خطبہ (۳۳)
(٣٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۳۳)
عِنْدَ خُرُوْجِہٖ لِقِتَالِ اَھْلِ الْبَصْرَۃِ
امیر المومنین علیہ السلام جب اہل بصرہ سے جنگ کیلئے نکلے
قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ ابْنُ الْعَبَّاسِ: دَخَلْتُ عَلٰۤى اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ بِذِیْ قَارٍ وَّ هُوَ يَخْصِفُ نَعْلَهٗ، فَقَالَ لِیْ: مَا قِيْمَةُ هٰذِهِ النَّعْلِ؟ فَقُلْتُ: لَا قِيْمَةَ لَهَا! فَقَالَؑ:
تو عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ: میں مقامِ ذی قار میں حضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپؑ اپنا جوتا ٹانک رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ: اے ابنِ عباس! اس جوتے کی کیا قیمت ہو گی؟ میں نے کہا کہ: اب تو اس کی کچھ بھی قیمت نہ ہو گی، تو آپؑ نے فرمایا کہ:
وَ اللهِ! لَهِیَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اِمْرَتِکُمْ، اِلَّاۤ اَنْ اُقِيْمَ حَقًّا، اَوْ اَدْفَعَ بَاطِلًا.
اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کا مٹانا نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔
ثُمَّ خَرَجَ ؑ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ ؑ:
پھر آپؑ باہر تشریف لائے اور لوگوں میں یہ خطبہ دیا:
اِنَّ اللهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا ﷺ، وَ لَيْسَ اَحَدٌ مِّنَ الْعَرَبِ يَقْرَاُ کِتَابًا، وَ لَا يَدَّعِیْ نُبُوَّةً، فَسَاقَ النَّاسَ حَتّٰی بَوَّاَهُمْ مَحَلَّتَهُمْ، وَ بَلَّغَهُمْ مَنْجَاتَهُمْ، فَاسْتَقَامَتْ قَنَاتُهُمْ، وَ اطْمَاَنَّتْ صَفَاتُهُمْ.
اللہ نے محمد ﷺ کو اس وقت بھیجا کہ جب عربوں میں نہ کوئی کتاب (آسمانی) کا پڑھنے والا تھا نہ کوئی نبوت کا دعوے دار۔ آپؐ نے ان لوگوں کو ان کے (صحیح) مقام پر اتارا اور نجات کی منزل پر پہنچا دیا۔ یہاں تک کہ ان کے سارے خم جاتے رہے اور حالات محکم و استوار ہو گئے۔
اَمَا وَاللهِ! اِنْ کُنْتُ لَفِیْ سَاقَتِهَا حَتّٰی تَوَلَّتْ بِحَذَافِيْرِهَا، مَا ضَعُفْتُ وَ لَا جَبُنْتُ، وَ اِنَّ مَسِيْرِیْ هٰذَا لِمِثْلِهَا، فَلَاَبْقُرَنَّ الْبَاطِلَ حَتّٰی يَخْرُجَ الْحَقُّ مِنْ جَنْۢبِهٖ.
خدا کی قسم! میں بھی ان لوگوں میں تھا جو اس صورتِ حال میں انقلاب پیدا کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ انقلاب مکمل ہو گیا۔ میں نے (اس کام میں) نہ کمزوری دکھائی نہ بزدلی سے کام لیا اور اب بھی میرا اقدام ویسے ہی مقصد کیلئے ہے تو سہی جو میں باطل کو چیر کر حق کو اس کے پہلو سے نکال لوں۔
مَالِیْ وَ لِقُرَيْشٍ! وَاللهِ! لَقَدْ قَاتَلْتُهُمْ کَافِرِيْنَ، وَ لَاُقَاتِلَنَّهُمْ مَفْتُوْنِيْنَ، وَ اِنِّیْ لَصَاحِبُهُمْ بِالْاَمْسِ، کَمَاۤ اَنَا صَاحِبُهُمُ الْيَوْمَ.
مجھے قریش سے وجہ نزاع ہی اور کیا ہے؟ خدا کی قسم! میں نے تو ان سے جنگ کی جبکہ وہ کافر تھے اور اب بھی جنگ کروں گا جبکہ وہ باطل کے ورغلانے میں آ چکے ہیں اور جس شان سے مَیں کل اُن کا مدّ مقابل رہ چکا ہوں ویسا ہی آج ثابت ہوں گا۔