خطبہ (۲۸)
(٢٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۸)
اَمَّا بَعْدُ، فَاِنَّ الدُّنْیَا قَدْ اَدْبَرَتْ وَ اٰذَنَتْ بِوَدَاعٍ، وَ اِنَّ الْاٰخِرَةَ قَدْ اَقْبَلَتْ وَ اَشْرَفَتْ بِاطِّلَاعٍ، اَلَا وَ اِنَّ الْیَوْمَ الْمِضْمَارَ وَ غَدًا السِّبَاقَ، وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ، وَ الْغَایَةُ النَّارُ، اَ فَلَا تَآئِبٌ مِّنْ خَطِیْٓئَتِهٖ قَبْلَ مَنِیَّتِهٖ؟ اَلَا عَامِلٌ لِّنَفْسِهٖ قَبْلَ یَوْمِ بُؤْسِهٖ؟ اَلَا وَ اِنَّكُمْ فِیْۤ اَیَّامِ اَمَلٍ مِّنْ وَّرَآئِهٖ اَجَلٌ، فَمَنْ عَمِلَ فِیْۤ اَیَّامِ اَمَلِهٖ قَبْلَ حُضُوْرِ اَجَلِهٖ فَقَدْ نَفَعَهٗ عَمَلُهٗ وَ لَمْ یَضْرُرْهُ اَجَلُهٗ، وَمَنْ قَصَّرَ فِیْۤ اَیَّامِ اَمَلِهٖ قَبْلَ حُضُوْرِ اَجَلِهٖ فَقَدْ خَسِرَ عَمَلُهٗ وَ ضَرَّهٗ اَجَلُهٗ.
دنیا نے پیٹھ پھرا کر اپنے رخصت ہونے کا اعلان اور منزلِ عقبیٰ نے سامنے آ کر اپنی آمد سے آگاہ کر دیا ہے۔ آج کا دن تیاری کا ہے اور کل دوڑ کا ہو گا۔ جس طرف آگے بڑھنا ہے وہ تو جنت ہے اور جہاں کچھ اشخاص (اپنے اعمال کی بدولت بلا اختیار) پہنچ جائیں گے، وہ دوزخ ہے۔ کیا موت سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والا کوئی نہیں؟اور کیا اس روزِ مصیبت کے آنے سے پہلے عمل (خیر) کرنے والا ایک بھی نہیں؟ تم امیدوں کے دور میں ہو جس کے پیچھے موت کا ہنگامہ ہے۔ تو جو شخص موت سے پہلے ان امیدوں کے دنوں میں عمل کر لیتا ہے تو یہ عمل اُس کیلئے سود مند ثابت ہوتا ہے اور موت اُس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی اور جو شخص موت سے قبل زمانہ امید و آرزو میں کوتاہیاں کرتا ہے تو وہ عمل کے اعتبار سے نقصان رسیدہ رہتا ہے اور موت اس کیلئے پیغامِ ضرر لے کر آتی ہے۔
اَلَا فَاعْمَلُوْا فِی الرَّغْبَةِ كَمَا تَعْمَلُوْنَ فِی الرَّهْبَةِ، اَلَا وَ اِنِّیْ لَمْ اَرَ كَالْجَنَّةِ نَامَ طَالِبُهَا، وَ لَا كَالنَّارِ نَامَ هَارِبُهَا، اَلَا وَ اِنَّهٗ مَنْ لَّا یَنْفَعُهُ الْحَقُّ یَضُرُّهُ الْبَاطِلُ، وَ مَنْ لَّا یَسْتَقِیْمُ بِهِ الْهُدٰى یَجُرُّ بِهِ الضَّلَالُ اِلَى الرَّدٰى، اَلَا وَ اِنَّكُمْ قَد اُمِرْتُمْ بِالظَّعْنِ، وَ دُلِلْتُمْ عَلَى الزَّادِ. وَ اِنَّ اَخْوَفَ مَاۤ اَخَافُ عَلَیْكُمُ: اتِّبَاعُ الْهَوٰى وَ طُوْلُ الْاَمَلِ، تَزَوَّدُوْا فِی الدُّنْیَا مِنَ الدُّنْیَا مَا تَحْرُزُوْنَ بِهٖۤ اَنْفُسَكُمْ غَدًا.
