خطبہ (۹۶)
(٩٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۹۵)
وَ لَئِنْ اَمْهَلَ اللهُ الظَّالِمَ فَلَنْ یَفُوْتَ اَخْذُهٗ، وَ هُوَ لَهٗ بِالْمِرْصَادِ عَلٰی مَجَازِ طَرِیْقِهٖ، وَ بِمَوْضِعِ الشَّجَا مِنْ مَّسَاغِ رِیْقِهٖ.
اگر اللہ نے ظالم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس کی گرفت سے تو وہ ہرگز نہیں نکل سکتا اور وہ اس کی گزر گاہ اور گلے میں ہڈی پھنسنے کی جگہ پر موقع کا منتظر ہے۔
اَمَا وَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَیَظْهَرَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمُ عَلَیْكُمْ، لَیْسَ لِاَنَّهُمْ اَوْلٰی بِالْحَقِّ مِنْكُمْ، وَ لٰكِنْ لِّاِسْرَاعِهِمْ اِلٰی بَاطِلِ صَاحِبِهِمْ، وَ اِبْطَآئِكُمْ عَنْ حَقِّیْ.
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! یہ قوم (اہل شام) تم پر غالب آ کر رہے گی۔ اس لئے نہیں کہ ان کا حق تم سے فائق ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کی طرف باطل پر ہونے کے باوجود تیزی سے لپکتے ہیں اور تم میرے حق پر ہونے کے باوجود سستی کرتے ہو۔
وَ لَقَدْ اَصْبَحَتِ الْاُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا، وَ اَصْبَحْتُ اَخَافُ ظُلْمَ رَعِیَّتِیْ. اَسْتَنْفَرْتُكُمْ لِلْجِهَادِ فَلَمْ تَنْفِرُوْا، وَ اَسْمَعْتُكُمْ فَلَمْ تَسْمَعُوْا، وَ دَعَوْتُكُمْ سِرًّا وَّ جَهْرًا فَلَمْ تَسْتَجِیْبُوْا، وَ نَصَحْتُ لَكُمْ فَلَمْ تَقْبَلُوْا. اَ شُهُوْدٌ كَغُیَّابٍ، وَ عَبِیْدٌ كَاَرْبَابٍ؟!.
رعیتیں [۱] اپنے حکمرانوں کے ظلم و جور سے ڈرا کرتی تھیں اور میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔ میں نے تمہیں جہاد کیلئے ابھارا لیکن تم (اپنے گھروں سے) نہ نکلے۔ میں نے تمہیں (کارآمد باتوں کو) سنانا چاہا مگر تم نے ایک نہ سنی اور میں نے پوشیدہ بھی اور علانیہ بھی تمہیں جہاد کیلئے پکارا اور للکارا لیکن تم نے ایک نہ مانی اور سمجھایا بجھایا مگر تم نے میری نصیحتیں قبول نہ کیں۔ کیا تم موجود ہوتے ہوئے بھی غائب رہتے ہو؟ حلقہ بگوش ہوتے ہوئے گویا خود مالک ہو؟۔
اَتْلُوْا عَلَیْكُمُ الْحِكَمَ فَتَنْفِرُوْنَ مِنْهَا، وَ اَعِظُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ الْبَالِغَةِ فَتَتَفَرَّقُوْنَ عَنْهَا، وَ اَحُثُّكُمْ عَلٰی جِهَادِ اَهْلِ الْبَغْیِ فَمَاۤ اٰتِیْ عَلٰۤی اٰخِرِ قَوْلِیْ حَتّٰۤی اَرَاكُمْ مُتَفَرِّقِیْنَ اَیَادِیَ سَبَا، تَرْجِعُوْنَ اِلٰی مَجَالِسِكُمْ، وَ تَتَخَادَعُوْنَ عَنْ مَّوَاعِظِكُمْ، اُقَوِّمُكُمْ غُدْوَةً، وَ تَرْجِعُوْنَ اِلَیَّ عَشِیَّةً، كَظَهْرِ الْحَنِیَّةِ، عَجَزَ الْمُقَوِّمُ، وَ اَعْضَلَ الْمُقَوَّمُ.
