خطبہ (۱۳۹)
(۱٣٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۳۸)
فِی النَّهْیِ عَنْ عَیْبِ النَّاسِ
اس میں لوگوں کو دوسروں کے عیب بیان کرنے سے روکا ہے
وَ اِنَّمَا یَنْۢبَغِیْ لِاَهْلِ الْعِصْمَةِ وَ الْمَصْنُوْعِ اِلَیْهِمْ فِی السَّلَامَةِ اَنْ یَّرْحَمُوْۤا اَهْلَ الذُّنُوْبِ وَ الْمَعْصِیَةِ، وَ یَكُوْنَ الشُّكْرُ هُوَ الْغَالِبَ عَلَیْهِمْ وَ الْحَاجِزَ لَهُمْ عَنْهُمْ، فَكَیْفَ بِالْعَآئِبِ الَّذِیْ عَابَ اَخَاهُ وَ عَیَّرَهٗ بِبَلْوَاهُ!.
جن لوگوں کا دامن خطاؤں سے پاک صاف ہے اور بفضل الٰہی گناہوں سے محفوظ ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ گنہگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں اور اس چیز کا شکر ہی (کہ اللہ نے انہیں گناہوں سے بچائے رکھا ہے) ان پر غالب اور دوسروں (کے عیب اچھالنے) سے مانع رہے، چہ جائیکہ وہ عیب لگانے والا اپنے کسی بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی کرے اور اس کے عیب بیان کر کے طعن و تشنیع کرے۔ [۱]
اَمَا ذَكَرَ مَوْضِعَ سَتْرِ اللهِ عَلَیْهِ مِنْ ذُنُوْبِهٖ مِمَّا هُوَ اَعْظَمُ مِنَ الذَّنْۢبِ الَّذِیْ عَابَهٗ بِهٖ! وَ كَیْفَ یَذُمُّهٗ بِذَنْۢبٍ قَدْ رَكِبَ مِثْلَهٗ! فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ رَّكِبَ ذٰلِكَ الذَّنْۢبَ بِعَیْنِهٖ فَقَدْ عَصَی اللهَ فِیْمَا سِوَاهُ مِمَّا هُوَ اَعْظَمُ مِنْهُ. وَایْمُ اللهِ لَئِنْ لَّمْ یَكُنْ عَصَاهُ فِی الْكَبِیْرِ وَ عَصَاهُ فِی الصَّغِیْرِ، لَجُرْاَتُهٗ عَلٰی عَیْبِ النَّاسِ اَكْبَرُ!.
یہ آخر خدا کی اس پر دہ پوشی کو کیوں نہیں یاد کرتا جو اس نے خود اس کے ایسے گناہوں پر کی ہے جو اس گناہ سے بھی جس کی وہ غیبت کر رہا ہے بڑے تھے اور کیونکر کسی ایسے گناہ کی بنا پر اس کی بُرائی کرتا ہے جبکہ خود بھی ویسے ہی گناہ کا مرتکب ہو چکا ہے اور اگر بعینہ ویسا گناہ نہیں بھی کیا تو ایسے گناہ کئے ہیں کہ جو اس سے بھی بڑھ چڑھ کر تھے۔ خدا کی قسم! اگر اس نے گناہ کبیرہ نہیں بھی کیا تھا اور صرف صغیرہ کا مرتکب ہوا تھا تب بھی اس کا لوگوں کے عیوب بیان کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
یَا عَبْدَ اللهِ! لَا تَعْجَلْ فِیْ عَیْبِ اَحَدٍۭ بِذَنْۢبِهٖ فَلَعَلَّهُ مَغْفُوْرٌ لَّهٗ، وَ لَا تَاْمَنْ عَلٰی نَفْسِكَ صَغِیْرَ مَعْصِیَةٍ فَلَعَلَّكَ مُعَذَّبٌ عَلَیْهِ، فَلْیَكْفُفْ مَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ عَیْبَ غَیْرِهٖ لِمَا یَعْلَمُ مِنْ عَیْبِ نَفْسِهٖ، وَلْیَكُنِ الشُّكْرُ شَاغِلًا لَّهٗ عَلٰی مُعَافَاتِهٖ مِمَّا ابْتُلِیَ بِهٖ غَیْرُهٗ.
