خطبات

خطبہ (۱۲۷)

(۱٢٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۲۶)

فِیْمَا یُخْبِرُ بِهٖ عَنِ الْمَلَاحِمِ بِالْبَصْرَةِ

اس میں بصرہ کے اندر برپا ہونے والے ہنگاموں کا تذکرہ ہے

یاۤ اَحْنَفُ! كَاَنِّیْ بِهٖ وَ قَدْ سَارَ بِالْجَیْشِ الَّذِیْ لَا یَكُوْنُ لَهٗ غُبَارٌ وَّ لَا لَجَبٌ، وَ لَا قَعْقَعَةُ لُجُمٍ، وَ لَا حَمْحَمَةُ خَیْلٍ، یُثِیْرُوْنَ الْاَرْضَ بِاَقْدَامِهِمْ كَاَنَّهاۤ اَقْدَامُ النَّعَامِ.

اے احنف! میں اس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ ایک ایسے لشکر کو لے کر بڑھ رہا ہے کہ جس میں نہ گرد و غبار ہے، نہ شور و غوغا، نہ لگاموں کی کھڑکھڑاہٹ ہے اور نہ گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز۔ وہ لوگ زمین کو اپنے پَیروں سے جو شتر مرغ کے پیروں کے مانند ہیں روند رہے ہوں گے۔

یُوْمِئُ بِذٰلِكَ اِلٰی صَاحِبِ الزِّنْجِ. ثُمَّ قَالَ ؑ:

سیّد رضی کہتے ہیں کہ: حضرتؑ نے اس سے حبشیوں کے سردار [۱] کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پھر آپؑ نے فرمایا:

وَیْلٌ لِّسِكَـكِكُمُ الْعَامِرَةِ، وَ الدُّوْرِ الْمُزَخْرَفَةِ الَّتِیْ لَهَاۤ اَجْنِحَةٌ كَاَجْنَحَةِ النُّسُوْرِ، وَ خَرَاطِیْمُ كَخَرَاطِیْمِ الْفِیَلَةِ، مِنْ اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ لَا یُنْدَبُ قَتِیْلُهُمْ، وَ لَا یُفْقَدُ غَآئِبُهُمْ. اَنَا كَآبُّ الدُّنْیَا لِوَجْهِهَا، وَ قَادِرُهَا بِقَدْرِهَا، وَ نَاظِرُهَا بِعَیْنِهَا.

ان لوگوں کے ہاتھوں سے کہ جن کے قتل ہو جانے والوں پر بین نہیں کیا جاتا اور گم ہونے والوں کو ڈھونڈھا نہیں جاتا، تمہاری ان آباد گلیوں اور سجے سجائے مکانوں کیلئے تباہی ہے کہ جن کے چھجے گِدوں کے پروں اور ہاتھیوں کی سونڈوں کے مانند ہیں۔ میں دنیا کو اوندھے منہ گرانے والا اور اس کی بساط کا صحیح اندازہ رکھنے والا اور اس کے لائق حال نگاہوں سے دیکھنے والا ہوں۔

[مِنْهُ: یُوْمِئُ بِہٖۤ اِلٰی وَصْفِ الْاَتْرَاكِ]

[اسی خطبہ کے ذیل میں ترکوں کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے]

كَاَنِّیْۤ اَرَاهُمْ قَوْمًا كَاَنَّ وُجُوْهَهُمُ الْمَجَانُّ الْمُطْرَقَةُ، یَلْبَسُوْنَ السَّرَقَ وَ الدِّیْبَاجَ، وَ یَعْتَقِبُوْنَ الْخَیْلَ الْعِتَاقَ، وَ یَكُوْنُ هُنَاكَ اسْتِحْرَارُ قَتْلٍ، حَتّٰی یَمْشِیَ الْمَجْرُوْحُ عَلَی الْمَقْتُوْلِ، وَ یَكُوْنَ الْمُفْلِتُ اَقَلَّ مِنَ الْمَاْسُوْرِ!.

