خطبہ (۶۳)
(٦٢) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۶۲)
وَ اتَّقُوا اللهَ عِبَادَ اللهِ، وَ بَادِرُوْا اٰجَالَكُمْ بِاَعْمَالِكُمْ، وَ ابْتَاعُوْا مَا یَبْقٰی لَكُمْ بِمَا یَزُوْلُ عَنْكُمْ، وَ تَرَحَّلُوْا فَقَدْ جُدَّ بِكُمْ، وَ اسْتَعِدُّوْا لِلْمَوْتِ فَقَدْ اَظَلَّكُمْ، وَ كُوْنُوْا قَوْمًا صِیْحَ بِهِمْ فَانْتَبَهُوْا، وَ عَلِمُوْا اَنَّ الدُّنْیَا لَیْسَتْ لَهُمْ بِدَارٍ فَاسْتَبْدَلُوْا، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَخْلُقْكُمْ عَبَثًا، وَ لَمْ یَتْرُكْكُّمْ سُدًی، وَ مَا بَیْنَ اَحَدِكُمْ وَ بَیْنَ الْجَنَّةِ اَوِ النَّارِ اِلَّا الْمَوْتُ اَنْ یَّنْزِلَ بِهٖ.
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو اور موت سے پہلے اپنے اعمال کا ذخیرہ فراہم کر لو، اور دنیا کی فانی چیزیں دے کر باقی رہنے والی چیزیں خرید لو۔ چلنے کا سامان کرو کیونکہ تمہیں تیزی سے لے جایا جا رہا ہے اور موت کیلئے آمادہ ہو جاؤ کہ وہ تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ تمہیں ایسے لوگ ہونا چاہیے جنہیں پکارا گیا تو وہ جاگ اٹھے اور یہ جان لینے پر کہ دنیا ان کا گھر نہیں ہے، اسے (آخرت سے) بدل لیا ہو۔ اس لئے کہ اللہ نے تمہیں بیکار پیدا نہیں کیا اور نہ اس نے تمہیں بے قید و بند چھوڑ دیا ہے۔ موت تمہاری راہ میں حائل ہے۔ اس کے آتے ہی تمہارے لئے جنت ہے یا دوزخ ہے۔
وَ اِنَّ غَایَةً تَنْقُصُهَا اللَّحْظَةُ، وَ تَهْدِمُهَا السَّاعَةُ، لَجَدِیْرَةٌ بِقِصَرِ الْمُدَّةِ، وَ اِنَّ غَآئِبًا یَّحْدُوْهُ الْجَدِیْدَانِ: اللَّیْلُ وَ النَّهَارُ، لَحَرِیٌّۢ بِسُرْعَةِ الْاَوْبَةِ، وَ اِنَّ قَادِمًا یَّقْدَمُ بِالفَوْزِ اَوِ الشِّقْوَةِ لَمُسْتَحِقٌّ لِّاَفْضَلِ الْعُدَّةِ، فَتَزَوَّدُوْا فِی الدُّنْیَا مِنَ الدُّنْیَا، مَا تُحْرِزُوْنَ بِهٖۤ اَنْفُسَكُمْ غَدًا. فَاتَّقٰی عَبْدٌ رَبَّهٗ، وَ نَصَحَ نَفْسَهٗ، وَ قَدَّمَ تَوْبَتَهٗ، وَ غَلَبَ شَهْوَتَهٗ، فَاِنَّ اَجَلَهٗ مَسْتُوْرٌ عَنْهُ، وَ اَمَلَهٗ خَادِعٌ لَّهٗ، وَ الشَّیْطٰنُ مُوَكَّلٌۢ بِهٖ، یُزَیِّنُ لَهُ الْمَعْصِیَةَ لِیَرْكَبَهَا، وَ یُمَنِّیْهِ التَّوْبَةَ لِیُسَوِّفَهَا، حَتّٰی تَهْجُمَ مَنِیَّتُهٗ عَلَیْهِ اَغْفَلَ مَا یَكُوْنُ عَنْهَا.
وہ مدتِ حیات جسے ہر گزرنے والا لحظہ کم کر رہا ہو اور ہر ساعت اس کی عمارت کو ڈھا رہی ہو، کم ہی سمجھی جانے کے لائق ہے اور وہ مسافر جسے ہر نیا دن اور ہر نئی رات (لگاتار) کھینچے لئے جا رہے ہوں، اس کا منزل تک پہنچنا جلد ہی سمجھنا چاہیے اور وہ عازمِ سفر جس کے سامنے ہمیشہ کی کامرانی یا ناکامی کا سوال ہے، اس کو اچھے سے اچھا زاد مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اس دنیا میں رہتے ہوئے اس سے اتنا توشۂ آخرت لے لو جس کے ذریعہ کل اپنے نفسوں کو بچا سکو جس کی صورت یہ ہے کہ بندہ اپنے اللہ سے ڈرے۔ اپنے نفس کے ساتھ خیرخواہی کرے، (مرنے سے پہلے) توبہ کرے اپنی خواہشوں پر قابو رکھے، چونکہ موت اس کی نگاہ سے اوجھل ہے اور امیدیں فریب دینے والی ہیں اور شیطان اس پر چھایا ہوا ہے، جو گناہوں کو سجا کر اس کے سامنے لاتا ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہو اور توبہ کی ڈھارس بندھاتا رہتا ہے کہ وہ اسے تعویق میں ڈالتا رہے۔ یہاں تک کہ موت غفلت و بیخبری کی حالت میں اس پر اچانک ٹوٹ پڑتی ہے۔
فَیَا لَهَا حَسْرَةً عَلٰی ذِیْ غَفْلَةٍ اَنْ یَّكُوْنَ عُمُرُهٗ عَلَیْهِ حُجَّةً، وَ اَنْ تُؤَدِّیَهٗ اَیَّامُهٗ اِلَی الشِّقْوَةِ! نَسْئَلُ اللهَ سُبْحَانَهٗ اَنْ یَّجْعَلَنَا وَ اِیَّاكُمْ مِمَّنْ لَّا تُبْطِرُهٗ نِعْمَةٌ، وَ لَا تُقَصِّرُ بِهٖ عَنْ طَاعَةِ رَبِّهٖ غَایَةٌ، وَ لَا تَحُلُّ بِهٖ بَعْدَ الْمَوْتِ نَدَامَةٌ وَّ لَا كَاٰبَةٌ.
وا حسرتا! کہ اس غافل و بے خبر کی مدت حیات ہی اس کے خلاف ایک حجت بن جائے اور اس کی زندگی کا انجام بد بختی کی صورت میں ہو۔ ہم اللہ سُبحانہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اور تمہیں ایسا کر دے کہ (دنیا کی) نعمتیں سرکش و متمرد نہ بنا سکیں اور کسی منزل پر اطاعت ِپروردگار سے درماندہ و عاجز نہ ہوں اور مرنے کے بعد نہ شرمساری اٹھانا پڑے اور نہ رنج و غم سہنا پڑے۔