اے خدا کے بندے! جھٹ سے کسی پر گناہ کا عیب نہ لگا، شاید اللہ نے وہ بخش دیا ہو اور اپنے کسی چھوٹے (سے چھوٹے) گناہ کیلئے بھی اطمینان نہ کر، شاید کہ اس پر تجھے عذاب ہو۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص بھی کسی دوسرے کے عیوب جانتا ہو اسے ان کے اظہار سے باز رہنا چاہیے اس علم کی وجہ سے جو خود اسے اپنے گناہوں کے متعلق ہے اور اس امر کا شکر کہ اللہ نے اسے ان چیزوں سے محفوظ رکھا ہے کہ جن میں دوسرے مبتلا ہیں کسی اور طرف اسے متوجہ نہ ہونے دے۔
۱عیب جوئی و خوردہ گیری کا مشغلہ اتنا عام اور ہمہ گیر ہو چکا ہے کہ اس کی برائی کا احساس تک جاتا رہا ہے اور اب تو نہ خواص کی زبانیں بند ہیں نہ عوام کی، نہ منبر کی رفعت اس سے مانع ہے نہ محراب کی تقدیس، بلکہ جہاں چند ہم خیال جمع ہوں گے موضوع سخن اور دلچسپ مشغلہ یہی ہو گا کہ اپنے فریق مخالف کے عیوب رنگ آمیزیوں سے بیان کئے جائیں اور کان دھر کر ذوق سماعت کا مظاہرہ کیا جائے۔ حالانکہ غیبت کرنے والے کا دامن ان آلودگیوں سے خود آلودہ ہوتا ہے جن کا اظہار وہ دوسروں کیلئے کرتا ہے، مگر وہ اپنے لئے یہ گوارا نہیں کرتا کہ اس کے عیوب آشکارا ہوں تو پھر اسے دوسروں کے جذبات کا بھی پاس و لحاظ کرتے ہوئے ان کی عیب گیری و دل آزاری سے احتراز کرنا چاہئے اور« آنچہ برای خود نمی پسندی برای دیگران ھم مپسند» پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔
’’غیبت‘‘ کی تعریف یہ ہے کہ اپنے کسی برادر مومن کے عیب کو بغرض تنقیص اس طرح بے نقاب کرنا کہ اس کیلئے دل آزاری کا باعث ہو، چاہے یہ اظہار زبان سے ہو، یا محاکات سے، اشارہ سے ہو یا کنایہ و تعریض سے۔ بعض لوگ غیبت بس اسی کو سمجھتے ہیں جو غلط اور خلاف واقع ہو اور جو دیکھا اور سنا ہو اسے جوں کا توں بیان کر دینا ان کے نزدیک غیبت نہیں ہوتی اور وہ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم غیبت نہیں کرتے، بلکہ جو دیکھا یا سنا ہے اسے صحیح صحیح بیان کر دیا ہے۔ حالانکہ غیبت اسی سچ کہنے کا نام ہے اور اگر جھوٹ ہو تو وہ افترا و بہتان ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ سے مروی ہے کہ آپؑ نے فرمایا کہ:
هَلْ تَدْرُوْنَ مَا الْغِيْبَةُ؟ قَالُوْا: اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ اَعْلَمُ، قَالَ: ذِكْرُكَ اَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ، قِيْلَ: اَ رَاَيْتَ اِنْ كَانَ فِیْۤ اَخِیْ مَاۤ اَقُوْلُ؟ قَالَ: اِنْ كَانَ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَهٗ وَ اِنْ لَّمْ يَكُنْ فِيْهِ فَقَدْ بَهَتَّهٗ.
تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: غیبت یہ ہے کہ تم اپنے کسی بھائی کے متعلق کوئی ایسی بات کہو جو اس کیلئے ناگواری کا باعث ہو۔ کہنے والے نے کہا کہ: اگر میں وہی بات کہوں جو واقعاً اس میں پائی جاتی ہو؟ آپؐ نے فرمایا کہ: اگر ہو جب ہی تو وہ غیبت ہے اور اگر نہ ہو تو تم نے اس پر افترا باندھا ہے۔[۱]
غیبت میں مبتلا ہونے کے بہت سے وجوه و اسباب ہیں جن کی وجہ سے انسان کہیں دانستہ اور کہیں نا دانستہ اس کا مرتکب ہوتا ہے۔ امام غزالی نے احیائے العلوم میں ان وجوہ و اسباب کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔ ان میں چند نمایاں اسباب یہ ہیں:
