خطبہ (۱۰۴)
(۱٠٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۰۳)
حَتّٰی بَعَثَ اللهُ مُحَمَّدًا ﷺ، شَهِیْدًا وَّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا، خَیْرَ الْبَرِیَّةِ طِفْلًا، وَ اَنْجَبَهَا كَهْلًا، اَطْهَرَ الْمُطَهَّرِیْنَ شِیْمَةً، وَ اَجْوَدَ الْمُسْتَمْطَرِیْنَ دِیْمَةً.
آخر اللہ نے محمد ﷺ کو بھیجا در آنحالیکہ وہ گواہی دینے والے، خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے تھے۔ جو بچپنے میں بھی بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہونے پر بھی اشرفِ کائنات تھے اور پاک لوگوں میں خو خصلت کے اعتبار سے پاکیزہ تر اور جود و سخا میں ابر صفت، برسائے جانے والوں میں سب سے زائد لگاتار برسنے والے تھے۔
فَمَا احْلَوْلَتْ لَكُمُ الدُّنْیَا فِیْ لَذَّتِهَا، وَ لَا تَمَكَّنْتُمْ مِنْ رَّضَاعِ اَخْلَافِهَا، اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا صَادَفْتُمُوْهَا جَآئِلًا خِطَامُهَا، قَلِقًا وَضِیْنُهَا، قَدْ صَارَ حَرَامُهَا عِنْدَ اَقْوَامٍۭ بِمَنْزِلَةِ السِّدْرِ الْمَخْضُوْدِ، وَ حَلَالُهَا بَعِیْدًا غَیْرَ مَوْجُوْدٍ.
دنیا اپنی لذتوں میں اس وقت تمہارے لئے شیریں و خوشگوار ہوئی اور اس وقت تم اس کے تھنوں سے دودھ پینے پر قادر ہوئے کہ جبکہ اس کے پہلے اس کی مہاریں جھول رہی تھیں اور اس کا تنگ (ڈھیلا ہو کر) ہل رہا تھا (یعنی اس کا کوئی سوار اور دیکھ بھال کرنے والا نہ تھا جو اس کی باگیں اٹھاتا اور اس کا تنگ کستا)۔ کچھ قوموں کیلئے تو حرام اس بیری کے مانند (خوشگوار اور مزے دار) ہو گیا تھا جس کی شاخیں پھلوں کی وجہ سے جھکی ہوئی ہوں اور حلال ان کیلئے (کوسوں) دور اور نایاب تھا۔
وَ صَادَفْتُمُوْهَا وَاللهِ! ظِلًّا مَمْدُوْدًا اِلٰۤی اَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ، فَالْاَرْضُ لَكُمْ شَاغِرَةٌ، وَ اَیْدِیْكُمْ فِیْهَا مَبْسُوْطَةٌ، وَ اَیْدِی الْقَادَةِ عَنْكُمْ مَكْفُوْفَةٌ، وَ سُیُوْفُكُمْ عَلَیْهِمْ مُسَلَّطَةٌ، وَ سُیُوْفُهُمْ عَنْكُمْ مَقْبُوْضَةٌ.
خدا کی قسم! یہ دنیا لمبی چھاؤں کی صورت میں ایک مقررہ وقت تک تمہارے پاس ہے۔ مگر اس وقت تو زمین بغیر روک ٹوک کے تمہارے قبضے میں ہے، تمہارے ہاتھ اس میں کھلے ہوئے ہیں اور پیشواؤں کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، تمہاری تلواریں ان پر مسلط ہیں اور ان کی تلواریں روکی جا چکی ہیں۔
اَلَاۤ اِنَّ لِكُلِّ دَمٍ ثَآئِرًا، وَ لِكُلِّ حَقٍّ طَالِبًا، وَ اِنَّ الثَّـآئِرَ فِیْ دِمَآئِنَا كَالْحَاكِمِ فِیْ حَقِّ نَفْسِهٖ، وَ هُوَ اللهُ الَّذِیْ لَا یُعْجِزُهٗ مَنْ طَلَبَ، وَ لَا یَفُوْتُهٗ مَنْ هَرَبَ.
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر خون کا کوئی قصاص لینے والا اور ہر حق کا کوئی طلب کرنے والا بھی ہوتا ہے اور ہمارے خون کا قصاص لینے والا اس حاکم کے مانند ہے جو اپنے ہی حق کے بارے میں فیصلہ کرے اور وہ اللہ ہے کہ جسے وہ تلاش کرے وہ اسے بے بس نہیں بنا سکتا اور جو بھاگنے کی کوشش کرے وہ اس کے ہاتھوں سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔
فَاُقْسِمُ بِاللهِ یَا بَنِیْۤ اُمَیَّةَ! عَمَّا قَلِیْلٍ لَتَعْرِفُنَّهَا فِیْۤ اَیْدِیْ غَیْرِكُمْ وَ فِیْ دَارِ عَدُوِّكُمْ! اَلَا اِنَّ اَبْصَرَ الْاَبْصَارِ مَا نَفَذَ فِی الْخَیْرِ طَرْفُهٗ! اَلَا اِنَّ اَسْمَعَ الْاَسْمَاعِ مَا وَعَی التَّذْكِیْرَ وَ قَبِلَهٗ.