لہٰذا جس طرح اس وقت جب ناگوار حالات کا اندیشہ ہو نیک اعمال میں منہمک ہوتے ہو، ویسا ہی اس وقت بھی نیک اعمال کرو جبکہ مستقبل کے آثار مسرت افزا محسوس ہو رہے ہوں۔ مجھے جنت ہی ایسی چیز نظر آتی ہے جس کا طلبگار سویا پڑا ہو اور جہنم ہی ایسی شے دکھائی دیتی ہے جس سے دور بھاگنے والا خواب غفلت میں محو ہو۔ جو حق سے فائدہ نہیں اٹھاتا اسے باطل کا نقصان و ضرر اٹھانا پڑے گا۔ جس کو ہدایت ثابت قدم نہ رکھے اسے گمراہی ہلاکت کی طرف کھینچ لے جائے گی۔ تمہیں کوچ کا حکم مل چکا ہے اور زادِ راہ کا پتہ دیا جا چکا ہے۔ مجھے تمہارے متعلق سب سے زیادہ دو ہی چیزوں کا خطرہ ہے: ایک خواہشوں کی پیروی اور دوسرے امیدوں کا پھیلاؤ۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے اتنا زاد لے لو جس سے کل اپنے نفسوں کو بچا سکو۔
اَقُوْلُ: اِنَّهٗ لَوْ كَانَ كَلَامٌ یَّاْخُذُ بِالْاَعْنَاقِ اِلَى الزُّهْدِ فِی الدُّنْیَا، وَ یَضْطَرُّ اِلٰى عَمَلِ الْاٰخِرَةِ لَكَانَ هٰذَا الْكَلَامُ، وَ كَفٰى بِهٖ قَاطِعًا لِّعَلَآئِقِ الْاٰمَالِ، وَ قادِحًا زِنَادَ الْاِتَّعَاظِ وا لْاِزْدِجَارِ، وَ مِنْ اَعْجَبِهٖ قَوْلُهٗ ؑ: «اَلَا وَ اِنَّ الْیَوْمَ الْمِضْمَارَ وَ غَدًا السِّبَاقَ، وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ، وَ الْغَایَةُ النَّارُ»، فَاِنَّ فِيْهِ مَعَ فَخَامَةِ اللَّفْظِ وَ عِظَمِ قَدْرِ الْمَعْنٰی وَ صَادِقِ التَّمْثِیْلِ وَ وَاقِعِ التَّشْبِیْہِ سِرًّا عَجِیْبًا، وَ مَعْنًی لَّطِیْفًا، وَ ھُوَ قَوْلُہٗ ؑ: «وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ وَ الْغَایَةُ النَّارُ»، فَخَالَـفَ بَيْنَ اللَّفْظَيْنِ لِاخْتِلَافِ الْمَعْنَيَيْنِ، وَ لَمْ يَقُلْ: وَ السَّبْقَةُ النَّارُ، كَمَا قَالَ: «وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ»، لِاَنَّ الْاِسْتِبَاقَ اِنَّمَا يَكُوْنُ اِلٰى اَمْرٍ مَّحْبُوْبٍ وَّ غَرَضٍ مَّطْلُوْبٍ، وَ هٰذِهٖ صِفَةُ الْجَنَّةِ، وَ لَيْسَ هٰذَا الْمَعْنٰى مَوْجُوْدًا فِی النَّارِ نَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنْهَا.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: اگر کوئی کلام گردن پکڑ کر زہد دنیوی کی طرف لانے والا اور عمل اُخروی کیلئے مجبور و مضطر کر دینے والا ہو سکتا ہے تو وہ یہ کلام ہے جو امیدوں کے بندھنوں کو توڑنے اور وعظ و سرزنش سے اثر پذیری کے جذبات کو مشتعل کرنے کیلئے کافی و وافی ہے ۔ اس خطبے میں یہ جملہ: «اَلَا وَ اِنَّ الْیَوْمَ الْمِضْمَارَ وَ غَدًا السِّبَاقَ، وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ، وَ الْغَایَةُ النَّارُ» تو بہت ہی عجیب و غریب ہے۔ اس میں لفظوں کی جلالت، معنی کی بلندی، سچی تمثیل اور صحیح تشبیہ کے ساتھ عجیب اسرار اور باریک نکات ملتے ہیں۔ حضرتؑ نے اپنے ارشاد: «وَ السَّبَقَةُ الْجَنَّةُ وَ الْغَایَةُ النَّارُ» میں معنی مقصود کے الگ الگ ہونے کی وجہ سے دو جداگانہ لفظیں: ’’اَلسَّبَقَةُ وَ الْغَایَةُ‘‘ استعمال کی ہیں۔ جنت کے لئے لفظ ’’اَلسَّبَقَةُ‘‘ (بڑھنا) فرمائی ہے اور جہنم کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کی، کیونکہ ’’سبقت‘‘ اس چیز کی طرف کی جاتی ہے جو مطلوب و مرغوب ہو اور یہ بہشت ہی کی شان ہے اور دوزخ میں مطلوبیت و مرغوبیت کہاں کہ اس کی جستجو و تلاش میں بڑھا جائے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْھَا) ۔
