خطبہ (۱۲۹)
(۱٢٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۸)
لِاَبِیْ ذَرٍّ رَحِمَهُ اللهُ، لَـمَّاۤ اُخْرِجَ اِلَی الرَّبَذَةِ:
جب حضرت ابو ذرؓ کو ربذہ کی طرف جلا وطن [۱] کیا گیا تو ان سے خطاب کر کے فرمایا:
یَاۤ اَبَا ذَرٍّ! اِنَّكَ غَضِبْتَ لِلّٰهِ، فَارْجُ مَنْ غَضِبْتَ لَهٗ، اِنَّ الْقَوْمَ خَافُوْكَ عَلٰی دُنْیَاهُمْ، وَ خِفْتَهُمْ عَلٰی دِیْنِكَ، فَاتْرُكْ فِیْۤ اَیْدِیْهِمْ مَا خَافُوْكَ عَلَیْهِ، وَ اهْرُبْ مِنهُمْ بِمَا خِفْتَهُمْ عَلَیْهِ، فَمَاۤ اَحْوَجَهُمْ اِلٰی مَا مَنَعْتَهُمْ، وَ مَاۤ اَغْنَاكَ عَمَّا مَنَعُوْكَ! وَ سَتَعْلَمُ مَنِ الرَّابِحُ غَدًا، وَ الْاَكْثَرُ حُسَّدًا.
اے ابو ذر! تم اللہ کیلئے غضب ناک ہوئے ہو تو پھر جس کی خاطر یہ تمام غم و غصہ ہے اسی سے امید بھی رکھو۔ ان لوگوں کو تم سے اپنی دنیا کے متعلق خطرہ ہے اور تمہیں ان سے اپنے دین کے متعلق اندیشہ ہے، لہٰذا جس چیز کیلئے انہیں تم سے کھٹکا ہے وہ انہیں کے ہاتھ میں چھوڑو اور جس شے کیلئے تمہیں ان سے اندیشہ ہے اسے لے کر ان سے بھاگ نکلو۔ جس چیز سے تم انہیں محروم کر کے جا رہے ہو (کاش کہ وہ سمجھتے کہ) وہ اس کے کتنے حاجتمند ہیں اور جس چیز کو انہوں نے تم سے روک لیا ہے اس سے تم بہت ہی بے نیاز ہو اور جلد ہی تم جان لو گے کہ کل فائدہ میں رہنے والا کون ہے اور کس پر حسد کرنے والے زیادہ ہیں۔
وَ لَوْ اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرَضِیْنَ كَانَتَا عَلٰی عَبْدٍ رَتْقًا، ثُمَّ اتَّقَی اللهَ، لَجَعَلَ اللهُ لَهٗ مِنْهُمَا مَخْرَجًا! لَا یُؤْنِسَنَّكَ اِلَّا الْحَقُّ، وَ لَا یُوْحِشَنَّكَ اِلَّا الْبَاطِلُ، فَلَوْ قَبِلْتَ دُنْیَاهُمْ لَاَحَبُّوْكَ، وَ لَوْ قَرَضْتَ مِنْهَا لَاَمَّنُوْكَ.
اگر یہ آسمان و زمین کسی بندے پر بند پڑے ہوں اور وہ اللہ سے ڈرے تو وہ اس کیلئے زمین و آسمان کی راہیں کھول دے گا۔ تمہیں صرف حق سے دلچسپی ہونا چاہیے اور صرف باطل ہی سے گھبرانا چاہیے۔ اگر تم ان کی دنیا قبول کر لیتے تو وہ تمہیں چاہنے لگتے اور تم اس میں کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کرا لیتے تو وہ تم سے مطمئن ہو جاتے۔
۱(ابو ذر غفاریؓ)
’’ابو ذر غفاری‘‘ کا نام جندب ابن جنادہ تھا۔ ربذہ کے رہنے والے تھے جو مدینہ کی مشرقی جانب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔جب بعثتِ رسولؐ کا تذکرہ سنا تو مکہ آئے اور پوچھ گچھ کرنے کے بعد پیغمبر ﷺ کی خدمت میں بازیاب ہو کر اسلام قبول کیا جس پر کفار قریش نے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں اذیتوں پر اذیتیں پہنچائیں۔ مگر آپ کے ثبات قدم میں لغزش نہ آئی۔ اسلام لانے والوں میں آپ تیسرے یا چوتھے یا پانچویں ہیں اور اس سبقت اسلامی کے ساتھ آپ کے زہد و اتقاء کا یہ عالم تھا کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
اَبُوْ ذَرٍّ فِیْ اُمَّتِیْ شَبِيْهُ عِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِیْ زُهْدِهٖ وَ وَرَعِہٖ.
