خطبات

خطبہ (۱۵۳)

(۱٥٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۵۳)

یَذْكُرُ فِیْهَا بَدِیْعَ خِلْقَةِ الْخُفَّاشِ

اس میں چمگادڑ [۱] کی عجیب و غریب خلقت کا ذکر فرمایاہے

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِی انْحَسَرَتِ الْاَوْصَافُ عَنْ كُنْهِ مَعْرِفَتِهٖ، وَ رَدَعَتْ عَظَمَتُهُ الْعُقُوْلَ، فَلَمْ تَجِدْ مَسَاغًا اِلٰی بُلُوْغِ غَایَةِ مَلَكُوْتِهٖ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جس کی معرفت کی حقیقت ظاہر کرنے سے اوصاف عاجز ہیں اور اس کی عظمت و بلندی نے عقلوں کو روک دیا ہے، جس سے وہ اس کی سرحد فرمانروائی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتیں۔

هُوَ اللهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ الْمُبِیْنُ، اَحَقُّ وَ اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُوْنُ، لَمْ تَبْلُغْهُ الْعُقُوْلُ بِتَحْدِیْدٍ فَیَكُوْنَ مُشَبَّهًا، وَ لَمْ تَقَعْ عَلَیْهِ الْاَوْهَامُ بِتَقْدِیْرٍ فَیَكُوْنَ مُمَثَّلًا.

وہ اللہ اقتدار کا مالک ہے اور (سراپا) حق اور (حق کا) ظاہر کرنے والا ہے۔ وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ (اپنے مقام پر) ثابت و آشکارا ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں۔ عقلیں اس کی حد بندی کر کے اس تک نہیں پہنچ سکتیں کہ وہ دوسروں سے مشابہ ہو جائے اور نہ وہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی چیز کے مانند ہو جائے۔

خَلَقَ الْخَلْقَ عَلٰی غَیْرِ تَمْثِیْلٍ، وَ لَا مَشُوْرَةِ مُشِیْرٍ، وَ لَا مَعُوْنَةِ مُعِیْنٍ، فَتَمَّ خَلْقُهٗ بِاَمْرِهٖ، وَ اَذْعَنَ لِطَاعَتِهٖ، فَاَجَابَ وَ لَمْ یُدَافِعْ، وَ انْقَادَ وَ لَمْ یُنَازِعْ.

اس نے بغیر کسی نمونہ و مثال کے اور بغیر کسی مشیر کار کے مشورہ کے اور بغیر کسی معاون کی امداد کے مخلوقات کو پیدا کیا۔ اس کے حکم سے مخلوق اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اس کی اطاعت کیلئے جھک گئی اور بلا توقف لبیک کہی اور بغیر کسی نزاع و مزاحمت کے اس کی مطیع ہو گئی۔

وَ مِنْ لَّطَآئِفِ صَنْعَتِهٖ، وَ عَجَآئِبِ خِلْقَتِهٖ، مَاۤ اَرَانَا مِنْ غَوَامِضِ الْحِكْمَةِ فِیْ هٰذِهِ الْخَفَافِیْشِ الَّتِیْ یَقْبِضُهَا الضِّیَآءُ الْبَاسِطُ لِكُلِّ شَیْءٍ، وَ یَبْسُطُهَا الظَّلَامُ الْقَابِضُ لِكُلِّ حَیٍّ، وَ كَیْفَ عَشِیَتْ اَعْیُنُهَا عَنْ اَنْ تَسْتَمِدَّ مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِیْٓئَةِ نُوْرًا تَهْتَدِیْ بِهٖ فِیْ مَذَاهِبِهَا، وَ تَتَّصِلُ بِعَلَانِیَةِ بُرْهَانِ الشَّمْسِ اِلٰی مَعَارِفِهَا.

اس کی صنعت کی لطافتوں اور خلقت کی عجیب و غریب کار فرمائیوں میں کیا کیا گہری حکمتیں ہیں کہ جو اس نے ہمیں چمگادڑوں کے اندر دکھائی ہیں کہ جن کی آنکھوں کو (دن کا) اجالا سکیڑ دیتا ہے، حالانکہ وہ تمام آنکھوں میں روشنی پھیلانے والا ہے اور اندھیرا اُن کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے،حالانکہ وہ ہر زندہ شے کی آنکھوں پر نقاب ڈالنے والا ہے اور کیونکر چمکتے ہوئے سورج میں ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کہ وہ اس کی نور پاش شعاعوں سے مدد لے کر اپنے راستوں پر آ جا سکیں اور نورِ آفتاب کے پھیلاؤ میں اپنی جانی پہچانی ہوئی چیزوں تک پہنچ سکیں۔