میں تمہارے سامنے حکمت اور دانائی کی باتیں بیان کرتا ہوں اور تم ان سے بھڑکتے ہو۔ تمہیں بلند پایہ نصیحتیں کرتا ہوں اور تم پراگندہ خاطر ہو جاتے ہو۔ میں ان باغیوں سے جہاد کرنے کیلئے تمہیں آمادہ کرتا ہوں تو ابھی میری بات ختم بھی نہیں ہوتی کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اولادِ سبا [۲] کی طرح تتر بتر ہو کر اپنی نشست گاہوں کی طرف واپس چلے جاتے ہو اور ان نصیحتوں سے غافل ہو کر ایک دوسرے کے چکمے میں آ جاتے ہو۔ صبح کو میں تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور شام کو جب آتے ہو تو (ویسے کے ویسے) کمان کی پشت کی طرح ٹیڑھے۔ سیدھا کرنے والا عاجز آ گیا اور جسے سیدھا کیا جا رہا ہے وہ لاعلاج ثابت ہوا۔
اَیُّهَا الشَّاهِدَةُ اَبْدَانُهُمْ، الْغَآئِبَةُ عَنْهُمْ عُقُوْلُهُمْ، الْمُخْتَلِفَةُ اَهْوَآئُهُمْ، الْمُبْتَلٰی بِهمْ اُمَرَآئُهُمْ! صَاحِبُكُمْ یُطِیْعُ اللهَ وَ اَنْتُمْ تَعْصُوْنَهٗ، وَ صَاحِبُ اَهْلِ الشَّامِ یَعْصِی اللهَ وَ هُمْ یُطِیْعُوْنَهٗ، لَوَدِدْتُّ وَاللهِ! اَنَّ مُعَاوِیَةَ صَارَفَنِیْ بِكُمْ صَرْفَ الدِّیْنَارِ بِالدِّرْهَمِ، فَاَخَذَ مِنِّیْ عَشَرَةً مِّنْكُمْ وَ اَعْطَانِیْ رَجُلًا مِّنْهُمْ!.
اے وہ لوگو جن کے جسم تو حاضر ہیں اور عقلیں غائب اور خواہشیں جُدا جدا ہیں، ان پر حکومت کرنے والے ان کے ہاتھوں آزمائش میں پڑے ہوئے ہیں، تمہارا حاکم اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو اور اہل شام کا حاکم اللہ کی نافرمانی کرتا ہے مگر وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ معاویہ تم میں سے دس مجھ سے لے لے اور بدلے میں اپنا ایک آدمی مجھے دے دے، جس طرح دینار کا تبادلہ درہموں سے ہوتا ہے۔
یَاۤ اَهْلَ الْكُوْفَةِ! مُنِیْتُ مِنْكُمْ بِثَلَاثٍ وَّ اثنَتَیْنِ: صُمٌّ ذَوُوْ اَسْمَاعٍ، وَ بُكُمٌ ذَوُوْ كَلَامٍ، وَ عُمْیٌ ذَوُوْۤ اَبْصَارٍ، لَاۤ اَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ اللِّقَآءِ، وَ لَاۤ اِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ الْبَلَآءِ! تَرِبَتْ اَیْدِیْكُمْ! یَاۤ اَشْبَاهَ الْاِبِلِ غَابَ عَنْهَا رُعَاتُهَا! كُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ تَفَرَّقَتْ مِنْ جَانِبٍ اٰخَرَ، وَاللهِ! لَكَاَنِّیْ بِكُمْ فِیْمَاۤ اِخَالُ: اَنْ لَّوْ حَمِسَ الْوَغٰی، وَ حَمِیَ الضِّرَابُ، قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ انْفِرَاجَ الْمَرْاَةِ عَنْ قُبُلِهَا، وَ اِنِّیْ لَعَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَ مِنْهَاجٍ مِّنْ نَّبِیِّیْ، وَ اِنِّیْ لَعَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ اَلْقُطُهٗ لَقْطًا.
