خطبہ (۱۱۵)
(۱۱٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۱۴)
اَرْسَلَهٗ دَاعِیًا اِلَی الْحَقِّ، وَ شَاهِدًا عَلَی الْخَلْقِ، فَبَلَّغَ رِسَالَاتِ رَبِّهٖ غَیْرَ وَانٍ وَّ لَا مُقَصِّرٍ، وَ جَاهَدَ فِی اللهِ اَعْدَآئَهٗ غَیْرَ وَاهِنٍ وَّ لَا مُعَذِّرٍ، اِمَامُ مَنِ اتَّقٰی، وَ بَصَرُ مَنِ اهْتَدٰی.
اللہ نے آپؐ کو حق کی طرف بلانے والا اور مخلوق کی گواہی دینے والا بنا کر بھیجا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے پروردگار کے پیغاموں کو پہنچایا۔ نہ اس میں کچھ سستی کی، نہ کوتاہی اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا، جس میں نہ کمزوری دکھائی، نہ حیلے بہانے کئے۔ وہ پرہیزگاروں کے امام اور ہدایت پانے والوں (کی آنکھوں) کیلئے بصارت ہیں۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
وَ لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَاۤ اَعْلَمُ مِمَّا طُوِیَ عَنْكُمْ غَیْبُهٗ، اِذًا لَّخَرَجْتُمْ اِلَی الصُّعُدَاتِ، تَبْكُوْنَ عَلٰۤی اَعْمَالِكُمْ، وَ تَلْتَدِمُوْنَ عَلٰۤی اَنْفُسِكُمْ، وَ لَتَرَكْتُمْ اَمْوَالَكُمْ لَا حَارِسَ لَهَا وَ لَا خَالِفَ عَلَیْهَا، وَ لَهَمَّتْ كُلَّ امْرِئٍ مِّنْكُمْ نَفْسُهٗ، لَا یَلْتَفِتُ اِلٰی غَیْرِهَا وَ لٰكِنَّكُمْ نَسِیْتُمْ مَا ذُكِّرْتُمْ، وَ اَمِنْتُمْ مَا حُذِّرْتُمْ، فَتَاهَ عَنْكُمْ رَاْیُكُمْ، وَ تَشَتَّتَ عَلَیْكُمْ اَمْرُكُمْ.
جو چیزیں تم سے پردۂ غیب میں لپیٹ دی گئی ہیں اگر تم بھی انہیں جان لیتے جس طرح میں جانتا ہوں تو بلا شبہ تم اپنی بداعمالیوں پر روتے ہوئے اور اپنے نفسوں کا ماتم کرتے ہوئے اور اپنے مال و متاع کو بغیر کسی نگہبان اور بغیر کسی نگہداشت کرنے والے کے یونہی چھوڑ چھاڑ کر کھلے میدانوں میں نکل پڑتے اور ہر شخص کو اپنے ہی نفس کی پڑی ہوتی، کسی اور کی طرف متوجہ ہی نہ ہوتا۔ لیکن جو تمہیں یاد دلایا گیا تھا اسے تم بھول گئے اور جن چیزوں سے تمہیں ڈرایا گیا تھا اس سے تم نڈر ہو گئے۔ اس طرح تمہارے خیالات بھٹک گئے اور تمہارے سارے امور درہم و برہم ہو گئے۔
وَ لَوَدِدْتُّ اَنَّ اللهَ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْ، وَ اَلْحَقَنِیْ بِمَنْ هُوَ اَحَقُّ بِیْ مِنْكُمْ، قَوْمٌ وَّاللهِ! مَیَامِیْنُ الرَّاْیِ، مَرَاجِیْحُ الْحِلْمِ، مَقَاوِیْلُ بِالْحَقِّ، مَتَارِیْكُ لِلْبَغْیِ. مَضَوْا قُدُمًا عَلَی الطَّرِیْقَةِ، وَ اَوْجَفُوْا عَلَی الْمَحَجَّةِ، فَظَفِرُوْا بِالْعُقْبَی الْدَّآئِمَةِ، وَ الْكَرَامَةِ الْبَارِدَةِ.
میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دے اور مجھے ان لوگوں سے ملا دے جو تم سے زیادہ میرے حقدار ہیں۔ خدا کی قسم! وہ ایسے لوگ ہیں جن کے خیالات مبارک اور عقلیں ٹھوس تھیں۔ وہ کھل کر حق بات کہنے والے اور سرکشی و بغاوت کو چھوڑنے والے تھے۔ وہ قدم آگے بڑھا کر اللہ کی راہ پر ہو لئے اور سیدھی راہ پر (بے کھٹکے) دوڑے چلے گئے۔ چنانچہ انہوں نے ہمیشہ رہنے والی آخرت اور عمدہ و پاکیزہ نعمتوں کو پا لیا۔
اَمَا وَاللهِ! لَیُسَلَّطَنَّ عَلَیْكُمْ غُلَامُ ثَقِیْفٍ الذَّیَّالُ الْمَیَّالُ، یَاْكُلُ خَضِرَتَكُمْ، وَ یُذِیْبُ شَحْمَتَكُمْ، اِیْهٍ اَبَا وَذَحَةَ.
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم پر بنی ثقیف کا ایک لڑکا تسلط پا لے گا وہ دراز قد ہو گا اور بل کھا کر چلے گا۔ وہ تمہارے تمام سبزہ زاروں کو چر جائے گا اور تمہاری چربی (تک) پگھلا دے گا۔ ہاں اے ابو وذحہ کچھ اور!۔
اَقُوْلُ: الْوَذَحَةُ: الْخُنْفَسَآءُ. وَ هٰذَا الْقَوْلُ یُوْمِئُ بِهٖ اِلَی الْحَجَّاجِ، وَ لَهٗ مَعَ الْوَذَحَةِ حَدِیْثٌ لَّیْسَ هٰذَا مَوْضِعَ ذِكْرِهٖ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں:۔ کہ ’’وذحہ‘‘ کے معنی ’’خنفساء‘‘ کے ہیں۔ آپؑ نے اپنے اس ارشاد سے حجاج (ابن یوسف ثقفی) کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اور اس کا خنفساء سے متعلق ایک واقعہ ہے [۱] جس کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں ہے۔
۱۱س واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ: حجاج ایک دن نماز پڑھنے کیلئے کھڑا ہوا تو ’’خنفسا‘‘ اس کی طرف بڑھا۔ حجاج نے ہاتھ بڑھا کر اسے روکنا چاہا مگر اس نے اسے کاٹ لیا جس سے اس کے ہاتھ پر ورم آ گیا اور آخر اس کے اثر سے اس کی موت واقع ہوئی۔
ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ ’’وذحہ‘‘ اس گوبر کو کہتے ہیں جو کسی حیوان کی دُم پر لگا رہ گیا ہو اور اس کنیت سے مقصود اس کی تذلیل ہے۔↑