وَ رَدَعَهَا بِتَلَاْلُؤِ ضِیَآئِهَا عَنِ الْمُضِیِّ فِیْ سُبُحَاتِ اِشْرَاقِهَا، وَ اَكَنَّهَا فِیْ مَكَامِنِهَا عَنِ الذَّهَابِ فِیْ بَلَجِ ائْتِلَاقِهَا، فَهِیَ مُسْدَلَةُ الْجُفُوْنِ بِالنَّهَارِ عَلٰی حِدَاقِهَا، وَ جَاعِلَةُ اللَّیْلِ سِرَاجًا تَسْتَدِلُّ بِهٖ فِی الْتِمَاسِ اَرْزَاقِهَا، فَلَا یَرُدُّ اَبْصَارَهَاۤ اِسْدَافُ ظُلْمَتِهٖ، وَ لَا تَمْتَنِعُ مِنَ الْمُضِیِّ فِیْهِ لِغَسَقِ دُجُنَّتِهٖ. فَاِذَاۤ اَلْقَتِ الشَّمْسُ قِنَاعَهَا، وَ بَدَتْ اَوْضَاحُ نَهَارِهَا، وَ دَخَلَ مِنْ اِشْرَاقِ نُوْرِهَا عَلَی الضِّبَابِ فِیْ وِجَارِهَا، اَطْبَقَتِ الْاَجْفَانَ عَلٰی مَاٰقِیْهَا، وَ تَبَلَّغَتْ بِمَا اكْتَسَبَتْہُ مِنَ الْمَعَاشِ فِیْ ظُلَمِ لَیَالِیْهَا.

اس نے تو اپنی ضوپاشیوں کی تابش سے انہیں نور کی تجلّیوں میں بڑھنے سے روک دیا ہے اور ان کے پوشیدہ ٹھکانوں میں انہیں چھپا دیا ہے کہ وہ اس کی روشنی کے اجالوں میں آ سکیں۔ دن کے وقت تو وہ اس طرح ہوتی ہیں کہ ان کی پلکیں جھلک کر آنکھوں پر لٹک آتی ہیں اور تاریکی شب کو اپنا چراغ بنا کر رزق کے ڈھونڈنے میں اس سے مدد لیتی ہیں۔ رات کی تاریکیاں ان کی آنکھوں کو دیکھنے سے نہیں روکتیں اور نہ اس کی گھٹا ٹوپ اندھیاریاں راہ پیمائیوں سے باز رکھتی ہیں۔ مگر جب آفتاب اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے اور دن کے اجالے ابھر آتے ہیں اور سورج کی کرنیں سوسمار کے سوراخ کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں تو وہ اپنی پلکوں کو آنکھوں پر جھکا لیتی ہیں اور رات کی تیرگیوں میں جو معاش حاصل کی ہے اسی پر اپنا وقت پورا کر لیتی ہیں۔

فَسُبْحَانَ مَنْ جَعَلَ اللَّیْلَ لَهَا نَهَارًا وَّ مَعَاشًا، وَ النَّهَارَ سَكَنًا وَّ قَرَارًا، وَ جَعَلَ لَهَاۤ اَجْنِحَةً مِّنْ لَّحْمِهَا تَعْرُجُ بِهَا عِنْدَ الْحَاجَةِ اِلَی الطَّیَرَانِ، كَاَنَّهَا شَظَایَا الْاٰذَانِ، غَیْرَ ذَوَاتِ رِیْشٍ وَّ لَا قَصَبٍ، اِلَّاۤ اَنَّكَ تَرٰی مَوَاضِعَ الْعُرُوْقِ بَیِّنَةً اَعْلَامًا، لَهَا جَنَاحَانِ لَمَّا یَرِقَّا فَیَنْشَقَّا، وَ لَمْ یَغْلُظَا فَیَثْقُلَا. تَطِیْرُ وَ وَلَدُهَا لَاصِقٌۢ بِهَا لَاجِئٌ اِلَیْهَا، یَقَعُ اِذَا وَقَعَتْ، وَ یَرْتَفِعُ اِذَا ارْتَفَعَتْ، لَا یُفَارِقُهَا حَتّٰی تَشْتَدَّ اَرْكَانُهٗ، وَ یَحْمِلَهٗ لِلنُّهُوْضِ جَنَاحُهٗ، وَ یَعْرِفَ مَذَاهِبَ عَیْشِهٖ، وَ مَصَالِحَ نَفْسِهٖ. فَسُبْحَانَ الْبَارِئِ لِكُلِّ شَیْءٍ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَیْرِهٖ!.