میری اُمت میں ابوذر زہد و ورع میں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی مثال ہیں۔[۱]
آپ حضرت عمر کے دورِ حکومت میں شام چلے گئے اور حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں بھی وہیں مقیم تھے۔ زندگی کے شب و روز ہدایت و تبلیغ کے فرائض سر انجام دینے، اہل بیت رسول علیہم السلام کی عظمت سے روشناس کرنے اور جادۂ حق کی طرف رہنمائی فرمانے میں گزرتے تھے۔ چنانچہ شام اور جبل عامل میں شیعیت کے جو اثرات پائے جاتے ہیں وہ آپ ہی کی تبلیغ و مساعی کا نتیجہ اور آپ ہی کے بوئے ہوئے بیج کے برگ و بار ہیں۔ امیر شام معاویہ کو ان کی یہ روش پسند نہ تھی۔ چنانچہ وہ ان کے کھلم کھلا لے دے کرنے اور حضرت عثمان کی زر اندوزی و بے راہ روی کے تذکرے کرنے سے انتہائی بیزار تھے، مگر کچھ بنائے نہ بنتی تھی۔ آخر اس نے حضرت عثمان کو لکھا کہ اگر یہ کچھ عرصہ اور یہاں مقیم رہے تو ان اطراف کے لوگوں کو تم سے برگشتہ کر دیں گے، لہٰذا اس کا انسداد ہونا چاہیے جس پر انہوں نے لکھا کہ ابو ذرّ کو شتر بے پالان پر سوار کر کے مدینہ روانہ کر دیا جائے۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور انہیں مدینہ روانہ کر دیا گیا۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو یہاں بھی حق و صداقت کی تبلیغ شروع کر دی۔ مسلمانوں کو پیغمبر ﷺ کا عہد یاد دلاتے، کسروی و قیصری شان کے مظاہروں سے روکتے، جس پر حضرت عثمان جز بز ہوتے، ان کی زبان بندی کی تدبیریں کرتے۔ چنانچہ ایک دن انہیں بلا کر کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم کہتے پھرتے ہو کہ پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا کہ:
اِذَا كَمُلَتْ بَنُوْۤ اُمَيّةَ ثَلَاثِيْنَ رَجُلًا، اتّخَذُوْا بِلَادَ اللّٰهِ دُوَلًا، و عِبادَ اللّٰهِ خَوَلًا، وَ دِيْنَ اللّٰهِ دَغَلًا.
جب بنی امیہ کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو وہ اللہ کے شہروں کو اپنی جاگیر اور اس کے بندوں کو اپنا غلام اور اس کے دین کو فریب کاری کا ذریعہ قرار دے لیں گے۔[۲]
آپ نے کہا کہ بیشک میں نے پیغمبر اسلام ﷺ کو یہ فرماتے سنا تھا۔ عثمان نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو اور پاس بیٹھنے والوں سے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے اس حدیث کو سنا ہے۔ سب نے نفی میں جواب دیا۔ جس پر حضرت ابوذر نے فرمایا کہ: امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دریافت کیا جائے۔ چنانچہ آپؑ کو بلا کر دریافت کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ: ہاں یہ درست ہے اور ابو ذر سچ کہتے ہیں۔ عثمان نے کہا کہ آپؑ کس بنا پر اس حدیث کی صحت کی گواہی دیتے ہیں۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ میں نے پیغمبر ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ:
مَاۤ اَظَلَّتِ الْخَضْرَآءُ وَ لَاۤ اَقَلَّتِ الْغَبْرَآءُ عَلٰى ذِیْ لَهْجَةٍ اَصْدَقَ مِنْ اَبِیْ ذَرٍّ.
