سورہ یٰسۤ
سورہ یٰسۤ۔ مکی۔ آیات ۸۳
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ یا، سین۔
٢۔ قسم ہے قرآن حکیم کی
٣۔کہ آپ یقیناً رسولوں میں سے ہیں ،
٤۔ راہ راست پر ہیں۔
٥۔ (یہ قرآن) غالب آنے والے مہربان کا نازل کردہ ہے ،
٦۔تاکہ آپ ایک ایسی قوم کو تنبیہ کریں جس کے باپ دادا کو تنبیہ نہیں کی گئی تھی لہٰذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
٧۔بتحقیق ان میں سے اکثر پر اللہ کا فیصلہ حتمی ہو چکا ہے پس اب وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
٨۔ ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک (پھنسے ہوئے ) ہیں اسی لیے ان کے سر اوپر کی طرف الٹے ہوئے ہیں۔
٩۔ اور ہم نے ان کے آگے دیوار کھڑی کی ہے اور ان کے پیچھے بھی دیوار کھڑی کی ہے اور ہم نے انہیں ڈھانک دیا ہے لہٰذا وہ کچھ دیکھ نہیں پاتے۔
١٠۔ اور ان کے لیے یکساں ہے کہ آپ انہیں تنبیہ کریں یا نہ کریں وہ (ہر حالت میں ) ایمان نہیں لائیں گے۔
١١۔ آپ تو صرف اسے تنبیہ کر سکتے ہیں جو اس ذکر کی اتباع کرے اور رحمن کا بن دیکھے خوف رکھے ، ایسے شخص کو مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دیں۔
١٢۔ ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور جو کچھ وہ آگے بھیج چکے ہیں اور جو آثار پیچھے چھوڑ جاتے ہیں سب کو ہم لکھتے ہیں اور ہر چیز کو ہم نے ایک امام مبین میں جمع کر دیا ہے۔
١٣۔ اور ان کے لیے بستی والوں کو مثال کے طور پر پیش کرو جب ان کے پاس پیغمبر آئے۔
١٤۔ جب ہم نے ان کی طرف دو پیغمبر بھیجے تو انہوں نے دونوں کی تکذیب کی پھر ہم نے تیسرے سے (انہیں ) تقویت بخشی تو انہوں نے کہا: ہم تو تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں۔
١٥۔ بستی والوں نے کہا: تم تو صرف ہم جیسے بشر ہو اور خدائے رحمن نے کوئی چیز نازل نہیں کی ہے ، تم تو محض جھوٹ بولتے ہو۔
١٦۔ رسولوں نے کہا: ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف ہی بھیجے گئے ہیں۔
١٧۔ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔
١٨۔ بستی والوں نے کہا: ہم تمہیں اپنے لیے برا شگون سمجھتے ہیں ، اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں ضرور سنگسار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں دردناک عذاب ضرور پہنچے گا۔
١٩۔ رسولوں نے کہا: تمہاری بد شگونی خود تمہارے ساتھ ہے ، کیا یہ(بد شگونی) اس لیے ہے کہ تمہیں نصیحت کی گئی ہے ؟ بلکہ تم حد سے تجاوز کرنے والے ہو۔
٢٠۔ شہر کے دور ترین گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا، بولا: اے میری قوم! ان رسولوں کی پیروی کرو۔
٢١۔ ان کی اتباع کرو جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے اور وہ راہ راست پر ہیں۔
پارہ : وَمَالِیَ ٢٣
٢٢۔ اور میں کیوں نہ اس ذات کی بندگی کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔
٢٣۔ کیا میں اس ذات کے علاوہ کسی کو معبود بناؤں ؟ جب کہ اگر خدائے رحمن مجھے ضرر پہنچانے کا ارادہ کر لے تو ان کی شفاعت مجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی اور نہ وہ مجھے چھڑا سکتے ہیں۔
٢٤۔ تب تو میں صریح گمراہی میں مبتلا ہو جاؤں گا۔
٢٥۔ میں تو تمہارے پروردگار پر ایما ن لے آیا ہوں لہٰذا میری بات سن لو۔
٢٦۔ اس سے کہہ دیا گیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا،
٢٧۔ کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کیا ہے۔
٢٨۔ اور اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہم کوئی لشکر اتارنے والے تھے۔
٢٩۔ وہ تو محض ایک ہی چیخ تھی پس وہ یکایک بجھ کر رہ گئے۔
٣٠۔ ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔
٣١۔ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا؟ اب وہ ان کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
٣٢۔ اور ان سب کو ہمارے روبرو حاضر کیا جائے گا۔
٣٣۔ اور مردہ زمین ان کے لیے ایک نشانی ہے جسے ہم نے زندہ کیا اور اس سے غلہ نکالا جسے یہ کھاتے ہیں۔
٣٤۔ اور ہم نے اس (زمین) میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ بنائے اور ہم نے اس (زمین) میں کچھ چشمے جاری کیے۔
٣٥۔ تاکہ وہ اس کے پھلوں سے اور اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائیں ، تو کیا یہ شکر نہیں کرتے ؟
٣٦۔ پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑے بنائے ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں یہ جانتے ہی نہیں۔
٣٧۔ اور رات بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے جس سے ہم دن کو کھینچ لیتے ہیں تو ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے۔
٣٨۔ اور سورج اپنے مقررہ ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے ، یہ بڑے غالب آنے والے دانا کی تقدیر ہے۔
٣٩۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح لوٹ جاتا ہے۔
٤٠۔ نہ سورج کے لیے سزاوار ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ ہی رات دن پر سبقت لے سکتی ہے اور وہ سب ایک ایک مدار میں تیر رہے ہیں۔
٤١۔ اور یہ بھی ان کے لیے ایک نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔
٤٢۔ اور ہم نے ان کے لیے اس (کشتی) جیسی اور (سواریاں ) بنائیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔
٤٣۔اور اگر ہم چاہیں تو انہیں غرق کر دیں پھر ان کے لیے نہ کوئی فریاد رس ہو گا اور نہ ہی وہ بچائے جائیں گے۔
٤٤۔ مگر ہماری طرف سے رحمت ہے اور (جس سے ) انہیں ایک وقت تک متاع (حیات) مل جاتی ہے۔
٤٥۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس (گناہ) سے بچو جو تمہارے سامنے ہے اور اس (عذاب) سے جو تمہارے پیچھے آنے والا ہے شاید تم پر رحم کیا جائے۔
٤٦۔ اور ان کے رب کی نشانیوں میں سے جو بھی نشانی ان کے پاس آتی ہے وہ اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔
٤٧۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو رزق تمہیں اللہ نے عنایت کیا ہے اس سے کچھ (راہ خدا میں ) خرچ کرو تو کفار مومنین سے کہتے ہیں : کیا ہم اسے کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا؟ تم تو بس صریح گمراہی میں مبتلا ہو۔
٤٨۔ اور وہ کہتے ہیں : اگر تم سچے ہو (تو بتاؤ) یہ وعدہ (قیامت) کب (پورا) ہو گا؟
٤٩۔ (درحقیقت) یہ ایک ایسی چیخ کے منتظر ہیں جو انہیں اس حالت میں گرفت میں لے گی جب یہ لوگ آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔
٥٠۔ پھر نہ تو وہ وصیت کر پائیں گے اور نہ ہی اپنے گھر والوں کی طرف واپس جا سکیں گے
٥١۔ اور جب صور پھونکا جائے گا تو وہ اپنی قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے۔
٥٢۔ کہیں گے : ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ یہ وہی بات ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔
٥٣۔ وہ تو صرف ایک چیخ ہو گی پھر سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔
٥٤۔ اس روز کسی پر کچھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا اور تمہیں بس وہی بدلہ دیا جائے گا جیسا تم عمل کرتے رہے ہو۔
٥٥۔ آج اہل جنت یقیناً کیف و سرور کے ساتھ مشغلے میں ہوں گے۔
٥٦۔ وہ اور ان کی ازواج سایوں میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔
٥٧۔ وہاں ان کے لیے میوے اور ان کی مطلوبہ چیزیں موجود ہوں گی۔
٥٨۔ مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا۔
٥٩۔ اے مجرمو! آج تم الگ ہو جاؤ۔
٦٠۔ اے اولاد آدم! کیا ہم نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی پرستش نہ کرنا؟بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
٦١۔ اور یہ کہ میری بندگی کرنا، یہی سیدھا راستہ ہے۔
٦٢۔ اور بتحقیق اس نے تم میں سے بہت سی مخلوق کو گمراہ کر دیا ہے ، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے ؟
٦٣۔ یہ وہی جہنم ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
٦٤۔ آج اس جہنم میں جھلس جاؤ اس کفر کے بدلے میں جو تم کیا کرتے تھے۔
٦٥۔ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔
٦٦۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو مٹا دیں پھر یہ راستے کی طرف لپک بھی جائیں تو کہاں سے راستہ دیکھ سکیں گے ؟
٦٧۔ اور اگر ہم چاہیں تو انہیں ان ہی کی جگہ پر اس طرح مسخ کر دیں کہ نہ آگے جانے کی استطاعت ہو گی اور نہ پیچھے پلٹ سکیں گے۔
٦٨۔اور جسے ہم لمبی زندگی دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کر دیتے ہیں ، کیا وہ عقل سے کام نہیں لیتے ؟
٦٩۔ اور ہم نے اس (رسول) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ ہی یہ اس کے لیے شایان شان ہے ، یہ تو بس ایک نصیحت(کی کتاب) اور روشن قرآن ہے ،
٧٠۔ تاکہ جو زندہ ہیں انہیں تنبیہ کرے اور کافروں کے خلاف حتمی فیصلہ ہو جائے۔
٧١۔ کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے مویشی پیدا کیے چنانچہ اب یہ ان کے مالک ہیں ؟
٧٢۔ اور ہم نے انہیں ان کے لیے مسخر کر دیا چنانچہ کچھ پر یہ سوار ہوتے ہیں اور کچھ کو کھاتے ہیں۔
٧٣۔ اور ان میں ان کے لیے دیگر فوائد اور مشروبات ہیں تو کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے ؟
٧٤۔ اور انہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنا لیا ہے کہ شاید انہیں مدد مل سکے۔
٧٥۔ (حالانکہ) وہ (نہ صرف) ان کی مدد نہیں کر سکتے اور وہ الٹے ان معبودوں کے (تحفظ کے ) لیے آمادہ لشکر ہیں۔
٧٦۔ لہٰذا ان کی باتیں آپ کو رنجیدہ نہ کریں ، ہم سب باتیں جانتے ہیں جو یہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔
٧٧۔ کیا انسان یہ نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا ہے اتنے میں وہ کھلا جھگڑالو بن گیا؟
٧٨۔ پھر وہ ہمارے لیے مثالیں دینے لگتا ہے اور اپنی خلقت بھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے : ان ہڈیوں کو خاک ہونے کے بعد کون زندہ کرے گا؟
٧٩۔ کہہ دیجئے : انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ ہر قسم کی تخلیق کو خوب جانتا ہے۔
٨٠۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے سبز درخت سے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگاتے ہو۔
٨١۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، آیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرے ؟ کیوں نہیں ! وہ تو بڑا خالق ، دانا ہے۔
٨٢۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے : ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔
٨٣۔ پس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی سلطنت ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