خطبہ (۱۳۳)
(۱٣٢) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۳۲)
وَ قَدْ شَاوَرَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الْخُرُوْجِ اِلٰى غَزْوِ الرُّوْمِ بِنَفْسِهٖ:
جب حضرت عمر ابن خطاب [۱] نے غزوہ روم میں شرکت کیلئے حضرتؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا:
وَ قَدْ تَوَكَّلَ اللهُ لِاَهْلِ هٰذَا الدِّیْنِ بِاِعْزَازِ الْحَوْزَةِ، وَ سَتْرِ الْعَوْرَةِ، وَ الَّذِیْ نَصَرَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَنْتَصِرُوْنَ، وَ مَنَعَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَمْتَنِعُوْنَ، حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ.
اللہ نے دین والوں کی حدوں کو تقویت پہنچانے اور ان کی غیر محفوظ جگہوں کو (دشمن کی) نظر سے بچائے رکھنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ وہی خدا (اب بھی) زندہ و غیر فانی ہے کہ جس نے اس وقت ان کی تائید و نصرت کی تھی جبکہ وہ اتنے تھوڑے تھے کہ دشمن سے انتقام نہیں لے سکتے تھے اور ان کی حفاظت کی جب وہ اتنے کم تھے کہ اپنے کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔
اِنَّكَ مَتٰی تَسِرْ اِلٰی هٰذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِكَ، فَتَلْقَهُمْ بِشَخْصِكَ فَتُنْكَبْ، لَا تَكُنْ لِّلْمُسْلِمِیْنَ كَانِفَةٌ دُوْنَ اَقْصٰی بِلَادِهِمْ، وَ لَیْسَ بَعْدَكَ مَرْجِـعٌ یَّرْجِعُوْنَ اِلَیْهِ، فَابْعَثْ اِلَیْهِمْ رَجُلًا مِّحْرَبًا، وَ احْفِزْ مَعَهٗ اَهْلَ الْبَلَآءِ وَ النَّصِیْحَةِ، فَاِنْ اَظْهَرَ اللهُ فَذَاكَ مَا تُحِبُّ، وَ اِنْ تَكُنِ الْاُخْرٰی، كُنْتَ رِدْاً لِّلنَّاسِ وَ مَثَابَةً لِّلْمُسْلِمِیْنَ.
تم اگر خود ان دشمنوں کی طرف بڑھے اور ان سے ٹکرائے اور کسی افتاد میں پڑ گئے تو اس صورت میں مسلمانوں کیلئے دور کے شہروں کے پہلے کوئی ٹھکانا نہ رہے گا اور نہ تمہارے بعد کوئی ایسی پلٹنے کی جگہ ہو گی کہ اس کی طرف پلٹ کر آ سکیں۔ تم ان کی طرف (اپنے بجائے) کوئی تجربہ کار آدمی بھیجو اور اس کے ساتھ اچھی کارکردگی والے اور خیر خواہی کرنے والے لوگوں کو بھیج دو۔ اگر اللہ نے غلبہ دے دیا تو تم یہی چاہتے ہو اور اگر دوسری صورت (شکست) ہو گئی تو تم لوگوں کیلئے ایک مددگار اور مسلمانوں کیلئے پلٹنے كا مقام ہو گے۔
۱امیر المومنین علیہ السلام کے متعلق یہ عجیب روش اختیار کی جاتی ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ آپؑ امورِ سیاست سے بے خبر اور طریق جہانبانی سے نا آشنا تھے کہ جس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بنی امیہ کے ہوس اقتدار سے پیدا کی ہوئی شورشوں کو آپ کی کمزوریٔ سیاست کا نتیجہ قرار دیا جائے اور دوسری طرف خلفائے وقت نے مملکت کے اہم معاملات اور کفار سے محاربات کے سلسلہ میں جو مختلف مواقع پر آپؑ سے مشورے لئے انہیں بڑی اہمیت دے کر اچھالا جاتا ہے۔ جس سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ آپؑ کی صحتِ فکر و نظر، اصابتِ رائے اور تہ رس بصیرت کو پیش کیا جائے، بلکہ صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ آپؑ اور خلفاء میں اتحاد، یگانگت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، تا کہ ادھر توجہ ہی مبذول نہ ہونے پائے کہ آپؑ کسی مرحلہ پر ان سے متصادم بھی رہے ہیں اور باہم اختلاف و مناقشات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔
