سورۃ احقاف۔ مکی۔ آیات ۳۵
بنام خدائے رحمن و رحیم
١۔ حا، میم۔
٢۔ اس کتاب کا نزول بڑے غالب آنے والے ، حکمت والے اللہ کی طرف سے ہے۔
٣۔ ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے کو برحق اور ایک معینہ مدت کے لیے پیدا کیا ہے اور جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اس چیز سے منہ موڑے ہوئے ہیں جس کی انہیں تنبیہ کی گئی تھی۔
٤۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ جنہیں اللہ کے سوا تم پکارتے ہو، مجھے بھی دکھاؤ انہوں نے زمین کی کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کی شرکت ہے ؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے کی کوئی کتاب یا کوئی باقی ماندہ علمی (ثبوت) میرے سامنے پیش کرو۔
٥۔ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جو اللہ کے سوا ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے بلکہ جو ان کے پکارنے تک سے بے خبر ہوں ؟
٦۔ اور جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کریں گے۔
٧۔ اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو جب حق ان کے پاس آ جاتا ہے تو کفار کہتے ہیں : یہ تو صریح جادو ہے۔
٨۔ کیا یہ کہتے ہیں : اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ کہہ دیجئے : اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے (بچاؤ کا)کوئی اختیار نہیں رکھتے ، تم اس (قرآن) کے بارے میں جو گفت و شنید کرتے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے اور میرے درمیان اور تمہارے درمیان اس پر گواہی کے لیے وہی کافی ہے اور وہی بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
٩۔ کہہ دیجئے : میں رسولوں میں انوکھا (رسول) نہیں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا ہو گا، میں تو صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں تو صرف واضح طور پر تنبیہ کرنے والا ہوں۔
١٠۔ کہہ دیجئے : یہ تو بتاؤ اگر یہ (قرآن) اللہ کی طرف سے ہو اور تم نے اس سے انکار کیا ہو جب کہ بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کتاب پر گواہی دے چکا ہے اور پھر وہ ایمان بھی لا چکا ہو اور تم نے تکبر کیا ہو (تو تمہارا کیا بنے گا؟) بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
١١۔ جو لوگ کافر ہو گئے وہ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں : اگر یہ (دین) بہتر ہوتا تو یہ لوگ اس کی طرف جانے میں ہم سے سبقت نہ کر جاتے اور چونکہ انہوں نے اس (قرآن) سے ہدایت نہ پائی اس لیے وہ کہیں گے : یہ تو (وہی) پرانا جھوٹ ہے۔
١٢۔ اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت تھی اور یہ (قرآن) ایسی کتاب ہے جو عربی زبان میں (کتاب موسیٰ کی) تصدیق کرنے والی ہے تاکہ ظالموں کو تنبیہ کرے اور نیکی کرنے والوں کو بشارت دے۔
١٣۔ جنہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے پھر استقامت دکھائی، ان کے لیے یقیناً نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔
١٤۔ یہ لوگ جنت والے ہوں گے (جو) ہمیشہ اسی میں رہیں گے ان اعمال کے صلے میں جو وہ بجا لایا کرتے تھے۔
١٥۔ اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ پر احسان کرنے کا حکم دیا، اس کی ماں نے تکلیف سہ کر اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ جاتے ہیں ، یہاں تک کہ جب وہ رشد کامل کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو کہنے لگا: پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کروں جس سے تو نے مجھے اور میرے والدین کو نوازا اور یہ کہ میں ایسا نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میری اولاد کو میرے لیے صالح بنا دے ، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
١٦۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بہترین اعمال کو ہم قبول کرتے ہیں اور ان کے گناہوں سے درگزر کرتے ہیں ، (یہ) اہل جنت میں شامل ہوں گے اس سچے وعدے کے مطابق جو ان سے کیا جاتا رہا ہے۔
١٧۔ اور جس نے اپنے والدین سے کہا: تم دونوں پر اف ہو! کیا تم دونوں مجھے ڈراتے ہو کہ میں (قبر سے ) پھر نکالا جاؤں گا؟ جبکہ مجھ سے پہلے بہت سی نسلیں گزر چکی ہیں (ان میں سے کوئی واپس نہیں آیا) اور وہ دونوں اللہ سے فریاد کرتے ہوئے (اولاد سے ) کہتے تھے : تیری تباہی ہو! تو مان جا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، پھر (بھی) وہ کہتا ہے : یہ تو صرف اگلوں کی فرسودہ کہانیاں ہیں۔
١٨۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر فیصلہ حتمی ہو چکا ہے جنوں اور انسانوں کے ان گروہوں کے ساتھ جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں بے شک یہ خسارہ اٹھانے والے تھے۔