فَلَمْ یَجُزْ اَنْ یَّقُوْلَ: وَ السَّبَقَةُ النَّارُ، بَلْ قَالَ: «وَ الْغَایَةُ النَّارُ»، لِاَنَّ الْغَایَۃَ قَدْ یَنْتَہِیْۤ اِلَیْہَا مَنْ لَّا یَسُرُّہُ الْاِنْتِہَآءُ اِلَیْہَا وَ مَنْ یَّسُرُّہٗ ذٰلِكَ، فَصَلَحَ اَنْ يُّعَبَّرَ بِهَا عَنِ الْاَمْرَيْنِ مَعًا، فَهِىَ فِیْ هٰذَا الْمَوْضِعِ كَالْمَصِيْرِ وَ الْمَالِ، قَالَ اللهُ تَعَالٰى: ﴿قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَكُمْ اِلَی النَّارِ﴾، وَ لَا يَجُوْزُ فِیْ هٰذَا الْمَوْضِعِ اَنْ يُّقَالَ: سَبْقَتُكُمْ اِلَى النَّارِ، فَتَاَمَّلْ ذٰلِكَ، فَبَاطِنُہٗ عَجِیْبٌ، وَ غَوْرُہٗ بَعِیْدٌ لَّطِیْفٌ، وَ کَذٰلِكَ اَکْثَرُ کَلَامِهٖ ؑ.
چونکہ ’’اَلسَّبَقَةُ النَّارُ‘‘ کہنا صحیح و درست نہیں ہو سکتا تھا، اسی لئے «وَ الْغَایَةُ النَّارُ» فرمایا اور ’’غایت‘‘ صرف منزل منتہا کو کہتے ہیں، اس تک پہنچنے والے کو خواہ رنج و کوفت ہو یا شادمانی و مسرت، یہ ان دونوں معنوں کی ادائیگی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہر صورت اسے مصیر و مآل (باز گشت) کے معنی میں سمجھنا چاہیے اور ارشاد قرآنی ہے: ﴿قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِيْرَكُمْ اِلَى النَّارِ﴾: (کہو کہ تم دنیا سے اچھی طرح حظ اٹھا لو آخر تو تمہاری باز گشت جہنم کی طرف ہے)۔ یہاں مَصِیْرَکُمْ کی بجائے سَبْقَتُكُمْ کہنا کسی طرح صحیح و درست نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس میں غور و فکر کرو اور دیکھو کہ اس کا باطن کتنا عجیب اور اس کا گہراؤ لطافتوں کو لئے ہوئے کتنی دور تک چلا گیا ہے اور حضرتؑ کا بیشتر کلام اسی انداز پر ہوتا ہے۔
[وَ فِیْ بَعْضِ النُّسَخِ]
[اور بعض نسخوں میں ہے کہ:]
وَ قَدْ جَآءَ فِیْ رِوَايَةٍ اُخْرٰى: «وَ السُّبْقَةُ الْجَنَّةُ»، بِضَمِّ السِّيْنِِ، وَ السُّبْقَةُ عِنْدَهُمُ اسْمٌ لِّمَا يُجْعَلُ لِلسَّابِقِ اِذَا سَبَقَ مِنْ مَّالٍ اَوْ عَرَضٍ، وَ الْمَعْنَيَانِ مُتَقَارِبَانِ، لِاَنَّ ذٰلِكَ لَا يَكُوْنُ جَزَآءً عَلٰى فِعْلِ الْاَمْرِ الْمَذْمُوْمِ، وَ اِنَّمَا يَكُوْنُ جَزَآءً عَلٰى فِعْلِ الْاَمْرِ الْمَحْمُوْدِ.
اور بعض روایتوں میں «وَ السُّبْقَةُ» بضم سین بھی آیا ہے اور السُّبْقَةُ اُس مال و متاع کو کہتے ہیں جو آگے نکل جانے والے کے لئے بطور انعام رکھا جاتا ہے۔ بہر صورت دونوں کے معنی قریب قریب یکساں ہیں۔ اس لئے کہ معاوضہ و انعام کسی قابل مذمت فعل پر نہیں ہوتا، بلکہ کسی اچھے اور لائق ستائش کارنامے کے بدلے ہی میں ہوتا ہے۔