خطبات

خطبہ (۹۰)

(٨٩) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۸۹)

تُعْرَفُ بِـ »خُطْبَةِ الْاَشْبَاحِ« وَ هِیَ مِنْ جَلَآئِلِ خُطَبِهٖ ؑ وَ كَانَ سَئَلَهٗ سَآئِلٌ اَنْ یّصِفَ اللهَ حَتّٰى كَاَنَّهٗ یَرَاهُ عِیَانًا، فَغَضِبَ ؑ لِذٰلِكَ ( وَ قَالَ‏:)

یہ خطبہ‘‘ اشباح‘‘ [۱] کے نام سے مشہور ہے اور امیر المومنین علیہ السلام کے بلند پایہ خطبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اسے ایک سائل کے جواب میں ارشاد فرمایا تھا جس نے آپؑ سے یہ سوال کیا تھا کہ: آپؑ خلاق عالم کے صفات کو اس طرح بیان فرمائیں کہ ایسا معلوم ہو جیسے ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس پر حضرتؑ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا یَفِرُهُ الْمَنْعُ وَ الْجُمُوْدُ، وَ لَا یُكْدِیْهِ الْاِعْطَآءُ وَ الْجُوْدُ، اِذْ كُلُّ مُعْطٍ مُّنْتَقِصٌ سِوَاهُ، وَ كُلُّ مَانِعٍ مَّذْمُوْمٌ مَا خَلَاهُ، وَ هُوَ الْمَنَّانُ بِفَوَآئِدِ النِّعَمِ، وَ عَوآئِدِ الْمَزِیْدِ وَ الْقِسَمِ، عِیَالُهُ الْخَلَآئِقُ، ضَمِنَ اَرْزَاقَهُمْ، وَ قَدَّرَ اَقْوَاتَهُمْ، وَ نَهَجَ سَبِیْلَ الرَّاغِـبِیْنَ اِلَیْهِ، وَ الطَّالِبِیْنَ مَا لَدَیْهِ، وَ لَیْسَ بِمَا سُئِلَ بِاَجْوَدَ مِنْهُ بِمَا لَمْ یُسْئَلُ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے کہ جو فیض و عطا کے روکنے سے مالدار نہیں ہو جاتا اور جود و عطا سے کبھی عاجز و قاصر نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس کے سوا ہر دینے والے کے یہاں داد و دہش سے کمی واقع ہوتی ہے اور ہاتھ روک لینے پر انہیں برا سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ فائدہ بخش نعمتوں اور عطیوں کی فراوانیوں اور روزیوں (کی تقسیم) سے ممنون احسان بنانے والا ہے۔ ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے، اس نے سب کے رزق کا ذمہ لیا ہے اور سب کی روزیاں مقرر کر رکھی ہیں [۲] ۔ اس نے اپنے خواہش مندوں اور اپنی نعمت کے طلب گاروں کیلئے راہ کھول دی ہے۔ وہ دست ِطلب کے نہ بڑھنے پر بھی اتنا ہی کریم ہے جتنا طلب و سوال کا ہاتھ بڑھنے پر۔

اَلْاَوَّلُ الَّذِیْ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ قَبْلٌ فَیَكُوْنَ شَیْءٌ قَبْلَهٗ، وَ الْاٰخِرُ الَّذِیْ لَیْسَ لَهٗ بَعْدٌ فَیَكُوْنَ شَیْءٌۢ بَعْدَهٗ، وَ الرَّادِعُ اَنَاسِیَّ الْاَبْصَارِعَنْ اَنْ تَنَالَهٗ اَوْ تُدْرِكَهٗ، مَا اخْتَلَفَ عَلَیْهِ دَهْرٌ فَیَخْتَلِفَ مِنْهُ الْحَالُ، وَ لَا كَانَ فِیْ مَكَانٍ فَیَجُوْزَ عَلَیْهِ الْاِنْتِقَالُ.

وہ ایسا اوّل ہے جس کیلئے کوئی قبل ہے ہی نہیں کہ کوئی شے اس سے پہلے ہو سکے اور ایسا آخر ہے جس کیلئے کوئی بعد ہے ہی نہیں تاکہ کوئی چیز اس کے بعد فرض کی جا سکے۔ وہ آنکھ کی پتلیوں کو (دور ہی سے) روک دینے والا ہے کہ وہ اسے پا سکیں یا اس کی حقیقت معلوم کر سکیں۔ اس پر زمانہ کے مختلف دور نہیں گزرتے کہ اس کے حالات میں تغیر و تبدل پیدا ہو۔ وہ کسی جگہ میں نہیں ہے کہ اس کیلئے نقل و حرکت صحیح ہو سکے۔

وَ لَوْ وَهَبَ مَا تَنَفَّسَتْ عَنْهُ مَعَادِنُ الْجِبَالِ، وَ ضَحِكَتْ عَنْهُ اَصْدَافُ الْبِحَارِ، مِنْ فِلِزِّ اللُّجَیْنِ وَ الْعِقْیَانِ، وَ نُثَارَةِ الدُّرِّ وَ حَصِیْدِ الْمَرْجَانِ، مَاۤ اَثَّرَ ذٰلِكَ فِیْ جُوْدِهٖ، وَ لَاۤ اَنْفَدَ سَعَةَ مَا عِنْدَهٗ، وَ لَكَانَ عِنْدَهٗ مِنْ ذَخَآئِرِ الْاِنْعَامِ مَا لَا تُنْفِدُهٗ مَطَالِبُ الْاَنَامِ، لِاَنَّهُ الْجَوَادُ الَّذِیْ لَا یَغِیْضُهٗ سُؤَالُ السَّآئِلِیْنَ، وَ لَا یُبْخِلُهٗ اِلْحَاحُ الْمُلِحِّیْنَ.

اگر وہ چاندی اور سونے جیسی نفیس دھاتیں کہ جنہیں پہاڑوں کے معدن (لمبی لمبی) سانسیں بھر کر اچھال دیتے ہیں اور بکھرے ہوئے موتی اور مرجان کی کٹی ہوئی شاخیں کہ جنہیں دریاؤں کی سیپیاں کھل کھلا کر ہنستے ہوئے اُگل دیتی ہیں، بخش دے تو اس سے اس کے جو دو عطا پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس کی دولت کا ذخیرہ اس سے ختم ہو سکتا ہے اور اس کے پاس پھر بھی انعام و اکرام کے اتنے ذخیرے موجود رہیں گے جنہیں لوگوں کی مانگ ختم نہیں کر سکتی۔ اس لئے کہ وہ ایسا فیاض ہے جسے سوالوں کا پورا کرنا مفلس نہیں بنا سکتا اور گِڑ گڑا کر سوال کرنے والوں کا حد سے بڑھا ہوا اصرار بخل پر آمادہ نہیں کر سکتا۔

فَانْظُرْ اَیُّهَا السَّآئِلُ: فَمَا دَلَّكَ الْقُرْاٰنُ عَلَیْهِ مِنْ صِفَتِهٖ فَائْتَمَّ بِهٖ وَ اسْتَضِیْٓءْ بِنُوْرِ هِدَایَتِهٖ، وَ مَا كَلَّفَكَ الشَّیْطٰنُ عِلْمَهٗ مِمَّا لَیْسَ فِی الْكِتَابِ عَلَیْكَ فَرْضُهٗ، وَ لَا فِیْ سُنَّةِ النَّبِیِّ ﷺ وَ اَئِمَّةِ الْهُدٰی اَثَرُهٗ، فَكِلْ عِلْمَهٗ اِلَی اللهِ سُبْحَانَهٗ، فَاِنَّ ذٰلِكَ مُنْتَهٰی حَقِّ اللهِ عَلَیْكَ.

اے (اللہ کی صفتوں کو) دریافت کرنے والے دیکھو! کہ جن صفتوں کا تمہیں قرآن نے پتہ دیا ہے (ان میں) تم اس کی پیروی کرو اور اسی کے نور ہدایت سے کسب ِضیا کرتے رہو اور جو چیزیں کہ قرآن میں واجب نہیں اور نہ سنت پیغمبرؐ و آئمہؑ ہُدیٰ میں ان کا نام و نشان ہے اور صرف شیطان نے اس کے جاننے کی تمہیں زحمت دی ہے، اس کا علم اللہ ہی کے پاس رہنے دو اور یہی تم پر اللہ کے حق کی آخری حد ہے۔

وَ اعْلَمْ اَنَّ الرَّاسِخِیْنَ فِی الْعِلْمِ هُمُ الَّذِیْنَ اَغْنَاهُمْ عَنِ اقْتِحَامِ السُّدَدِ الْمَضْرُوْبَةِ دُوْنَ الْغُیُوْبِ، الْاِقْرَارُ بِجُمْلَةِ مَا جَهِلُوْا تَفْسِیْرَهٗ مِنَ الْغیْبِ الْمَحْجُوْبِ، فَمَدَحَ اللهُ اعْتِرَافَهُمْ بِالْعَجْزِ عَنْ تَنَاوُلِ مَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِهٖ عِلْمًا، وَ سَمّٰی تَرْكَهُمُ التَّعَمُّقَ فِیْمَا لَمْ یُكَلِّفْهُمُ الْبَحْثَ عَنْ كُنْهِهٖ رُسُوْخًا، فاقْتَصِرْ عَلٰی ذٰلِكَ، وَ لَاتُقَدِّرْ عَظَمَةَ اللهِ سُبْحَانَهٗ عَلٰی قَدْرِ عَقْلِكَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْهَالِكِیْنَ.

اور اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ و پختہ لوگ وہی ہیں کہ جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی ساری چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے (اور ان پر اعتقاد رکھتے) ہیں، اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے اور یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پر دوں میں درانہ گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے۔ اور اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز ان کے احاطہ علم سے باہر ہوتی ہے اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں اور اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی اس میں تعمق و کاوش کے ترک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے۔ لہٰذا بس اسی پر اکتفا کر و اور اپنے عقل کے پیمانہ کے مطابق اللہ کی عظمت کو محدود نہ بناؤ، ورنہ تمہارا شمار ہلاک ہونے والوں میں قرار پائے گا۔

هُوَ الْقَادِرُ الَّذِیْۤ اِذَا ارْتَمَتِ الْاَوْهَامُ لِتُدْرِكَ مُنْقَطَعَ قُدْرَتِهٖ، وَ حَاوَلَ الْفِكْرُ الْمُبَرَّاُ مِنْ خَطَرَاتِ الْوَسَاوِسِ اَنْ یَّقَعَ عَلَیْهِ فِیْ عَمِیْقَاتِ غُیُوْبِ مَلَكُوْتِهٖ، وَ تَوَلَّهَتِ الْقُلُوْبُ اِلَیْهِ لِتَجْرِیَ فِیْ كَیْفِیَّةِ صِفَاتِهٖ، وَ غَمَضَتْ مَدَاخِلُ الْعُقُوْلِ فِیْ حَیْثُ لَا تَبْلُغُهُ الصِّفَاتُ لِتَنَاوُلِ عِلْمِ ذَاتِهٖ، رَدَعَهَا وَ هِیَ تَجُوْبُ مَهَاوِیَ سُدَفِ الْغُیُوْبِ، مُتَخَلِّصَةً اِلَیْهِ ـ سُبْحَانَهٗ ـ فَرَجَعَتْ اِذْ جُبِهَتْ، مُعتَرِفَةًۢ بِاَنَّهٗ لَا یُنَالُ بِجَوْرِ الْاِعْتِسَافِ كُنْهُ مَعْرِفَتِهٖ، وَ لَا تَخْطُرُ بِبَالِ اُولِی الرَّوِیَّاتِ خَاطِرَةٌ مِّنْ تَقْدِیْرِ جَلَالِ عِزَّتِهٖ.

