سورہ ص۔ مکی۔آیات ۸۸
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔صاد، قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت والا ہے۔
٢۔ مگر جنہوں نے (اس کا) انکار کیا وہ غرور اور مخالفت میں ہیں۔
٣۔ ان سے پہلے ہم کتنی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں پھر (جب ہلاکت کا وقت آیا تو) فریاد کرنے لگے مگر وہ بچنے کا وقت نہیں تھا۔
٤۔ اور انہوں نے اس بات پر تعجب کیا کہ خود انہی میں سے کوئی تنبیہ کرنے والا آیا اور کفار کہتے ہیں : یہ جھوٹا جادو گر ہے۔
٥۔ کیا اس نے بہت سے معبودوں کی جگہ صرف ایک معبود بنا لیا؟ یہ تو یقیناً بڑی عجیب چیز ہے۔
٦۔ اور ان میں سے قوم کے سرکردہ لوگ یہ کہتے ہوئے چل پڑے : چلتے رہو اور اپنے معبودوں پر قائم رہو، اس چیز میں یقیناً کوئی غرض ہے۔
٧۔ ہم نے کبھی یہ بات کسی پچھلے مذہب سے بھی نہیں سنی، یہ تو صرف ایک من گھڑت (بات) ہے۔
٨۔ کیا ہمارے درمیان اسی پر یہ ذکر نازل کیا گیا؟ درحقیقت یہ لوگ میرے ذکر پر شک کر رہے ہیں بلکہ ابھی تو انہوں نے عذاب چکھا ہی نہیں ہے۔
٩۔ کیا ان کے پاس تیرے غالب آنے والے فیاض رب کی رحمت کے خزانے ہیں ؟
١٠۔ یا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب پر ان کی حکومت ہے ؟ (اگر ایسا ہے ) تو (آسمان کے ) راستوں پر چڑھ دیکھیں۔
١١۔ یہ لشکروں میں سے ایک چھوٹا لشکر ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے۔
١٢۔ ان سے پہلے نوح اور عاد کی قوم اور میخوں والے فرعون نے تکذیب کی تھی۔
١٣۔ اور ثمود اور لوط کی قوم اور ایکہ والوں نے بھی اور یہ ہیں وہ بڑا لشکر۔
١٤۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب لازم ہو گیا۔
١٥۔ اور یہ لوگ صرف ایک چیخ کے منتظر ہیں جس کے ساتھ کوئی مہلت نہیں ہو گی۔
١٦۔ اور وہ (از روئے تمسخر) کہتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمارا (عذاب کا) حصہ ہمیں حساب کے دن سے پہلے دے دے۔
١٧۔ (اے رسول) جو یہ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے اور (ان سے ) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کے مالک اور (اللہ کی طرف) بار بار رجوع کرنے والے تھے۔
١٨۔ہم نے ان کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا تھا، یہ صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔
١٩۔اور پرندوں کو بھی (مسخر کیا)، یہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف رجوع کرنے والے تھے
٢٠۔ اور ہم نے ان کی سلطنت مستحکم کر دی اور انہیں حکمت عطا کی اور فیصلہ کن گفتار (کی صلاحیت) دے دی۔
٢١۔ اور کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے ؟
٢٢۔ جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے ، انہوں نے کہا:خوف نہ کیجیے ، ہم نزاع کے دو فریق ہیں ، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا آپ ہمارے درمیان فیصلہ کیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجیے۔
٢٣۔ یہ میرا بھائی ہے ، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے ، یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالے کرو اور گفتگو میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔
٢٤۔ داؤد کہنے لگے : تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقیناً یہ تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے ر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں ، پھر داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور عاجزی کرتے ہوئے جھک گئے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔
٢٥۔ پس ہم نے ان کی اس بات کو معاف کیا اور یقیناً ہمارے نزدیک ان کے لیے تقرب اور بہتر بازگشت ہے۔
٢٦۔ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں ، وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، جو اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے یوم حساب فراموش کرنے پر یقیناً سخت عذاب ہو گا۔
٢٧۔ اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، یہ کفار کا گمان ہے ، ایسے کافروں کے لیے آتش جہنم کی تباہی ہے۔
٢٨۔ کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں ؟
٢٩۔ یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔
٣٠۔ اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا جو بہترین بندے اور (اللہ کی طرف) خوب رجوع کرنے والے تھے۔
٣١۔ جب شام کے وقت انہیں عمدہ تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے ،
٣٢۔ تو انہوں نے کہا: میں نے (گھوڑوں کے ساتھ ایسے ) محبت کی جیسے خیر سے محبت کی جاتی ہے اور اپنے رب کے ذکر سے غافل ہو گیا یہاں تک کہ پردے میں چھپ گیا۔
٣٣۔ (بولے ) انہیں میرے پاس واپس لے آؤ، پھر ان کی ٹانگوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
٣٤۔ اور ہم نے سلیمان کو آزمایا اور ان کے تخت پر ایک جسد ڈال دیا پھر انہوں نے (اپنے رب کی طرف) رجوع کیا۔
٣٥۔ کہا: میرے رب! مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی بادشاہی عطا کر جو میرے بعد کسی کے شایان شان نہ ہو، یقیناً تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔
٣٦۔ پھر ہم نے ہوا کو ان کے لیے مسخر کر دیا، جدھر وہ جانا چاہتے ان کے حکم سے نرمی کے ساتھ اسی طرف چل پڑتی تھی۔
٣٧۔ اور ہر قسم کے معمار اور غوطہ خور شیاطین کو بھی (مسخر کیا)۔
٣٨۔ اور دوسروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔
٣٩۔ یہ ہماری عنایت ہے جس پر چاہو احسان کرو اور جس کو چاہو روک دو، اس کا کوئی حساب نہیں ہو گا۔
٤٠۔ اور ان کے لیے ہمارے ہاں یقیناً قرب اور نیک انجام ہے۔
٤١۔ اور ہمارے بندے ایوب کا ذکر کیجیے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے۔
٤٢۔ (ہم نے کہا ) اپنا پاؤں ماریں ، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے اور پینے کے لیے۔
٤٣۔ ہم نے انہیں اہل و عیال دیے اور ان کے ساتھ اتنے مزید دیے اپنی طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لیے نصیحت کے طور پر۔
٤٤۔ (ہم نے کہا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو تھام لیں اور اسی سے ماریں اور قسم نہ توڑیں ، ہم نے انہیں صابر پایا، وہ بہترین بندے تھے ، بے شک وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کرنے والے تھے۔
٤٥۔ اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو یاد کیجیے جو طاقت اور بصیرت والے تھے۔
٤٦۔ ہم نے انہیں ایک خاص صفت کی بنا پر مخلص بنایا (وہ) دار (آخرت) کا ذکر ہے۔
٤٧۔ اور وہ ہمارے نزدیک یقیناً برگزیدہ نیک افراد میں سے تھے۔
٤٨۔ اور (اے رسول) اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کیجیے ، یہ سب نیک لوگوں میں سے ہیں۔
٤٩۔ یہ ایک نصیحت ہے اور تقویٰ والوں کے لیے یقیناً اچھا ٹھکانا ہے۔
٥٠۔ وہ دائمی جنتیں ہیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔
٥١۔ ان میں وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور بہت سے میوے اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے۔
