خطبہ (۱۶۲)
(۱٦٢) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۶۲)
لَمَّا اجْتَمَعَ النَّاسُ اِلَیْهِ وَ شَكَوْا مَا نَقَمُوْهُ عَلٰى عُثْمَانَ، وَ سَئَلُوْهُ مُخَاطَبَتَهٗ عَنْهُمْ وَ اسْتِعْتَابَهٗ لَهُمْ، فَدَخَلَ ؑ عَلَیْہِ فَقَالَ:
جب امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس لوگ جمع ہو کر آئے اور عثمان کے متعلق جو باتیں انہیں بری معلوم ہوئی تھیں ان کا گلہ کیا اور چاہا کہ حضرتؑ ان کی طرف سے ان سے بات چیت کریں اور لوگوں کو رضا مند کرنے کا ان سے مطالبہ کریں۔ چنانچہ آپؑ تشریف لے گئے اور ان سے کہا کہ:
اِنَّ النَّاسَ وَرَآئِیْ، وَ قَدِ اسْتَسْفَرُوْنِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهُمْ، وَ وَاللهِ! مَاۤ اَدْرِیْ مَاۤ اَقُوْلُ لَكَ! مَاۤ اَعْرِفُ شَیْئًا تَجْهَلُهٗ، وَ لَا اَدُلُّكَ عَلٰۤی اَمْرٍ لَّا تَعْرِفُهٗ، اِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ، مَا سَبَقْنَاكَ اِلٰی شَیْءٍ فَنُخْبِرَكَ عَنْهُ، وَ لَا خَلَوْنَا بِشَیْءٍ فَنُبَلِّغَكَهٗ، وَ قَدْ رَاَیْتَ كَمَا رَاَیْنَا، وَ سَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا، وَ صَحِبْتَ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ كَمَا صَحِبْنَا.
لوگ میرے پیچھے (منتظر) ہیں اور مجھے اس مقصد سے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں تمہارے اور ان کے قضیوں کو نپٹاؤں۔ خدا کی قسم! [۱] میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تم سے کیا کہوں جب کہ میں (اس سلسلہ میں) ایسی کوئی بات نہیں جانتا کہ جس سے تم بے خبر ہو اور نہ کوئی ایسی چیز بتانے والا ہوں کہ جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ جو تم جانتے ہو وہ ہم جانتے ہیں۔ نہ تم سے پہلے ہمیں کسی چیز کی خبر تھی کہ تمہیں بتائیں اور نہ علیحدگی میں کچھ سنا ہے کہ تم تک پہنچائیں۔ جیسے ہم نے دیکھا ویسے تم نے بھی دیکھا اور جس طرح ہم نے سنا تم نے بھی سنا۔ جس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے تم بھی رہے۔
وَ مَا ابْنُ اَبِیْ قُحَافَةَ وَ لَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِاَوْلٰی بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَ اَنْتَ اَقْرَبُ اِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ- وَشِیْجَةَ رَحِمٍ مِّنْهُمَا، وَ قَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِهٖ مَا لَمْ یَنَالَا.
اور حق پر عمل پیرا ہونے کی ذمہ داری ابن ابی قحافہ اور ابن خطاب پر اس سے زیادہ نہ تھی جتنی کہ تم پر ہونا چاہیے اور تم تو رسول ﷺ سے خاندانی قرابت کی بنا پر ان دونوں سے قریب تر بھی ہو اور ان کی ایک طرح کی دامادی بھی تمہیں حاصل ہے کہ جو انہیں حاصل نہ تھی۔
فَاللهَ اللهَ فِیْ نَفْسِكَ! فَاِنَّكَ ـ وَاللهٖ ـ مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًی، وَ لَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ، وَ اِنَّ الْطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ، وَ اِنَّ اَعْلَامَ الدِّیْنِ لَقَآئِمَةٌ.