وہ ایسا قادر ہے کہ جب اس کی قدرت کی انتہا معلوم کرنے کیلئے وہم اپنے تیر چلا رہا ہو اور فکر ہر طرح کے وسوسوں کے ادھیڑ بن سے آزاد ہو کر اس کے قلمرو مملکت کے گہرے بھیدوں پر آگاہ ہونے کے درپے ہو اور دل اس کی صفتوں کی کیفیت سمجھنے کیلئے والہانہ طور پر دوڑ پڑے ہوں اور ذاتِ الٰہی کو جاننے کیلئے عقلوں کی جستجو و تلاش کی راہیں حدِّ بیان سے زیادہ دور تک چلی گئی ہوں تو اللہ اس وقت جب وہ غیب کی تیرگیوں کے گڑھوں کو عبور کر رہی ہوتی ہیں، ان سب کو (ناکامیوں کے ساتھ) پلٹا دیتا ہے۔ چنانچہ جب اس طرح منہ کی کھا کر پلٹتی ہیں تو انہیں یہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ایسی بے راہ رویوں سے اس کی معرفت کا کھوج نہیں لگایا جا سکتا اور نہ فکر پیماؤں کے دلوں میں اس کی عزت کے تمکنت و جلال کا ذرا سا شائبہ آ سکتا ہے۔

اَلَّذِی ابْتَدَعَ الْخَلْقَ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ امّْتَثَلَهٗ، وَ لَا مِقْدَارٍ احْتَذٰی عَلَیْهِ، مِنْ خَالِقٍ مَّعْبُوْدٍ كَانَ قَبْلَهٗ، وَ اَرَانَا مِنْ مَّلَكُوْتِ قُدْرَتِهٖ، وَ عَجَآئِبِ مَا نَطَقَتْ بِهٖ اٰثَارُ حِكْمَتِهٖ، وَ اعْتِرَافِ الْحَاجَةِ مِنَ الْخَلْقِ اِلٰۤی اَنْ یُّقِیْمَهَا بِمَسَاكِ قُوَّتِهٖ، مَا دَلَّنَا بِاضْطِرَارِ قِیَامِ الْحُجَّةِ لَهٗ عَلٰی مَعْرِفَتِهٖ، وَ ظَهَرَتْ فِی الْبَدَآئِعِ الَّتِیْ اَحْدَثَهَاۤ اٰثَارُ صَنْعَتِهٖ، وَ اَعْلَامُ حِكْمَتِهٖ، فَصَارَ كُلُّ مَا خَلَقَ حُجَّةً لَّهٗ وَ دَلِیْلًا عَلَیْهِ، وَ اِنْ كَانَ خَلْقًا صَامِتًا، فَحُجَّتُهٗ بِالتَّدْبِیْرِ نَاطِقَةٌ، وَ دَلَالَتُهٗ عَلَی الْمُبْدِعِ قَآئِمَةٌ.

وہ وہی ہے کہ جس نے مخلوقات کو ایجاد کیا بغیر اس کے کہ کوئی مثال اپنے سامنے رکھتا اور بغیر اس کے کہ اپنے سے پہلے کسی اور خالق و معبود کی بنائی ہوئی چیزوں کا چربہ اتارتا۔ اس نے اپنی قدرت کی بادشاہت اور ان عجیب چیزوں کے واسطہ سے کہ جن میں اس کی حکمت و دانائی کے آثار (منہ سے) بول رہے ہیں اور مخلوق کے اس اعتراف سے کہ وہ اپنے رکنے تھمنے میں اس کے سہارے کی محتاج ہے، ہمیں وہ چیزیں دکھائی ہیں کہ جنہوں نے قہراً دلیل قائم ہو جانے کے دباؤ سے اس کی معرفت کی طرف ہماری راہنمائی کی ہے اور اس کی پیدا کردہ عجیب و غریب چیزوں میں اس کی صنعت کے نقش و نگار اور حکمت کے آثار نمایاں اور واضح ہیں۔ چنانچہ ہر مخلوق اس کی ایک حجت اور ایک برہان بن گئی ہے۔ چاہے وہ خاموش مخلوق ہو، مگر اللہ کی تدبیر و کار سازی کی ایک بولتی ہوئی دلیل ہے اور ہستی صانع کی طرف اس کی راہنمائی ثابت و برقرارہے۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مَنْ شَبَّهَكَ بِتَبَایُنِ اَعْضَآءِ خَلْقِكَ، وَ تَلَاحُمِ حِقَاقِ مَفَاصِلِهِمُ الْمُحْتَجِبَةِ لِتَدْبِیْرِ حِكْمَتِكَ، لَمْ یَعْقِدْ غَیْبَ ضَمِیْرِهٖ عَلٰی مَعْرِفَتِكَ، وَ لَمْ یُبَاشِرْ قَلْبَهُ الْیَقِیْنُ بِاَنَّهٗ لَا نِدَّ لَكَ، وَ كَاَنَّهٗ لَمْ یَسْمَعْ تَبَرُّؤَ التَّابِعِیْنَ مِنَ الْمَتْبُوْعِیْنَ اِذْ یَقُوْلُوْنَ: ﴿تَاللّٰهِ اِنْ كُنَّا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍۙ۝ اِذْ نُسَوِّیْكُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۝﴾.

میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری ہی مخلوق سے ان کے اعضاء کے الگ الگ ہونے اور تیری حکمت کی کارسازیوں سے گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے ان کے جوڑوں کے سروں کے ملنے میں تشبیہ دی، اس نے اپنے چھپے ہوئے ضمیر کو تیری معرفت سے وابستہ نہیں کیا اور اس کے دل کو یہ یقین چھو بھی نہیں گیا کہ تیرا کوئی شریک نہیں۔ گویا اس نے پیرو کاروں کا یہ قول نہیں سنا جو اپنے مقتداؤں سے بیزاری چاہتے ہوئے یہ کہیں گے کہ: ’’خدا کی قسم! ہم تو قطعاً ایک کھلی ہوئی گمراہی میں تھے کہ جب ہم سارے جہاں کے پالنے والے کے برابر تمہیں ٹھہرایا کرتے تھے‘‘۔

كَذَبَ الْعَادِلُوْنَ بِكَ، اِذْ شَبَّهُوْكَ بِاَصْنَامِهِمْ وَ نَحَلُوْكَ حِلْیَةَ الْمَخْلُوْقِیْنَ بِاَوْهَامِهِمْ، وَ جَزَّاُوْكَ تَجْزِئَةَ الْمُجَسَّمَاتِ بِخَوَاطِرِهِمْ، وَ قَدَّرُوْكَ عَلَی الْخِلْقَةِ الْمُخْتَلِفَةِ الْقُوٰی، بِقَرَآئِحِ عُقُوْلِهِمْ.

وہ لوگ جھوٹے ہیں جو تجھے دوسروں کے برابر سمجھ کر اپنے بتوں سے تشبیہ دیتے ہیں اور اپنے وہم میں تجھ پر مخلوقات کی صفتیں جڑ دیتے ہیں اور اپنے خیال میں اس طرح تیرے حصے بخرے کرتے ہیں جس طرح مجسم چیزوں کے جوڑ بند الگ الگ کئے جاتے ہیں اور اپنی عقلوں کی سوجھ بوجھ کے مطابق تجھے مختلف قوتوں والی مخلوقات پر قیاس کرتے ہیں۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مَنْ سَاوَاكَ بِشَیْءٍ مِّنْ خَلْقِكِ فَقَدْ عَدَلَ بِكَ، وَ الْعَادِلُ بِكَ كَافِرٌۢ بِمَا تَنَزَّلَتْ بِهٖ مُحْكَمَاتُ اٰیَاتِكَ، وَ نَطَقَتْ عَنْهُ شَوَاهِدُ حُجَجِ بَیِّنَاتِكَ، وَ اَنَّكَ اَنْتَ اللهُ الَّذِیْ لَمْ تَتَنَاهَ فِیْ الْعُقُوْلِ، فَتَكُوْنَ فِیْ مَهَبِّ فِكْرِهَا مُكَیَّفًا، وَ لَا فِیْ رَوِیَّاتِ خَوَاطِرِهَا فَتَكُوْنَ مَحْدُوْدًا مُّصَرَّفًا.

میں گواہی دیتا ہوں کہ جس نے تجھے تیری مخلوق میں سے کسی کے برابر جانا اس نے تیرا ہمسر بنا ڈالا اور تیرا ہمسر بنانے والا تیری کتاب کی محکم آیتوں کے مضامین اور ان حقائق کا جنہیں تیری طرف کے روشن دلائل واضح کررہے ہیں منکر ہے۔ تو وہ اللہ ہے کہ عقلوں کی حد میں گھر نہیں سکتا کہ ان کی سوچ بچار کی زد پر آ کر کیفیات کو قبول کر لے اور نہ ان کے غور و فکر کی جو لانیوں میں تیری سمائی ہے کہ تو محدود ہو کر ان کے فکری تصرفات کا پابند بن جائے۔

[وَ مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے]

قَدَّرَ مَا خَلَقَ فَاَحْكَمَ تَقْدِیْرَهٗ، وَ دَبَّرَهٗ فَاَلْطَفَ تَدْبِیْرَهٗ، وَ وَجَّهَهٗ لِوِجْهَتِهٖ فَلَمْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ مَنْزِلَتِهٖ، وَ لَمْ یَقْصُرْ دُوْنَ الْاِنْتِهَآءِ اِلٰی غَایَتِهٖ، وَ لَمْ یَسْتَصْعِبْ اِذْ اُمِرَ بِالْمُضِیِّ عَلٰۤی اِرَادَتِهٖ، وَ كَیْفَ وَ اِنَّمَا صَدَرَتِ الْاُمُوْرُ عَنْ مَّشِیْٓـئَتِهٖ؟

اس نے جو چیزیں پیدا کیں ان کا ایک اندازہ رکھا مضبوط و مستحکم اور ان کا انتظام کیا عمدہ و پاکیزہ اور انہیں ان کی سمت پر اس طرح لگایا کہ نہ وہ اپنی آخری منزل کی حدوں سے آگے بڑھیں اور نہ منزل منتہا تک پہنچنے میں کوتاہی کی۔ جب انہیں اللہ کے ارادے پر چل پڑنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے سرتابی نہیں کی اور وہ ایسا کر ہی کیوں کر سکتی تھیں، جب کہ تمام امور اسی کی مشیت و ارادہ سے صادر ہوئے ہیں۔

اَلْمُنْشِئُ اَصْنَافَ الْاَشْیَآءِ بِلَا رَوِیَّةِ فِكْرٍ اٰلَ اِلَیْهَا، وَ لَا قَرِیْحَةِ غَرِیْزَةٍ اَضْمَرَ عَلَیْهَا، وَ لَا تَجْرِبَةٍ اَفَادَهَا مِنْ حَوَادِثِ الدُّهُوْرِ، وَ لَا شَرِیْكٍ اَعَانَهٗ عَلَی ابْتِدَاعِ عَجَآئِبِ الْاُمُوْرِ، فَتَمَّ خَلْقُهٗ، وَ اَذْعَنَ لِطَاعَتِهٖ، وَ اَجَابَ اِلٰی دَعْوَتِهٖ، وَ لَمْ یَعْتَرِضْ دُوْنَهٗ رَیْثُ الْمُبْطِئِ، وَ لَاۤ اَنَاةُ الْمُتَلَكِّئِ، فَاَقَامَ مِنَ الْاَشْیَآءِ اَوَدَهَا، وَ نَهَجَ حُدُوْدَهَا، وَ لَآءَمَ بِقُدْرَتِهٖ بَیْنَ مُتَضَادِّهَا، وَ وَصَلَ اَسْبَابَ قَرَآئِنِهَا، وَ فَرَّقَهَا اَجْنَاسًا مُّخْتَلِفَاتٍ فِی الْحُدُوْدِ وَ الْاَقْدَارِ، وَ الْغرَآئِزِ وَ الْهَیْئَاتِ، بَدَایَا خَلَآئِقَ اَحْكَمَ صُنْعَهَا، وَ فَطَرَهَا عَلٰی مَاۤ اَرَادَ وَابْتَدَعَهَا!.

وہ گوناگوں چیزوں کا موجد ہے بغیر کسی سوچ بچار کی طرف رجوع کئے اور بغیر طبیعت کی کسی جولانی کے کہ جسے دل میں چھپائے ہو اور بغیر کسی تجربہ کے کہ جو زمانہ کے حوادث سے حاصل کیا ہو اور بغیر کسی شریک کے کہ جو ان عجیب و غریب چیزوں کی ایجاد میں اس کا معین و مددگار رہا ہو۔ چنانچہ مخلوق (بن بنا کر) مکمل ہو گئی اور اس نے اللہ کی اطاعت کے سامنے سر جھکا دیا اور (فوراً) اس کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے بڑھی، نہ کسی دیر کرنے والے کی سی سست رفتاری دامن گیر ہوئی اور نہ کسی حیل حجت کرنے والے کی سی سستی اور ڈھیل حائل ہوئی۔ اس نے ان چیزوں کے ٹیڑھے پن کو سیدھا کر دیا اور ان کی حدیں معین کر دیں اور اپنی قدرت سے ان متضاد چیزوں میں ہم رنگی و ہم آہنگی پیدا کی اور نفسوں کے رشتے (بدنوں سے) جوڑ دیئے اور انہیں مختلف جنسوں پر بانٹ دیا جو اپنی حدوں، اندازوں، طبیعتوں اور صورتوں میں جُدا جُدا ہیں۔ یہ نو ایجاد مخلوق ہے کہ جس کی ساخت اس نے مضبوط کی ہے اور اپنے ارادے کے مطابق اسے بنایا اور ایجاد کیا۔

[مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ السَّمَآءِ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے آسمان کے وصف میں]

وَ نَظَمَ بِلَا تَعْلِیْقٍ رَّهَوَاتِ فُرَجِهَا، وَ لَاحَمَ صُدُوْعَ انْفِرَاجِهَا، وَ وَشَّجَ بَیْنَهَا وَ بَیْنَ اَزْوَاجِهَا، وَ ذَلَّلَ لِلْهَابِطِیْنَ بِاَمْرِهٖ، وَ الْصَّاعِدِیْنَ بِاَعْمَالِ خَلْقِهٖ، حُزُوْنَةَ مِعْرَاجِهَا، وَ نَادَاهَا بَعْدَ اِذْ هِیَ دُخَانٌ، فَالْتَحَمَتْ عُرٰۤی اَشْرَاجِهَا، وَ فَتَقَ بَعْدَ الْاِرْتِتَاقِ صَوَامِتَ اَبْوَابِهَا، وَ اَقَامَ رَصَدًا مِّنَ الشُّهُبِ الثَّوَاقِبِ عَلٰی نِقَابِهَا، وَ اَمْسَكَهَا مِنْ اَنْ تَمُوْرَ فِیْ خَرْقِ الْهَوَآءِ بِاَیْدِهٖ، وَ اَمَرَهَا اَنْ تَقِفَ مُسْتَسْلِمَةً لِّاَمْرِهٖ، وَ جَعَلَ شَمْسَهَا اٰیَةً مُّبْصِرَةً لِّنَهَارِهَا، وَ قَمَرَهَا اٰیَةً مَّمْحُوَّةً مِّنْ لَّیْلِهَا، وَ اَجْرَاهُمَا فِیْ مَنَاقِلِ مَجْرَاهُمَا، وَ قَدَّرَ سَيْرَهُمَا فِیْ مَدَارِجِ دَرَجِهِمَا، لِیُمَیِّزَ بَیْنَ اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ بِهِمَا، وَ لِیُعْلَمَ عَدَدُ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابُ بِمَقَادِیْرِهِمَا.

