خطبہ (۱۴۸)
(۱٤٨) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۴۸)
فِی الْمَلَاحِمِ
(حوادث کے بارے میں)
وَ اَخَذُوْا یَمِیْنًا وَّ شِمَالًا ظَعْنًا فِیْ مَسَالِكِ الْغَیِّ، وَ تَرْكًا لِّمَذَاهِبِ الرُّشْدِ. فَلَا تَسْتَعْجِلُوْا مَا هُوَ كَـآئِنٌ مُّرْصَدٌ، وَ لَا تَسْتَبْطِئُوْا مَا یَجِیْٓءُ بِهِ الْغَدُ. فَكَمْ مِّنْ مُّسْتَعْجِلٍۭ بِمَاۤ اِنْ اَدْرَكَهٗ وَدَّ اَنَّهٗ لَمْ یُدْرِكْهُ. وَ مَاۤ اَقْرَبَ الْیَوْمَ مِنْ تَبَاشِیْرِ غَدٍ!.
(وہ لوگ) گمراہی کے راستوں پر لگ کر اور ہدایت کی راہوں کو چھوڑ کر (افراط و تفریط کے) دائیں بائیں راستوں پر ہو لئے ہیں۔ جو بات کہ ہو کر رہنے والی اور محل انتظار میں ہو اس کیلئے جلدی نہ مچاؤ اور جسے ’’کل‘‘ اپنے ساتھ لئے آ رہا ہے اس کی دوری محسوس کرتے ہوئے ناگواری ظاہر نہ کرو۔ بہتیرے لوگ ایسے ہیں کہ جو کسی چیز کیلئے جلدی مچاتے ہیں اور جب اسے پا لیتے ہیں تو پھر یہ چاہنے لگتے ہیں کہ اسے نہ ہی پاتے تو اچھا تھا۔ ’’آج‘‘ آنے والے ’’کل‘‘ کے اجالوں سے کتنا قریب ہے۔
یَا قَوْمِ! هذَاۤ اِبَّانُ وُرُوْدِ كُلِّ مَوْعُوْدٍ، وَ دُنُوٍّ مِّنْ طَلْعَةِ مَا لَا تَعْرِفُوْنَ.
اے میری قوم! یہی تو وعدہ کی ہوئی چیزوں کے آنے اور ان فتنوں کے نمایاں ہو کر قریب ہونے کا زمانہ ہے کہ جن سے ابھی تم آگاہ نہیں ہو۔
اَلَا وَ اِنَّ مَنْ اَدْرَكَهَا مِنَّا یَسْرِیْ فِیْهَا بِسِرَاجٍ مُّنِیْرٍ، وَ یَحْذُوْ فِیْهَا عَلٰی مِثَالِ الصَّالِحِیْنَ، لِیَحُلَّ فِیْهَا رِبْقًا، وَ یُعْتِقَ رِقًّا، وَ یَصْدَعَ شَعْبًا، وَ یَشْعَبَ صَدْعًا، فِیْ سُتْرَةٍ عَنِ النَّاسِ، لَا یُبْصِرُ الْقَآئِفُ اَثَرَهٗ وَ لَوْ تَابَعَ نَظَرَهٗ. ثُمَّ لَیُشْحَذَنَّ فِیْهَا قَوْمٌ شَحْذَ الْقَیْنِ النَّصْلَ تُجْلٰی بِالتَّنْزِیْلِ اَبْصَارُهُمْ، وَ یُرْمٰی بِالتَّفْسِیْرِ فِیْ مَسَامِعِهِمْ، وَ یُغْبَقُوْنَ كَاْسَ الْحِكْمَةِ بَعْدَ الصَّبُوْحِ!.