کچھ اپنے دل میں اللہ کا بھی خوف کرو۔ خدا کی قسم! اس لئے تمہیں سمجھایا نہیں جا رہا ہے کہ تمہیں کچھ نظر آ نہ سکتا ہو اور نہ اس لئے یہ چیزیں تمہیں بتائی جا رہی ہیں کہ تمہیں علم نہ ہو اور (لاعلمی کے کیا معنی) جب کہ شریعت کی راہیں واضح اور دین کے نشانات قائم ہیں۔
فَاعْلَمْ اَنَّ اَفْضَلَ عِبَادِ اللهِ عِنْدَ اللهِ اِمَامٌ عَادِلٌ، هُدِیَ وَ هَدٰی، فَاَقَامَ سُنَّةً مَّعْلُوْمَةً، وَ اَمَاتَ بِدْعَةً مَّجْهُوْلَةً، وَ اِنَّ السُّنَنَ لَـنَیِّرَةٌ لَّهَاۤ اَعْلَامٌ، وَ اِنَّ الْبِدَعَ لَـظَاهِرَةٌ لَّهَاۤ اَعْلَامٌ، وَ اِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ اِمَامٌ جَآئِرٌ ضَلَّ وَ ضُلَّ بِهٖ، فَاَمَاتَ سُنَّةً مَّاْخُوْذَةً، وَ اَحْیَا بِدْعَةً مَّتْرُوْكَةً.
یاد رکھو کہ اللہ کے نزدیک سب بندوں سے بہتر وہ انصاف پرور حاکم ہے جو خود بھی ہدایت پائے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرے اور جانی پہچانی ہوئی سنت کو مستحکم کرے اور انجانی بدعتوں کو فنا کرے۔ سنتوں کے نشانات جگمگا رہے ہیں اور بدعتوں کی علامتیں بھی واضح ہیں اور اللہ کے نزدیک سب لوگوں سے بدتر وہ ظالم حکمران ہے جو گمراہی میں پڑا رہے اور دوسرے بھی اس کی وجہ سے گمراہی میں پڑیں اور (رسولؐ سے) حاصل کی ہوئی سنتوں کو تباہ اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کرے۔
وَ اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ- یَقُوْلُ: «یُؤْتٰی یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِالْاِمَامِ الْجَآئِرِ وَ لَیْسَ مَعَهٗ نَصِیْرٌ وَّ لَا عَاذِرٌ، فَیُلْقٰی فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ، فَیَدُوْرُ فِیْهَا كَمَا تَدُوْرُ الرَّحٰی، ثُمَّ یَرْتَبِطُ فِیْ قَعْرِهَا».
میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ: «قیامت کے دن ظالم کو اس طرح لایا جائے گا کہ نہ اس کا کوئی مددگار ہو گا اور نہ کوئی عذر خواہ اور اسے (سیدھا) جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس میں اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی گھومتی ہے اور پھر اسے جہنم کے گہراؤ میں جکڑ دیا جائے گا»۔
وَ اِنِّیْۤ اُنْشِدُكَ اللهَ اَنْ لَّا تَكُوْنَ اِمَامَ هٰذِهِ الْاُمَّةِ الْمَقْتُوْلَ، فَاِنَّهٗ كَانَ یُقَالُ: یُقْتَلُ فِیْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ اِمَامٌ یَّفْتَحُ عَلَیْهَا الْقَتْلَ وَ الْقِتَالَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ، وَ یَلْبِسُ اُمُوْرَهَا عَلَیْهَا، وَ یَبُثُّ الْفِتَنَ فِیْهَا، فَلَا یُبْصِرُوْنَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ، یَمُوْجُوْنَ فِیْهَا مَوْجًا، وَ یَمْرُجُوْنَ فِیْهَا مَرْجًا. فَلَا تَكُوْنَنَّ لِمَرْوَانَ سَیِّقَةً یَّسُوْقُكَ حَیْثُ شَآءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ وَ تَقَضِّی الْعُمُرِ.
میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم اس اُمت کے وہ سربراہ نہ بنو کہ جسے قتل ہی ہونا ہے۔ چونکہ کہا گیا ہے کہ اس اُمت میں ایک ایسا حاکم مارا جائے گا جو اس کیلئے قیامت تک قتل و خون ریزی کا دروازہ کھول دے گا اور اس کے تمام امور کو اشتباہ میں ڈال دے گا اور اس میں فتنوں کو پھیلائے گا کہ وہ لوگ حق کو باطل سے الگ کرکے نہ دیکھ سکیں گے اور وہ فتنوں میں (دریا کی) موجوں کی طرح الٹے پلٹے کھائیں گے اور انہی میں تہ و بالا ہوتے رہیں گے۔ تم مروان کی سواری نہ بن جاؤ کہ وہ تمہیں جہاں چاہے کھینچتا پھرے، جبکہ تم سن رسیدہ بھی ہو چکے ہو اور عمر بھی بیت چکی ہے۔
فَقَالَ لَهٗ عُثْمَانُ: كَلِّمِ النَّاسَ فِیْۤ اَنْ یُّؤَجِّلُوْنِیْ حَتّٰۤی اَخْرُجَ اِلَیْهِمْ مِن مَّظَالِمِهِمْ، فَقالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ:
حضرت عثمان نے کہا کہ: آپؑ ان لوگوں سے بات کریں کہ وہ مجھے (کچھ عرصہ کیلئے) مہلت دیں کہ میں ان کی حق تلفیوں سے عہدہ برآ ہو سکوں۔ تو آپؑ نے فرمایا کہ:
مَاكَانَ بِالْمَدِیْنَةِ فَلَاۤ اَجَلَ فِیْهِ، وَ مَا غَابَ فَاَجَلُهٗ وُصُوْلُ اَمْرِكَ اِلَیْهِ.
جن چیزوں کا تعلق مدینہ سے ہے ان میں تو کوئی مہلت کی ضرورت نہیں۔ البتہ جو جگہیں نگاہوں سے اوجھل (اور دور) ہیں ان کیلئے اتنی مہلت ہوسکتی ہے کہ تمہارا فرمان وہاں تک پہنچ جائے۔
۱حضرت عثمان کے دور خلافت میں جب حکومت اور اس کے کارندوں کے ستائے ہوئے مسلمان اکابر صحابہ تک اپنی فریاد پہنچانے کیلئے مدینہ میں سمٹ آئے تو پر امن طریق کار اختیار کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے خواہش کی کہ وہ حضرت عثمان سے مل کر انہیں سمجھائیں بجھائیں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق پامال نہ کریں اور ان فتنوں کا سدّ باب کریں جو رعیت کیلئے تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ جس پر حضرتؑ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور اس موقع پر یہ کلام ارشاد فرمایا۔
امیر المومنین علیہ السلام نے موعظت کی تلخیوں کو خوشگوار بنانے کیلئے تمہید میں وہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے جو اشتعال دلانے کے بجائے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرے اور فرائض کی جانب متوجہ کرے، چنانچہ ان کی صحابیت، شخصی اہمیت اور شیخین کے مقابلہ میں پیغمبر ﷺ سے ان کی خاندانی قرابت کو ظاہر کرنے سے اسی فرض شناسی کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے ورنہ ظاہر ہے کہ یہ موقعہ ان کی مدح سرائی کا نہ تھا کہ آخر کلام سے آنکھیں بند کر کے اسے قصیدۂ شرف سمجھ لیا جائے، جبکہ اس تمہید سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے تھے جان بوجھ کر کرتے تھے۔ ایسا نہ تھا کہ انہیں علم و اطلاع نہ ہو اور لاعلمی کی بنا پر ان کی لغزشوں کو قابل مواخذہ نہ سمجھا جائے۔ ہاں! اگر رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہنے، ان کی تعلیمات کو سننے، ان کے طرز عمل کو دیکھنے اور اسلامی احکام پر مطلع ہونے کے بعد ایسا طور طریقہ اختیار کرنا کہ جس سے دنیائے اسلام چیخ اٹھے کوئی فضیلت ہے تو پھر اس تعریض کو بھی مدح سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ فضیلت نہیں ہے تو پھر اسے بھی مدح نہیں کہا جا سکتا، حالانکہ جن لفظوں کو مدح سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے وہ ان کے جرم کی سنگینی ثابت کرنے کیلئے ہیں، کیونکہ بے خبری و لاعلمی میں جرم اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا جانتے بوجھتے ہوئے