اس نے بغیر (کسی چیز سے) وابستہ کئے اس کے شگافوں کے نشیب و فراز کو مرتب کر دیا اور اس کے دراڑوں کی کشادگیوں کو ملادیا اور انہیں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جکڑ دیا اور اس کے احکام کو لے کر اترنے والوں اور خلق کے اعمال کو لے کر چڑھنے والوں کیلئے اس کی بلندیوں کی دشوار گزاری کو آسان کر دیا۔ ابھی وہ آسمان دھوئیں ہی کی شکل میں تھے کہ اللہ نے انہیں پکارا تو (فوراً) ان کے تسموں کے رشتے آپس میں متصل ہو گئے۔ اس نے ان کے بند دروازوں کو بستہ ہونے کے بعد کھول دیا اور ان کے سوراخوں پر ٹوٹتے ہوئے تاروں کے نگہبان کھڑے کر دیئے اور انہیں اپنے زور سے روک دیا کہ کہیں وہ ہوا کے پھیلاؤ میں ادھر ادھر نہ ہو جائیں اور انہیں مامور کیا کہ وہ اس کے حکم کے سامنے سر جھکائے ہوئے اپنے مرکز پر ٹھہرے رہیں۔ اس نے فلک کے سورج کو دن کی روشن نشانی اور چاند کو رات کی دھندلی نشانی قرار دیا ہے اور انہیں ان کی منزلوں پر چلایا ہے اور ان کی گزرگاہوں میں ان کی رفتار مقرر کر دی ہے، تاکہ ان کے ذریعہ سے شب و روز کی تمیز ہو سکے اور انہی کے اعتبار سے برسوں کی گنتی اور (دوسرے) حساب جانے جا سکیں۔

ثُمَّ عَلَّقَ فِیْ جَوِّهَا فَلَكَهَا، وَ نَاطَ بِهَا زِیْنَتَهَا، مِنْ خَفِیَّاتِ دَرَارِیِّهَا وَ مَصَابِیْحِ كَوَاكِبِهَا، وَ رَمٰی مُسْتَرِقِی السَّمْعِ بِثَوَاقِبِ شُهُبِهَا، وَ اَجْرَاهَا عَلٰۤی اِذْلَالِ تَسْخِیْرِهَا مِنْ ثَبَاتِ ثَابِتِهَا، وَ مَسِیْرِ سَآئِرِهَا، وَ هُبُوْطِهَا وَ صُعُوْدِهَا، وَ نُحُوْسِهَا وَ سُعُوْدِهَا.

پھر یہ کہ اس نے آسمانی فضا میں اس فلک کو آویزاں کیا اور اس میں اسی کی آرائش کیلئے منے منے موتیوں ایسے تارے اور چراغوں کی طرح چمکتے ہوئے ستارے آویزاں کئے اور چوری چھپے کان لگانے والوں پر ٹوٹتے ہوئے تاروں کے تیر چلائے اور ستاروں کو اپنے جبرو قہر سے ان کے دھڑے پر لگایا کہ کوئی ثابت رہے اور کوئی سیار، کبھی اتار ہو اور کبھی ابھار اور کسی میں نحوست ہو اور کسی میں سعادت۔

[وَ مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ الْمَلٰٓئِكَةِ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے فرشتوں کے وصف میں]

ثُمَّ خَلَقَ سُبْحَانَهٗ لِاِسْكَانِ سَمٰوٰتِهٖ، وَ عِمَارَةِ الصَّفِیْحِ الْاَعْلٰی مِنْ مَّلَكُوْتِهٖ، خَلْقًۢا بَدِیْعًا مِّنْ مَّلٰٓئِكَتِهٖ، وَ مَلَاَ بهِمْ فُرُوْجَ فِجَاجِهَا، وَ حَشَا بِهِمْ فُتُوْقَ اَجْوَآئِهَا، وَ بَیْنَ فَجَوَاتِ تِلْكَ الْفُرُوْجِ زَجَلُ الْمُسَبِّحِیْنَ مِنْهُمْ فِیْ حَظَآئِرِ الْقُدْسِ، وَ سُتُرَاتِ الْحُجُبِ، وَ سُرَادِقَاتِ الْمَجْدِ، وَ وَرَآءَ ذٰلِكَ الرَّجِیْجِ الَّذِیْ تَسْتَكُّ مِنْهُ الْاَسْمَاعُ سُبُحَاتُ نُوْرٍ تَرْدَعُ الْاَبْصَارَ عَنْۢ بُلُوْغِهَا، فَتَقِفُ خَاسِئَةً عَلٰی حُدُوْدِهَا.

پھر اللہ سبحانہ نے اپنے آسمانوں میں ٹھہرانے اور اپنی مملکت کے بلند طبقات کو آباد کرنے کیلئے فرشتوں کی عجیب و غریب مخلوق پیدا کی۔ ان سے آسمان کے وسیع راستوں کا گوشہ گوشہ بھر دیا اور اس کی فضا کی وسعتوں کا کونا کونا چھلکا دیا اور ان وسیع اطراف کی پہنائیوں میں تسبیح کرنے والے فرشتوں کی آوازیں قدس و پاکیزگی کی چار دیواریوں اور عظمت کے گہرے حجابوں اور بزرگی و جلال کے سرا پردوں میں گونجتی ہیں اور اس گونج کے پیچھے جس سے کان بہرے ہو جاتے ہیں تجلیات نور کی اتنی فراوانیاں ہیں کہ جو نگاہوں کو اپنے تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں۔ چنانچہ وہ ناکام و نامراد ہو کر اپنی جگہ پر ٹھہری رہتی ہیں۔

اَنْشَاَهُمْ عَلٰی صُوَرٍ مُّخْتَلِفَاتٍ، وَ اَقْدَارٍ مُّتَفَاوِتَاتٍ، ﴿اُولِیْۤ اَجْنِحَةٍ ﴾ تُسَبِّحُ جَلَالَ عِزَّتِهٖ، لَا یَنْتَحِلُوْنَ مَا ظَهَرَ فِی الْخَلْقِ مِنْ صُنْعِهٖ، وَ لَا یَدَّعُوْنَ اَنَّهُمْ یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا مَّعَهٗ مِمَّا انْفَرَدَ بِهٖ، ﴿بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَۙ۝ لَا یَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِاَمْرِهٖ یَعْمَلُوْنَ۝﴾.

اللہ نے ان (فرشتوں) کو جُدا جُدا صورتوں اور الگ الگ پیمانوں پر پیدا کیا ہے۔ وہ بال و پَر رکھتے ہیں اور اس کے جلال و عزت کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور مخلوق میں جو اس کی صنعتیں اجاگر ہوئی ہیں انہیں اپنی طرف نسبت نہیں دیتے اور نہ یہ اِدّعا کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسی شے کو پیدا کر سکتے ہیں کہ جس کے پیدا کرنے میں وہ منفرد و یکتا ہے، ’’بلکہ وہ اس کے معزز بندے ہیں جو کسی بات کے کہنے میں اس سے سبقت نہیں کرتے اور وہ اسی کے کہنے پر چلتے ہیں‘‘۔

جَعَلَهُمْ فِیْمَا هُنَالِكَ اَهْلَ الْاَمَانَةِ عَلٰی وَحْیِهِ، وَ حَمَّلَهُمْ اِلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَ دَآئِعَ اَمْرِهٖ وَ نَهْیِهٖ، وَ عَصَمَهُمْ مِنْ رَّیْبِ الشُّبُهَاتِ، فَمَا مِنْهُمْ زَآئِغٌ عَنْ سَبِیْلِ مَرْضَاتِهٖ، وَ اَمَدَّهُمْ بِفَوَآئِدِ الْمَعُوْنَةِ، وَ اَشْعَرَ قُلُوْبَهُمْ تَوَاضُعَ اِخْبَاتِ السَّكِیْنَةِ، وَ فَتَحَ لَهُمْ اَبْوَابًا ذُلُلًا اِلٰی تَمَاجِیْدِهٖ، وَ نَصَبَ لَهُمْ مَنَارًا وَّاضِحَةً عَلٰۤی اَعْلَامِ تَوْحِیْدِهٖ،

اللہ نے انہیں وہاں اپنی وحی کا امانتدار اور اپنے اوامر و نواہی کی ودیعتوں کا حامل بنا کر رسولوں کی طرف بھیجا ہے اور شک و شبہات کے خدشوں سے انہیں محفوظ رکھا ہے۔ تو ان میں سے کوئی بھی اس کی رضا جوئی کی راہ سے کترانے والا نہیں اور اس نے اپنی توفیق و اعانت سے ان کی دستگیری کی اور خضوع و خشوع کی عجز و شکستگی سے ان کے دلوں کو ڈھانپ دیا ہے اور تسبیح و تقدیس کی سہولتوں کے دروازے ان کیلئے کھول دیئے ہیں اور اپنی توحید کے نشانوں پر ان کیلئے روشن مینار نصب کئے ہیں۔

لَمْ تُثْقِلْهُمْ مُوْصِرَاتُ الْاٰثَامِ، وَ لَمْ تَرْتَحِلْهُمْ عُقَبُ اللَّیَالِیْ وَ الْاَیَّامِ، وَ لَمْ تَرْمِ الشُّكُوْكُ بِنَوَازِعِهَا عَزِیْمَةَ اِیْمَانِهِمْ، وَ لَمْ تَعْتَرِكِ الظُّنُوْنُ عَلٰی مَعَاقِدِ یَقِیْنِهِمْ، وَ لَا قَدَحَتْ قَادِحَةُ الْاِحَنِ فِیْمَا بَیْنَهُمْ، وَ لَا سَلَبَتْهُمُ الْحَیْرَةُ مَا لَاقَ مِنْ مَّعْرِفَتِهٖ بِضَمَآئِرِهِمْ، وَ مَا سَكَنَ مِنْ عَظَمَتِهٖ وَ هَیْبَةِ جَلَالَتِهٖ فِیْۤ اَثْنَآءِ صُدُوْرِهِمْ، وَ لَمْ تَطْمَعْ فِیْهِمُ الْوَسَاوِسُ فَتَقْتَرِعَ بِرَیْنِهَا عَلٰی فِكْرِهِمْ.

نہ گناہوں کی گرانباریوں نے انہیں دبا رکھا ہے، نہ شب و روز کی گردشوں نے ان پر (سواری کیلئے) پالان ڈالے ہیں اور نہ شکوک و شبہات نے ان کے ایمان کے استحکام پر تیر چلائے ہیں اور نہ ان کے یقین کی پختگیوں پر (اوہام و) ظنون نے دھاوا بولا ہے اور نہ ان کے درمیان کبھی کینہ و حسد کی چنگاریاں بھڑکی ہیں اور نہ حیرانی و سراسیمگی ان کے دلوں میں سرایت کی ہوئی معرفت اور ان کے سینے کی تہوں میں جمی ہوئی عظمت خداوندی و ہیبت ِجلال الٰہی کو چھین سکی ہے، نہ کبھی وسوسوں نے ان پر دندان آز تیز کیا ہے کہ ان کے فکروں کو زنگ و تکدر سے آلودہ کر دیں۔

مِنْهُمْ مَنْ هُوَ فِیْ خَلْقِ الْغَمَامِ الدُّلَّحِ، وَ فِیْ عِظَمِ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ، وَ فِیْ قَتْرَةِ الظَّلَامِ الْاَیْهَمِ، وَ مِنْهُمْ مَنْ قَدْ خَرَقَتْ اَقْدَامُهُمْ تُخُوْمَ الْاَرْضِ السُّفْلٰی، فَهِیَ كَرَایَاتٍ بِیْضٍ قَدْ نَفَذَتْ فِیْ مَخَارِقِ الْهَوَآءِ، وَ تَحْتَهَا رِیْحٌ هَفَّافَةٌ تَحْبِسُهَا عَلٰی حَیْثُ انْتَهَتْ مِنَ الْحُدُوْدِ الْمُتَنَاهِیَةِ.