سبحان اللہ! کہ جس نے رات ان کے کسب ِمعاش کیلئے اور دن آرام و سکون کیلئے بنایا ہے اور ان کے گوشت ہی سے ان کے پر بنائے ہیں اور جب اُڑنے کی ضرورت ہوتی ہے تو انہی پروں سے اونچی ہوتی ہیں۔ گویا کہ وہ کانوں کی لویں ہیں کہ نہ ان میں پر و بال ہیں اور نہ کریاں، مگر تم ان کی رگوں کی جگہ کو دیکھو گے کہ اس کے نشان ظاہر ہیں اور اس میں دو پر سے لگے ہوئے ہیں کہ جو نہ اتنے باریک ہیں کہ پھٹ جائیں اور نہ اتنے موٹے ہیں کہ بوجھل ہو جائیں (کہ اڑا نہ جا سکے)۔ وہ اڑتی ہیں تو بچے ان سے چمٹے رہتے ہیں اور ان کی پناہ میں ہوتے ہیں۔ جب وہ نیچے کی طرف جھکتی ہیں تو بچے بھی جھک پڑتے ہیں اور جب وہ اونچی ہوتی ہیں تو بچے بھی اونچے ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک الگ نہیں ہوتے جب تک ان کے اعضاء میں مضبوطی نہ آ جائے اور بلند ہونے کیلئے ان کے پَر (ان کا بوجھ) اٹھانے کے قابل نہ ہوجائیں۔ وہ اپنی زندگی کی راہوں اور اپنی مصلحتوں کو پہچانتے ہیں۔ پاک ہے وہ خدا کہ جس نے بغیر کسی نمونہ کے کہ جو اس سے پہلے کسی نے بنایا ہو، ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ہے۔

۱؂’’چمگادڑ‘‘ ایک عجیب و غریب پرندہ ہے جو انڈے دینے کے بجائے بچے دیتا ہے، دانہ بھرانے کے بجائے دودھ پلاتا اور بغیر پروں کے پرواز کرتا ہے۔ اس کی انگلیاں جھلی دار ہوتی ہیں جن سے پروں کا کام لیتا ہے۔ ان پروں کا پھیلاؤ ڈیڑھ انچ سے پانچ فٹ تک ہوتا ہے۔ یہ اپنے پیروں کے بل چل پھر نہیں سکتا، اس لئے اڑ کر روزی حاصل کرتا اور درختوں اور چھتوں میں الٹا لٹکا رہتا ہے۔ دن کی روشنی میں اسے کچھ نظر نہیں آتا اس لئے غروب آفتاب کے بعد ہی پرواز کرتا ہے اور کیڑے مکوڑے اور رات کو اڑنے والے پروانے کھاتا ہے۔ چمگادڑوں کی ایک قسم پھل کھاتی ہے اور بعض گوشت خوار ہوتی ہیں جو مچھلی کا شکار کرتی ہیں۔ شمالی امریکہ کے تاریک غاروں میں خونخوار چمگادڑیں بھی بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ بڑی خطرناک اور مہلک ہوتی ہیں۔ ان کی خوراک انسانی و حیوانی خون ہے۔ جب یہ کسی انسان کا خون چوستی ہیں تو انسانی خون میں زہر سرایت کر جاتا ہے جس کے نتیجہ میں پہلے ہلکا سا بخار اور درد سر ہوتا ہے پھر سانس کی نالی متورم ہو جاتی ہے، کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے، جسم کا نیچے والا حصہ بے حس و حرکت ہو جاتا ہے۔ آخر سانس کی آمد و شد رک جاتی ہے اور وہ دم توڑ دیتا ہے۔ یہ خوں آشام چمگادڑیں اس وقت حملہ کرتی ہیں جب آدمی بے ہوش ہو یا سو رہا ہو۔ جاگتے میں حملہ کم ہوتا ہے اور خون چوستے وقت درد کا احساس تک نہیں ہوتا۔

چمگادڑ کی آنکھ خاص قسم کی ہوتی ہے جو صرف تاریکی ہی میں کام کر سکتی ہے اور دن کے اجالے میں کچھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آنکھ کی پتلی کا پھیلاؤ آنکھ کی وسعت کے مقابلہ میں بڑا ہوتا ہے اور تیز روشنی میں سمٹ جاتا ہے اور کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بڑی طاقت کے کیمرہ سے کھلی روشنی میں تصویر اتاری جائے تو روشنی کی چھوٹ سے تصویر دھندلی اترتی ہے۔ اسی لئے کیمرہ کے شیشہ کا سائز جو بمنزلہ آنکھ کی پتلی کے ہوتا ہے چھوٹا کر دیا جاتا ہے تا کہ روشنی کی چکا چوند کم ہو جائے اور تصویر صاف اترے۔ اگر چمگادڑ کی پتلی کا پھیلاؤ آنکھ کے مقابلہ میں کم ہوتا تو وہ بھی دوسرے جانوروں کی طرح دن کی روشنی میں دیکھ سکتی تھی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button