اے اہل کوفہ! میں تمہاری تین اور ان کے علاوہ دو باتوں میں مبتلا ہوں۔ پہلے تو یہ کہ تم کان رکھتے ہوئے بہرے ہو اور بولنے چالنے کے باوجود گونگے ہو اور آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے ہو، اور پھر یہ کہ نہ تم جنگ کے موقعہ پر سچے جواں مرد ہو اور نہ قابل اعتماد بھائی ہو۔ اے ان اونٹوں کی چال ڈھال والو کہ جن کے چرواہے گم ہو چکے ہوں اور انہیں ایک طرف سے گھیر کر لایا جاتا ہے تو دوسری طرف سے بکھر جاتے ہیں، خدا کی قسم! جیسا کہ میرا تمہارے متعلق خیال ہے، گویا یہ منظر میرے سامنے ہے کہ اگر جنگ شدت اختیار کر لے اور میدان کارزار گرم ہو جائے تو تم ابن ابی طالب علیہ السلام سے ایسے شرمناک طریقے پر علیحدہ ہو جاؤ گے جیسے عورت بالکل برہنہ ہو جائے۔ میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل اور اپنے نبی ﷺ کے طریقے اور شاہراہ حق پر ہوں جسے میں باطل کے راستوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاتا رہتا ہوں۔
اُنْظُرُوْۤا اَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّكُمْ فَالْزَمُوْا سَمْتَهُمْ، وَ اتَّبِعُوْۤا اَثَرَهُمْ فَلَنْ یُّخْرِجُوْكُمْ مِنْ هُدًی، وَ لَنْ یُّعِیْدُوْكُمْ فِیْ رَدًی، فَاِنْ لَّبَدُوْا فَالْبُدُوْا، وَ اِنْ نَّهَضُوْا فَانْهَضُوْا، وَ لَا تَسْبِقُوْهُمْ فَتَضِلُّوْا، وَ لَا تَتَاَخَّرُوْا عَنْهُمْ فَتَهْلِكُوْا.
اپنے نبی ﷺ کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔
لَقَدْ رَاَیْتُ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَمَاۤ اَرٰی اَحَدًا مِنْكُمْ یُشْبِهُهُمْ! لَقَدْ كَانُوْا یُصْبِحُوْنَ شُعْثًا غُبْرًا، قَدْ بَاتُوْا سُجَّدًا وَّ قِیَامًا، یُرَاوِحُوْنَ بَیْنَ جِبَاهِهِمْ وَ خُدُوْدِهِمْ، وَ یَقِفُوْنَ عَلٰی مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِكْرِ مَعَادِهِمْ! كَاَنَّ بَیْنَ اَعْیُنِهِمْ رُكَبَ الْمِعْزٰی مِنْ طُوْلِ سُجُوْدِهِمْ! اِذَا ذُكِرَ اللهُ هَمَلَتْ اَعْیُنُهُمْ حَتّٰی تَبُلَّ جُیُوْبَهُمْ، وَ مَادُوْا كَمَا یَمِیْدُ الشَّجَرُ یَوْمَ الرِّیْحِ الْعَاصِفِ، خَوْفًا مِّنَ الْعِقَابِ، وَ رَجَآءً لِلثَّوَابِ!.