ان میں کچھ وہ ہیں جو اللہ کے پیدا کردہ بوجھل بادلوں اور اونچے پہاڑوں کی بلندیوں اور گھٹا ٹوپ اندھیروں کی سیاہیوں کی صورتوں میں ہیں اور ان میں کچھ وہ ہیں جن کے قدم تحت الثریٰ کی حدوں کو چیر کر نکل گئے ہیں تو وہ سفید جھنڈوں کے مانند ہیں جو فضا کی وسعت کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ گئے ہیں اور ان پھریروں کے آخری سرے تک ایک ہلکی ہوا چل رہی ہے جو انہیں روکے ہوئے ہے۔

قَدِ اسْتَفْرَغَتْهُمْ اَشْغَالُ عِبَادَتِهٖ، وَ وَصَلَتْ حَقَآئِقُ الْاِیْمَانِ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَعْرِفَتِهٖ، وَ قَطَعَهُمُ الْاِیْقَانُ بِهٖۤ اِلَی الْوَلَهِ اِلَیْهِ، وَ لَمْ تُجَاوِزْ رَغَبَاتُهُمْ مَا عِنْدَهٗ اِلٰی مَا عِنْدَ غَیْرِهٖ.

ان فرشتوں کو عبادت کی مشغولیتوں نے ہر چیز سے بے فکر بنا دیا اور ایمان کے ٹھوس عقیدے ان کیلئے اللہ کی معرفت کا وسیلہ بن گئے ہیں اور یقین کامل نے اوروں سے ہٹا کر اسی سے ان کی لو لگا دی ہے۔ اللہ کی طرف کی نعمتوں کے سوا کسی غیر کے عطا و انعام کی انہیں خواہش ہی نہیں ہوتی۔

قَدْ ذَاقُوْا حَلَاوَةَ مَعْرِفَتِهٖ، وَ شَرِبُوْا بِالْكَاْسِ الرَّوِیَّةِ مِنْ مَّحَبَّتِهٖ، وَ تَمَكَّنَتْ مِنْ سُوَیْدَآءِ قُلُوْبِهِمْ وَ شِیْجَةُ خِیْفَتِهٖ، فَحَنَوْا بِطُوْلِ الطَّاعَةِ اعْتِدَالَ ظُهُوْرِهِمْ، وَ لَمْ یُنْفِدْ طُوْلُ الرَّغْبَةِ اِلَیْهِ مَادَّةَ تَضَرُّعِهِمْ، وَ لَاۤ اَطْلَقَ عَنْهُمْ عَظِیْمُ الزُّلْفَةِ رِبَقَ خُشُوْعِهِمْ.

انہوں نے معرفت کے شیریں مزے چکھے ہیں اور اس کی محبت کے سیراب کرنے والے جام سے سرشار ہیں اور ان کے دلوں کی تہ میں اس کا خوف جڑ پکڑ چکا ہے، تو انہوں نے لمبی چوڑی عبادتوں سے اپنی سیدھی کمریں ٹیڑھی کر لی ہیں اور ہمہ وقت اسی کی طلب میں لگے رہنے کے باوجود ان کے تضرع و عاجزی کے ذخیرے ختم نہیں ہوتے اور قرب الٰہی کی بلندیوں کے باوجود خوف و خشوع کے پھندے ان (کے گلے ) سے نہیں اترتے۔

وَ لَمْ یَتَوَلَّهُمُ الْاِعْجَابُ فَیَسْتَكْثِرُوْا مَا سَلَفَ مِنْهُمْ، وَ لَا تَرَكَتْ لَهُمُ اسْتِكَانَةُ الْاِجْلَالِ نَصِیْبًا فِیْ تَعْظِیْمِ حَسَنَاتِهمْ، وَ لَمْ تَجْرِ الْفَتَرَاتُ فِیْهِمْ عَلٰی طُوْلِ دُؤٗبِهِمْ، وَ لَمْ تَغِضْ رَغَبَاتُهُمْ فَیُخَالِفُوْا عَنْ رَّجَآءِ رَبِّهِمْ، وَ لَمْ تَجِفَّ لِطُوْلِ الْمُنَاجَاةِ اَسَلَاتُ اَلْسِنَتِهِمْ، وَ لَا مَلَكَتْهُمُ الْاَشْغَالُ فَتَنْقَطِعَ بِهَمْسِ الْجُؤَارِ اِلَیْهِ اَصْوَاتُهُمْ، وَ لَمْ تَخْتَلِفْ فِیْ مَقَاوِمِ الطّاعَةِ مَنَاكِبُهُمْ، وَ لَمْ یَثْنُوْۤا اِلٰی رَاحَةِ التَّقْصِیْرِ فِیْۤ اَمْرِهٖ رِقَابَهُمْ، وَ لَا تَعْدُوْ عَلٰی عَزِیْمَةِ جِدِّهِمْ بَلَادَةُ الْغَفَلَاتِ، وَ لَا تَنْتَضِلُ فِیْ هِمَمِهِمْ خَدَآئِعُ الشَّهَوَاتِ.

نہ ان میں کبھی خود پسندی پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے گزشتہ اعمال کو زیادہ خیال کرنے لگیں اور نہ جلال پروردگار کے سامنے ان کے عجز و انکسار نے یہ موقع آنے دیا ہے کہ وہ اپنی نیکیوں کو بڑا سمجھ سکیں۔ ان میں مسلسل تعب اٹھانے کے باوجود بھی سستی نہیں آنے پاتی اور نہ ان کی طلب و رغبت میں کبھی کمی پیدا ہوئی ہے کہ وہ اپنے پالنے والے کے توقعات سے روگرداں ہو جائیں اور نہ مسلسل مناجاتوں سے ان کی زبان کی نوکیں خشک ہوتی ہیں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ وہ دوسرے اشغال کی وجہ سے تضرع و زاری کی آوازوں کو دھیما کر لیں اور نہ عبادت کی صفوں میں ان کے شانے آگے پیچھے ہو جاتے ہیں اور نہ وہ آرام و راحت کی خاطر اس کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی کر کے اپنی گردنوں کو ادھر سے ادھر کرتے ہیں، نہ ان کی کوششوں کے عزم پر غفلت کی نادانیاں حملہ آور ہوتی ہیں، اور نہ ان کی (بلند) ہمتوں میں فریب دینے والے وسوسوں کا گزر ہوتا ہے۔

قَدِ اتَّخَذُوْا ذَا الْعَرْشِ ذَخِیْرَةً لِّیَوْمِ فَاقَتِهِمْ، وَ یَمَّمُوْهُ عِنْدَ انْقِطَاعِ الْخَلْقِ اِلَی الْمَخْلُوْقِیْنَ بِرَغْبَتِهِمْ، لَا یَقْطَعُوْنَ اَمَدَ غَایَةِ عِبَادَتِهٖ، وَ لَا یَرْجِـعُ بِهِمُ الْاِسْتِهْتَارُ بِلُزُوْمِ طَاعَتِهٖ، اِلَّاۤ اِلٰی مَوَادَّ مِنْ قُلُوْبِهِمْ غَیْرِ مُنْقَطِعَةٍ مِّنْ رَّجَآئِهٖ وَ مَخَافَتِهٖ، لَمْ تَنْقَطِعْ اَسْبَابُ الشَّفَقَةِ مِنْهُمْ، فَیَنُوْا فِیْ جِدِّهِمْ، وَ لَمْ تَاْسِرْهُمُ الْاَطْمَاعُ فَیُؤْثِرُوْا وَشِیْكَ السَّعْیِ عَلَی اجْتِهَادِهِمْ. وَ لَمْ یَسْتَعْظِمُوْا مَا مَضٰی مِنْ اَعْمَالِهِمْ، وَ لَوِ اسْتَعْظَمُوْا ذٰلِكَ لَنَسَخَ الرَّجَآءُ مِنْهُمْ شَفَقَاتِ وَجَلِهِمْ، وَ لَمْ یَخْتَلِفُوْا فِیْ رَبِّهِمْ بِاسْتِحْوَاذِ الشَّیْطٰنِ عَلَیْهِمْ، وَ لَمْ یُفَرِّقْهُمْ سُوْٓءُ التَّقَاطُعِ، وَ لَاتَوَلَّاهُمْ غِلُّ التَّحَاسُدِ، وَ لَا تَشَعَّبَتْهُمْ مَصَارِفُ الرِّیْبِ، وَ لَا اقْتَسَمَتْهُمْ اَخْیَافُ الْهِمَمِ.

انہوں نے احتیاج کے دن کیلئے صاحب عرش کو اپنا ذخیرہ بنا رکھا ہے اور جب دوسرے لوگ مخلوقات کی طرف اپنی خواہشوں کو لے کر بڑھتے ہیں تو یہ بس اسی سے لو لگاتے ہیں۔ وہ اس کی عبادت کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتے۔ انہیں عبادت کا والہانہ شوق (کسی اور طرف لے جانے کے بجائے) ان کی قلبی امید و بیم کے ان ہی سر چشموں کی طرف لے جاتا ہے جن کے سوتے کبھی موقوف نہیں ہوتے۔ خوف کھانے کے وجوہ ختم نہیں ہوئے کہ وہ اپنی کوششوں میں سستی کریں اور نہ دنیا کے طمعوں نے انہیں جکڑ رکھا ہے کہ وہ دنیا کیلئے وقتی کوششوں کو اپنی اس جدوجہد پر ترجیح دیں اور نہ انہوں نے اپنے سابقہ اعمال کو کبھی بڑا سمجھا ہے اور اگر بڑا سمجھتے تو پھر امیدیں خوف خدا کے اندیشوں کو ان (کے صفحہ دل) سے مٹا دیتیں اور نہ شیطان کے ورغلانے سے ان میں باہم اپنے پروردگار کے متعلق کبھی کوئی اختلاف پیدا ہوا اور نہ ایک دوسرے سے کٹنے (اور بگاڑ پیدا کرنے) کی وجہ سے پراگندہ و متفرق ہوئے اور نہ آپس میں حسد رکھنے کے سبب سے ان کے دلوں میں کینہ و بغض پیدا ہوا اور نہ شک و شبہات میں پڑنے کی وجہ سے تتر بتر ہوئے اور نہ پست ہمتیوں نے ان پر کبھی قبضہ کیا۔

فَهُمْ اُسَرَآءُ اِیْمَانٍ لَّمْ یَفُكَّهُمْ مِنْ رِّبْقَتِهٖ زَیَغٌ وَّ لَا عُدُوْلٌ وَّ لَا وَنًی وَّ لَا فُتُوْرٌ، وَ لَیْسَ فِیْۤ اَطْبَاقِ السَّمَآءِ مَوْضِعُ اِهَابٍ اِلَّا وَ عَلَیْهِ مَلَكٌ سَاجِدٌ، اَوْ سَاعٍ حَافِدٌ، یَزْدَادُوْنَ عَلٰی طُوْلِ الطَّاعَةِ بِرَبِّهِمْ عِلْمًا، وَ تَزْدَادُ عِزَّةُ رَبِّهِمْ فِیْ قُلُوْبِهِمْ عِظَمًا.

