خطبہ (۱۲۶)
(۱٢٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۵)
لِلْخَوَارِجِ اَیْضًا
خوارج کے متعلق فرمایا
فَاِنْ اَبَیْتُمْ اِلَّا اَنْ تَزْعُمُوْا اَنِّیْۤ اَخْطَاْتُ وَ ضَلَلْتُ، فَلِمَ تُضَلِّلُوْنُ عَامَّةَ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ بِضَلَالِیْ، وَ تَاْخُذُوْنَهُمْ بِخَطَئِیْ، وَ تُكَفِّرُوْنَهُمْ بِذُنُوْبِیْ! سُیُوْفُكُمْ عَلٰی عَوَاتِقِكُمْ تَضَعُوْنَهَا مَوَاضِعَ الْبُرْءِ وَ السُّقْمِ، وَتَخْلِطُوْنَ مَنْ اَذْنَبَ بِمَنْ لَّمْ یُذْنِبْ.
اگر تم اس خیال سے باز آنے والے نہیں ہو کہ میں نے غلطی کی اور گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کی وجہ سے اُمت ِمحمدؐ کے عام افراد کو کیوں گمراہ سمجھتے ہو؟ اور میری غلطی کی پاداش انہیں کیوں دیتے ہو؟ اور میرے گناہوں کے سبب سے انہیں کیوں کافر کہتے ہو؟ تلواریں کندھوں پر اٹھائے ہر موقع و بے موقع جگہ پر وار کئے جا رہے ہو اور بے خطاؤں کو خطا کاروں کے ساتھ ملائے دیتے ہو۔
وَ قَدْ عَلِمْتُمْ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ رَجَمَ الزَّانِیَ الْمُحْصَنَ، ثُمَّ صَلّٰی عَلَیْهِ ثُمَّ وَرَّثَهٗ اَهْلَهٗ، وَ قَتَلَ الْقَاتِلَ وَ وَرَّثَ مِیْرَاثَهٗ اَهْلَهٗ، وَ قَطَعَ السَّارِقَ وَ جَلَدَ الزَّانِیَ غَیْرَ الْمُحْصَنِ ثُمَّ قَسَمَ عَلَیْهِمَا مِنَ الْفَیْءِ وَ نَكَحَا الْمُسْلِمَاتِ فَاَخَذَهُمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِذُنُوْبِهِمْ، وَ اَقَامَ حَقَّ اللهِ فِیْهِمْ، وَ لَمْ یَمْنَعْهُمْ سَهْمَهُمْ مِنَ الْاِسْلَامِ، وَ لَمْ یُخْرِجْ اَسْمَآئَهُمْ مِنْۢ بَیْنِ اَهْلِهٖ. ثُمَّ اَنْتُمْ شِرَارُ النَّاسِ، وَ مَنْ رَّمٰی بِهِ الشَّیْطٰنُ مَرَامِیَهٗ، وَ ضَرَبَ بِهٖ تِیْهَهٗ!.
حالانکہ تم جانتے ہو کہ رسول ﷺ نے جب زانی کو سنگسار کیا تو نماز جنازہ بھی اس کی پڑھی اور اس کے وارثوں کو اس کا ورثہ بھی دلوایا اور قاتل سے قصاص لیا تو اس کی میراث اس کے گھر والوں کو دلائی، چور کے ہاتھ کاٹے اور زنائے غیر محصنہ کے مرتکب کو تازیانے لگوائے تو اس کے ساتھ انہیں مال غنیمت میں سے حصہ بھی دیا اور انہوں نے (مسلمان ہونے کی حیثیت سے) مسلمان عورتوں سے نکاح بھی کئے۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ نے ان کے گناہوں کی سزا ان کو دی اور جو ان کے بارے میں اللہ کا حق (حد شرعی) تھا اسے جاری کیا، مگر انہیں اسلام کے حق سے محروم نہیں کیا اور نہ اہل اسلام سے ان کے نام خارج کئے۔ اس کے بعد (ان شر انگیزیوں کے معنی یہ ہیں کہ) تم ہو ہی شر پسند اور وہ کہ جنہیں شیطان نے اپنی مقصد برآری کی راہ پر لگا رکھا ہے اور گمراہی کے سنسان بیابان میں لا پھینکا ہے۔
وَ سَیَهْلِكُ فِیَّ صِنْفَانِ: مُحِبٌّ مُّفْرِطٌ یَّذْهَبُ بِهِ الْحُبُّ اِلٰی غَیْرِ الْحَقِّ، وَ مُبْغِضٌ مُّفْرِطٌ یَّذْهَبُ بِهِ الْبُغْضُ اِلٰی غَیْرِ الْحَقِّ، وَ خَیْرُ النَّاسِ فِیَّ حَالًا النَّمَطُ الْاَوْسَطُ فَالْزَمُوْهُ، وَ الْزَمُوا السَّوَادَ الْاَعْظَمَ، فَاِنَّ یَدَ اللهِ عَلَی الْجَمَاعَةِ، وَ اِیَّاكُمْ وَ الْفُرْقَةَ! فَاِنَّ الشَّاذَّ مِنَ النَّاسِ لِلشَّیْطٰنِ، كَماۤ اَنَّ الشَّاذَّ مِنَ الْغَنَمِ لِلذِّئْبِ.
