِهِمْ قَعَدُوْا عَنْ نَّصْرِهٖ، وَ تَثَاقَلُوْا عَنْ صَوْتِهٖ، فَمُنِعَ تَرَافُدَ الْاَيْدِی الْكَثِيْرَةِ وَ تَناهُضَ الْاَقْدَامِ الْجَمَّةِ.
«وَ مَنْ يَّقْبِضْ يَدَهٗ عَنْ عَشِيْرَتِهٖ» (تا آخر کلام) کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس جملہ کے معنی کتنے حسین و دلکش ہیں۔ حضرتؑ کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے قبیلہ سے حسن سلوک نہیں کرتا تو اس نے ایک ہی ہاتھ کی منفعت کو روکا، لیکن جب ان کی امداد کی ضرورت پڑے گی اور ان کی ہمدردی و اعانت کیلئے لاچار و مضطر ہو گا تو وہ ان کے بہت سے بڑھنے والے ہاتھوں اور اٹھنے والے قدموں کی ہمدردیوں اور چارہ سازیوں سے محروم ہو جائے گا۔