وہ ایمان کے پابند ہیں، انہیں اس کے بندھنوں سے کجی، روگردانی سستی یا کاہلی نے کبھی نہیں چھڑایا۔ سطح آسمان پر کھال کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں کہ جہاں کوئی سجدہ کرنے والا فرشتہ یا تیزی سے تگ و دو کرنے والا ملک نہ ہو، پروردگار کی اطاعت کے بڑھنے سے ان کے علم میں زیادتی ہی ہوتی رہتی ہے اور ان کے دلوں میں اس کی عزت کی عظمت و جلالت بڑھتی ہی جاتی ہے۔

[وَ مِنْهَا: فِیْ صِفَةِ الْاَرْضِ وَ دَحْوِهَا عَلَی الْمَآءِ]

[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے جس میں زمین اور اس کے پانی پر بچھائے جانے کی کیفیت بیان فرمائی ہے]

كَبَسَ الْاَرْضَ عَلٰی مَوْرِ اَمْوَاجٍ مُّسْتَفْحِلَةٍ، وَ لُجَجِ بِحَارٍ زَاخِرَةٍ، تَلْتَطِمُ اَوَاذِیُّ اَمْوَاجِهَا، وَ تَصْطَفِقُ مُتَقَاذِفَاتُ اَثْبَاجِهَا، وَ تَرْغُوْ زَبَدًا كَالْفُحُوْلِ عِنْدَ هِیَاجِهَا، فَخَضَعَ جِمَاحُ الْمَآءِ الْمُتَلَاطِمِ لِثِقَلِ حَمْلِهَا، وَ سَكَنَ هَیْجُ ارْتِمَآئِهٖ اِذْ وَطِئَتْهُ بِكَلْكَلِهَا، وَ ذَلَّ مُسْتَخْذِیًا اِذْ تَمعَّكَتْ عَلَیْهِ بِكَوَاهِلِهَا، فَاَصْبَحَ بَعْدَ اصْطِخَابِ اَمْوَاجِهٖ، سَاجِیًا مَّقْهُوْرًا، وَ فِیْ حَكَمَةِ الذُّلِّ مُنْقَادًا اَسِیْرًا، وَ سَكَنَتِ الْاَرْضُ مَدْحُوَّةً فِیْ لُجَّةِ تَیَّارِهٖ، وَ رَدَّتْ مِنْ نَّخْوَةِ بَاْوِهٖ وَ اعْتِلَآئِهٖ، وَ شُمُوْخِ اَنْفِهٖ وَ سُمُوِّ غُلَوَآئِهٖ، وَ كَعَمَتْهُ عَلٰی كِظَّةِ جَرْیَتِهٖ، فَهَمَدَ بَعْدَ نَزَقَاتِهٖ، وَ لَبَدَ بَعْدَ زَیَفَانِ وَثَبَاتِهٖ.

(اللہ نے) زمین کو تہ و بالا ہونے والی مہیب لہروں اور بھر پور سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں کے اوپر پاٹا، جہاں موجیں موجوں سے ٹکرا کر تھپیڑے کھاتی تھیں اور لہریں لہروں کو دھکیل کر گونج اٹھتی تھیں اور اس طرح پھین دے رہی تھیں جس طرح مستی و ہیجان کے عالم میں نر اونٹ۔ چنانچہ اس متلاطم پانی کی طغیانیاں زمین کے بھاری بوجھ کے دباؤ سے فرو ہو گئیں اور جب اس نے اپنا سینہ اس پر ٹیک کر اسے روندا تو سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا اور جب اپنے شانے ٹکا کر اس پر لوٹی تو وہ ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ رام ہو گیا۔ کہاں تو اس کی موجیں دندنا رہی تھیں کہ اب عاجز و بے بس ہو کر تھم گیا اور ذلت کی لگاموں میں اسیر ہو کر مطیع ہو گیا اور زمین اس طوفان خیز پانی کے گہراؤ میں اپنا دامن پھیلا کر ٹھہر گئی اور اس کے اٹھلانے اور سر اٹھانے کے غرور اور تکبر سے ناک اوپر چڑھانے اور بہاؤ میں تفوق و سر بلندی دکھانے کا خاتمہ کر دیا اور اس کی روانی کی بے اعتدالیوں پر ایسے بند باندھے کہ وہ اچھلنے کودنے کے بعد(بالکل بے دم) ہو کر ٹھہر گیا اور جست و خیز کی سر مستیاں دکھا کر تھم گیا۔

فَلَمَّا سَكَنَ هَیْجُ الْمَآءِ مِنْ تَحْتِ اَكْنَافِهَا، وَ حَمَلَ شَوَاهِقَ الْجِبَالِ الشُّمَّخِ الْبُذَّخِ عَلٰۤی اَكْتَافِهَا، فَجَّرَ یَنَابِیْعَ الْعُیُوْنِ مِنْ عَرَانِیْنِ اُنُوْفِهَا، وَ فَرَّقَهَا فِیْ سُهُوْبِ بِیْدِهَا وَ اَخَادِیْدِهَا، وَ عَدَّلَ حَرَكَاتِهَا بِالرَّاسِیَاتِ مِنْ جَلَامِیْدِهَا، وَ ذَوَاتِ الشَّنَاخِیْبِ الشُّمِّ مِنْ صَیَاخِیْدِهَا، فَسَكَنَتْ مِنَ الْمَیَدَانِ لِرُسُوْبِ الْجِبَالِ فِیْ قِطَعِ اَدِیْمِهَا، وَ تَغَلْغُلِهَا مُتَسَرِّبَةً فِیْ جَوْبَاتِ خَیَاشِیْمِهَا، وَ رُكُوْبِهَاۤ اَعْنَاقَ سُهُوْلِ الْاَرَضِیْنَ وَ جَرَاثِیْمِهَا،

جب اس کے کناروں کے نیچے پانی کی طغیانی کا زور و شور سکون پذیر ہوا اور اس کے کاندھوں پر اونچے اونچے اور چوڑے چکلے پہاڑوں کا بوجھ لد گیا تو (اللہ نے) اس کی ناک کے بانسوں سے پانی کے چشمے جاری کر دیے جنہیں دور و دراز جنگلوں اور کھدے ہوئے گڑھوں میں پھیلا دیا اور پتھروں کی مضبوط چٹانوں اور بلند چوٹیوں والے پتھریلے پہاڑوں سے اس کی حرکت میں اعتدال پیدا کیا۔ چنانچہ اس کی سطح کے مختلف حصوں میں پہاڑوں کے ڈوب جانے اور اس کی گہرائیوں کی تہ میں گھس جانے اور اس کے ہموار حصوں کی بلندیوں اور پست سطحوں پر سوار ہو جانے کی وجہ سے اس کی تھرتھراہٹ جاتی رہی۔

وَ فَسَحَ بَیْنَ الْجَوِّ وَ بَیْنَهَا، وَ اَعَدَّ الْهَوَآءَ مُتَنَسَّمًا لِّسَاكِنِهَا، وَ اَخْرَجَ اِلَیْهَاۤ اَهْلَهَا عَلٰی تَمَامِ مَرَافِقِهَا.

اور اللہ نے زمین سے لے کر فضائے بسیط تک پھیلاؤ اور وسعت رکھی اور اس میں رہنے والوں کو سانس لینے کو ہوا مہیا کی اور اس میں بسنے والوں کو ان کی تمام ضروریات کے ساتھ ٹھہرایا۔

ثُمَّ لَمْ یَدَعْ جُرُزَ الْاَرْضِ الَّتِیْ تَقْصُرُ مِیَاهُ الْعُیُوْنِ عَنْ رَّوَابِیْهَا، وَ لَا تَجِدُ جَدَاوِلُ الْاَنْهَارِ ذَرِیْعَةً اِلٰی بُلُوْغِهَا، حَتّٰۤی اَنْشَاَ لَهَا نَاشِئَةَ سَحَابٍ تُحْیِیْ مَوَاتَهَا، وَ تَسْتَخْرِجُ نَبَاتَهَا. اَلَّفَ غَمَامَهَا بَعْدَ افْتِرَاقِ لُمَعِهٖ، وَ تَبَایُنِ قَزَعِهٖ. حَتّٰی اِذَا تَمَخَّضَتْ لُجَّةُ الْمُزْنِ فِیْهِ، وَ الْتَمَعَ بَرْقُهٗ فِیْ كُفَفِهٖ، وَ لَمْ یَنَمْ وَمِيْضُهٗ فِیْ كَنَهْوَرِ رَبَابِهٖ، وَ مُتَرَاكِمِ سَحَابِهٖ، اَرْسَلَهٗ سَحًّا مُّتَدَارِكًا، قَدْ اَسَفَّ هَیْدَبُهٗ، تَمْرِیْهِ الْجَنُوْبُ دِرَرَ اَهَاضِیْبِهٖ، وَ دَفْعَ شَاٰبِیْبِهٖ.

پھر اس نے چٹیل زمینوں کو کہ جن کی بلندیوں تک نہ چشموں کا پانی پہنچ سکتا ہے اور نہ نہروں کے نالے وہاں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ رکھتے ہیں، یونہی نہیں رہنے دیا، بلکہ ان کیلئے ہوا پر اٹھنے والی گھٹائیں پیدا کیں جو مردہ زمین میں زندگی کی لہریں دوڑا دیتی ہیں اور اس سے گھاس پات اُگاتی ہیں۔اس نے ابر کی بکھری ہوئی چمکیلی ٹکڑیوں اور پراگندہ بدلیوں کو یکجا کر کے اَبر محیط بنایا اور جب اس کے اندر پانی کے ذخیرے حرکت میں آ گئے اور اس کے کناروں میں بجلیاں تڑپنے لگیں اور برق کی چمک سفید اَبروں کی تہوں اور گھنے بادلوں کے اندر مسلسل جاری رہی تو اللہ نے انہیں موسلا دھار برسنے کیلئے بھیج دیا۔ اس طرح کہ اس کے پانی سے بھرے ہوئے بوجھل ٹکڑے زمین پر منڈلا رہے تھے اور جنوبی ہوائیں انہیں مسل مسل کر برسنے والے مینہ کی بوندیں اور ایک دم ٹوٹ پڑنے والی بارش کے جھالے برسا رہی تھیں۔

فَلَمَّاۤ اَلْقَتِ السَّحَابُ بَرْكَ بِوَانِیْهَا، وَ بَعَاعَ مَا اسْتَقَلَّتْ بِهٖ مِنَ الْعِبْءِ الْمَحْمُوْلِ عَلَیْهَا، اَخْرَجَ بِهٖ مِنْ هَوَامِدِ الْاَرْضِ النَّبَاتَ، وَ مِنْ زُعْرِ الْجِبَالِ الْاَعْشَابَ، فَهِیَ تَبْهَجُ بِزِیْنَةِ رِیَاضِهَا، وَ تَزْدَهِیْ بِمَاۤ اُلْبِسَتْهُ مِنْ رَّیْطِ اَزَاهِیْرِهَا، وَ حِلْیَةِ مَا سُمِطَتْ بِهٖ مِنْ نَّاضِرِ اَنْوَارِهَا، وَ جَعَلَ ذٰلِكَ بَلَاغًا لِّلْاَنَامِ، وَ رِزْقًا لِّلْاَنْعَامِ، وَ خَرَقَ الْفِجَاجَ فِیْۤ اٰفَاقِهَا، وَ اَقَامَ الْمَنَارَ لِلسَّالِكِیْنَ عَلٰی جَوَادِّ طُرُقِهَا.

جب بادلوں نے اپنا سینہ ہاتھ پیروں سمیت زمین پر ٹیک دیا اور پانی کا سارا لدا لدایا بوجھ اس پر پھینک دیا تو اللہ نے افتادہ زمینوں سے سر سبز کھیتیاں اُگائیں اور خشک پہاڑوں پر ہرا بھرا سبزہ پھیلا دیا۔ زمین بھی اپنے مرغزاروں کے بناؤ سنگار سے خوش ہو کر جھومنے لگی اور ان شگوفوں کی اوڑھنیوں سے جو اسے اوڑھا دی گئی تھیں اور ان شگفتہ و شاداب کلیوں کے زیوروں سے جو اسے پہنا دیئے گئے تھے، اترانے لگی۔ اللہ نے ان چیزوں کو لوگوں کی زندگی کا وسیلہ اور چوپائیوں کا رزق قرار دیا ہے اور اسی نے زمین کی سمتوں میں کشادہ راستے نکالے ہیں اور اس کی شاہراہوں پر چلنے والوں کیلئے روشنی کے مینار نصب کئے ہیں۔

فَلَمَّا مَهَدَ اَرْضَهٗ، وَ اَنْفَذَ اَمْرَهٗ، اخْتَارَ اٰدَمَ ؑ، خِیْرَةً مِّنْ خَلْقِهٖ، وَ جَعَلَهٗ اَوّلَ جِبِلَّتِهٖ، وَ اَسْكَنَهٗ جَنَّتَهٗ، وَ اَرْغَدَ فِیْهَاۤ اُكُلَهٗ، وَ اَوْعَزَ اِلَیْهِ فِیْمَا نَهَاهُ عَنْهُ، وَ اَعْلَمَهٗ اَنَّ فِی الْاِقْدَامِ عَلَیْهِ التَّعَرُّضَ لِمَعْصِیَتِهٖ، وَ الْمُخَاطَرَةَ بِمَنْزِلَتِهٖ فَاَقْدَمَ عَلٰی مَا نَهَاهُ عَنْهُ ـ مُوَافَاةً لِّسَابِقِ عِلْمِهٖ ـ فَاَهْبَطَهٗ بَعْدَ التَّوْبَةِ لِیَعْمُرَ اَرْضَهٗ بِنَسْلِهٖ، وَ لِیُقِیْمَ الْحُجَّةَ بِهٖ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لَمْ یُخْلِهِمْ بَعْدَ اَنْ قَبَضَهٗ، مِمَّا یُؤَكِّدُ عَلَیْهِمْ حُجَّةَ رُبُوْبِیَّتِهٖ، وَ یَصِلُ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَعْرِفَتِهٖ، بَلْ تَعَاهَدَهُمْ بِالْحُجَجِ عَلٰۤی اَلْسُنِ الْخِیَرَةِ مِنْۢ اَنْۢبِیَآئِهٖ، وَ مُتَحَمِّلِیْ وَدَآئِعِ رِسَالَاتِهٖ، قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتّٰی تَمَّتْ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ ﷺ -حُجَّتُهٗ، وَ بَلَغَ الْمَقْطَعَ عُذْرُهٗ وَ نُذُرُهٗ.