کسی بولنے والے پر آسمان نے سایہ نہیں ڈالا اور زمین نے اسے نہیں اٹھایا جو ابو ذر سے زیادہ راست گو ہو۔[۳]
اب حضرت عثمان کیا کہہ سکتے تھے اگر جھٹلاتے تو پیغمبر ﷺ کی تکذیب لازم آتی تھی۔ پیچ و تاب کھا کر رہ گئے اور کوئی تردید نہ کر سکے۔ ادھر حضرت ابو ذر نے سرمایہ پرستی کے خلاف کُھلم کھلا کہنا شروع کر دیا اور حضرت عثمان کو دیکھتے تو اس آیت کی تلاوت فرماتے:
﴿وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍۙ ﴿۳۴﴾ يَّومَ يُحْمٰى عَلَيْهَا فِىْ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْؕ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ﴾
وہ لوگ جو سونا اور چاندی جمع کرتے رہتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنادو جس دن کہ ان کا جمع کیا ہوا سونا چاندی دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی ہے جسے تم نے اپنے لئے ذخیرہ بنا کر رکھا تھا تو اب اس ذخیرہ اندوزی کا مزا چکھو۔[۴]
حضرت عثمان نے مال و دولت کا لالچ دیا مگر اس طائر آزاد کو سنہرى جال میں نہ جکڑ سکے۔ تشدد و سختی سے بھی کام لیا مگر ان کی زبان حق ترجمان کو بند نہ کر سکے۔ آخر انہیں مدینہ چھوڑ دینے اور ربذہ کی جانب چلے جانے کا حکم دیا اور طرید رسولؐ کے فرزند مروان کو اس پر مامور کیا کہ وہ انہیں مدینہ سے باہر نکال دے اور اس کے ساتھ یہ قہرمانی فرمان بھی صادر فرمایا کہ کوئی ان سے کلام نہ کرے اور نہ انہیں الوداع کہے۔ مگر امیرالمومنین ؈، امام حسن ؈، امام حسین ؈، عقیل، عبد اللہ ابن جعفر اور عمار یاسر نے اس فرمان کی کوئی پرواہ نہ کی اور انہیں رخصت کرنے کیلئے ساتھ ہو لئے اور اسی رخصت کے موقعہ پر حضرتؑ نے ان سے یہ کلمات فرمائے۔
ربذہ میں حضرت ابو ذر کی زندگی بڑی ابتلاؤں میں کٹی۔ یہیں پر آپ کے فرزند ’’ذر‘‘ اور اہلیہ نے انتقال کیا اور جو بھیڑ بکریاں گزارے کیلئے پال رکھی تھیں وہ بھی ہلاک ہو گئیں۔ اولاد میں صرف ایک دختر رہ گئی جو فاقوں اور دکھوں میں برابر کی شریک تھی۔ جب سر و سامان زندگی ناپید ہو گئے اور فاقوں پر فاقے ہونے لگے تو اس نے حضرت ابو ذر سے عرض کیا کہ: بابا یہ زندگی کے دن کس طرح کٹیں گے؟ کہیں آنا جانا چاہئے اور رزق کی تلاش کرنا چاہئے۔ جس پر حضرت ابو ذرّ اسے ہمراہ لے کر صحرا کی طرف نکل کھڑے ہوئے مگر گھاس پات بھی میسر نہ آ سکا۔ آخر تھک کر ایک جگہ بیٹھ گئے اور ریت جمع کر کے اس کا ڈھیر بنایا اور اس پر سر رکھ کر لیٹ گئے اسی عالم میں سانسیں اکھڑ گئیں، پتلیاں اوپر چڑھ گئیں، نزع کی حالت طاری ہو گئی۔ جب دختر ابو ذرّ نے یہ حالت دیکھی تو سراسیمہ و مضطرب ہو کر کہنے لگی کہ: بابا! اگر آپ نے اس لق و دق صحرا میں انتقال فرمایا تو میں اکیلی کیسے دفن و کفن کا سامان کروں گی؟ آپ نے فرمایا کہ: بیٹی گھبراؤ نہیں، پیغمبر اکرم ﷺ مجھ سے فرما گئے تھے کہ: ’’اے ابو ذرّ! تم عالم غربت میں مرو گے اور کچھ عراقی تمہاری تجہیز و تکفین کریں گے‘‘۔ تم میرے مرنے کے بعد ایک چادر میرے اوپر ڈال دینا اور سرِ راہ جا بیٹھنا اور جب ادھر سے کوئی قافلہ گزرے تو اس سے کہنا کہ پیغمبر ﷺ کے صحابی ابو ذرّ نے انتقال کیا ہے۔ چنانچہ ان کی رحلت کے بعد وہ سرِ راہ جا کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر کے بعد ادھر سے ایک قافلہ گزرا جس میں ہلال ابن مالک مزنی، احنف ابن قیس تمیمی، صعصعہ ابن صوحان عبدی، اسود ابنِ قیس تمیمی اور مالک ابن حارث اشتر تھے۔ جب انہوں نے حضرت ابو ذر کے انتقال کی خبر سنی تو اس بے کسی کی موت پر تڑپ اٹھے۔ سواریاں روک لیں اور ان کی تجہیز و تکفین کیلئے سفر ملتوی کر دیا۔ مالک اشتر نے ایک حلہ کفن کیلئے دیا جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی اور تجہیز و تکفین کے فرائض سر انجام دے کر رخصت ہوئے۔ یہ واقعہ ۸ ذی الحجہ ۳۲ھ کا ہے۔↑
[۱]۔ بحار الانوار، ج ۶، ص ۴۔
[۲]۔ تاریخ الیعقوبی، ج ۱، ص ۱۷۵۔
[۳]۔ معانی الاخبار، ص ۱۷۸۔ طبقات ابن سعد، ج ۴، ص ۲۲۸۔
[۴]۔ سورۂ توبہ، آیت ۳۴-۳۵۔