خطبات

خطبہ (۱۴۳)

(۱٤٢) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۴۲)

بَعَثَ اللهُ رُسُلَهٗ بِمَا خَصَّهُمْ بِهٖ مِنْ وَّحْیِهٖ، وَ جَعَلَهُمْ حُجَّةً لَّهٗ عَلٰی خَلْقِهٖ، لِئَلَّا تَجِبَ الْحُجَّةُ لَهُمْ بِتَرْكِ الْاِعْذَارِ اِلَیْهِمْ، فَدَعَاهُمْ بِلِسَانِ الصِّدْقِ اِلٰی سَبِیْلِ الْحَقِّ.

اللہ سبحانہ نے اپنے رسولوں کو وحی کے امتیازات کے ساتھ بھیجا اور انہیں مخلوق پر اپنی حجت ٹھہرایا تاکہ وہ یہ عذر نہ کر سکیں کہ ان پر حجت تمام نہیں ہوئی۔ چنانچہ اللہ نے انہیں سچی زبانوں سے راہ حق کی دعوت دی۔

اَلَا اِنَّ اللهَ قَدْ كَشَفَ الْخَلْقَ كَشْفَةً، لَاۤ اَنَّهٗ جَهِلَ ماۤ اَخْفَوْهُ مِنْ مَّصُوْنِ اَسْرَارِهِمْ وَ مَكْنُوْنِ ضَمَآئِرِهِمْ، وَ لٰكِنْ لِّیَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، فَیَكُوْنَ الثَّوَابُ جَزَآءً، وَ الْعِقَابُ بَوَآءً.

(یوں تو) اللہ مخلوقات کو اچھی طرح جانتا بوجھتا ہے اور لوگوں کے ان رازوں اور بھیدوں سے کہ جنہیں وہ چھپا کر رکھتے ہیں بے خبر نہیں۔ (پھر یہ حکم و احکام اس لئے دیئے ہیں) کہ وہ ان لوگوں کو آزما کر ظاہر کر دے کہ ان میں اعمال کے اعتبار سے کون اچھا ہے تاکہ ثواب ان کی جزا اور عقاب ان کی (بد اعمالیوں) کی پاداش ہو۔

اَیْنَ الَّذِیْنَ زَعَمُوْۤا اَنَّهُمُ ﴿الرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ﴾ دُوْنَنَا، كَذِبًا وَّ بَغْیًا عَلَیْنَا، اَنْ رَّفَعَنَا اللهُ وَ وَضَعَهُمْ، وَ اَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ، وَ اَدْخَلَنَا وَ اَخْرَجَهُمْ. بِنَا یُسْتَعْطَی الْهُدٰی، وَ یُسْتَجْلَی الْعَمٰی.

کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادّعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم؟ چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اور انہیں گرایا ہے اور ہمیں (منصبِ امامت) دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے اور ہمیں (منزلِ علم میں) داخل کیا ہے اور انہیں دور کر دیا ہے۔ ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جا سکتی ہے۔

اِنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ قُرَیْشٍ غُرِسُوْا فِیْ هٰذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ، لَا تَصْلُحُ عَلٰی سِوَاهُمْ، وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَیْرِهِمْ.

بلا شبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہو سکتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اٰثَرُوْا عَاجِلًا، وَ اَخَّرُوْا اٰجِلًا، وَ تَرَكُوْا صَافِیًا، وَ شَرِبُوْا اٰجِنًا، كَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰی فَاسِقِهِمْ وَ قَدْ صَحِبَ الْمُنكَرَ فَاَلِفَهٗ، وَ بَسِئَ بِهٖ وَ وَافَقَهٗ، حَتّٰی شَابَتْ عَلَیْهِ مَفَارِقُهٗ، وَ صُبِغَتْ بِهٖ خَلَآئِقُهٗ، ثُمَّ اَقْبَلَ مُزْبِدًا كَالتَّیَّارِ لَا یُبَالِیْ مَا غَرَّقَ، اَوْ كَوَقْعِ النَّارِ فِی الْهَشِیْمِ لَا یَحْفِلُ مَا حَرَّقَ!.

ان لوگوں نے دنیا کو اختیار کر لیا ہے اور عقبیٰ کو پیچھے ڈال دیا ہے، صاف پانی چھوڑ دیا ہے اور گندا پانی پینے لگے ہیں۔ گویا میں ان کے فاسق [۱] کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ برائیوں میں رہا اتنا کہ انہی برائیوں سے اسے محبت ہو گئی اور ان سے مانوس ہوا اور ان سے اتفاق کرتا رہا۔ یہاں تک کہ (انہی برائیوں میں) اس کے سر کے بال سفید ہو گئے اور اسی رنگ میں اس کی طبیعت رنگ گئی۔ پھر یہ کہ وہ (منہ سے) کف دیتا ہوا متلاطم دریا کی طرح آگے بڑھا، بغیر اس کا کچھ خیال کئے کہ کس کو ڈبو رہا ہے اور بھوسے میں لگی ہوئی آگ کی طرح پھیلا، بغیر اس کی پروا کئے ہوئے کہ کون سی چیزیں جلا رہا ہے۔

اَیْنَ الْعُقُوْلُ الْمُسْتَصْبِحَةُ بِمَصَابِیْحِ الْهُدٰی، وَ الْاَبْصَارُ اللَّامِحَةُ اِلٰی مَنَارِ التَّقْوٰی! اَیْنَ الْقُلُوْبُ الَّتِیْ وُهِبَتْ لِلّٰهِ، وَ عُوْقِدَتْ عَلٰی طَاعَةِ اللهِ! ازْدَحَمُوْا عَلٰی الْحُطَامِ، وَ تَشَاحُّوْا عَلَی الْحَرَامِ، وَ رُفِعَ لَهُمْ عَلَمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ، فَصَرَفُوْا عَنِ الْجَنَّةِ وُجُوْهَهُمْ، وَ اَقْبَلُوْۤا اِلَی النَّارِ بِاَعْمَالِهِمْ، دَعَاهُمْ رَبُّهُمْ فَنَفَرُوْا وَ وَلَّوْا، وَ دَعَاهُمُ الشَّیْطٰنُ فَاسْتَجَابُوْا وَ اَقْبَلُوْا!.

کہاں ہیں ہدایت کے چراغوں سے روشن ہونے والی عقلیں؟ اور کہاں ہیں تقویٰ کے روشن مینار کی طرف دیکھنے والی آنکھیں؟ اور کہاں ہیں اللہ کے ہو جانے والے قلوب اور اس کی اطاعت پر جم جانے والے دل؟ وہ تو مال دنیا پر ٹوٹ پڑے ہیں اور (مال) حرام پر جھگڑ رہے ہیں۔ ان کے سامنے جنت اور دوزخ کے جھنڈے بلند ہیں، لیکن انہوں نے جنت سے اپنے منہ موڑ لئے ہیں اور اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ کی طرف بڑھ نکلے ہیں۔ اللہ نے ان لوگوں کو بلایا تو یہ بھڑک اٹھے اور پیٹھ پھرا کر چل دیئے اور شیطان نے ان کو دعوت دی تو لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف لپک پڑے۔

۱؂اس سے ’’عبد الملک ابن مروان‘‘ مراد ہے کہ جس نے اپنے عامل حجاج ابن یوسف کے ذریعہ ظلم و سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button