جب اللہ نے فرشِ زمین بچھا لیا اور اپنا کام پورا کر لیا تو آدم علیہ السلام کو دوسری مخلوق کے مقابلہ میں برگزیدہ ہونے کی وجہ سے منتخب کر لیا اور انہیں نوع انسانی کی فرد اوّل قرار دیا اور انہیں اپنی جنت میں ٹھہرایا جہاں دل کھول کر ان کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور جس سے منع کرنا تھا اس سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا اور یہ بتا دیا تھا کہ اس کی طرف قدم بڑھانے میں عدول حکمی کی آلائش ہے اور اپنے مرتبہ کو خطرہ میں ڈالنا ہے، لیکن جس چیز سے انہیں روکا تھا انہوں نے اسی کا رخ کیا، جیسا کہ پہلے ہی سے اس کے علم میں تھا۔ چنانچہ توبہ کے بعد انہیں جنت سے نیچے اتار دیا، تاکہ اپنی زمین کو ان کی اولاد سے آباد کرے اور ان کے ذریعے بندوں پر حجت پیش کرے۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو اٹھا لینے کے بعد بھی اپنی مخلوق کو ایسی چیزوں سے خالی نہیں رکھا جو اس کی ربوبیت کی دلیلوں کو مضبوط کرتی رہیں اور بندوں کیلئے اس کی معرفت کا ذریعہ بنی رہیں اور یکے بعد دیگرے ہر دور میں وہ اپنے برگزیدہ نبیوں اور رسالت کے امانتداروں کی زبانوں سے حجت کے پہنچانے کی تجدیدکرتا رہا، یہاں تک کہ ہمارے نبی محمد ﷺ کے ذریعہ وہ حجت (پوری طرح) تمام ہو گئی اور حجت پورا کرنا اور ڈرا دیا جانا اپنے نقطۂ اختتام کو پہنچ گیا۔

وَ قَدَّرَ الْاَرْزَاقَ فَكَثَّرَهَا وَ قَلَّلَهَا، وَ قَسَّمَهَا عَلَی الضِّیْقِ وَ السَّعَةِ فَعَدَلَ فِیْهَا لِیَبْتَلِیَ مَنْ اَرَادَ بِمَیْسُوْرِهَا وَ مَعْسُوْرِهَا، وَ لِیَخْتَبِرَ بِذٰلِكَ الشُّكْرَ وَ الصَّبْرَ مِنْ غَنِیِّهَا وَ فَقِیْرِهَا، ثُمَّ قَرَنَ بِسَعَتِهَا عَقَابِیْلَ فَاقَتِهَا، وَ بِسَلَامَتِهَا طَوَارِقَ اٰفَاتِهَا، وَ بِفُرَجِ اَفْرَاحِهَا غُصَصَ اَتْرَاحِهَا.

اس نے روزیاں مقرر کر رکھی ہیں [۳] ، (کسی کیلئے ) زیادہ اور (کسی کیلئے) کم اور اس کی تقسیم میں کہیں تنگی رکھی ہے اور کہیں فراخی اور یہ بالکل عدل کے مطابق تھا۔ اس طرح کہ اس نے جس جس صورت سے چاہا امتحان لیا ہے۔ رزق کی آسانی یا دشواری کے ساتھ اور مال دار اور فقیر کے شکر اور صبر کو جانچا ہے۔ پھر اس نے رزق کی فراخیوں کے ساتھ فقر و فاقہ کے خطرے اور اس کی سلامتیوں میں نت نئی آفتوں کے دغدغے اور فراخی و وسعت کی شادمانیوں کے ساتھ غم و غصہ کے گلوگیر پھندے بھی لگا رکھے ہیں۔

وَ خَلَقَ الْاٰجَالَ فَاَطَالَهَا وَ قَصَّرَهَا، وَ قَدَّمَهَا وَ اَخَّرَهَا، وَ وَصَلَ بِالْمَوْتِ اَسْبَابَهَا، وَ جَعَلَهٗ خَالِجًا لِّاَشْطَانِهَا، وَ قَاطِعًا لِّمَرَآئِرِ اَقْرَانِهَا.

اس نے زندگی کی (مختلف) مدتیں مقرر کی ہیں، کسی کو زیادہ، کسی کو کم، کسی کو آگے اور کسی کو پیچھے کر دیا ہے اور ان مدتوں کی رسیوں کی موت سے گرہ لگا دی ہے اور وہ موت ان کو کھینچے لئے جاتی ہے اور ان کے مضبوط رشتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کئے دیتی ہے۔

عَالِمُ السِّرِّ مِنْ ضَمَآئِرِ الْمُضْمِرِیْنَ، وَ نَجْوَی الْمُتَخَافِتِیْنَ، وَ خَوَاطِرِ رَجْمِ الظُّنُوْنِ، وَ عُقَدِ عَزِیْمَاتِ الْیَقِیْنِ، وَ مَسَارِقِ اِیْمَاضِ الْجُفُوْنِ، وَ مَا ضَمِنَتْهُ اَكْنَانُ الْقُلُوْبِ وَ غَیَابَاتُ الْغُیُوْبِ، وَ مَاۤ اَصْغَتْ لِاسْتِرَاقِهٖ مَصَآئِخُ الْاَسْمَاعِ، وَ مَصَآئِفِ الذَّرِّ، وَ مَشَاتِی الْهَوَامِّ، وَ رَجْعِ الْحَنِیْنِ مِنْ الْمُوْلَهَاتِ، وَ هَمْسِ الْاَقْدَامِ، وَ مُنْفَسَحِ الثَّمَرَةِ مِنْ وَلَآ ئِجِ غُلُفِ الْاَكْمَامِ، وَ مُنْقَمَعِ الْوُحُوْشِ مِنْ غِیْرَانِ الْجِبَالِ وَ اَوْدِیَتِهَا، وَ مُخْتَبَاِ الْبَعُوْضِ بَیْنَ سُوْقِ الْاَشْجَارِ وَ اَلْحِیَتِهَا، وَ مَغْرَزِ الْاَوْرَاقِ مِنَ الْاَفْنَانِ، وَ مَحَطِّ الْاَمْشَاجِ مِنْ مَّسَارِبِ الْاَصْلَابِ، وَ نَاشِئَةِ الْغُیُوْمِ وَ مُتَلَاحِمِهَا، وَ دُرُوْرِ قَطْرِ السَّحَابِ فِیْ مُتَرَاكِمِهَا، وَ مَا تَسْفِی الْاَعَاصِیْرُ بِذُیُوْلِهَا، وَ تَعْفُو الْاَمْطَارُ بِسُیُوْلِهَا، وَ عَوْمِ بَنَاتِ الْاَرْضِ فِیْ كُثْبَانِ الرِّمَالِ، وَ مُسْتَقَرِّ ذَوَاتِ الْاَجْنِحَةِ بِذُرٰی شَنَاخِیْبِ الْجِبَالِ، وَ تَغْرِیْدِ ذَوَاتِ الْمَنْطِقِ فِیْ دَیَاجِیْرِ الْاَوْكَارِ، وَ مَاۤ اَوْعَبَتْهُ الْاَصْدَافُ، وَ حَضَنَتْ عَلَیْهِ اَمْوَاجُ الْبِحَارِ، وَ مَا غَشِیَتْهُ سُدْفَةُ لَیْلٍ، اَوْ ذَرَّ عَلَیْهِ شَارِقُ نَهَارٍ، وَ مَاۤ اعْتَقَبَتْ عَلَیْهِ اَطْبَاقُ الدَّیَاجِیْرِ، وَ سُبُحَاتُ النُّوْرِ، وَ اَثَرِ كُلِّ خَطْوَةٍ، وَ حِسِّ كُلِّ حَرَكَةٍ، وَ رَجْعِ كُلِّ كَلِمَةٍ، وَ تَحْرِیْكِ كُلِّ شَفَةٍ، وَ مُسْتَقَرِّ كُلِّ نَسَمَةٍ، وَ مِثْقَالِ كُلِّ ذَرَّةٍ، وَ هَمَاهِمِ كُلِّ نَفْسٍ هَامَّةٍ، وَ مَا عَلَیْهَا مِنْ ثَمَرِ شَجَرَةٍ، اَوْ ساقِطِ وَرَقَةٍ، اَوْ قَرَارَةِ نُطْفَةٍ، اَوْ نُقَاعَةِ دَمٍ وَّ مُضْغَةٍ، اَوْ نَاشِئَةِ خَلْقٍ وَّ سُلَالَةٍ.

وہ بھید چھپانے والوں کی نیتوں [۴] ، کھسر پھسر کرنے والوں کی سرگوشیوں، مظنون اور بے بنیاد خیالوں، دل میں جمے ہوئے یقینی ارادوں، پلکوں (کے نیچے) کنکھیوں کے اشاروں، دل کی تہوں اور غیب کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی چیزوں کو جانتا ہے اور (ان آوازوں کا سننے والا ہے) جن کو کان لگا کر سننے کیلئے کانوں کے سوراخوں کو جھکنا پڑتا ہے اور چیونٹیوں کے موسم گرما کے مسکنوں اور حشرات الارض کے موسمِ سرما بسر کرنے کے مقاموں سے آگاہ ہے اور پسر مردہ عورتوں کے (درد بھرے) نالوں کی گونج اور قدموں کی چاپ کا سننے والا ہے اور سبز پتیوں کے غلافوں کے اندرونی خولوں میں پھلوں کے نشو و نما پانے کی جگہوں اور پہاڑوں کی کھوؤں اور ان کے نشیبوں میں وحشی جانوروں کی پناہ گاہوں اور درختوں کے تنوں اور ان کے چھلکوں میں مچھروں کے سر چھپانے کے سوراخوں اور شاخوں میں پتیوں کے پھوٹنے کی جگہوں اور صلب کی گزر گاہوں میں نطفوں کے ٹھکانوں اور زمین سے اٹھنے والے اَبر کے لکوں اور آپس میں جڑے ہوئے بادلوں اور تہ بہ تہ جمے ہوئے اَبروں سے ٹپکنے والے بارش کے قطروں سے باخبر ہے اور ریگ (بیابان) کے ذرّے جنہیں باد بگولوں نے اپنے دامنوں سے اڑایا ہے اور وہ نشانات جنہیں بارشوں کے سیلابوں نے مٹا ڈالا ہے، اس کے علم میں ہیں اور ریت کے ٹیلوں پر زمین کے کیڑوں کے چلنے پھرنے اور سر بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر پَر و بال رکھنے والے طائروں کے نشیمنوں اور گھونسلوں کی اندھیاریوں میں چہچہانے والے پرندوں کے نغموں کو جانتا ہے اور جن چیزوں کو سیپیوں نے سمیٹ رکھا ہے اور جن چیزوں کو دریا کی موجیں اپنے پہلو کے نیچے دبائے ہوئے ہیں اور جن کو رات (کی تاریک چادروں) نے ڈھانپ رکھا ہے اور جن پر دن کے سورج نے اپنی کرنوں سے نور بکھیرا ہے اور جن پر کبھی ظلمت کی تہیں جم جاتی ہیں اور کبھی نور کے دھارے بہہ نکلتے ہیں پہچانتا ہے۔ وہ ہر قدم کا نشان، ہر چیز کی حس و حرکت، ہر لفظ کی گونج، ہر ہونٹ کی جنبش، ہر جاندار کا ٹھکانا، ہر ذرّے کا وزن اور ہر جی دار کی سسکیوں کی آواز اور جو کچھ بھی اس زمین پر ہے، سب اس کے علم میں ہے۔ وہ درختوں کا پھل ہو یا ٹوٹ کر گرنے والا پتہ، یا نطفے یا منجمد خون کا ٹھکانا اور لوتھڑا یا (اس کے بعد) بننے والی مخلوق اور پیدا ہونے والا بچہ۔

لَمْ تَلْحَقْهُ فِیْ ذٰلِكَ كُلْفَةٌ، وَ لَا اعْتَرَضَتْهُ فِیْ حِفْظِ مَا ابْتَدَعَ مِنْ خَلْقِهٖ عَارِضَةٌ، وَ لَا اعْتَوَرَتْهُ فِیْ تَنْفِیْذِ الْاُمُوْرِ وَ تَدَابِیْرِ الْمَخْلُوْقِیْنَ مَلَالَةٌ وَّ لَا فَتْرَةٌ، بَلْ نَفَذَهُمْ عِلْمُهٗ، وَ اَحْصَاهُمْ عَدُّهٗ، وَ وَسِعَهُمْ عَدْلُهٗ، وَ غَمَرَهُمْ فَضْلُهٗ، مَعَ تَقْصِیْرِهِمْ عَنْ كُنْهِ مَا هُوَ اَهْلُهٗ.