میں ایسے لوگوں [۲] کو دیکھ رہا ہوں کہ جن کے چہرے ان ڈھالوں کی طرح ہیں کہ جن پر چمڑے کی تہیں منڈھی ہوئی ہوں۔ وہ ابریشم و دیبا کے کپڑے پہنتے ہیں اور اصیل گھوڑوں کو عزیز رکھتے ہیں اور وہاں کشت و خون کی گرم بازاری ہو گی، یہاں تک کہ زخمی کشتوں کے اوپر سے ہو کر گزریں گے اور بچ کر بھاگ نکلنے والے اسیر ہونے والوں سے کم ہوں گے۔

فَقَالَ لَهٗ بَعْضُ اَصْحَابِهٖ: لَقَدْ اُعْطِیْتَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عِلْمَ الْغَیْبِ! فَضَحِكَ ؑ وَ قَالَ لِلرَّجُلِ ـ وَ كَانَ كَلْبِیًّاـ:

(اس موقع پر) آپؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے جو قبیلہ بنی کلب سے تھا عرض کیا کہ: یا امیرالمومنینؑ! آپؑ کو تو علم غیب [۳] حاصل ہے۔ جس پر آپؑ ہنسے اور فرمایا:

یاۤ اَخَا كَلْبٍ! لَیْسَ هُوَ بِعِلْمِ غَیْبٍ، وَ اِنَّمَا هُوَ تَعَلُّمٌ مِّنْ ذِیْ عِلْمٍ، وَ اِنَّمَا عِلْمُ الْغَیْبِ عِلْمُ السَّاعَةِ، وَ مَا عَدَّدَهُ اللهُ سُبْحَانَهٗ بِقَوْلِهٖ: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ …﴾ الْاٰیَةَ، فَیَعْلَمُ سُبْحَانَهٗ مَا فِی الْاَرْحَامِ مِنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰی، وَ قَبِیْحٍ اَوْ جَمِیْلٍ، وَ سَخِیٍّ اَوْ بَخِیْلٍ، وَ شَقیٍّ اَوْ سَعِیْدٍ، وَ مَنْ یَّكُوْنُ فِی النَّارِ حَطَبًا، اَوْ فِی الْجِنَانِ لِلنَّبِیِّیْنَ مُرَافِقًا، فَهٰذَا عِلْمُ الْغَیْبِ الَّذِیْ لَا یَعْلَمُهٗۤ اَحَدٌ اِلَّا اللهُ، وَ مَا سِوٰی ذٰلِكَ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللهُ نَبِیَّهٗ بِہٖ فَعَلَّمَنِیْهِ، وَ دَعَا لِیْ بِاَنْ یَّعِیَهٗ صَدْرِیْ، وَ تَضْطَمَّ عَلَیْهِ جَوَانِحِیْ.

اے برادر کلبی! یہ علم غیب نہیں، بلکہ ایک صاحب علم (رسولؐ) سے معلوم کی ہوئی باتیں ہیں۔علم غیب تو قیامت کی گھڑی اور ان چیزوں کے جاننے کا نام ہے کہ جنہیں اللہ سبحانہ نے ﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ …﴾ والی آیت میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ اللہ ہی جانتا ہے کہ شکموں میں کیا ہے، نر ہے یا مادہ، بد صورت ہے یا خوبصورت، سخی ہے یا بخیل، بدبخت ہے یا خوش نصیب اور کون جہنم کا ایندھن ہو گا اور کون جنت میں نبیوں کا رفیق ہو گا۔ یہ وہ علم غیب ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ رہا دوسری چیزوں کا علم تو وہ اللہ نے اپنے نبیؐ کو دیا اور نبیؐ نے مجھے بتایا اور میرے لئے دُعا فرمائی کہ میرا سینہ انہیں محفوظ رکھے اور میری پسلیاں انہیں سمیٹے رہیں۔

۱؂علی ابن محمد ’’رے‘‘ کے مضافات میں ورزنین نامی ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ خوارج کے فرقہ ازارقہ سے تعلق رکھتا تھا اور خود کو محمد ابن احمد مختفی ابن عیسیٰ ابن زید ابن علی کا فرزند کہہ کر سیادت کا مدعی بنتا تھا، مگر اہل انساب و سیر نے اس کے دعوائے سیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور اس کے باپ کا نام ’’محمد ابن احمد‘‘ کے بجائے ’’محمد ابنِ ابراہیم‘‘ تحریر کیا ہے جو قبیلہ عبدالقیس سے تھا اور ایک سندھی کنیز کے بطن سے متولد ہوا تھا۔