اے بنی امیہ! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جلد ہی تم اپنی دنیا (اور اس کی ثروتوں کو) دوسروں کے ہاتھوں اور دشمنوں کے گھروں میں دیکھو گے۔ سب آنکھوں سے زیادہ دیکھنے والی وہ آنکھ ہے جس کی نظر نیکیوں میں اتر جائے اور سب کانوں سے بڑھ کر سننے والا وہ کان ہے کہ جو نصیحت کی باتیں سنے اور انہیں قبول کرے۔
اَیُّهَا النَّاسُ! اسْتَصْبِحُوْا مِنْ شُعْلَةِ مِصْبَاحِ وَّاعِظٍ مُّتَّعِظٍ، وَ امْتَاحُوْا مِنْ صَفْوِ عَیْنٍ قَدْ رُوِّقَتْ مِنَ الْكَدَرِ.
اے لوگو! واعظ با عمل کے چراغ (ہدایت) کی لو سے اپنے چراغ روشن کر لو اور اس صاف و شفاف چشمہ سے پانی بھر لو جو (شبہات کی) آمیزشوں اور کُدورتوں سے نتھر چکا ہے۔
عِبَادَ اللهِ! لَا تَرْكَنُوْۤا اِلٰی جَهَالَتِكُمْ، وَ لَا تَنْقَادُوْا لِاَهْوَآئِكُمْ، فَاِنَّ النَّازِلَ بِهٰذَا الْمَنْزِلِ نَازِلٌۢ بِشَفَا جُرُفٍ هَارٍ، یَنْقُلُ الرَّدٰی عَلٰی ظَهْرِهٖ مِنْ مَّوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ، لِرَاْیٍ یُّحْدِثُهٗ بَعْدَ رَاْیٍ، یُرِیْدُ اَنْ یُّلْصِقَ مَا لَا یَلْتَصِقُ، وَ یُقَرِّبَ مَا لَا یَتَقَارَبُ! فَاللهَ اللهَ! اَنْ تَشْكُوْا اِلٰی مَنْ لَا یُشْكِیْ شَجْوَكُمْ، وَ لَا یَنْقُضُ بِرَاْیِهٖ مَا قَدْ اُبْرِمَ لَكُمْ.
اے اللہ کے بندو! اپنی جہالتوں کی طرف نہ مڑو اور نہ اپنی خواہشوں کے تابع ہو جاؤ۔ اس لئے کہ خواہشوں کی منزل میں اترنے والا ایسا ہے جیسے کوئی سیلاب زدہ دیوار کے کنارے پر کھڑا ہو کہ جو گرا چاہتی ہو، وہ ہلاکتوں کا پلندہ اپنی پیٹھ پر اٹھائے کبھی اس کندھے پر رکھتا ہے کبھی اس کندھے پر۔ اپنی ان رایوں کی صورت میں جنہیں وہ بدلتا رہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس پر (کوئی دلیل) چسپاں کرے مگر جو چپکنے والی نہیں ہوتی اور اسے (ذہنوں سے) قریب کرنا چاہتا ہے جو قریب ہونے کے قابل نہیں۔ اللہ سے ڈرو کہ تم اپنی شکایتیں اس شخص کے سامنے لے کر بیٹھ جاؤ کہ جو (تمہاری خواہشوں کے مطابق) تمہارے شکووں کے قلق کو دور نہیں کرے گا اور نہ شریعت کے محکم و مضبوط احکام کو توڑے گا۔
اِنَّهٗ لَیسَ عَلَی الْاَمَامِ اِلَّا مَا حُمِّلَ مِنْ اَمْرِ رَبِّهِ: الْاِبْلَاغُ فِی الْمَوْعِظَةِ، وَ الْاِجْتِهَادُ فِی النَّصِیْحَةِ، وَ الْاِحْیَآءُ لِلسُّنَّةِ، وَ اِقَامَةُ الْحُدُوْدِ عَلٰی مُسْتَحِقِّیْهَا، وَ اِصْدَارُ السُّهْمَانِ عَلٰۤی اَهْلِهَا.
امام کا فرض تو بس یہ ہے کہ جو کام اسے اپنے پروردگار کی طرف سے سپرد ہوا ہے (اسے انجام دے) اور وہ یہ ہے کہ پند و نصیحت کی باتیں ان تک پہنچائے، سمجھانے بجھانے میں پوری پوری کوشش کرے، سنت کو زندہ رکھے اور جن پر حد لگنا ہے ان پر حد جاری کرے اور (غصب کئے ہوئے) حصوں کو ان کے اصلی وارثوں تک پہنچائے۔
فَبَادِرُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِ تَصْوِیْحِ نَبْتِهٖ، وَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُشْغَلُوْا بِاَنْفُسِكُمْ عَنْ مُّسْتَثَارِ الْعِلْمِ مِنْ عِنْدِ اَهْلِهٖ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تَنَاهَوْا عَنْهُ، فَاِنَّمَا اُمِرْتُمْ بِالنَّهْیِ بَعْدَ التَّنَاهِیْ!.
تمہیں چاہیے کہ علم کی طرف بڑھو قبل اس کے کہ اس کا (ہرا بھرا) سبزہ خشک ہو جائے اور قبل اس کے کہ اہل علم سے علم سیکھنے میں اپنے ہی نفس کی مصروفیتیں حائل ہو جائیں۔ دوسروں کو برائیوں سے روکو اور خود بھی رکے رہو۔ اس لئے کہ تمہیں برائیوں سے رکنے کا حکم پہلے ہے اور دوسروں کو روکنے کا بعد میں ہے۔