(ان چیزوں کے جاننے میں) اسے کلفت و تعب اٹھانا نہیں پڑی اور نہ اسے اپنی مخلوق کی حفاظت میں کوئی رکاوٹ درپیش ہوئی اور نہ اسے اپنے احکام کے چلانے اور مخلوقات کا انتظام کرنے سے سستی اور تھکن لاحق ہوئی، بلکہ اس کا علم تو ان چیزوں کے اندر تک اترا ہوا ہے اور ایک ایک چیز اس کے شمار میں ہے۔ اس کا عدل ہمہ گیر اور اس کا فضل سب کے شامل حال ہے اور اس کے ساتھ وہ اس کے شایان شان حق کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔

اَللّٰهُمَّ اَنْتَ اَهْلُ الْوَصْفِ الْجَمِیْلِ، وَ التَّعْدَادِ الْكَثِیْرِ، اِنْ تُؤَمَّلْ فَخَیْرُ مَاْمُوْلٍ، وَ اِنْ تُرْجَ فَاَكْرَمُ مَرْجُوٍّ.

اے خدا! تو ہی توصیف و ثنا اور انتہائی درجہ تک سراہے جانے کا مستحق ہے۔ اگر تجھ سے آس لگائی جائے تو تُو دلوں کی بہتریں ڈھارس ہے اور اگر تجھ سے امیدیں باندھی جائیں تو تو بہترین چشمہ امید ہے۔

اَللّٰهُمَّ وَ قَدْ بَسَطْتَّ لِیْ فِیْمَا لَاۤ اَمْدَحُ بِهٖ غَیْرَكَ، وَ لَاۤ اُثْنِیْ بِهٖ عَلٰۤی اَحَدٍ سِوَاكَ، وَ لَاۤ اُوَجِّهُهٗۤ اِلٰی مَعَادِنِ الْخَیْبَةِ وَ مَوَاضِعِ الرِّیْبَةِ، وَ عَدَلْتَ بِلِسَانِیْ عَنْ مَّدَآئِحِ الْاٰدَمِیِّیْنَ، وَ الثَّنَآءِ عَلَی الْمَرْبُوْبِیْنَ الْمَخْلُوْقِیْنَ.

تو نے مجھے ایسی قوت بیان بخشی ہے کہ جس سے تیرے علاوہ کسی کی مدح اور ستائش نہیں کرتا ہوں اور میں اپنی مدح کا رخ کبھی ان لوگوں کی طرف نہیں موڑنا چاہتا جو ناامیدیوں کا مرکز اور بدگمانیوں کے مقامات ہیں، تو نے میری زبان کو انسانوں کی مدح اور پروردہ مخلوق کی تعریف و ثنا سے ہٹا لیا ہے۔

اَللّٰهُمَّ وَ لِكُلِّ مُثْنٍ عَلٰی مَنْ اَثْنٰی عَلَیْهِ مَثُوْبَةٌ مِّنْ جَزَآءٍ، اَوْ عَارِفةٌ مِّنْ عَطَآءٍ، وَ قَدْ رَجَوْتُكَ دَلِیْلًا عَلٰی ذَخَآئِرِ الرَّحْمَةِ وَ كُنُوْزِ الْمَغْفِرَةِ.

بار الٰہا! ہر ثنا گستر کیلئے اپنے ممدوح پر انعام و اکرام اور عطا و بخشش پانے کا حق ہوتا ہے اور میں تجھ سے امید لگائے بیٹھا ہوں، یہ کہ تو رحمت کے ذخیروں اور مغفرت کے خزانوں کا پتا دینے والا ہے۔

اَللّٰهُمَّ وَ هٰذَا مَقَامُ مَنْ اَفْرَدَكَ بِالتَّوْحِیْدِ الَّذِیْ هُوَ لَكَ، وَ لَمْ یَرَ مُستَحِقًّا لِّهٰذِهِ الْمَحَامِدِ وَ الْمَمَادِحِ غَیْرَكَ، وَ بِیْ فَاقَةٌ اِلَیْكَ لَا یَجْبُرُ مَسْكَنَتَهَا اِلَّا فَضْلُكَ، وَ لَا یَنْعَشُ مِنْ خَلَّتِهَا اِلَّا مَنُّكَ وَ جُوْدُكَ، فَهَبْ لَنَا فِیْ هٰذَا الْمَقَامِ رِضَاكَ، وَ اَغْنِنَا عَنْ مَّدِّ الْاَیْدِیْۤ اِلٰی مَنْ سِوَاكَ، ﴿اِنَّكَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۝﴾!.

خدایا! یہ تیرے سامنے وہ شخص کھڑا ہے جس نے تیری توحید و یکتائی میں تجھے منفرد مانا ہے اور ان ستائشوں اور تعریفوں کا تیرے علاوہ کسی کو اہل نہیں سمجھا، میری احتیاج تجھ سے وابستہ ہے، تیری ہی بخششوں اور کامرانیوں سے اس کی بے نوائی کا علاج ہو سکتا ہے اور اس کے فقر و فاقہ کو تیرا ہی جود و احسان سہارا دے سکتا ہے، ہمیں تُو اسی جگہ پر اپنی خوشنودیاں بخش دے اور دوسروں کی طرف دست ِطلب بڑھانے سے بے نیاز کر دے، ’’تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے‘‘ ۔

۱؂اس خطبہ کا نام ’’خطبۂ اشباح‘‘ ہے۔ ’’اشباح‘‘ شبح کی جمع ہے جس کے معنی ڈھانچے کے ہوتے ہیں، چونکہ اس میں ملائکہ اور مختلف قسم کے پیکروں کا تذکرہ ہے، اس لئے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ مسعدہ ابن صدقہ عبدی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ: جب حضرتؑ سائل کے سوال پر برہم ہوئے تو مسجدِ کوفہ میں ایک جم غفیر کے سامنے یہ خطبہ دیا۔

سائل پر برہم ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس کا سوال تکلیف شرعی سے غیر متعلق اور حدود امکان سے باہر تھا۔

۱؂۲خداوند عالم رزق کا ضامن اور روزی کا کفیل ہے، جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:

﴿وَمَا مِنْ دَآ بَّةٍ فِى الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا﴾

زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کے رزق کا ذمہ اللہ نے نہ لیا ہو۔[۱]

لیکن اس کے ضامن رزق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سب کیلئے زندگی و معیشت کے سروسامان مہیا کر دیئے ہیں اور جنگلوں، پہاڑوں، دریاؤں، معدنوں اور زمین کی وسعتوں میں سب کا حصہ یکساں رکھا ہے اور ہر ایک کو ان سے فائدہ اٹھانے کا حق دیا ہے۔ اس کے انعامات کسی ایک سے مخصوص نہیں ہیں اور نہ اس کے رزق کا دروازہ کسی کیلئے بند ہے۔

چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:

﴿كُلًّا نُّمِدُّ هٰٓؤُلَاۤءِ وَهٰٓؤُلَاۤءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ‌ ؕ وَمَا كَانَ عَطَآءُ رَبِّكَ مَحْظُوْرًا‏ ﴾

ہم اِن کی اور اُن کی تمہارے پروردگار کی بخششوں سے مدد کرتے ہیں اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی کیلئے بند نہیں۔[۲]

اب اگر کوئی تن آسانی و سہولت پسندی کی وجہ سے ان چیزوں کو حاصل نہ کرے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے تو ایسا نہیں کہ گھر بیٹھے روزی پہنچ جایا کرے۔ اس نے تو زمین پر گونا گوں نعمتوں کے خوان چن دیئے ہیں، لیکن انہیں حاصل کرنے کیلئے ہاتھ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سمندر کی تہ میں موتی بکھیر دیئے ہیں، لیکن انہیں نکالنے کیلئے غوطہ زنی کی حاجت ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں لعل و جواہر بھر دیئے ہیں، لیکن کوہ کنی کے بغیر ان تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ زمین میں نمو کے خزانے موجود ہیں، مگر تخم پاشی کے بغیر ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ دنیا میں چو طرفہ رزق کے انبار بکھرے ہوئے ہیں، مگر سفر کی مشقتوں کے بغیر انہیں سمیٹا نہیں جا سکتا۔

چنانچہ پروردگار عالم کا ارشاد ہے:

﴿فَامْشُوْا فِىْ مَنَاكِبِهَا وَكُلُوْا مِنْ رِّزْقِهٖ‌ؕ﴾

زمین کے اطراف و جوانب میں چلو پھرو، اور اس کا رزق کھاؤ۔[۳]

اس کے ’’رازق‘‘ ہونے کے یہ معنی نہیں کہ نہ کد و کاوش کرنا پڑے، نہ تلاشِ معاش میں گھر سے نکلنا پڑے اور خود بخود روزی پہنچ جایا کرے۔ بلکہ رازق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے زمین میں نشو و نما کی صلاحیت پیدا کی، روئیدگی کیلئے بادل برسائے، پھل، سبزیاں اور غلے پیدا کئے۔ یہ سب تو اللہ کی طرف سے ہے لیکن ان کا حاصل کرنا انسان کی سعی و عمل سے وابستہ ہے۔ جو جدوجہد کرے گا وہ اپنی کوشش و ریاضت کے ثمرات سے بہرہ اندوز ہوگا اور جو اپنی کوشش سے ہاتھ اٹھا لے گا وہ اپنی سستی و کوتاہی کے نتائج سے دو چار ہو گا۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ‏ ﴾

انسان کو وہی حاصل ہوتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔[۴]

نظامِ قدرت اسی پر قائم ہے کہ ’’بوؤ اور کاٹو‘‘ اور بوئے بغیر روئیدگی کی امید رکھنا اور کئے بغیر نتائج کی آس لگانا غلط ہے۔ اعضا و جوارح ہیں ہی اس لئے کہ انہیں بر سر عمل رکھا جائے۔ چنانچہ حضرت باری کا جناب مریم سلام اللہ علیہا سے خطاب ہے:

﴿ وَهُزِّىْۤ اِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا‏ ﴿۲۵﴾ فَكُلِىْ وَاشْرَبِىْ وَقَرِّىْ عَيْنًا‌ ۚ﴾

تم خرمے کے درخت کا تنا اپنی طرف ہلاؤ، تم پر پکے ہوئے خرمے گریں گے، انہیں کھاؤ اور (چشمے کا پانی ) پیو اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو۔[۵]

قدرت نے حضرت مریم سلام اللہ علیہا کیلئے کھانے پینے کا سامان مہیا کر دیا، لیکن ایسا نہیں کیا کہ خرموں کو درخت سے اتار کر ان کی جھولی میں ڈال دیا ہو، کیونکہ جہاں تک رزق کے پیدا کرنے کا تعلق ہے وہ اسی کا کام ہے، اس لئے درخت کو سر سبز و شاداب کیا، اس میں پھل لگائے اور پھلوں کو پختہ کر دیا۔ لیکن جب انہیں اتارنے کی نوبت آتی ہے تو قدرت دخل نہیں دیتی۔ صرف حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو ان کا کام یاد دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کو ہلائیں اور اپنے رزق کو حاصل کریں۔

اگر اس کی رازقیت کے یہی معنی ہیں کہ ’’جو دیتا ہے وہی دیتا ہے اور جو ملتا ہے اسی کی طرف سے ملتا ہے‘‘ تو پھر انسان جو کچھ بھی کھائے کمائے گا اور جس طرح بھی حاصل کرے گا، وہ اس کیلئے حلال ہی ہو گا۔ خواہ چوری سے حاصل ہو یا رشوت سے، ظلم سے حاصل ہو یا غصب سے۔ کیونکہ یہ اللہ کا فعل اور اس کا دیا ہوا رزق ہو گا جس میں انسان کے اختیار کا کچھ دخل نہ ہو گا اور جہاں کوئی چیز اختیار کے حدود سے باہر ہو اس کیلئے حلال و حرام کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور نہ اس سے کسی قسم کی باز پرس ہوتی ہے، اور جب ایسا نہیں بلکہ اس سے حلال و حرام کا تعلق ہوتا ہے تو پھر اسے انسانی اعمال سے متعلق ہونا چاہئے تا کہ اس سے پوچھا جا سکے کہ اس نے حلال طریقہ سے حاصل کیا ہے یا حرام طریقہ سے۔ البتہ جہاں اس نے اکتساب رزق کی قوتیں ہی نہیں دیں وہاں رزق رسانی کا ذمہ خود لیا ہے۔ چنانچہ شکم مادر میں جنین کیلئے غذا کے پہنچانے کا سروسامان کیا جو اس کی ضرورت اور احتیاج کے مطابق اسے ملتا رہتا ہے، لیکن جب یہی بچہ کار گاہ ہستی میں قدم رکھتا ہے اور ہاتھ پیر ہلانے کی سکت اس میں آ جاتی ہے تو پھر منہ ہلائے بغیر اپنے سر چشمۂ رزق سے غذا حاصل نہیں کر سکتا۔

