خطبہ (۸۹) خطبہ اشباح
(٨٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۸۸)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمَعْرُوْفِ مِنْ غَیْرِ رُؤْیَةٍ، وَ الْخَالِقِ مِنْ غَیْرِ رَوِیَّةٍ، الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ قَآئِمًا دَآئِمًا، اِذْ لَا سَمَآءٌ ذَاتُ اَبْرَاجٍ، وَ لَا حُجُبٌ ذَاتُ اِرْتَاجٍ، وَ لَا لَیْلٌ دَاجٍ، وَ لَا بَحْرٌ سَاجٍ، وَ لَا جَبَلٌ ذُوْ فِجَاجٍ، وَ لَا فَجٌّ ذُو اعْوِجَاجٍ، وَ لَاۤ اَرْضٌ ذَاتُ مِهَادٍ، وَ لَا خَلْقٌ ذُوا اعْتِمَادٍ: ذٰلِكَ مُبْتَدِعُ الْخَلْقِ وَ وَارِثُهٗ، وَ اِلٰهُ الْخَلْقِ وَ رَازِقُهٗ، وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ دَآئِبَآنِ فِیْ مَرْضَاتِهٖ: یُبْلِیَانِ كُلَّ جَدِیْدٍ، وَ یُقَرِّبَانِ كُلَّ بَعِیْدٍ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو نظر آئے بغیر جانا پہچانا ہوا ہے اور سوچ بچار میں پڑے بغیر پیدا کرنے والا ہے۔ وہ اس وقت بھی دائم و برقرار تھا جب کہ نہ برجوں والا آسمان تھا، نہ بلند دروازوں والے حجاب تھے، نہ اندھیری راتیں، نہ ٹھہرا ہوا سمندر، نہ لمبے چوڑے راستوں والے پہاڑ، نہ آڑی ترچھی پہاڑی راہیں اور نہ یہ بچھے ہوئے فرشوں والی زمین، نہ کس بل رکھنے والی مخلوق تھی۔ وہی مخلوقات کو پیدا کرنے والا اور اس کا وارث ہے اور کائنات کا معبود اور ان کا رازق ہے۔ سورج اور چاند اس کی منشا کے مطابق (ایک دھرے پر) بڑھے جانے کی سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، جو ہر نئی چیز کو فرسودہ اور دور کی چیزوں کو قریب کر دیتے ہیں۔
قَسَمَ اَرْزَاقَهُمْ، وَ اَحْصٰۤی اٰثَارَهُمْ وَ اَعْمَالَهُمْ، وَ عَدَدَ اَنْفَاسَهُمْ، وَ خَآئِنَةَ اَعْیُنِهِمْ وَ مَا تُخْفِیْ صُدُوْرُهُمْ مِنَ الضَّمِیْرِ، وَمُسْتَقَرَّهُمْ وَ مُسْتَوْدَعَهُمْ مِّنَ الْاَرْحَامِ وَالظُّهُوْرِ، اِلٰۤی اَنْ تَتَنَاهٰی بِهِمُ الْغَایَاتُ.
اس نے سب کو روزی بانٹ رکھی ہے۔ وہ سب کے عمل و کردار اور سانسوں کے شمار تک کو جانتا ہے۔ وہ چوری چھپی نظروں اور سینے کی مخفی نیتوں اور صلب میں ان کے ٹھکانوں اور شکم میں ان کے سونپے جانے کی جگہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے، یہاں تک کہ ان کی عمریں اپنی حد و انتہا کو پہنچ جائیں۔
هُوَ الَّذِی اشْتَدَّتْ نِقْمَتُهٗ عَلٰۤی اَعْدَآئِهٖ فِیْ سَعَةِ رَحْمَتِهٖ، وَ اتَّسَعَتْ رَحْمَتُهٗ لِاَوْلِیَآئِهٖ فِیْ شِدَّةِ نِقْمَتِهٖ، قَاهِرُ مَنْ عَازَّهٗ، وَ مُدَمِّرُ مَنْ شَاقَّهٗ، وَ مُذِلُّ مَنْ نَّاوَاهُ، وَ غَالِبُ مَنْ عَادَاهٗ. مَنْ تَوَكَّلَ عَلَیْهِ كَفَاهُ، وَ مَنْ سَئَلَهٗۤ اَعْطَاهُ، وَ مَنْ اَقْرَضَهٗ قَضَاهُ، وَ مَنْ شَكَرَهٗ جَزَاهُ.
وہ ایسی ذات ہے کہ رحمت کی وسعتوں کے باوجود اس کا عذاب دشمنوں پر سخت ہے اور عذاب کی سختیوں کے باوجود دوستوں کیلئے اس کی رحمت وسیع ہے۔ جو اسے دبانا چاہے اس پر قابو پالینے والا اور جو اس سے ٹکر لینا چاہے اسے تباہ و برباد کرنے والا اور جو اس کی مخالفت کرے اُسے رسوا و ذلیل کرنے والا اور جو اس سے دشمنی برتے اس پر غلبہ پانے والا ہے۔ جو اس پر بھروسا کرتا ہے وہ اس کیلئے کافی ہو جاتا ہے اور جو کوئی اس سے مانگتا ہے اُسے دے دیتا ہے اور جو اسے قرضہ دیتا ہے (یعنی اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے) وہ اسے ادا کرتا ہے۔ جو شکر کرتا ہے اُسے بدلہ دیتا ہے۔
عِبَادَ اللهِ! زِنُوْۤا اَنْفُسَكُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُوْزَنُوْا، وَ حَاسِبُوْهَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تُحَاسَبُوْا، وَ تَنَفَّسُوْا قَبْلَ ضِیْقِ الْخِنَاقِ، وَ انْقَادُوْا قَبْلَ عُنْفِ السِّیَاقِ، وَ اعْلَمُوْا اَنَّهٗ مَنْ لَّمْ یُعَنْ عَلٰی نَفْسِهٖ حَتّٰی یَكُوْنَ لَهٗ مِنْهَا وَاعِظٌ وَّ زَاجِرٌ، لَمْ یَكُنْ لَّهٗ مِنْ غَیْرِهَا زَاجِرٌ وَّ لَا وَاعِظٌ.
اللہ کے بندو! اپنے نفسوں کو تولے جانے سے پہلے تول لو اور محاسبہ کئے جانے سے قبل خود اپنا محاسبہ کر لو۔ گلے کا پھندا تنگ ہونے سے پہلے سانس لے لو اور سختی کے ساتھ ہنکائے جانے سے پہلے مطیع و فرمانبردار بن جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ جسے اپنے نفس کیلئے یہ توفیق نہ ہو کہ وہ خود اپنے کو وعظ و پند کر لے اور برائیوں پر متنبہ کر دے تو پھر کسی اور کی بھی پند و تو بیخ اس پر اثر نہیں کر سکتی۔