چنانچہ تاریخی حقائق اس کے شاہد ہیں کہ آپؑ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے تھے اور ان کے ہر اقدام کو درست و صحیح نہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ خطبہ شقشقیہ میں ہر دور کے متعلق واشگاف لفظوں میں تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اختلافِ رائے اور غم و غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ لیکن اس اختلاف کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی و اجتماعی مفاد کے سلسلہ میں صحیح رہنمائی نہ کی جائے۔ پھر امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت تو اتنی بلند تھی کہ کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ آپؑ کسی ایسے مشورے سے پہلو تہی کریں گے کہ جس سے مفادِ عامہ وابستہ ہو یا کوئی ایسا مشورہ دیں گے جس سے مصالح عامہ کو نقصان پہنچے۔ اسی لئے نظریات کے اختلاف کے باوجود آپؑ سے مشورے لئے جاتے تھے جس سے آپؑ کے کردار کی عظمت اور صحتِ فکر و نظر پر روشنی پڑتی ہے۔
اور جس طرح پیغمبر اکرم ﷺ کی سیرت کا یہ نمایاں جوہر ہے کہ کفار قریش آپؐ کو دعوتِ نبوت میں جھٹلانے کے باوجود بہترین امانتدار سمجھتے تھے اور کبھی آپؐ کی امانت پر شبہہ نہ کر سکے، بلکہ مخالفت کے ہنگاموں میں بھی اپنی امانتیں بے کھٹکے آپؐ کے سپرد کر دیتے تھے اور کبھی یہ وہم بھی نہ کرتے تھے کہ اُن کی امانتیں خُرد بُرد ہو جائیں گی۔ یوں ہی امیر المومنین علیہ السلام بھی وثوق و اعتماد کی اس سطح بلند پر سمجھے جاتے تھے کہ دوست و دشمن ان کی اصابتِ رائے پر اعتماد کرتے تھے تو جس طرح پیغمبر ﷺ کے طرزِ عمل سے ان کے کمال امانتداری کا پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ ان میں اور کفار میں یگانگت تھی، کیونکہ امانت اپنے مقام پر ہے اور کفر و اسلام کا ٹکراؤ اپنے مقام پر، اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام خلفاء سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کی نظروں میں ملکی و قومی مفاد کے محافظ اور اسلام کی فلاح و بہبود کے نگران سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ جہاں نوعی مفاد کا سوال پیدا ہوتا تھا آپؑ سے مشورہ لیا جاتا تھا اور آپؑ شخصی اغراض کی سطح سے بلند ہو کر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار فرما دیتے تھے اور حدیث نبوی ﷺ «اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ» [۱]: ’’مشیر امین ہوتا ہے‘‘ کے پیش نظر کبھی غل و غش گوارا نہ کرتے تھے۔
چنانچہ جنگ فلسطین کے موقعہ پر جب حضرت عمر نے اپنی شرکت کے بارے میں ان سے مشورہ لیا تو قطع نظر اس سے کہ آپؑ کی رائے ان کے جذبات کے موافق ہو یا مخالف، آپؑ اسلام کی عزت و بقا کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور محاذِ جنگ میں ایسے شخص کو بھیجنے کی رائے دیتے ہیں کہ جو آزمودہ کار اور فنون حرب و ضرب میں ماہر ہو، کیونکہ ناتجربہ کار آدمی کے چلے جانے سے اسلام کی بندھی ہوئی ہوا اُکھڑ جاتی اور پیغمبر ﷺ کے زمانہ سے جو مسلمانوں کی دھاک بیٹھ چکی تھی ختم ہو جاتی اور ان کے چلے جانے سے فتح و کامرانی کے بجائے شکست و ہزیمت کے آثار آپؑ کو نظر آ رہے تھے۔ اس لئے انہیں روک دینے ہی میں اسلامی مفاد نظر آیا۔ چنانچہ اس کا اظہار ان لفظوں میں فرمایا ہے کہ: اگر تمہیں میدان چھوڑ کر پلٹنا پڑے تو یہ صرف تمہاری شکست نہ ہو گی بلکہ اس سے مسلمان بد دل ہو کر حوصلہ چھوڑ بیٹھیں گے اور میدان جنگ سے روگردان ہو کر تتر بتر ہو جائیں گے، کیونکہ رئیس لشکر کے میدان چھوڑ دینے سے لشکر کے قدم جم نہ سکیں گے اور ادھر مرکز کے خالی ہو جانے کی وجہ سے یہ توقع بھی نہ کی جا سکے گی کہ عقب سے مزید فوجی کمک آ جائے گی کہ جس سے لڑنے بھڑنے والوں کی ڈھارس بندھی رہے۔
یہ ہے وہ مشورہ جسے باہمی روابط پر دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مشورہ صرف اسلام کی سربلندی اور اس کی عزت و بقا کے پیشِ نظر تھا جو آپؑ کو ہر مفاد سے زیادہ عزیز تھی اور کسی خاص شخص کی جان عزیز نہ تھی کہ جس کی بنا پر اسے جنگ میں شرکت سے روکا ہو۔↑
[۱]۔ تفسیر ابن کثیر، ج ۲، ص ۱۵۰۔