خطبہ (۶۰)
(٥٩) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۵۹)
لَمَّا عَزَمَ عَلٰى حَرْبِ الْخَوَارِجِ وَ قِيْلَ لَهٗ: اِنَّهُمْ قَدْ عَبَرُوْا جِسْرَ النَّهْرَوَانِ:
جب [۱] آپؑ نے خوارج سے جنگ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؑ سے کہا گیا کہ: وہ نہر وان کا پل عبور کر کے ادھر جا چکے ہیں، تو آپؑ نے فرمایا:
مَصَارِعُهُمْ دُوْنَ النُّطْفَةِ، وَاللهِ! لَا یُفْلِتُ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ، وَ لَا یَهْلِكُ مِنْكُمْ عَشَرَةٌ.
ان کے گرنے کی جگہ تو پانی کے اسی طرف ہے۔ خدا کی قسم! ان میں سے دس بھی بچ کر نہ جا سکیں گے اور تم میں سے دس بھی ہلاک نہ ہوں گے۔
یَعْنِیْ بِالنُّطْفَةِ مَآءَ النَّهْرِ، وَ هِیَ اَفْصَحُ كِنَایَةٍ عَنِ الْمَآءِ وَ اِنْ كَانَ كَثِیْرًا جَمًّا۔
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس خطبہ میں ’’نطفہ‘‘ سے مراد نہر (فرات) کا پانی ہے اور پانی کیلئے یہ بہترین کنایہ ہے، چاہے پانی زیادہ بھی ہو۔
و لَمَّا قُتِلَ الْخَوَارِجُ فَقِيْلَ لَهٗ: يَاۤ اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! هَلَكَ الْقَوْمُ بِاَجْمَعِهِمْ، فَقَالَ ؑ:
جب خوارج مارے گئے تو آپؑ سے کہا گیا کہ: وہ لوگ سب کے سب ہلاک ہو گئے۔ آپؑ نے فرمایا:
كَلَّا وَاللّٰهِ! اِنَّهُمْ نُطَفٌ فِیْۤ اَصْلَابِ الرِّجَالِ وَ قَرَارَاتِ النِّسَآءِ، كُلَّمَا نَجَمَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتّٰى يَكُوْنَ اٰخِرُهُمْ لُصُوْصًا سَلَّابِيْنَ.
ہرگز نہیں! ابھی تو وہ مردوں کی صلبوں اور عورتوں کے شکموں میں موجود ہیں [۲] ۔ جب بھی ان میں کوئی سردار ظاہر ہو گا تو اسے کاٹ کر رکھ دیا جائے گا، یہاں تک کہ ان کی آخری فردیں چور اور ڈاکو ہو کر رہ جائیں گی۔
وَ قَالَ ؑ فِیْھِمْ:
انہی خوارج کے متعلق فرمایا:
لَا تَقْتُلُوا الْخَوَارِجَ بَعْدِیْ، فَلَيْسَ مَنْ طَلَبَ الْحَقَّ فَاَخْطَاَهُ كَمَنْ طَلَبَ الْبَاطِلَ فَاَدْرَكَهٗ.