۱۔ کسی کی ہنسی اڑانے اور اسے پست و سبک دکھانے کیلئے۔
۲۔لوگوں کو ہنسانے اور اپنی زندہ دلی و خوش طبعی کا مظاہرہ کرنے کیلئے۔
۳۔ غیظ و غضب کے تقاضوں سے متاثر ہو کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے۔
۴۔ کسی کی تنقیص سے اپنا تفوق جتلانے کیلئے۔
۵۔ اپنی بے تعلقی اور برائت ظاہر کرنے کیلئے کہ یہ بات مجھ سے سرزد نہیں ہوئی بلکہ فلاں سے سرزد ہوئی ہے۔
۶۔ کسی بزم میں بیٹھ کر ہم رنگ جماعت ہونے کیلئے تا کہ اس سے اجنبیت نہ برتی جائے۔
۷۔ کسی ایسے شخص کی بات کو بے وقعت بنانے کیلئے کہ جس کے متعلق یہ اندیشہ ہو کہ وہ اس کے کسی عیب کو بے نقاب کر دے گا۔
۸۔ اپنے کسی ہم پیشہ رقیب کی سرد بازاری کیلئے۔
۹۔ کسی رئیس کی بار گاہ میں تقرب حاصل کرنے کیلئے۔
۱۰۔ اظہار رنج و تاسف کیلئے یہ کہنا کہ مجھے افسوس ہے کہ فلاں شریف زادہ فلاں بُری بات میں مبتلا ہو گیا ہے۔
۱۱۔ اظہار تعجب کیلئے مثلاً اس طرح کہنا کہ مجھے حیرت ہے کہ فلاں شخص اور یہ کام کرے۔
۱۲۔ کسی امر قبیح پر غم و غصہ کا اظہار کرنے کیلئے اس کے مرتکب کا نام لے دینا۔
البتہ چند صورتوں میں عیب گیری و نکتہ چینی غیبت میں شمار نہیں ہوتی:
۱۔ مظلوم اگر داد رسی کیلئے ظالم کا گلہ کرے تو غیبت نہیں ہے۔ جیسا کہ خداوندِ عالم کا ارشاد ہے:
﴿لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْٓءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَؕ﴾
اللہ برائی کے اچھالنے کو پسند نہیں کرتا مگر وہ کہ جس پر ظلم کیا گیا ہو۔[۲]
۲۔ مشورہ دینے کے موقعہ پر کسی کا کوئی عیب بیان کرنا غیبت نہیں ہے، کیونکہ مشورہ میں غل و غش جائز نہیں ہے۔
۳۔ اگر استفتاء کے سلسلہ میں کسی خاص شخص کو متعین کئے بغیر مسئلہ حل نہ ہوتا ہو تو علی قدر الضرورة اس کا عیب بیان کر دینا غیبت نہ ہو گا۔
۴۔ کسی مسلمان کو ضرر سے بچانے کیلئے کسی خائن و بد دیانت کی بد دیانتی سے آگاہ کر دینا غیبت نہ ہوگا۔
۵۔ کسی ایسے شخص کے سامنے کسی کی برائی بیان کرنا کہ جو اسے برائی سے روک سکتا ہو غیبت نہیں ہے۔
۶۔ روایت کے سلسلہ میں رواة پر نقد و تبصرہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔
۷۔ اگر کوئی شخص اپنے کسی عیب ہی سے متعارف ہو تو اسے پہچنوانے کیلئے اس عیب کا ذکر کرنا غیبت نہ ہو گا جیسے بہرا، گونگا، گنجا، لنگڑا وغیرہ۔
۸۔ بغرض علاج طبیب کے سامنے مریض کے کسی عیب کو بیان کرنا غیبت نہیں ہے۔
۹۔ اگر کوئی غلط نسب کا مدعی ہو تو اس کے نسب کی تردید کرنا غیبت نہ ہو گا۔
۱۰۔ اگر کسی کی جان، مال یا عزت کا بچاؤ اسی صورت میں ہو سکتا ہو کہ اسے کسی عیب سے روشناس کیا جائے تو یہ بھی غیبت نہیں ہے۔
۱۱۔ اگر دو شخص آپس میں کسی کی ایسی برائی کا ذکر کریں کہ جو انہیں پہلے سے معلوم ہو تو یہ اگرچہ غیبت نہیں ہے تاہم زبان کو بچانا ہی بہتر
ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں سے ایک بھول چکا ہو۔
۱۲۔ جو علانیہ فسق و فجور کرتا ہو، اس کی برائی کرنا غیبت نہیں جیسا کہ روایت میں وارد ہوا ہے:
مَنْ اَلْقٰى جِلْبَابَ الْحَيَآءِ فَلَا غِيْبَةَ لَهٗ.
جو حیا کی چادر اتار ڈالے اس کی غیبت، غیبت نہیں۔[۳]↑
[۱]۔ عوالی اللئالی، ج ۱، ص ۲۷۵۔ تفسیر الطبری، ج ۲۲، ص ۳۰۵۔
[۲]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۴۸۔
[۳]۔ تفسیر در منشور، ج ۷، ص ۵۷۷۔