جرم کا ارتکاب اس کے وزن کو بڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ اگر راستے کے نشیب و فراز سے ناواقف شخص گھپ اندھیرے میں ٹھوکر کھائے تو اسے معذور سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر راستے کے گڑھوں سے واقف دن کے اُجالے میں ٹھوکر کھائے تو اسے سرزنش کے قابل سمجھا جاتا ہے اور اگر اس موقع پر اس سے یہ کہا جائے کہ تم آنکھیں بھی رکھتے ہو، راستے کی اونچ نیچ سے بھی واقف ہو، تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس کی وسعت علمی و روشنی چشم کو سراہا جا رہا ہے، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے آنکھوں کے ہوتے ہوئے پھر راستے کے گڑھوں کو نہ دیکھا اور جاننے بوجھنے کے باوجود پھر سنبھل کر نہ چلا۔ لہٰذا آنکھوں کا ہونا نہ ہونا برابر اور جاننا نہ جاننا یکساں ہے۔
اس سلسلہ میں ان کی دامادی پر بڑا زور دیا جاتا ہے کہ پیغمبر ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیوں رقیہ و اُمّ کلثوم کا عقد یکے بعد دیگرے ان سے کیا۔ اس کو وجہ شرف ماننے سے قبل یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ دامادی عثمان کی نوعیت کیا ہے۔ تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ اس میں اولیت کا شرف حضرت عثمان کو حاصل نہ تھا بلکہ ان سے قبل رقیہ و اُمّ کلثوم ابو لہب کے بیٹوں عتبہ و عتیبہ سے منسوب تھیں، مگر ان کو باوجود پہلا داماد ہونے کے قبل از بعثت کے صاحبان شرف میں بھی اب تک شمار نہیں کیا گیا تو یہاں کسی جوہر ذاتی کے بغیر اس نسبت کو کس بنا پر سرمایہ افتخار سمجھا جا سکتا ہے، جب کہ اس رشتہ کی اہمیت کے متعلق نہ کوئی سند ہے اور نہ اس ماحول میں اس طرف کوئی توجہ پائی جاتی تھی کہ یہ کہا جائے کہ کسی اہم ترین عظمت کی مالک شخصیت اور ان میں معاملہ دائر تھا، پھر یہ منتخب ہو کر یہ شرف پا گئے۔ یا یہ کہ ان دونوں بیٹیوں کو تاریخ و حدیث و سیر میں کسی کرداری شخصیت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہو جس کی وجہ سے اس رشتہ کو خاص اہمیت دے کر ان کیلئے طرۂ امتیاز قرار دیا جائے۔ اگر قبل بعثت عتبہ و عتیبہ سے ان کا بیاہا جانا اس بنا پر صحیح سمجھا جاتا ہے کہ اس وقت مشرکین کے ساتھ عقد کی حرمت کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا تو یہاں پر بھی صحت عقد کیلئے صرف ظاہری اسلام کی شرط تھی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے زبان سے اقرار شہادتین بھی کیا اور بظاہر ایمان بھی لائے۔ لہٰذا اس عقد کو صرف ظاہر اسلام کی دلیل تو قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ اور کسی امتیاز کو اس کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہی کہاں مسلم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی صلبی بیٹیاں تھیں جب کہ ایک طبقہ ان کے صلب رسولؐ سے ہونے سے انکار کرتا ہے اور وہ انہیں حضرت خدیجہ الکبریٰ کی بہن ہالہ کی اولاد یا ان کے پہلے شوہر کی اولاد قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ابوالقاسم الکوفی متوفی ۳۵۲ھ تحریر فرماتے ہیں:
فَلَمَّا تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِخَدِيْجَةَ مَاتَتْ هَالَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ بِمُدَّةٍ يَّسِيْرَةٍ وَّ خَلَّفَتْ الطِّفْلَتَيْنِ زَيْنَبَ وَ رُقَيَّةَ فِیْ حِجْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ حِجْرِ خَدِيَجَةَ فَرَبَّيَاهُمَا، وَ كَانَ مِنْ سُنَّةِ الْعَرَبِ فِی الْجَاهِلِيَّةِ مَنْ يُّرَبِّیْ يَتِيْمًا يُّنْسَبُ ذٰلِكَ الْيَتِيْمُ اِلَيْهِ.
جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ سے عقد کیا تو اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہالہ کا انتقال ہو گیا اور اس نے دو لڑکیاں چھوڑیں: ایک کا نام زینب تھا اور ایک کا نام رقیہ اور ان دونوں نے پیغمبر ﷺ اور خدیجہؑ کی گود میں پرورش پائی اور انہی نے ان کی تربیت کی اور اسلام سے قبل یہ دستور تھا کہ اگر کوئی یتیم بچہ کسی کی گود میں پرورش پاتا تھا تو اسے اسی کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ (کتاب ’’الاستغاثۃ‘‘، ص۶۹)
اور ابن ہشام نے حضرت خدیجہ کی اولاد کے سلسلہ میں تحریر فرمایا ہے کہ:
وَكَانَتْ قَبْلَهٗ عِنْدَ اَبِیْ هَالَةَ بْنِ مَالِكٍ… فَوَلَدَتْ لَهٗ هِنْدَ بْنَ اَبِیْ هَالَةَ وَ زَيْنَبَ بِنْتَ اَبِیْ هَالَةَ وَ كَانَتْ قَبْلَ اَبِیْ هَالَةَ عِنْدَ عَتِيْقِ بْنِ عَآئِذِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ مَخْزُوْمٍ، فَوَلَدَتْ لَهٗ عَبْدَ اللّٰهِ وَ جَارِيَةً.
حضرت خدیجہ رسول اللہ ﷺ کے حبالہ عقد میں آنے سے پہلے ابی ہالہ بن مالک کی زوجیت میں تھیں جس سے ایک لڑکا ہند اور ایک لڑکی زینب پیدا ہوئی اور ابی ہالہ سے قبل عتیق ابن عائذ کے عقد میں تھیں جس سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ (سیرت ابن ہشام، ج۴، ص۲۹۳)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خدیجہ کی دو لڑکیاں عقد رسولؐ میں آنے سے پہلے موجود تھیں جو حسب ظاہر رسول اللہ ﷺ ہی کی بیٹیاں کہلائیں گی اور وہ جن سے بھی بیاہی جائیں گی وہ پیغمبر ﷺ کے داماد ہی کہلائیں گے، لیکن دامادی کی حیثیت وہی ہو گی جو ان لڑکیوں کے بیٹی ہونے کی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اسے محل افتخار میں پیش کرنے سے پہلے ان بیٹیوں کی حیثیت کو دیکھ لینا چاہیے اور حضرت عثمان کے رویہ پر بھی ایک نظر کر لینا چاہیے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں امام بخاری اپنی صحیح میں یہ روایت درج کرتے ہیں:
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:شَهِدْنَا بِنْتًا لِّرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ ، قَالَ: وَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ، قَالَ: فَرَاَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ، قَالَ: فَقَالَ: « هَلْ مِنْكُمْ رَجُلٌ لَّمْ يُقَارِفِ اللَّيْلَةَ؟» فَقَالَ اَبُوْ طَلْحَةَ: اَنَا، قَالَ: «فَانْزِلْ» قَالَ: فَنَزَلَ فِیْ قَبْرِهَا.
انس ابن مالک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ: ہم دختر رسولؐ کے دفن کے موقع پر موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’کون تم میں ایسا ہے جو آج کی رات ہم بستر نہ ہوا ہو‘‘۔ ابو طلحہ نے کہا کہ: میں، حضرتؐ نے فرمایا کہ: ’’پھر تم قبر میں اترو‘‘۔ چنانچہ وہ قبر میں اترے۔
(صحیح بخاری، ج۱، ص۲۳۲)
اس موقع پر پیغمبر اکرم ﷺ نے حضرت عثمان کے راز درون پردہ کو بے نقاب کر کے انہیں قبر میں اترنے سے روک دیا، حالانکہ پیغمبرؐ کی سیرت کا یہ نمایاں جوہر تھا کہ وہ کسی کے اندرونی حالات کو طشت از بام کر کے اس کی ہتک و اہانت گوارا نہ کرتے تھے اور دوسروں کے عیوب پر مطلع ہونے کے باوجود چشم پوشی فرما جاتے تھے مگر یہ کردار کا گھنونا پن کچھ ایسا تھا کہ بھرے مجمع میں انہیں رسوا کرنا ضروری سمجھا گیا۔↑