میں نے محمد ﷺ کے خاص خاص اصحاب دیکھے ہیں۔ مجھے تو تم میں سے ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو ان کے مثل ہو۔ وہ اس عالم میں صبح کرتے تھے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے خاک سے اَٹے ہوتے تھے جب کہ رات کو وہ سجود و قیام میں کاٹ چکے ہوتے تھے، اس عالم میں کہ کبھی پیشانیاں سجدے میں رکھتے تھے اور کبھی رخسار، اور حشر کی یاد سے اس طرح (بے چین رہتے تھے کہ) جیسے انگاروں پر ٹھہرے ہوئے ہوں، اور لمبے سجدوں کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانیوں پر) بکری کے گھٹنوں ایسے گٹے پڑے ہوئے تھے۔ جب بھی ان کے سامنے اللہ کا ذکر آ جاتا تھا تو ان کی آنکھیں برس پڑتی تھیں، یہاں تک کہ ان کے گریبانوں کو بھگو دیتی تھیں۔ وہ اس طرح کانپتے رہتے تھے جس طرح تیز جھکڑ والے دن درخت تھرتھراتے ہیں، سزا کے خوف اور ثواب کی امید میں۔
۱پیغمبر ﷺ کے بعد جو فضا پیدا کر دی گئی تھی اس میں اہل بیت علیہم السلام کیلئے گوشہ گزینی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جس کی وجہ سے دنیا ان کے اصلی خد و خال سے بیگانہ اور ان کے علوم و کمالات سے نا آشنا ہو کر رہ گئی اور انہیں نظروں سے گرانا اور اقتدار سے الگ رکھنا ہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت تصور کر لیا گیا۔ اگر حضرت عثمان کی کھلم کھلا بے عنوانیاں مسلمانوں کو کروٹ لینے اور آنکھ کھولنے کا موقع نہ دیتیں تو ان کے بعد بھی امیر المومنین علیہ السلام کی بیعت کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا، بلکہ اقتدار جس رخ پر بڑھ رہا تھا اسی رخ پر بڑھتا رہتا۔ لیکن جن لوگوں کا اس سلسلہ میں نام لیا جا سکتا تھا وہ اپنے دامن و بند قبا کو دیکھ کر آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرتے تھے اور معاویہ مرکز سے دور اپنی راجدھانی میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان حالات میں امیر المومنین علیہ السلام کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جس کی طرف نظریں اٹھتیں۔ چنانچہ نگاہیں آپؑ کے گرد طواف کرنے لگیں اور وہی عوام جو سیلاب کے بہاؤ اور ہوا کا رخ دیکھ کر دوسروں کی بیعت کرتے رہے تھے، آپؑ کے ہاتھوں پر بیعت کیلئے ٹوٹ پڑے۔ لیکن یہ بیعت اس حیثیت سے نہ تھی کہ وہ آپؑ کی خلافت کو منجانب اللہ اور آپؑ کو امام مفترض الطاعۃ سمجھ رہے ہوں، بلکہ انہی کے قرار دادہ اصول کے ماتحت تھی جسے جمہوری و شورائی قسم کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ البتہ ایک گروہ ایسا تھا جو آپؑ کی خلافت کو نصّی سمجھتے ہوئے دینی فریضہ کی حیثیت سے بیعت کر رہا تھا، ورنہ اکثریت تو آپؑ کو دوسرے خلفاء کی طرح ایک فرمانروا اور بلحاظ فضیلت چوتھے درجہ پر یا خلفائے ثلاثہ کے بعد عام صحابہ کی سطح پر سمجھتی تھی اور چونکہ رعیت، فوج اور عہدہ دار سابقہ حکمرانوں کے عقائد و اعمال سے متاثر اور ان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لئے جب کوئی بات اپنی منشا کے خلاف پاتے تو بگڑتے، الجھتے، جنگ سے جی چراتے اور سرکشی و نافرمانی پر اتر آتے تھے۔ اور پھر جس طرح پیغمبر ﷺ کے ساتھ شریک جہاد ہونے والے کچھ دنیا کے طلبگار تھے اور کچھ آخرت کے، اسی طرح یہاں بھی دنیا پرستوں کی کمی نہ تھی جو بظاہر امیر المومنین علیہ السلام سے ملے ہوئے تھے اور درپردہ معاویہ سے ساز باز رکھتے تھے جس نے ان میں سے کسی سے منصب کا وعدہ کر رکھا تھا اور کسی کو دولت کا لالچ دے رکھا تھا۔
