خطبہ (۳۱)
(٣۱) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۳۱)
لِابْنِ الْعَبَّاسَ لَمَّا اَرْسَلَهٗ اِلَى الزُّبَيْرِ لِيَسْتَفِيْٓئَهٗ اِلٰى طَاعَتِهٖ قَبْلَ حَرْبِ الْجَمَلِ:
جب جنگِ جمل شروع ہونے سے پہلے حضرتؑ نے ابن عباس کو زبیر کے پاس اس مقصد سے بھیجا کہ وہ انہیں اطاعت کی طرف پلٹائیں تو اس موقعہ پر ان سے فرمایا:
لَا تَلْقَیَنَّ طَلْحَةَ، فَاِنَّكَ اِنْ تَلْقَهٗ تَجِدْهُ كَالثَّوْرِ عَاقِصًا قَرْنَهٗ، یَرْكَبُ الصَّعْبَ وَ یَقُوْلُ: هُوَ الذَّلُوْلُ، وَ لٰكِنِ الْقَ الزُّبَیْرَ، فَاِنَّهٗ اَلْیَنُ عَرِیْكَةً، فَقُلْ لَّهٗ: یَقُوْلُ لَكَ ابْنُ خَالِكَ: عَرَفْتَنِیْ بِالْحِجَازِ وَ اَنْكَرْتَنِیْ بِالْعِرَاقِ، فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا.
طلحہ سے ملاقات نہ کرنا۔ اگر تم اس سے ملے تو تم اس کو ایک ایسا سرکش بیل پاؤ گے جس کے سینگ کانوں کی طرف مڑے ہوئے ہوں، وہ منہ زور سواری پر سوار ہوتا ہے اور پھر کہتا یہ ہے کہ یہ رام کی ہوئی سواری ہے، بلکہ تم زبیر سے ملنا۔ اس لئے کہ وہ نرم طبیعت ہے اور اس سے یہ کہنا کہ تمہارے ماموں زاد بھائی نے کہا ہے کہ تم حجاز میں تو جیسے مجھ سے جان پہچان رکھتے تھے اور یہاں عراق میں آ کر بالکل اجنبی بن گئے۔ آخر اس تبدیلی کا کیا سبب ہے؟
اَقُوْلُ: وَ هُوَ ؑ اَوَّلُ مَنْ سُمِعَتْ مِنْهُ هٰذِهِ الْكَلِمَةَ، اَعْنِىْ: «فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا»۔
علامہ رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس کلام کا آخری جملہ «فَمَا عَدَا مِمَّا بَدَا» جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’اس تبدیلی کا کیا سبب ہوا‘‘، سب سے پہلے آپؑ ہی کی زبان سے سنا گیا ہے۔