میرے بعد خوارج کو قتل نہ کرنا! [۳] اس لئے کہ جو حق کا طالب ہو اور اسے نہ پا سکے وہ ویسا نہیں ہے کہ جو باطل ہی کی طلب میں ہو اور پھر اُسے پا بھی لے۔
يَعْنِیْ مُعَاوِيَةَ وَ اَصْحَابَهٗ.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس سے مراد معاویہ اور اس کے ساتھی ہیں۔
۱اس پیشین گوئی کو فراست و ثاقب نظری کا نتیجہ نہیں قرار دیا جا سکتا، کیونکہ دور رس نظریں فتح و شکست کا اندازہ تو لگا سکتی ہیں اور جنگ کے نتائج کو بھانپ لے جا سکتی ہیں، لیکن دونوں فریق کے مقتولین کی صحیح صحیح تعداد سے آگاہ کر دینا ان کی حدودِ پرواز سے باہر ہے۔ یہ اسی کی باطن بین نگاہیں حکم لگا سکتی ہیں کہ جو غیب کے پردے الٹ کر آنے والے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو اور علمِ امامت کی چھوٹ مستقبل کے صفحہ پر ابھرنے والے نقوش اس کو دکھا رہی ہو۔ چنانچہ اس وارث علم نبوت نے جو فرمایا تھا وہی ہوا اور خوارج میں سے نو آدمیوں کے علاوہ سب کے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے جن میں سے دو عمان کی طرف، دو سجستان کی طرف، دو کرمان کی طرف اور دو جزیرہ کی طرف بھاگ گئے اور ایک یمن میں تل مورون چلا آیا۔ اور آپؑ کی جماعت میں سے صرف آٹھ آدمی شہید ہوئے جن کے نام یہ ہیں: روبہ ابن وبر بجلی، سعید ابن خالد سبیعی، عبد اللہ ابن حماد اجنی، فیاض ابن خلیل ازدی، کیسوم ابن سلمہ جہنی، عبید ابن عبید خولانی، جمیع ابن جعثم کندی، حبیب ابن عاصم اسدی۔
۲۲امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی بھی حرف بحرف پوری ہوئی اور خوارج میں جو سردار بھی اٹھا تلواروں پر دھر لیا گیا۔ چنانچہ ان کے چند سرداروں کا ذکر کیا جاتا ہے کہ جو بری طرح موت کے گھاٹ اتارے گئے:
نافع ابن ازرق:
خوارج کا سب سے بڑا گروہ ’’ازارقہ‘‘ اسی کی طرف منسوب ہے۔ یہ مسلم ابن عبیس کے لشکر کے مقابلہ میں سلامہ باہلی کے ہاتھ سے مارا گیا۔
نجدہ ابن عامر:
خوارج کا فرقہ ’’نجدات‘‘ اس کی طرف منسوب ہے۔ ابو فدیک خارجی نے اسے قتل کروا دیا۔
عبداللہ ابنِ اباض:
فرقہ ’’اباضیہ‘‘ اس کی طرف منسوب ہے۔ یہ عبد اللہ ابن محمد ابن عطیہ کے مقابلہ میں مارا گیا۔
ابو بہیس ہیصم ابن جابر:
فرقہ ’’بیہسیہ‘‘ اس کی طرف منسوب ہے۔ عثمان ابنِ جبان والی مدینہ نے پہلے اس کے ہاتھ پیر کٹوائے اور پھر اسے قتل کر دیا۔
عروہ ابن اُوّیہ:
معاویہ کے عہد حکومت میں زیاد نے اسے قتل کیا۔
قطری ابن فجاءة:
طبرستان کے علاقہ میں جب سفیان ابن ابرو کی فوج کا اس کے لشکر سے ٹکراؤ ہوا تو سورہ ابن ابجر دارمی نے اسے قتل کیا۔
شوذب خارجی:
سعید ابن عمرو حرشی کے مقابلہ میں مارا گیا۔
حوثرہ ابن وداع اسدی:
بنی طے کے ایک شخص کے ہاتھ سے قتل ہوا۔
مستورد ابن عرفہ:
معاویہ کے عہد میں مغفل ابنِ قیس کے ہاتھ سے مارا گیا۔
شبیب ابن یزید خارجی:
دریا میں ڈوب کر مرا۔
عمران ابن حرب سراسبی:
جنگ دولاب میں مارا گیا۔
زحاف ابن طائی:
بنو طاحیہ کے مقابلہ میں مارا گیا۔
زبیر ابنِ علی سلیطی:
عتاب ابنِ ورقاء کے مقابلہ میں مارا گیا۔
علی ابن بشیر:
اسے حجاج نے قتل کروایا۔
عبیداللہ ابنِ بشیر:
مہلب ابن ابی صفرہ کے مقابلہ میں مارا گیا۔
