خطبہ (۸۱) خطبہ ٴغراء
(٨٠) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۸۰)
فِی صِفَةِ الدُّنْيَا
(دنیا کی حقیقت)
مَاۤ اَصِفُ مِنْ دَارٍ اَوَّلُهَا عَنَآءٌ! وَ اٰخِرُهَا فَنَآءٌ! فِیْ حَلَالِهَا حِسَابٌ، وَ فِیْ حَرَامِهَا عِقَابٌ. مَنِ اسْتَغْنٰی فِیْهَا فُتِنَ، وَ مَنِ افْتَقَرَ فِیْهَا حَزِنَ، وَ مَنْ سَاعَاهَا فَاتَتْهُ، وَ مَنْ قَعَدَ عَنْهَا وَاتَتْهُ، وَ مَنْ اَبْصَرَ بِهَا بَصَّرَتْهُ، وَ مَنْ اَبْصَرَ اِلَیْهَاۤ اَعْمَتْهُ.
میں اس دارِ دنیا کی حالت کیا بیان کروں کہ جس کی ابتدا رنج اور انتہا فنا ہو، جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزا و عقاب ہو۔ یہاں کوئی غنی ہو تو فتنوں سے واسطہ اور فقیر ہو تو حزن و ملال سے سابقہ رہے۔ جو دنیا کیلئے سعی و کوشش میں لگا رہتا ہے اس کی دُنیوی آرزوئیں بڑھتی ہی جاتی ہیں اور جو کوششوں سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے دنیا خود ہی اس سے ساز گار ہو جاتی ہے۔ جو شخص دنیا کو عبرتوں کا آئینہ سمجھ کر دیکھتا ہے تو وہ اس کی آنکھوں کو روشن و بینا کر دیتی ہے اور جو صرف دنیا ہی پر نظر رکھتا ہے تو وہ اسے کور و نابینا بنا دیتی ہے۔ [۱]
اَقُوْلُ: وَ اِذَا تَاَمَّلَ الْمُتَاَمِّلُ قَوْلَهٗ ؑ: «وَ مَنْ اَبْصَرَبِهَا بَصَّرَتْهُ» وَجَدَ تَحْتَهٗ مِنَ الْمَعْنَی الْعَجِیْبِ، وَ الْغَرَضِ الْبَعِیْدِ، مَا لَا تُبْلَغُ غَایَتُهٗ وَ لَا یُدْرَكُ غَوْرُهٗ، وَ لَا سِیَّمَا اِذَا قَرَنَ اِلَیْهِ قَوْلَهٗ: «وَ مَنْ اَبْصَرَ اِلَیْهَا اَعْمَتْهُ»، فَاِنَّهٗ یَجِدُ الْفَرْقَ بَیْنَ «اَبْصَرَ بِهَا» وَ «اَبْصَرَ اِلَیْهَا» وَاضِحًا نَّیِّرًا وَ عَجِیْبًا بَاهِرًا!.
علامہ رضیؒ کہتے ہیں کہ: اگر کوئی غور و فکر کرنے والا حضرتؑ کے اس ارشاد: «وَمَنْ اَبْصَرَبِهَا بَصَّرَتْهُ» (جو اس دنیا کو عبرت حاصل کرنے کیلئے دیکھے تو وہ اسے بصیر و بینا بنا دیتی ہے) کو دقت و غور کی نگاہوں سے دیکھے تو وہ اس میں عجیب و غریب معنی اور گہرے مطالب پائے گا کہ نہ اس کی انتہا تک پہنچ اور نہ اس کے گہراؤ تک رسائی ہو سکتی ہے، خصوصاً اس کے ساتھ یہ جملہ: «وَ مَنْ اَبْصَرَ اِلَیْهَا اَعْمَتْهُ» (اور جو صرف دنیا کو دیکھتا رہے تو وہ اس سے آنکھوں کی روشنی چھین لیتی ہے) بھی ملا یا جائے تو «اَبْصَرَ بِهَا» اور «اَبْصَرَ اِلَیْهَا» میں واضح فرق محسوس کرے گا اور حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گے۔
۱’’دنیا کی ابتدا مشقت اور انتہا ہلاکت ہے‘‘۔ یہ جملہ اسی حقیقت کا ترجمان ہے جسے قرآن نے ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِىْ كَبَدٍؕ ﴾[۱] (ہم نے انسان کو تعب و مشقت میں رہنے والا پیدا کیا ہے) کی لفظوں میں پیش کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دورِ حیات کی کروٹیں شکم مادر کی تنگنائیوں سے لے کر فضائے عالم کی وسعتوں تک کہیں بھی سکون و قرار سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔ جب زندگی سے آشنا ہوتا ہے تو وہ اپنے کو ایک ایسے تیرہ و تار زندان میں جکڑا ہوا پاتا ہے کہ جہاں نہ ہاتھ پیروں کو جنبش دے سکتا ہے اور نہ پہلو بدل سکتا ہے۔ اور جب ان جکڑ بندیوں سے چھٹکارا پا کر دنیا میں آتا ہے تو مختلف صعوبتوں کے دور سے اسے گزرنا پڑتا ہے۔ ابتدا میں نہ زبان سے بول سکتا ہے کہ اپنے دُکھ دَرد کو بیان کر سکے اور نہ اعضا و جوارح میں سکت رکھتا ہے کہ اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ صرف اس کی دبی ہوئی سسکیاں اور اشکوں کی روانیاں ہی اس کی ضروریات کا اظہار اور اس کے رنج و قلق کی ترجمانی کرتی ہیں۔ اس دور کے گزرنے کے بعد جب تعلیم و تربیت کی منزل میں قدم رکھتا ہے تو بات بات پر ڈانٹ ڈپٹ کی آوازیں اس کا خیر مقدم کرتی ہیں، ہر وقت خوف زدہ اور سہما ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جب اس دورِ محکومیت سے نجات پاتا ہے تو اہل و عیال کی بندشوں اور معاش کی فکروں میں گھر جاتا ہے۔ جہاں کبھی ہم پیشہ رقیبوں سے چپقلش، کبھی دشمنوں سے ٹکراؤ، کبھی حوادثِ زمانہ کا مقابلہ، کبھی بیماریوں کا حملہ اور کبھی اولاد کا صدمہ اسے در پیش رہتا ہے، یہاں تک کہ بڑھاپا لاچاریوں اور بے بسیوں کا پیغام لے کر آ پہنچتا ہے اور آخر دل میں حسرت و اندوہ لئے ہوئے اس جہانِ فانی کو خیر باد کہہ دیتا ہے۔
پھر اس دنیا کے متعلق فرماتے ہیں کہ: اس کی حلال چیزوں میں حساب کی موشگافیاں اور حرام چیزوں میں عقاب کی سختیاں ہیں جس سے خوشگوار لذتیں بھی اس کے کام و دہن میں تلخی پیدا کر دیتی ہیں۔ اگر اس دنیا میں مال و دولت کی فراوانی ہو تو انسان ایک ایسے چکر میں پڑ جاتا ہے کہ جس سے راحت و سکون کو کھو بیٹھتا ہے اور اگر تنگدستی و ناداری ہو تو دولت کے غم میں گھلا جاتا ہے۔ اور جو اس دنیا کیلئے تگ و دو میں لگا رہتا ہے اس کی آرزوؤں کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ایک امید بر آتی ہے تو دوسری آرزو کو پورا کرنے کی ہوس دامن گیر ہو جاتی ہے۔ اس دنیا کی مثال سایہ کی طرح ہے کہ اگر اس کے پیچھے دوڑو تو وہ آگے بھاگتا ہے اور اگر اس سے دامن چھڑا کر پیچھے بھاگو تو وہ پیچھے دوڑنے لگتا ہے، یونہی جو اس دنیا کے پیچھے نہیں دوڑتا تو وہ خود اس کے پیچھے دوڑتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو حرص و ہوس کے پھندوں کو توڑ کر بے جا دنیا طلبی سے دست کش ہو جاتا ہے، دنیا اسے بھی حاصل ہوتی ہے اور وہ اس سے محروم نہیں کر دیا جاتا۔ لہٰذا جو شخص دنیا کی سطح سے بلند ہو کر دنیا کو دیکھے اور اس کے احوال و واردات سے عبرت حاصل کرے اور اس کی نیرنگیوں اور بوقلمونیوں سے صانع عالم کی قدرت، تدبیر و حکمت اور رحمت و رأفت اور اس کی ربوبیت کا پتہ لگائے تو اس کی آنکھیں روشن و بینا ہو جائیں گی اور جو شخص صرف دنیا کی رنگینیوں میں کھو یا رہتا ہے اور اس کی آرائشوں پر مَر مٹتا ہے، تو وہ دیدهٔ دل کی روشنی کھو کر اس کی اندھیاریوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اسی لئے قدرت نے ایسی نظروں سے دنیا کو دیکھنے سے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۙ لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ ؕ﴾
کچھ لوگوں کو ہم نے زندگانی دنیا کی شادابی سے بہرہ مند کیا ہے تا کہ ان کو اس سے آزمائیں۔ تم اس متاعِ دنیا کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھو۔[۲]↑
[۱]۔ سورۂ بلد، آیت ۴۔
[۲]۔ سورۂ طٰہٰ، آیت ۱۳۱۔