خطبات

خطبہ (۴۴)

(٤٤) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۴۴)

لَمَّا هَرَبَ مَصْقَلَةُ بْنُ هُبَيْرَةَ الشَّيْبَانِیُّ اِلٰى مُعَاوِيَةَ وَ كَانَ قَدِ ابْتَاعَ سَبْیَ بَنِیْ نَاجِيَةَ مِنْ عَامِلِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ وَ اَعْتَقَهُمْ، فَلَمَّا طَالَبَهٗ بِالْمَالِ خَاسَ بِهٖ وَ هَرَبَ اِلَى الشَّامِ:

جب [۱] مصقلہ بن ہبیرہ شیبانی معاویہ کے پاس بھاگ گیا۔ چونکہ اس نے حضرتؑ کے ایک عامل سے بنی ناجیہ کے کچھ اسیر خریدے تھے۔ جب امیر المومنین علیہ السلام نے اس سے قیمت کا مطالبہ کیا تو وہ بددیانتی کرتے ہوئے شام چلا گیا، جس پر آپؑ نے فرمایا:

قَبَّحَ اللهُ مَصْقَلَةَ! فَعَلَ فِعْلَ السَّادَةِ، وَ فَرَّ فِرَارَ الْعَبِیْدِ! فَمَاۤ اَنْطَقَ مَادِحَهٗ حَتّٰۤی اَسْكَتَهٗ، وَ لَا صَدَّقَ وَاصِفَهٗ حَتّٰی بَكَّتَهٗ، وَ لَو اَقَامَ لَاَخَذْنَا مَیْسُوْرَهٗ، وَ انْتَظَرْنَا بِمَالِهٖ وُفُوْرَهٗ.

خدا مصقلہ کا بُرا کرے! کام تو اس نے شریفوں کا سا کیا، لیکن غلاموں کی طرح بھاگ نکلا۔ اس نے مدح کرنے والے کا منہ بولنے سے پہلے ہی بند کر دیا اور توصیف کرنے والے کے قول کے مطابق اپنا عمل پیش کرنے سے پہلے ہی اسے خاموش کر دیا۔ اگر وہ ٹھہرا رہتا تو ہم اس سے اتنا لے لیتے جتنا اس کیلئے ممکن ہوتا اور بقیہ کیلئے اس کے مال کے زیادہ ہونے کا انتظار کرتے۔

۱؂تحکیم کے بعد جب خوارج نے سر اٹھایا تو ان میں سے بنی ناجیہ کا ایک شخص خریت ابنِ راشد لوگوں کو بھڑکانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا، اور ایک جتھے کے ساتھ مار دھاڑ کرتا ہوا مدائن کے رخ پر چل پڑا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اس کی روک تھام کیلئے زیاد ابن حفصہ کو ایک سو تین آدمیوں کے ساتھ روانہ کیا۔ چنانچہ جب مدائن میں دونوں فریق کا آمنا سامنا ہوا تو تلواریں لے کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ ابھی ایک آدھ جھڑپ ہی ہونے پائی تھی کہ شام کا اندھیرا پھیلنے لگا اور جنگ روک دینا پڑی۔ جب صبح ہوئی تو زیاد کے ساتھیوں نے دیکھا کہ خوارج کے پانچ لاشے پڑے ہیں اور خود میدان چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ یہ دیکھ کر زیاد اپنے آدمیوں کے ساتھ بصرہ کی طرف چل پڑا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ خوارج اہواز کی طرف چلے گئے ہیں۔ زیاد نے سپاہ کی قلت کی وجہ سے قدم روک لئے اور امیر المومنین علیہ السلام کو اس کی اطلاع دی۔ حضرتؑ نے زیاد کو واپس بلوا لیا اور معقل ابن قیس ریاحی کو دو ہزار نبرد آزماؤں کے ہمراہ اہواز کی طرف روانہ کیا اور والی بصرہ عبد اللہ ابنِ عباس کو تحریر فرمایا کہ: بصرہ کے دو ہزار شمشیر زن معقل کی کمک کیلئے بھیج دو۔ چنانچہ بصرہ کا دستہ بھی ان سے اہواز میں جا ملا اور یہ پوری طرح منظم ہو کر دشمن پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہو گئے، لیکن خریت اپنے لاؤ لشکر کو لے کر رامہرمز کی پہاڑیوں کی طرف چل دیا۔