علی ابن محمد نے ۲۵۵ھ میں مہتدی باللہ کے دور میں خروج کیا اور اطراف بصرہ میں بسنے والے غلاموں کو مال و دولت اور آزادی کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور ۱۷ شوال ۲۵۷ھ میں مار دھاڑ کرتا ہوا بصرہ کے اندر داخل ہوا اور صرف دو دن میں تیس ہزار افراد کو کہ جن میں بچے، بوڑھے، عورتیں سب ہی تھیں موت کے گھاٹ اتار دیا اور ظلم و سفاکی اور وحشت و خونخواری کی انتہا کر دی۔ مکانوں کو مسمار کر دیا اور مسجدوں میں آگ لگا دی اور لگاتار چودہ برس تک قتل و غارت گری کے بعد موفق کے دور میں صفر ۲۷۰ھ میں قتل ہوا اور لوگوں کو اس کی تباہ کاریوں سے نجات ملی۔

امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی ان پیشین گوئیوں میں سے ہے جو آپؑ کے علم امامت پر روشنی ڈالتی ہیں۔ چنانچہ اس کے لشکر کی جو کیفیت بیان فرمائی ہے کہ نہ اس میں گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز اور نہ ہتھیاروں کے کھڑکھڑانے کی صدا ہو گی، ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ مُؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ: جب یہ خروج کے ارادے سے مقام کرخ کے قریب پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور ایک شخص نے ایک گھوڑا بطور تحفہ اسے پیش کیا، مگر تلاش کے باوجود اس کیلئے لگام نہ مل سکی۔ آخر ایک رسی کی لگام دے کر اس پر سوار ہوا اور یونہی اس کے لشکر میں اس وقت صرف تین تلواریں تھیں: ایک خود اس کے پاس اور ایک علی ابن ابان مہلبی اور ایک محمد ابن مسلم کے پاس اور بعد میں لوٹ مار سے کچھ اور اسلحہ ان کے ہاتھ لگ گیا تھا۔

۲؂امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی تاتاریوں کے حملہ کے متعلق ہے جو ترکستان کے شمال مشرق کی جانب صحرائے منگولیا کے رہنے والے تھے۔

ان نیم وحشی قبیلوں کی زندگی لوٹ مار اور قتل و غارت میں گزرتی تھی اور آپس میں لڑتے بھڑتے اور گرد و نواح پر حملے کرتے رہتے تھے۔ ہر قبیلہ کا سردار الگ الگ ہوتا تھا جو ان کی حفاظت کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا۔ چنگیز خان جو انہی تاتاری قبائل کے حکمران خاندان کا ایک فرد اور بڑا باہمت و جرأت مند تھا ان تمام منتشر و پراگندہ قبیلوں کو منظم کرنے کیلئے اٹھا اور ان کے مزاحم ہونے کے باوجود اپنی قوت و حسن تدبیر سے ان پر قابو پانے میں کامیاب ہو گیا اور ایک کثیر تعداد اپنے پرچم کے نیچے جمع کر کے ۶۰۶ھ میں سیلاب کی طرح امنڈا اور شہروں کو غرق اور آبادیوں کو ویران کرتا ہوا شمالی چین تک کا علاقہ فتح کر لیا۔

جب اس کا اقتدار قائم ہو گیا تو اس نے اپنے ہمسایہ ملک ترکستان کے فرمانروا علاؤ الدین خوارزم شاہ کی طرف دست مصالحت بڑھایا اور ایک وفد بھیج کر اس سے عہد لیا کہ تاتاری تاجر اس کے علاقہ میں خرید و فروخت کیلئے آتے جاتے رہیں گے۔ ان کے جان و مال کو کسی قسم کا گزند نہ پہنچایا جائے۔ چنانچہ کچھ عرصہ تک وہ بے کھٹکے آتے جاتے رہے، مگر ایک موقع پر اس نے تاتاری تاجروں پر جاسوسی کا الزام لگا کر ان کا مال لوٹ لیا اور انہیں والیٔ اترار کے ذریعہ قتل کروا دیا۔ چنگیز خان کو جب معاہدہ کی خلاف ورزی اور تاتاری تاجروں کے مارے جانے کا علم ہوا تو اس کی آنکھوں سے شرارے برسنے لگے، غصہ میں پیچ و تاب کھانے لگا اور علاؤ الدین کو پیغام بھیجا کہ وہ تاتاری تاجروں کا مال واپس کرے اور والیٔ اترار کو اس کے حوالے کرے، مگر علاؤ الدین اپنی قوت و طاقت کے نشہ میں مدہوش تھا، اس نے کوئی پروا نہ کی اور عاقبت نا اندیشی سے کام لیتے ہوئے چنگیز خان کے ایلچی کو بھی مروا دیا۔ اب چنگیز خان میں تابِ ضبط نہ رہی۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ شمشیر بکف اٹھ کھڑا ہوا اور تاتاری جنگجو باد رفتار گھوڑے دوڑاتے ہوئے بخارا پر چڑھ دوڑے۔ علاؤ الدین بھی چار لاکھ نبرد آزماؤں کے ساتھ مقابلہ کو نکلا مگر تاتاریوں کے تابڑ توڑ حملوں کو نہ روک سكا اور چند ہی حملوں میں سپر انداختہ ہو کر جیحون کے راستہ سے نیشاپور کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ تاتاریوں نے بخارا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ مسجدوں اور مدرسوں کو مسمار اور گھروں کو پھونک کر راکھ کا ڈھیر کر دیا اور بلا امتیاز زن و مرد سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور اگلے سال سمرقند پر یورش کی اور اسے بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔

علاؤ الدین کے نکل بھاگنے کے بعد اس کے بیٹے جلال الدین خوارزم شاہ نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی تھی۔ تاتاریوں نے اس کا بھی پیچھا کیا، مگر وہ دس برس تک اِدھر سے اُدھر بھاگتا پھرا اور ان کے ہاتھ نہ لگا اور آخر دریا کو عبور کر کے اپنی حدودِ سلطنت سے باہر نکل گیا۔ اس اثنا میں تاتاریوں نے آباد زمینوں کو ویران اور نسلِ انسانی کو تباہ کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ نہ کوئی شہر ان کی غارت گریوں سے بچ سکا اور نہ کوئی آبادی ان کی پامالیوں سے محفوظ رہ سکی۔ جدھر کا رخ کیا مملکتوں کو تہ و بالا کر دیا، حکومتوں کا تختہ الٹ دیا اور تھوڑے عرصہ میں ایشیا کے بالائی حصہ پر اپنا اقتدار قائم کر لیا۔

جب ۶۲۲ھ میں چنگیز خان کا انتقال ہوا تو اس کی جگہ اس کا بیٹا اوکتائی خان تخت نشین ہوا جس نے ۶۲۸ھ میں جلال الدین کو ڈھونڈھ نکالا اور اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد چنگیز خان کے دوسرے لڑکے تولی خان کا بیٹا منکو خان تخت حکومت پر بیٹھا۔ منکو خان کے بعد قوبیلائی خان مملکت کے ایک حصہ کا وارث ہوا اور وسط ایشیا اس کے بھائی ہلاکو خان کے حصہ میں آیا۔ جب سلطنت چنگیز خان کے پوتوں میں بٹ گئی تو ہلاکو خان اسلامی ممالک کو تسخیر کرنے کی فکر میں تھا ہی کہ خراسان کے حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آ کر اسے خراسان پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ اس نے خراسان پر چڑھائی کر دی اور حنفیوں نے اپنے کو تاتاری تلواروں سے محفوظ سمجھتے ہوئے شہر کے دروازے کھول دیئے۔ مگر تاتاریوں نے حنفیوں اور شافعیوں میں کوئی امتیاز نہ کیا اور جو سامنے آیا اسے تہ تیغ کر دیا اور وہاں کی بیشتر آبادی کو قتل کرنے کے بعد اسے اپنے مقبوضات میں داخل کر لیا اور انہی شافعیوں اور حنفیوں کے جھگڑوں نے اس کیلئے عراق تک کے فتوحات کا دروازہ کھول دیا۔ چنانچہ خراسان کو فتح کرنے کے بعد اس کی ہمت بڑھ گئی اور ۶۵۶ھ میں دو لاکھ تاتاریوں کے ساتھ بغداد کی جانب لشکر کشی کی۔ معتصم باللہ کی فوج اور اہل بغداد نے مل کر مقابلہ کیا مگر اس سیلاب بلا کو روکنا ان کے بس میں نہ تھا۔ چنانچہ تاتاری مار دھاڑ کرتے ہوئے عاشورا کے دن بغداد کے اندر داخل ہو گئے اور چالیس دن تک اپنی خون آشام تلواروں کی پیاس بجھاتے رہے۔ گلی کوچوں میں خون کی ندیاں بہا دیں، راستے لاشوں سے پاٹ دیئے، لاکھوں آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا اور معتصم باللہ کو پیروں کے نیچے روند کر مار ڈالا اور صرف وہی لوگ بچ سکے جو کنوؤں اور تہ خانوں میں چھپ کر ان کی انکھوں سے اوجھل رہ سکے۔ یہ تھی بغداد کی وہ تباہی کہ جس سے عباسی سلطنت بنیاد سے ہل گئی اور اس کا پرچم پھر لہرانہ سکا۔