١٩۔ اور ہر ایک کے لیے اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجات ہیں تاکہ انہیں ان کے اعمال کا (بدلہ) پورا دیا جائے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
٢٠۔ اور جس روز کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (تو ان سے کہا جائے گا) تم نے اپنی نعمتوں کو دنیاوی زندگی میں ہی برباد کر دیا اور ان سے لطف اندوز ہو چکے ، پس آج تمہیں ذلت کے عذاب کی سزا اس لیے دی جائے گی کہ تم زمین میں ناحق تکبر کرتے رہے اور بدکاری کرتے رہے۔
٢١۔ اور (قوم) عاد کے بھائی (ہود) کو یاد کیجیے جب انہوں نے احقاف (کی سرزمین) میں اپنی قوم کو تنبیہ کی اور ان سے پہلے اور بعد میں بھی تنبیہ کرنے والے گزر چکے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، مجھے تمہارے بارے میں بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔
٢٢۔ وہ کہنے لگے : کیا تم ہمیں ہمارے معبودوں سے باز رکھنے کے لیے ہمارے پاس آئے ہو؟ اگر تم سچے ہو تو لے آؤ وہ (عذاب) جس سے تم ہمیں ڈرا رہے ہو۔
٢٣۔ انہوں نے کہا: (اس کا) علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور جس پیغام کے ساتھ مجھے بھیجا گیا تھا وہ تمہیں پہنچا رہا ہوں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم ایک نادان قوم ہو۔
٢٤۔ پھر جب انہوں نے عذاب کو بادل کی صورت میں اپنی وادیوں کی طرف آتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگے : یہ تو ہمیں بارش دینے والا بادل ہے ، (نہیں ) بلکہ یہ وہ عذاب ہے جس کی تمہیں عجلت تھی (یعنی) آندھی جس میں ایک دردناک عذاب ہے ،
٢٥۔ جو اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو تباہ کر دے گی، پھر وہ ایسے ہو گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا، مجرم قوم کو ہم اس طرح سزا دیا کرتے ہیں۔
٢٦۔ اور بتحقیق انہیں ہم نے وہ قدرت دی جو قدرت ہم نے تم لوگوں کو نہیں دی اور ہم نے انہیں سماعت اور بصارت اور قلب عطا کیے تو جب انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا تو نہ ان کی سماعت نے انہیں کوئی فائدہ دیا اور نہ ہی ان کی بصارت نے اور نہ ان کے قلوب نے اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے وہ اسی چیز کے نرغے میں آ گئے۔
٢٧۔ اور بتحقیق ہم نے تمہارے گرد و پیش کی بستیوں کو تباہ کر دیا اور ہم نے (اپنی) نشانیوں کو بار بار ظاہر کیا تاکہ وہ باز آ جائیں۔
٢٨۔ پس انہوں نے قرب الہٰی کے لیے اللہ کے سوا جنہیں اپنا معبود بنا لیا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے غائب ہو گئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور وہ بہتان جو وہ گھڑتے تھے۔
٢٩۔ اور (یاد کیجیے ) جب ہم نے جنات کے ایک گروہ کو آپ کی طرف متوجہ کیا تاکہ قرآن سنیں ، پس جب وہ رسول کے پاس حاضر ہو گئے تو (آپس میں ) کہنے لگے : خاموش ہو جاؤ! جب تلاوت ختم ہو گئی تو وہ تنبیہ (ہدایت) کرنے اپنی قوم کی طرف واپس لوٹ گئے۔
٣٠۔ انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ، وہ حق اور راہ راست کی طرف ہدایت کرتی ہے۔
٣١۔ اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کرو اور اس پر ایمان لے آؤ کہ اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا۔
٣٢۔ اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول نہیں کرتا وہ زمین میں (اللہ کو) عاجز نہیں کر سکے گا اور اللہ کے سوا اس کا کوئی سرپرست بھی نہیں ہو گا، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
٣٣۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا ہے اور جو ان کے خلق کرنے سے عاجز نہیں آیا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ مردوں کو زندہ کر دے ؟ ہاں ! وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔
٣٤۔ اور جس روز کفار آگ کے سامنے لائے جائیں گے (اس وقت ان سے پوچھا جائے گا) کیا یہ برحق نہیں ہے ؟ وہ کہیں گے : ہاں ! ہمارے پروردگار کی قسم (یہ حق ے ) اللہ فرمائے گا : پھر عذاب چکھو اپنے اس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔
٣٥۔ پس (اے رسول) صبر کیجیے جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے لیے (طلب عذاب میں ) جلدی نہ کیجیے ، جس دن یہ اس عذاب کو دیکھیں گے جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے تو انہیں یوں محسوس ہو گا گویا (دنیا میں دن کی) ایک گھڑی بھر سے زیادہ نہیں رہے ، (یہ ایک) پیغام ہے ، پس ہلاکت میں وہی لوگ جائیں گے جو فاسق ہیں۔