خطبات

خطبہ (۹۱)

(٩٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۹۰)

لَمَّاۤ اُرِيْدُ عَلَى الْبَيْعَةِ بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ:

جب قتلِ عثمان کے بعد آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کا ارادہ کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:

دَعُوْنِیْ وَ الْتَمِسُوْا غَیْرِیْ، فَاِنَّا مُسْتَقْبِلُوْنَ اَمْرًا لَّهٗ وُجُوْهٌ وَّ اَلْوَانٌ، لَا تَقُوْمُ لَهُ الْقُلُوْبُ، وَ لَا تَثْبُتُ عَلَیْهِ الْعُقُوْلُ، وَ اِنَّ الْاٰفَاقَ قَدْ اَغَامَتْ، وَ الْمَحَجَّةَ قَدْ تَنَكَّرَتْ.

مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کیلئے) میرے علاوہ کوئی اور ڈھونڈ لو۔ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں۔ جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں۔ (دیکھو!) اُفق عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔ راستہ پہچاننے میں نہیں آتا۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنِّیْ اِنْ اَجَبْتُكُمْ رَكِبْتُ بِكُمْ مَاۤ اَعْلَمُ، وَ لَمْ اُصْغِ اِلٰی قَوْلِ الْقَآئِلِ وَ عَتْبِ الْعَاتِبِ، وَ اِنْ تَرَكْتُمُوْنِیْ فَاَنَا كَاَحَدِكُمْ، وَ لَعَلِّیْۤ اَسْمَعُكُمْ وَ اَطْوَعُكُمْ لِمنْ وَّلَّیْتُمُوْهُ اَمْرَكُمْ، وَ اَنَا لَكُمْ وَزِیْرًا، خَیْرٌ لَّكُمْ مِنِّیْ اَمِیْرًا!.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے چلوں گا جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی سرزنش پر کان نہیں دھروں گا اور اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو پھر جیسے تم ہو ویسا میں ہوں اور ہو سکتا ہے کہ جسے تم اپنا امیر بناؤ اس کی میں تم سے زیادہ سنوں اور مانوں اور میرا (تمہارے دنیوی مفاد کیلئے) امیر ہونے سے وزیر ہونا بہتر ہے۔ [۱]

۱؂جب حضرت عثمان کے قتل ہو جانے سے مسند حکومت خالی ہوئی تو مسلمانوں کی نظریں امیر المومنین علیہ السلام کی طرف اٹھنے لگیں جن کی سلامت روی، اصول پرستی اور سیاسی بصیرت کا اس طویل مدت میں انہیں بڑی حد تک تجربہ ہو چکا تھا، چنانچہ متفقہ طور پر آپؑ کے دستِ حق پرست پر بیعت کیلئے اس طرح ٹوٹ پڑے جس طرح بھولے بھٹکے مسافر دور سے منزل کی جھلک دیکھ کر اس کی سمت لپک پڑتے ہیں۔ جیسا کہ مورخ طبری نے لکھا ہے:

فَغَشَى النَّاسُ عَلِيًّا ؑ فَقَالُوْا: نُبَايِعُكَ، فَقَدْ تَرٰى مَا نَزَلَ بِالْاِسْلَامِ، وَ مَا ابْتُلِيْنَا بِهٖ مِنْ ذَوِی الْقُرْبٰى.

لوگ امیر المومنین علیہ السلام پر ہجوم کر کے ٹوٹ پڑے اور کہنے لگے کہ ہم آپؑ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلام پر کیا کیا مصیبتیں ٹوٹ رہی ہیں اور پیغمبر ﷺ کے قریبیوں کے بارے میں ہماری کیسى آزمائش ہو رہی ہے۔ (طبری، ج۵، ص۱۵۶)