٥٢۔ اور ان کے پاس آنکھیں نیچے رکھنے والی ہم عمر (بیویاں ) ہوں گی۔
٥٣۔ یہ وہ بات ہے جس کا روز حساب کے لیے تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔
٥٤۔ یقیناً یہ ہمارا وہ رزق ہے جو ختم ہونے والا نہیں ہے۔
٥٥۔ یہ تو (اہل تقویٰ کے لیے ) ہے اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے۔
٥٦۔ (یعنی) جہنم جس میں وہ جھلس جائیں گے ، پس وہ بدترین بچھونا ہے۔
٥٧۔ یہ ہے کھولتا ہوا پانی اور پیپ جس کا ذائقہ وہ چکھیں ،
٥٨۔ اور اس قسم کی مزید بہت سی چیزوں کا۔
٥٩۔ یہ ایک جماعت تمہارے ساتھ (جہنم میں ) گھسنے والی ہے ، ان کے لیے کوئی خیر مقدم نہیں ہے ، یہ یقیناً آگ میں جھلسنے والے ہیں۔
٦٠۔ وہ کہیں گے : تمہارے لیے کوئی خیر مقدم نہیں ہے بلکہ تم ہی تو یہ (مصیبت) ہمارے لیے لائے ہو، پس کیسی بدترین جگہ ہے۔
٦١۔ وہ کہیں گے : ہمارے پروردگارا! جس نے ہمیں اس انجام سے دوچار کیا ہے اسے آگ میں دگنا عذاب دے۔
٦٢۔ اور وہ کہیں گے : کیا بات ہے ہمیں وہ لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ہم برے افراد میں شمار کرتے تھے ؟
٦٣۔ کیا ہم یونہی ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے یا اب (ہماری) آنکھیں انہیں نہیں پاتیں ؟
٦٤۔ یہ جہنمیوں کے باہمی جھگڑے کی حتمی بات ہے۔
٦٥۔ آپ کہہ دیجیے : میں تو صرف تنبیہ کرنے والا ہوں اور کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو واحد، قہار ہے۔
٦٦۔ وہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا مالک ہے ، وہ بڑا غالب آنے والا ، بڑا معاف کرنے والا ہے۔
٦٧۔ کہہ دیجئے : یہ ایک بڑی خبر ہے ،
٦٨۔ جس سے تم منہ پھیرتے ہو۔
٦٩۔ مجھے عالم بالا کا علم نہ تھا جب وہ (فرشتے ) بحث کر رہے تھے۔
٧٠۔ میری طرف وحی محض اس لیے ہوتی ہے کہ میں نمایاں طور پر فقط تنبیہ کرنے والا ہوں۔
٧١۔ جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا:میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔
٧٢۔ پس جب میں اسے درست بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔
٧٣۔ چنانچہ تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا،
٧٤۔ سوائے ابلیس کے جو اکڑ بیٹھا اور کافروں میں سے ہو گیا۔
٧٥۔ فرمایا: اے ابلیس !جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اسے سجدہ کرنے ے تجھے کس چیز نے روکا؟ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا تو اونچے درجے والوں میں سے ہے ؟
٧٦۔ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں ، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے۔
٧٧۔ فرمایا: پس نکل جا یہاں سے کہ تو یقیناً مردود ہے۔
٧٨۔اور یوم جزا تک تم پر میری لعنت ہے۔
٧٩۔ اس نے کہا: میرے رب! پس (ان لوگوں کے ) اٹھائے جانے کے روز تک مجھے مہلت دے۔
٨٠۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے ،
٨١۔ معین وقت کے دن تک۔
٨٢۔ کہنے لگا : مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔
٨٣۔ ان میں سے سوائے تیرے خالص بندوں کے۔
٨٤۔ فرمایا: حق تو یہ ہے اور میں حق بات ہی کرتا ہوں
٨٥۔ کہ میں تجھ سے اور ان میں سے تیری پیروی کرنے والوں سے جہنم کو ضرور پر کر دوں گا۔
٨٦۔ کہہ دیجئے : میں تم لوگوں سے اس بات کا اجر نہیں مانگتا اور نہ ہی میں بناوٹ والوں میں سے ہوں۔
٨٧۔ یہ تو عالمین کے لیے صرف نصیحت ہے۔
٨٨۔ اور تمہیں اس کا علم ایک مدت کے بعد ہو گا۔