یہ لوگ بھی اس کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھے اور ان پہاڑیوں کے قریب اس کو آ لیا۔ دونوں نے اپنے اپنے لشکر کی صف بندی کی اور ایک دوسرے پر حملے شروع کر دیئے۔ اس جھڑپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ خوارج کے تین سو ستر آدمی میدان میں کھیت رہے اور باقی بھاگ کھڑے ہوئے۔ معقل نے اپنی کارگزاری اور دشمن کے فرار کی امیر المومنین علیہ السلام کو اطلاع دی تو حضرتؑ نے تحریر فرمایا کہ ابھی تم ان کا پیچھا کرو اور اس طرح انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دو کہ پھر سر اٹھانے کا ان میں دم نہ رہے۔ چنانچہ اس فرمان کے بعد وہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھے، اور بحرِ فارس کے ساحل پر اسے پا لیا کہ جہاں اس نے لوگوں کو بہلا پھسلا کر اپنا ہمنوا بنا لیا تھا اور اِدھر اُدھر سے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اچھی خاصی جمعیت بہم پہنچا لی تھی۔ جس وقت معقل وہاں پر پہنچے تو آپ نے پہلے امان کا جھنڈا بلند کیا اور اعلان کیا کہ جو لوگ ادھر ادھر سے جمع ہو گئے ہیں، وہ الگ ہو جائیں ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی قوم کے علاوہ دوسرے لوگ چھٹ گئے۔ اس نے انہی کو منظم کیا اور جنگ چھیڑ دی، مگر کوفہ و بصرہ کے سر فروشوں نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے باغیوں کے ایک سو ستر آدمی مارے گئے اور خریت سے نعمان ابن صہبان نے دو دو ہاتھ کئے اور آخر اسے مار گرایا جس کے گرتے ہی دشمن کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

اس کے بعد معقل نے ان کی قیام گاہوں میں جتنے مَرد، عورتیں اور بچے پائے انہیں ایک جگہ جمع کیا۔ ان میں جو مسلمان تھے ان سے بیعت لے کر انہیں رہا کر دیا اور جو مرتد ہو گئے تھے انہیں اسلام قبول کرنے کیلئے کہا۔ چنانچہ ایک بوڑھے نصرانی کے علاوہ سب نے اسلام قبول کر کے رہائی پائی اور بوڑھے کو قتل کر دیا گیا اور جن بنی ناجیہ کے عیسائیوں نے اس شورش انگیزی میں حصہ لیا تھا انہیں ان کے اہل و عیال سمیت کہ جن کی تعداد پانچ سو تھی اپنے ہمراہ لے لیا اور جب معقل ارد شیر خرہ (ایران کا ایک شہر) پہنچے تو یہ قیدی وہاں کے حاکم مصقلہ ابن ہبیرہ کے سامنے چیخے چلائے اور گڑ گڑا کر اس سے التجائیں کیں کہ ان کی رہائی کی کوئی صورت کی جائے۔ مصقلہ نے ذہل ابن حارث کے ذریعے معقل کو کہلوایا کہ ان اسیروں کو میرے ہاتھ بیچ دو۔ معقل نے اسے منظور کیا اور پانچ لاکھ درہم میں وہ اسیر اس کے ہاتھ بیچ ڈالے اور اس سے کہا کہ ان کی قیمت جلد از جلد امیر المومنین علیہ السلام کو بھیج دو۔ اس نے کہا کہ میں پہلی قسط ابھی بھیج رہا ہوں اور بقیہ قسطیں بھی جلد بھیج دی جائیں گی۔ جب معقل امیر المومنین علیہ السلام کے پاس پہنچے تو یہ سارا واقعہ ان سے بیان کیا۔ حضرتؑ نے اس اقدام کو سراہا اور کچھ دنوں تک قیمت کا انتظار کیا، مگر مصقلہ نے ایسی چُپ سادھ لی کہ گویا اس کے ذمہ کوئی مطالبہ ہی نہیں ہے۔ آخر حضرتؑ نے ایک قاصد اس کی طرف روانہ کیا اور اسے کہلوا بھیجا کہ یا تو قیمت بھیجو یا خود آؤ۔ وہ حضرتؑ کے فرمان پر کوفہ آیا اور قیمت طلب کرنے پر دو لاکھ درہم پیش کر دیئے اور بقایا مطالبہ سے بچنے کیلئے معاویہ کے پاس چلا گیا جس نے اسے طبرستان کا حاکم بنا دیا۔ حضرتؑ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؑ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے جن کا ماحصل یہ ہے کہ: اگر وہ ٹھہرا رہتا تو ہم مال کی وصولی میں اس سے رعایت کرتے اور اس کی مالی حالت کے درست ہونے کا انتظار کرتے، لیکن وہ تو ایک نمائشی کارنامہ دکھا کر غلاموں کی طرح بھاگ نکلا۔ ابھی اس کی بلند حوصلگی کے چرچے شروع ہی ہوئے تھے کہ زبانوں پر اس کی دنائت و پستی کے تذکرے آنے لگے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button