خطبہ (۶۷)
(٦٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۶۶)
لَمَّا قَلَّدَ مُحَمَّدَ بْنَ اَبِیْ بَكْرٍ مِّصْرَ فَمُلِكَتْ عَلَيْهِ وَ قُتِلَ:
محمد ابن ابی بکر [۱] کو جب حضرتؑ نے مصر کی حکومت سپرد کی اور نتیجہ میں ان کے خلاف غلبہ حاصل کر لیاگیا اور وہ قتل کر دیے گئے تو حضرتؑ نے فرمایا:
وَ قَدْ اَرَدْتُّ تَوْلِیَةَ مِصْرَ هَاشِمَ بْنَ عُتْبَةَ، وَ لَوْ وَلَّیْتُهٗ اِیَّاهَا لَمَا خَلّٰی لَهُمُ الْعَرْصَةَ، وَ لَاۤ اَنْهَزَهُمُ الْفُرْصَةَ، بِلَا ذَمٍّ لِّمُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ بَكْرٍ، فَلَقَدْ كَانَ اِلَیَّ حَبِیْبًا، وَ كَانَ لِیْ رَبِیْبًا.
میں نے تو چاہا تھا کہ ہاشم ابن عتبہ کو مصرکا والی بناؤں اور اگر اسے حاکم بنا دیا ہوتا تو وہ کبھی دشمنوں کیلئے میدان خالی نہ کرتا اور نہ انہیں مہلت دیتا۔ اس سے محمد ابن ابی بکر کی مذمت مقصود نہیں، وہ تو مجھے بہت محبوب اور میرا پروردہ تھا۔
۱’’محمد ابن ابی بکر‘‘ کی والدہ گرامی اسماء بنت عمیس تھیں جن سے امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت ابو بکر کے انتقال کے بعد عقد کر لیا تھا۔ چنانچہ محمد نے آپؑ ہی کے زیر سایہ تعلیم و تربیت حاصل کی اور آپؑ ہی کے طور طریقوں کو اپنایا۔ امیر المومنین علیہ السلام بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور بمنزلہ اپنے فرزند کے سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے: «مُحَمَّدٌ ابْنِیْ مِنْ صُلْبِ اَبِیْ بَکْرٍ» : ’’محمد میرا بیٹا ہے اگرچہ ابو بکر کی صلب سے ہے‘‘۔ سفر حجۃ الوداع میں پیدا ہوئے اور ۳۸ ھء میں اٹھائیس برس کی عمر میں شہادت پائی۔
امیر المومنین ﷺنے مسند خلافت پر آنے کے بعد قیس ابن سعد ابن عبادہ کو مصر کا حکمران منتخب کیا تھا مگر کچھ حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ انہیں معزول کر کے محمد ابن ابی بکر کو وہاں کا والی مقرر کرنا پڑا۔ قیس ابن سعد کی روش یہاں پر یہ تھی کہ وہ عثمانی گروہ کے خلاف متشددانہ قدم اٹھانا مصالح کے خلاف سمجھتے تھے، مگر محمد کا رویہ اس سے مختلف تھا۔ انہوں نے ایک مہینہ گزارنے کے بعد انہیں کہلوا بھیجا کہ اگر تم ہماری اطاعت نہ کرو گے تو تمہارا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس پر ان لوگوں نے ان کے خلاف ایک محاذ بنا لیا اور چپکے چپکے ریشہ دوانیاں کرتے رہے، مگر تحکیم کی قرارداد کے بعد پر پر زے نکالے اور انتقام کا نعرہ لگا کر شر و فساد پھیلانے لگے اور مصر کی فضا کو مکدر کر کے رکھ دیا۔
امیرالمومنین علیہ السلام کو جب ان بگڑے ہوئے حالات کا علم ہوا تو آپؑ نے مالک ابنِ حارث اشتر کو مصر کی امارت دے کر ادھر روانہ کیا تا کہ وہ مخالف عناصر کو دبا کر نظم و نسق کو بگڑنے نہ دیں۔ مگر اموی کارندوں کی دسیسہ کاریوں سے نہ بچ سکے اور راستے ہی میں شہید کر دیئے گئے اور مصر کی حکومت محمد ہی کے ہاتھوں میں رہی۔
ادھر تحکیم کے سلسلہ میں عمرو ابن عاص کی کارکردگی نے معاویہ کو اپنا وعدہ یاد دلایا۔ چنانچہ اس نے چھ ہزار جنگ آزما اس کے سپرد کر کے مصر پر دھاوا بولنے کیلئے اسے روانہ کیا۔ محمد ابن ابی بکر نے جب دشمن کی بڑھتی ہوئی یلغار کو دیکھا تو امیر المومنین علیہ السلام کو کمک کیلئے لکھا۔ حضرتؑ نے جواب دیا کہ تم اپنے آدمیوں کو جمع کرو، میں مزید کمک تمہارے لئے روانہ کیا چاہتا ہوں۔ چنانچہ محمد نے چار ہزار آدمیوں کو اپنے پرچم کے نیچے جمع کیا اور انہیں دو حصوں پر تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ اپنے ساتھ رکھا اور ایک حصہ کا سپہ سالار بشر بن کنانہ کو بنا کر دشمن کی روک تھام کیلئے آگے بھیج دیا۔ جب یہ فوج دشمن کے سامنے پڑاؤ ڈال کر اتر پڑی، تو ان کی مختلف ٹولیوں نے ان پر چھاپے مارنے شروع کر دیئے، جنہیں یہ اپنی جرأت و ہمت سے روکتے رہے۔ آخر معاویہ ابن خدیج کندی نے پوری فوج کے ساتھ حملہ کر دیا، مگر ان سرفروشوں نے تلواروں سے منہ نہ موڑا اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اس شکست کا اثر یہ ہوا کہ محمد ابن ابی بکر کے ساتھی ہراساں ہو گئے اور ان کا ساتھ چھوڑ کر چلتے بنے۔ محمد نے جب اپنے کو اکیلا پایا تو بھاگ کر ایک خرابے میں پناہ لی، مگر دشمنوں کو ایک شخص کے ذریعہ ان کا پتہ مل گیا اور انہوں نے اس حالت میں انہیں آ لیا کہ یہ پیاس سے قریب بہ ہلاکت پہنچ چکے تھے۔ محمد نے پانی کی خواہش کی تو ان سنگدلوں نے پانی دینے سے انکار کر دیا اور اسی تشنگی کے عالم میں انہیں شہید کر دیا اور ان کی لاش کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کر جلا دیا۔
کوفہ سے مالک ابنِ کعب ارجی دو ہزار آدمیوں کو لے کر نکل چکے تھے، مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن مصر پر قبضہ کر چکا تھا۔↑