۳؂کائناتِ ہستی کے نظم و نسق میں جس طرح نتائج کے ترتّب کو انسانی کار گزاریوں سے وابستہ کیا ہے جس سے قوت عمل باطل نہیں ہوتی، اسی طرح ان مساعی کی کامیابی و ناکامی کو اپنی مشیت کا پابند بھی بنایا ہے تا کہ انسان اپنی طاقتِ عمل پر بھروسا کر کے خالق کو نہ بھول جائے۔ یہی ’’جبر و تفویض‘‘ کے درمیان ’’امر بین الامرین‘‘ کا نقطہ ہے۔ چنانچہ جس طرح تمام کائنات میں قدرت کا ہمہ گیر اور محکم قانون کام کر رہا ہے، اسی طرح رزق کی پیداوار اور اس کی تقسیم بھی تدبیر و تقدیر دونوں کی کارفرمائی کے ساتھ اس کے ٹھہرائے ہوئے اندازے کے مطابق ہوتی ہے جو انسانی نتائج عمل کے تناسب اور پھر اس کی حکمت و مصلحت کی کارفرمائی کی وجہ سے کہیں کم ہے اور کہیں زیادہ۔ اب چونکہ سامان معیشت کا وہی خالق و موجد ہے اور اکتسابِ رزق کی قوتیں اس کی بخشی ہوئی ہیں، اس لئے رزق کی کمی و بیشی کی نسبت اسی کی طرف دی گئی ہے کہ اس نے سعی و عمل کے اختلاف اور مصالح عباد کے پیش نظر رزق کے الگ الگ معیار اور مختلف پیمانے مقرر کئے ہیں۔ کہیں افلاس ہے اور کہیں خوش حالی، کہیں تکلیف ہے اور کہیں راحت، کوئی مسرت و اطمینان کے گہوارے میں جھول رہا ہے اور کوئی فقر و ناداری کی سختیاں جھیل رہا ہے۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں ہے:

﴿يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ‌ؕ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ‏ ﴾

اللہ جس کیلئے چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور جس کیلئے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے، بیشک وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔[۶]

امیر المومنین علیہ السلام نے خطبہ ۲۳ میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْاَمْرَ یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ اِلَى الْاَرْضِ كَقَطَرَاتِ الْمَطَرِ اِلٰى كُلِّ نَفْسٍۭ بِمَا قُسِمَ لَهَا مِنْ زِیَادَةٍ اَوْ نُقْصَانٍ.

ہر شخص کے مقسوم میں جو کم یا زیادہ ہے اسے لے کر فرمانِ قضا آسمان سے زمین پر اس طرح اترتے ہیں جس طرح بارش کے قطرے۔

چنانچہ جس طرح بارش کے فیضان کا ایک نظم و انضباط ہے کہ سطح سمندر سے بخارات اٹھیں اور پانی کے ذخیرے اٹھائے ہوئے فضا میں گھنگور گھٹا کی صورت میں پھیل جائیں اور قطرہ قطرہ کر کے اس طرح ٹپکیں کہ قطروں کے تار بندھ جائیں اور میدانی زمینوں اور بلند ٹیلوں کی رگوں اور نسوں کو سیراب کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں اور جہاں نشیب ہو پانی کے خزانے جمع کرتے رہیں تا کہ پیاسے آ کر پئیں، جانور سیراب ہوں اور سوکھی زمینوں کی اس سے آبیاری ہو، یونہی اللہ سبحانہ نے زندگی و معیشت کے تمام سروسامان مہیا کر رکھے ہیں، لیکن اس کی بخشش کا ایک مقررہ اندازہ ہے جس میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا چنانچہ ارشاد قدرت ہے:

﴿وَاِنْ مِّنْ شَىْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآٮِٕنُهٗ وَمَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ‏ ﴾

کوئی چیز ایسی نہیں جس کے (بھر پور) خزانے ہمارے پاس موجود نہ ہوں، لیکن ہم ہر چیز کو مقررہ پیمانے پر بھیجتے ہیں۔[۷]

اگر انسان کی بڑھتی ہوئی طمع و حرص کے پیمانے چھلکنے لگیں تو جس طرح بارش کی فراوانی، روئیدگی اور شادابی کے بجائے فصلیں تباہ کر دیتی ہے، یونہی سامانِ معیشت و ضروریاتِ زندگی کی کثرت، انسان کو اللہ سے بے نیاز اور بغاوت و سرکشی پر آمادہ کر دے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ فرماتا ہے:

﴿وَلَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِى الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ‌ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ‏ ﴾

اگر خدا اپنے بندوں کی روزی میں فراخی کر دے تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگیں۔ وہ تو ایک اندازے پر جس کیلئے جتنا چاہتا ہے بھیجتا ہے اور وہ اپنے بندوں (کی مصلحتوں) سے واقف اور ان پر نظر رکھتا ہے۔[۸]

اور اگر رزق میں کمی کر دے تو جس طرح بارش کا رک جانا زمین کو بنجر اور چوپاؤں کو ہلاک کر دیتا ہے، یونہی ذرائع رزق کی بندش سے انسانی معاشرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے اور زندگی و معیشت کا کوئی سروسامان باقی نہ رہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:

﴿اَمَّنْ هٰذَا الَّذِىْ يَرْزُقُكُمْ اِنْ اَمْسَكَ رِزْقَهٗ‌ ۚ﴾

اگر خدا اپنی روزی کو روک لے تو کون ایسا ہے جو تمہیں روزی دے۔[۹]

لہٰذا اس حکیم و دانا نے ایک متناسب و معتدل طریقہ پر نظام رزق جاری کیا ہے اور رزق و روزی کی اہمیت ظاہر کرنے اور ایک کو دوسرے سے مرتبط رکھنے کیلئے رزق کی تقسیم میں تفرقے پیدا کر دیئے ہیں۔ یہ تفرقہ اور غیر مساویانہ تقسیم کبھی خود انسانی مساعی کے اختلاف کا نتیجہ ہوتی ہے اور کبھی نظام عالم کے مجموعی مفاد اور اس کی حکمت و مصلحت کی کارفرمائی کی بنا پر ہوتی ہے۔ اس لئے کہ اگر فقر و احتیاج میں نادار کے صبر و استقلال کا امتحان لیا ہے تو ثروت و دولت میں دولتمند کے شکر اور ادائیگی حقوق کی کڑی آزمائش ہے کہ وہ فقراء و مساکین کے حقوق ادا کرتا ہے یا نہیں، ناداروں اور فاقہ کشوں کی خبر لیتا ہے یا نہیں۔ اور پھر جہاں دولت ہو گی، طرح طرح کے خطرات بھی پیدا ہوں گے، کبھی مال و جائیداد کیلئے خطرہ ہو گا، کبھی فقر و افلاس کا کھٹکا ہو گا۔ چنانچہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے کہ جو دولت کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے کو زیادہ مطمئن اور خوش پاتے ہوں گے۔ ان کے نزدیک یہ بے سروسامانی اور بے مائیگی اس دولت سے کہیں زیادہ بہتر ہو گی جو ان کے آرام و اطمینان کو چھین لے اور کبھی یہی دولت جسے انسان جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے اس کی جان جانے کا سبب بن جاتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب تک دولت نہ تھی، اخلاق محفوظ تھے، سیرت بے داغ تھی اور ادھر مال و دولت کی فراوانی ہوئی کہ اخلاق تباہ ہو گئے، کر دار بگڑ گیا۔ اب شراب کا دور بھی ہے، مہوشوں کا جمگھٹا بھی ہے، نغمہ و سرود کی بزم بھی ہے۔ اس صورت میں دولت کا نہ ہونا ہی ایک نعمت تھا، لیکن انسان اللہ کی مصلحت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے چیخ اٹھتا ہے اور وقتی تکلیف سے متاثر ہو کر شکوہ شکایت پر اتر آتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ کتنی برائیوں سے اس کا دامن بچا رہا ہے کہ جو دولت کے ہونے کی وجہ سے پیدا ہو سکتی تھیں، لہٰذا دولت اگر راحت کی کفیل ہے تو فقر اخلاق کا نگہبان ہے۔

۴امیر المومنین علیہ السلام نے جس اعجازی بلاغت کے ساتھ خداوند عالم کے عالم جزئیات ہونے پر روشنی ڈالی ہے اور جن پُر شکوہ لفظوں کے ساتھ اس کے علم کی ہمہ گیری کی تصویر کھینچی ہے، وہ منکر کے ذہن کو بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے:

۴؂ لَوْ سَمِعَ هٰذَا الْكَلَامَ اَرَسُطُوْطَالِيْسُ الْقَآئِلُ بِاَنَّهٗ تَعَالٰى لَا يَعْلَمُ الْجُزْئِيَّاتِ لَخَشَعَ قَلْبُهٗ وَ قَفَّ شَعْرُهٗ وَ اضْطَرَبَ فِكْرُهٗ، اَلَا تَرٰى مَا عَلَيْهِ مِنَ الرُّوَآءِ وَ الْمَهَابَةِ وَ الْعَظَمَةِ وَ الْفَخَامَةِ وَ الْمَتَانَةِ وَ الْجَزَالَةِ مَعَ مَا قَدْ اُشْرِبَ مِنَ الْحَلَاوَةِ وَ الطَّلَاوَةِ وَ اللُّطْفِ وَ السَّلاَسَةِ، لَاۤ اَرٰى كَلَامًا يَّشْبَهُ هٰذَا اِلَّاۤ اَنْ يَّكُوْنَ كَلَامَ الْخَالِقِ سُبْحَانَهٗ، فِاِنَّ هٰذَا الْكَلَامَ نَبْعَةٌ مِّنْ تِلْكَ الشَّجَرَةِ وَ جَدْوَلٌ مِّنْ ذٰلِكَ الْبَحْرِ وَ جَذْوَةٌ مِّنْ تِلْكَ النَّارِ.

اگر ارسطاطالیس کہ جو خداوند عالم کے عالم جزئیات ہونے کا منکر ہے، اس کلام کو سنے تو اس کا بھی دل جھک جائے، رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور خیالات میں انقلاب پیدا ہو جائے۔ کیا اس کلام کی آب و تاب، دبدبہ و طنطنہ، شکوہ و جلال اور متانت و پختگی تم نہیں دیکھتے اور ان اوصاف کے علاوہ اس میں شیریں بیانی، رنگینی،لطافت اور سلاست کے جوہر نمایاں ہیں۔ مجھے تو کوئی کلام اس سے ملتا جلتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ہاں! اگر کوئی کلام اس سے میل کھاتا ہے تو وہ خالقِِ کلام کا کلام ہے اور اس میں تعجب ہی کیا ہے، جبکہ یہ اسی شجر کی بلند شاخ، اسی دریا کی جدول اور اسی تجلی کا پر تو ہے۔[۱۰]

جن لوگوں نے صرف اسے عالم کلیات مانا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ چونکہ جزئیات میں تغیر و تبدل ہوتا رہتا ہے، لہٰذا اسے عالم جزئیات ماننے کی صورت میں اس کے علم کو بھی متغیر ماننا پڑے گا اور علم چونکہ عین ذات ہے، لہٰذا ذات بھی تغیرات کی آماجگاہ بن جائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حادث قرار پا کر اپنی قدامت کو کھو بیٹھے گا۔

مگر یہ ایک ظاہر فریب مغالطہ ہے ۔اس لئے کہ تغیر معلوم سے تغیر علم اس وقت لازم آتا ہے کہ جب یہ مانا جائے کہ اسے ان تغیرات کا علم نہیں اور اگر تمام تغیر و تبدل کی صورتیں اس کے سامنے آئینہ ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تغیر معلومات سے اس کے علم کو بھی تغیر پذیر سمجھ لیا جائے جب کہ یہ تغیر صرف معلوم تک محدود ہے اور علم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔

[۱]۔ سورۂ ہود، آیت ۶۔

[۲]۔ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۲۰۔

[۳]۔ سورۂ ملک، آیت ۱۵۔

[۴]۔ سورۂ نجم، آیت ۳۹۔

[۵]۔ سورۂ مریم، آیت ۲۵-۲۶۔

[۶]۔ سورۂ شوریٰ، آیت ۱۲۔

[۷]۔ سورۂ حجر، آیت ۲۱۔

[۸]۔ سورۂ شوریٰ، آیت ۲۷۔

[۹]۔ سورۂ ملک، آیت ۲۱۔

[۱۰]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۲۴۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button