ان لوگوں کو شیعانِ امیر المومنین علیہ السلام قرار دے کر شیعیت کو مورد الزام ٹھہرانا حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے جب کہ ان لوگوں کا مسلک وہی ہو سکتا ہے جو امیر المومنین علیہ السلام کو چوتھے درجہ پر سمجھنے والوں کا ہونا چاہئے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید ان لوگوں کے مسلک و مذہب پر واشگاف لفظوں میں روشنی ڈالتے ہیں:
وَ مَنْ تَاَمَّلَ اَحْوَالَهٗ ؑ فِیْ خِلَافَتِهٖ – عَلِمَ اَنَّهٗ كَانَ كَالْمَحْجُوْرِ عَلَيْهِ – لَا يَتَمَكَّنُ مِنْۢ بُلُوْغِ مَا فِیْ نَفْسِهٖ،- وَ ذٰلِكَ لِاَنَّ الْعَارِفِيْنَ بِحَقِيْقَةِ حَالِهٖ كَانُوْا قَلِيْلِيْنَ – وَ كَانَ السَّوَادُ الْاَعْظَمُ – لَا يَعْتَقِدُوْنَ فِيْهِ الْاَمْرَ الَّذِیْ يَجِبُ اعْتِقَادُهٗ فِيْهِ،- وَ يَرَوْنَ تَفْضِيْلَ مَنْ تَقَدَّمَهٗ مِنَ الْخُلَفَآءِ عَلَيْهِ- وَ يَظُنُّوْنَ اَنَّ الْاَفْضَلِيَّةَ اِنَّمَا هِیَ الْخِلَافَةُ- وَ يُقَلِّدُ اَخْلَافُهُمْ اَسْلَافَهُمْ – وَ يَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا اَنَّ الْاَوَآئِلَ عَلِمُوْا – فَضْلَ الْمُتَقَدِّمِيْنَ عَلَيْهِ لَمَا قَدَّمُوْهُمْ – وَ لَا يَرَوْنَهٗ اِلَّا بِعَيْنِ التَبَعِيَّةِ لِمَنْ سَبَقَهٗ – وَ اَنَّهٗ كَانَ رَعِيَّةً لَّهُمْ – وَ اَكْثَرُهُمْ اِنَّمَا يُحَارِبُ مَعَهٗ بِالْحَمِيَّةِ – وَ بِنَخْوَةِ الْعَرَبِيَّةِ، لَا بِالدِّيْنِ وَ الْعَقِيْدَةِ-.
جو شخص امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ خلافت کے واقعات کو گہری نظروں سے دیکھے گا، وہ اس امر کو جان لے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام مجبور و بے بس بنا دیئے گئے تھے۔ کیونکہ آپؑ کی حقیقی منزلت کے پہچاننے والے بہت کم تھے اور سوادِ اعظم آپؑ کے بارے میں وہ اعتقاد نہ رکھتا تھا جو اعتقاد آپؑ کے متعلق رکھنا واجب و ضروری تھا۔ وہ پہلے خلفاء کو آپؑ پر فضیلت دیتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ فضیلت کا معیار خلافت ہے اور اس مسئلہ میں بعد والے اگلوں کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اگر پہلے لوگوں کو یہ علم نہ ہوتا کہ پہلے خلفاء آپؑ پر فضیلت رکھتے تھے تو وہ آپؑ پر انہیں مقدم نہ کرتے اور یہ لوگ تو آپؑ کو ایک تابع اور ان کی رعیت کی حیثیت سے جانتے پہچانتے تھے اور جو لوگ آپؑ کے ساتھ شریک ہو کر جنگ کرتے تھے، ان میں اکثر حمیت اور عربی عصبیت کے پیش نظر شریک جنگ ہوتے تھے، نہ کہ دین اور عقیدہ کی بنا پر۔[۱]
’’سبا ابن یشجب ابن یعرب ابن قحطان‘‘ کی اولاد قبیلہ ’’سبا‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ جب ان لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانا شروع کیا تو قدرت نے انہیں جھنجوڑنے کیلئے ان پر پانی کا سیلاب مسلّط کر دیا جس سے ان کے باغات تہہ آب ہو گئے اور وہ خود گھربار چھوڑ کر مختلف شہروں میں بکھر گئے۔ اس واقعہ سے یہ مثل چل نکلی اور جہاں کہیں لوگ اس طرح جدا ہو جائیں کہ پھر مجتمع ہونے کی توقع نہ رہے تو یہ مثل استعمال کی جاتی ہے۔↑
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۷۲۔