دیکھو! ہم (اہلبیتؑ) میں سے جو (ان فتنوں کا دور) پائے گا وہ اس میں (ہدایت کا) چراغ لے کر بڑھے گا اور نیک لوگوں کی راہ و روش پر قدم اٹھائے گا، تاکہ بندھی ہوئی گرہوں کو کھولے اور بندوں کو آزاد کرے اور حسب ضرورت جڑے ہوئے کو توڑے اور ٹوٹے ہوئے کو جوڑے۔ وہ لوگوں کی (نگاہوں سے) پوشیدہ ہو گا۔ کھوج لگانے والے پیہم نظریں جمانے کے باوجود بھی اس کے نقش قدم کو نہ دیکھ سکیں گے- اس وقت ایک قوم کو (حق کی سان پر) اس طرح تیز کیا جائے گا جس طرح لوہار تلوار کی باڑ تیز کرتا ہے۔ قرآن سے ان کی آنکھوں میں جلا پیدا کی جائے گی اور اس کے مطالب ان کے کانوں میں پڑتے رہیں گے اور حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انہیں صبح و شام پلائے جائیں گے ۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
وَ طَالَ الْاَمَدُ بِهِمْ لِیَسْتَكْمِلُوْا الْخِزْیَ، وَ یَسْتَوْجِبُوا الْغِیَرَ، حَتّٰۤی اِذَا اخْلَوْلَقَ الْاَجَلُ، وَ اسْتَرَاحَ قَوْمٌ اِلَی الْفِتَنِ، وَ اَشَالُوْا عَنْ لَّقَاحِ حَرْبِهِمْ، لَمْ یَمُنُّوْا عَلَی اللهِ بِالصَّبْرِ، وَ لَمْ یَسْتَعْظِمُوْا بَذْلَ اَنْفُسِهِمْ فِی الْحَقِّ، حَتّٰۤی اِذَا وَافَقَ وَارِدُ الْقَضَآءِ انْقِطَاعَ مُدَّةِ الْبَلَآءِ، حَمَلُوْا بَصَآئِرَهُمْ عَلٰۤی اَسْیَافِهِمْ، وَ دَانُوْا لِرَبِّهِمْ بِاَمْرِ وَاعِظِهِمْ، حَتّٰۤی اِذَا قَبَضَ اللهُ رَسُوْلَهٗ ﷺ رَجَعَ قَوْمٌ عَلَی الْاَعْقَابَ، وَ غَالَتْهُمُ السُّبُلُ، وَ اتَّكَلُوْا عَلَی الْوَلَاۗئِجِ، وَ وَصَلُوْا غَیْرَ الرَّحِمِ، وَ هَجَرُوا السَّبَبَ الَّذِیْ اُمِرُوْا بِمَوَدَّتِهٖ، وَ نَقَلُوا الْبِنَآءَ عَنْ رَّصِّ اَسَاسِهٖ، فَبَنَوْهُ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِهٖ. مَعَادِنُ كُلِّ خَطِیْٓئَةٍ وَّ اَبْوَابُ كُلِّ ضَارِبٍ فِیْ غَمْرَةٍ. قَدْ مَارُوْا فِی الْحَیْرَةِ، وَ ذَهَلُوْا فِی السَّكْرَةِ، عَلٰی سُنَّةٍ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: مِنْ مُّنْقَطِعٍ اِلَی الدُّنْیَا رَاكِنٍ، اَوْ مُفَارِقٍ لِّلدِّیْنِ مُبَایِنٍ.
ان کی (گمراہیوں کا) زمانہ بڑھتا ہی رہا، تاکہ وہ اپنی رسوائیوں کی تکمیل اور سختیوں کا استحقاق پیدا کر لیں۔ یہاں تک کہ جب وہ مدت ختم ہونے کے قریب آ گئی اور ایک (فتنہ انگیز) جماعت فتنوں کا سہارا لے کر بڑھی اور جنگ کی تخم پاشیوں کیلئے کھڑی ہو گئی تو اس وقت (ایمان لانے والے) اپنے صبر و شکیب سے اللہ پر احسان نہیں جتاتے تھے اور نہ حق کی راہ میں جان دینا کوئی بڑا کارنامہ سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حکم قضا نے مصیبت کا زمانہ ختم کر دیا تو انہوں نے بصیرت کے ساتھ تلواریں اٹھا لیں اور اپنے ہادی کے حکم سے اپنے رب کے احکام کی اطاعت کرنے لگے اور جب اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے اٹھا لیا تو ایک گروہ الٹے پیروں پلٹ گیا اور گمراہی کی راہوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا اور وہ اپنے غلط سلط عقیدوں پر بھروسا کر بیٹھا، (قریبیوں کو چھوڑ کر) بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے لگا اور جن (ہدایت کے) وسیلوں سے اسے مودّت کا حکم دیا گیا تھا انہیں چھوڑ بیٹھا اور (خلافت کو) اس کی مضبوط بنیادوں سے ہٹا کر وہاں نصب کر دیا جو اس کی جگہ نہ تھی۔ یہی تو گناہوں کے مخزن اور گمراہی میں بھٹکنے والوں کا دروازہ ہیں۔ وہ حیرت و پریشانی میں سرگرداں اور آل فرعون کی طرح گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کچھ تو آخرت سے کٹ کر دنیا کی طرف متوجہ تھے اور کچھ حق سے منہ موڑ کر دین چھوڑ چکے تھے۔