عبداللہ ابن الماحوز:
جنگ دولاب میں مارا گیا۔
عبید اللہ ابن الماحوز:
عتاب ابن ورقاء کے مقابلہ میں مارا گیا۔
ابو الوازع:
مقبرہ بنی یشکر میں ایک شخص نے اس پر دیوار گرا کر اسے ختم کر دیا۔
عبید اللہ ابن یحییٰ کندی:
مروان ابن محمد کے عہد میں ابن عطیہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔↑
۳قتل خوارج سے روکنے کی وجہ یہ تھی کہ چونکہ امیر المومنین علیہ السلام کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ آپؑ کے بعد تسلط و اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہو گا جو جہاد کے موقعہ و محل سے بے خبر ہوں گے اور صرف اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے تلوار چلائیں گے اور یہ وہی لوگ تھے کہ جو امیر المومنین علیہ السلام کو برا سمجھنے اور بُرا کہنے میں خوارج سے بھی بڑھے چڑھے ہوئے تھے، لہٰذا جو خود گم کردہ راہ ہوں انہیں دوسرے گمراہوں سے جنگ و قتال کا کوئی حق نہیں پہنچتا اور نہ جان بوجھ کر گمراہیوں میں پڑے رہنے والے اس کے مجاز ہو سکتے ہیں کہ بھولے سے بے راہ ہو جانے والوں کے خلاف صف آرائی کریں۔
چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا یہ ارشاد واضح طور سے اس حقیقت کو واشگاف کرتا ہے کہ خوارج کی گمراہی جان بوجھ کر نہ تھی، بلکہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر باطل کو حق سمجھنے لگے اور اسی پر اَڑ گئے اور معاویہ اور اس کی جماعت کی گمراہی کی یہ صورت تھی کہ انہوں نے حق کو حق سمجھ کر ٹھکرایا اور باطل کو باطل سمجھ کر اپنا شعار بنائے رکھا اور دین کے معاملہ میں ان کی بیباکیاں اس حد تک بڑھ گئی تھیں کہ نہ انہیں غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ان پر خطائے اجتہادی کا پردہ ڈالا جا سکتا ہے۔ جب کہ وہ علانیہ دین کے حدود کو توڑ دیتے تھے اور اپنی رائے کے سامنے پیغمبر ﷺ کے ارشاد کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ:
پیغمبر ﷺ کے صحابی ابو الدرداء نے معاویہ کے ہاں سونے اور چاندی کے برتنوں کا استعمال دیکھا تو فرمایا کہ: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ: «اِنَّ الشَّارِبَ فِيْهِمَا لَيُجَرْجِرُ فِيْ جَوْفِهٖ نَارُ جَهَنَّمَ» : ’’چاندی اور سونے کے برتنوں میں پینے والے کے پیٹ میں دوزخ کی آگ کے لپکے اٹھیں گے‘‘۔ تو معاویہ نے کہا کہ: «اَمَّا اَنَا فَلَآ اَدْرِیْ بِذٰلِکَ بَاْسًا» : لیکن میری رائے میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔[۱]
اور اسی طرح زیاد ابن ابیہ کو اپنے سے ملا لینے کیلئے قولِ پیغمبر ﷺ کو ٹھکرا کر اپنے اجتہاد کو کارفرما کرنا، منبر رسولؐ پر اہل بیت رسول علیہم السلام کو برا کہنا، حدودِ شرعیہ کو پامال کرنا، بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنا اور ایک فاسق کو مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کر کے زندقہ و الحاد کی راہیں کھول دینا، ایسے واقعات ہیں کہ انہیں کسی غلط فہمی پر محمول کرنا حقائق سے عمداً چشم پوشی کرنا ہے۔↑
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۵، ص ۱۳۰۔