مگر امیر المومنین علیہ السلام نے ان کی خواہش کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر ان لوگوں نے شور مچایا اور چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ: اے ابو الحسنؑ! آپؑ اسلام کی تباہی پر نظر نہیں کرتے؟ فتنہ و شر کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو نہیں دیکھتے؟ کیا آپؑ خدا کا خوف بھی نہیں کرتے؟ پھر بھی حضرتؑ نے آمادگی کا اظہار نہ فرمایا، کیونکہ آپؑ دیکھ رہے تھے کہ پیغمبر ﷺ کے بعد جو ماحول بن گیا تھا اس کے اثرات دل و دماغ پر چھائے ہوئے ہیں، طبیعتوں میں خود غرضی و جاہ پسندی جڑ پکڑ چکی ہے، ذہنوں پر مادیت کے غلاف چڑھ چکے ہیں اور حکومت کو مقصد بر آریوں کا ذریعہ قرار دینے کی عادت پڑ چکی ہے، اب خلافت الٰہیہ کو بھی مادیت کا رنگ دے کر اس سے کھیلنا چاہیں گے، ان حالات میں ذہنیتوں کو بدلنے اور طبیعتوں کے رخ موڑنے میں لوہے لگ جائیں گے۔ ان تاثرات کے علاوہ یہ مصلحت بھی کارفرما تھی کہ ان لوگوں کو سوچ سمجھ لینے کا موقعہ دے دیا جائے تا کہ کل اپنے مادی توقعات کو ناکام ہوتے دیکھ کر یہ نہ کہنے لگیں کہ یہ بیعت وقتی ضرورت اور ہنگامی جذبہ کے زیر اثر ہو گئی تھی، اس میں سوچ بچار سے کام نہیں لیا گیا تھا۔ جیسا کہ خلافتِ اوّل کے متعلق حضرتِ عمر کا یہی نظر یہ تھا جو ان کے اس قول سے ظاہر ہے:

اِنَّ بَيْعَةَ اَبِیْ بَكْرٍ كَانَتْ فَلْتَةً وَّقَى اللهُ شَرَّهَا، فَمَنْ عَادَ اِلٰى مِثْلِهَا فَاقْتُلُوْهُ.

ابو بکر کی خلافت بے سوچے سمجھے ہو گئی، مگر اللہ نے اس کے شر سے بچا لیا۔ اب اگر کوئی ایسا کرے تو اسے قتل کر دینا۔ (تاریخ الخلفاء، ص۶۰)

غرض جب اصرار حد سے بڑھا تو اس موقع پر یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اس امر کو واضح کیا ہے کہ اگر تم مجھے دنیاوی مقاصد کیلئے چاہتے ہو تو میں تمہارا آلہ کار بننے کیلئے تیار نہیں، مجھے چھوڑ دو اور اس مقصد کیلئے کسی اور کو منتخب کر لو جو تمہارے توقعات پورے کر سکے۔ تم میری سابقہ سیرت کو دیکھ چکے ہو کہ میں قرآن و سنت کے علاوہ کسی کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کیلئے تیار نہیں اور نہ حکومت کیلئے اپنے اصول سے ہاتھ اٹھاؤں گا۔ اگر تم کسی اور کو منتخب کر و گے تو میں ملکی قوانین و آئین حکومت کا اتنا ہی خیال کروں گا جتنا ایک پر امن شہری کو کرنا چاہئے۔ میں نے کسی مرحلہ پر شورش برپا کر کے مسلمانوں کی ہیئت اجتماعیہ کو پراگندہ و منتشر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ اب بھی ایسا ہی ہو گا، بلکہ جس طرح مصالح عامہ کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیشہ صحیح مشورے دیتا رہا ہوں، اب بھی دریغ نہ کروں گا اور اگر تم مجھے اسی سطح پر رہنے دو تو یہ چیز تمہارے دنیوی مفاد کیلئے بہتر ہوگی، کیونکہ اس صورت میں میرے ہاتھوں میں اقتدار نہیں ہو گا کہ تمہارے دنیوی مفادات کیلئے سد راہ بن سکوں اور تمہاری من مانی خواہشوں میں روڑے اٹکاؤں اور اگر یہ ٹھان چکے ہو کہ میرے ہاتھوں پر بیعت کئے بغیر نہ رہو گے تو پھر یاد رکھو کہ چاہے تمہاری پیشانیوں پر بل آئے اور چاہے تمہاری زبانیں میرے خلاف کھلیں، میں تمہیں حق کی راہ پر لے چلنے پر مجبور کر دوں گا اور حق کے معاملہ میں کسی کی رو رعایت نہیں کروں گا۔ اس پر بھی اگر بیعت کرنا چاہتے ہو تو اپنا شوق پورا کر لو۔

امیر المومنین علیہ السلام نے ان لوگوں کے بارے میں جو نظریہ قائم کیا تھا بعد کے واقعات اس کی پوری پوری تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کے پیش نظر بیعت کی تھی، جب انہیں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو بیعت توڑ کر الگ ہو گئے اور بے بنیاد الزامات تراش کر حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button