بعض مؤرخین نے اس تباہی و بربادی کی ذمہ داری ابن علقمی پر عائد کی ہے کہ اس نے شیعوں کے قتلِ عام اور محلہ کرخ کی تباہی سے متاثر ہو کر نصیر الدین طوسی وزیر ہلاکو خان کی وساطت سے اسے بغداد پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی۔ اگر ایسا ہو بھی تو اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے پہلے اسلامی ممالک پر حملہ کرنے کی تحریک خلیفہ عباسی الناصر لدین اللہ کر چکا تھا۔ چنانچہ جب خوارزمیوں نے مرکز خلافت کے اقتدار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو اس نے چنگیز خان کو خوارزم پر حملہ کرنے کیلئے کہلوایا تھا جس سے تاتاریوں کو یہ اندازہ ہو گیا کہ مسلمانوں میں یکجہتی و اتحاد نہیں ہے اور پھر حنفیوں نے شافعیوں کی سرکوبی کیلئے ہلاکو خان کو بلاوا بھیجا تھا جس کے نتیجہ میں خراسان پر ان کا اقتدار قائم ہو گیا اور بغداد کی طرف پیش قدمی کرنے کیلئے انہیں راستہ مل گیا۔ ان حالات میں بغداد کی تباہی کا ذمہ دار صرف ابن علقمی کو ٹھہرانا اور الناصر لدین اللہ کی تحریک اور حنفی و شافعی نزاع کو نظر انداز کر دینا حقیقت پر پردہ ڈالنا ہے، جب کہ بغداد کی تباہی کا پیش خیمہ یہی خراسان کی فتح تھی کہ جس کا سبب وہاں کے حنفی باشندے تھے۔ چنانچہ اسی فتح کی وجہ سے اس کا اتنا حوصلہ ہوا کہ وہ مسلمانوں کے مرکز پر حملہ آور ہو، ورنہ محض ایک شخص کے پیغام کا نتیجہ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بغداد ایسے قدیم مرکز پر یلغار کرتا ہوا پہنچ جاتا کہ جس کی سطوت و ہیبت کی دھاک ایک دنیا کے دلوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔

ذاتی طور پر عالم الغیب ہونا اور چیز ہے اور اللہ کی طرف سے کسی امر پر مطلع ہو کر خبر دینا دوسری چیز ہے۔ انبیاء و اولیاء علیہم السلام کو جو مستقبل کا علم ہوتا ہے وہ اللہ ہی کے سکھانے اور بتانے سے ہوتا ہے اگر کوئی ذاتی طور پر مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں سے آگاہ ہے تو وہ صرف اللہ سبحانہ ہے۔ البتہ وہ جس کو چاہتا ہے امور غیب پر مطلع کر دیتا ہے، چنانچہ اس کا ارشاد ہے:

﴿عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًا ۙ‏ ﴿۲۶﴾ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ﴾

وہی غیب کا جاننے والا ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا، مگر جس پیغمبر کو وہ پسند فرمائے۔[۱]

یونہی امیر المومنین علیہ السلام کو بھی مستقبل کا علم تعلیم رسولؐ و القائے ربانی سے حاصل ہوتا تھا جس کیلئے آپؑ کا یہ کلام شاہد ہے۔ البتہ کبھی بعض چیزوں پر مطلع کرنے کی مصلحت یا ضرورت نہیں ہوتی تو انہیں پردۂ خفا میں رہنے دیا جاتا ہے جن پر کوئی آگاہ نہیں ہو سکتا، جیسا کہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ‌ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ‌ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِى الْاَرْحَامِ‌ ؕ وَمَا تَدْرِىْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا‌ ؕ وَّمَا تَدْرِىْ نَـفْسٌۢ بِاَىِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ‏ ﴾

بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور شکموں میں جو کچھ ہے وہ جانتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کس سرزمین پر مرے گا۔ بے شک اللہ (ان چیزوں سے) آگاہ اور با خبر ہے۔[۲]

[۱]۔ سورۂ جن، آیت ۲۶-۲۷۔

[۲]۔ سورۂ لقمان، آیت ۳۴۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button