(یاد رکھو کہ) میرے بارے میں دو قسم کے لوگ تباہ و برباد ہوں گے: ایک حد سے زیادہ چاہنے والے جنہیں محبت (کی افراط) غلط راستے پر لگا دے گی اور ایک میرے مرتبہ میں کمی کر کے دشمنی رکھنے والے کہ جنہیں یہ عناد حق سے بے راہ کر دے گا۔ میرے متعلق درمیانی راہ اختیار کرنے والے ہی سب سے بہتر حالت میں ہوں گے۔ تم اسی راہ پر جمے رہو اور اسی بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے باز آ جاؤ اس لئے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے، جس طرح گلہ سے کٹ جانے والی بھیڑ بھیڑیے کو مل جاتی ہے۔
اَلَا مَنْ دَعَاۤ اِلٰی هٰذَا الشِّعَارِ فَاقْتُلُوْهُ، وَ لَوْ كَانَ تَحْتَ عِمَامَتِیْ هٰذِهِ، وَ اِنَمَّا حُكِّمَ الْحَكَمَانِ لِیُحْیِیَا مَاۤ اَحْیَا الْقُرْاٰنُ، وَ یُمِیْتَا مَاۤ اَمَاتَ الْقُرْاٰنُ، وَ اِحْیَآؤُهُ الْاِجْتِمَاعُ عَلَیْهِ، وَ اِمَاتَتُهُ الْاِفْتَرَاقُ عَنْهُ، فَاِنْ جَرَّنَا الْقُرْاٰنُ اِلَیْهِمُ اتَّبَعْنَاهُمْ، وَ اِنْ جَرَّهُمْ اِلَیْنَا اتَّبَعُوْنَا.
خبردار! جو بھی ایسے نعرے لگا کر اپنی طرف بلائے اسے قتل کر دو، اگرچہ وہ اسی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو ( یعنی میں خود کیوں نہ ہوں) اور وہ دونوں حَکم (ابو موسیٰ و عمر و ابن عاص) تو صرف اس لئے ثالث مقرر کئے گئے تھے کہ وہ انہی چیزوں کو زندہ کریں جنہیں قرآن نے زندہ کیا ہے اور انہی چیزوں کو نیست و نابود کریں جنہیں قرآن نے نیست و نابود کیا ہے۔ کسی چیز کے زندہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس پر یکجہتی کے ساتھ متحد ہوا جائے اور اس کے نیست و نابود کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ اب اگر قرآن ہمیں ان لوگوں (کی اطاعت) کی طرف لے جاتا تو ہم ان کے پیرو بن جاتے اور اگر انہیں ہماری طرف لائے تو پھر انہیں ہمارا اتباع کرنا چاہیے۔
فَلَمْ اٰتِ ـ لَا اَبَا لَكُمْ ـ بُجْرًا، وَ لَا خَتَلْتُكُمْ عَنْ اَمْرِكُمْ، وَ لَا لَبَّسْتُهٗ عَلَیْكُمْ، اِنَّمَا اجْتَمَعَ رَاْیُ مَلَئِكُمْ عَلَی اخْتِیَارِ رَجُلَیْنِ، اَخَذْنَا عَلَیْهِمَاۤ اَنْ لَّا یَتَعَدَّیَا الْقُرْاٰنَ، فَتَاهَا عَنْهُ، وَ تَرَكَا الْحَقَّ وَ هُمَا یُبْصِرَانِهٖ، وَ كَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا فَمَضَیَا عَلیْهِ، وَ قَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَآؤُنَا عَلَیْهِمَا ـ فِی الْحُكُومَةِ بِالْعَدْلِ، وَ الصَّمْدِ لِلْحَقِّ ـ سُوْٓءَ رَاْیِهِمَا وَ جَوْرَ حُكْمِهِمَا.
تمہارا بُرا ہو! میں نے کوئی مصیبت تو کھڑی نہیں کی اور نہ کسی بات میں تمہیں دھوکا دیا ہے اور نہ اس میں فریب کاری کی ہے۔ تمہاری جماعت ہی کی یہ رائے قرار پائی تھی کہ دو آدمی چن لئے جائیں جن سے ہم نے یہ اقرار لے لیا تھا کہ وہ قرآن سے تجاوز نہ کریں گے۔ لیکن وہ اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے باوجود قرآن سے بہک گئے اور حق کو چھوڑ بیٹھے اور ان کے جذبات بے راہ روی کے مقتضی ہوئے۔ چنانچہ وہ اس روش پر چل پڑے (حالانکہ) ہم نے پہلے ہی ان سے شرط کر لی تھی کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق کا مقصد پیش نظر رکھنے میں بد نیتی و بے راہ روی کو دخل نہ دیں گے۔ (اگر ایسا ہوا تو وہ فیصلہ ہمارے لئے قابل تسلیم نہ ہو گا)۔