خطبہ (۱۷۲)
(۱٧٢) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۲)
فِیْ مَعْنٰى طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰهِ
طلحہ ابن عبید اللہ کے بارے میں فرمایا
قَدْ كُنْتُ وَ مَاۤ اُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ، وَ لَاۤ اُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ، وَ اَنَا عَلٰی مَا قَدْ وَعَدَنِیْ رَبِّیْ مِنَ النَّصْرِ.
مجھے تو کبھی بھی حرب و ضرب سے دھمکایا اور ڈرایا نہیں جا سکا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے کئے ہوئے وعدهٔ نصرت پر مطمئن ہوں۔
وَاللهِ! مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّدًا لِّلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ اِلَّا خَوْفًا مِّنْ اَنْ یُّطَالَبَ بِدَمِهٖ، لِاَنَّهٗ مَظِنَّتُهٗ، وَ لَمْ یَكُنْ فِی الْقَومِ اَحْرَصُ عَلَیْهِ مِنْهُ، فَاَرَادَ اَنْ یُّغَالِطَ بِمَاۤ اَجْلَبَ فِیْهِ لِیَلْتَبِسَ الْاَمْرُ وَ یَقَعَ الشَّكُّ.
خدا کی قسم! وہ خون عثمان کا بدلہ لینے کیلئے کھنچی ہوئی تلوار کی طرح اس لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اسے یہ ڈر ہے کہ کہیں اسی سے ان کے خون کا مطالبہ نہ ہونے لگے۔ کیونکہ (لوگوں کا) ظن غالب اس کے متعلق یہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ (قتل کرنیوالی) جماعت میں اس سے بڑھ کر ان کے خون کا پیاسا ایک بھی نہ تھا۔ چنانچہ اس نے خون کا عوض لینے کے سلسلے میں جو فوجیں فراہم کی ہیں اس سے یہ چاہا ہے کہ لوگوں کو مغالطہ دے تاکہ حقیقت مشتبہ ہو جائے اور اس میں شک پڑ جائے۔
وَ وَاللهِ! مَا صَنَعَ فِیْۤ اَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِّنْ ثَلَاثٍ: لَئِنْ كَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِمًا ـ كَمَا كَانَ یَزْعُمُ ـ لَقَدْ كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یُّوَازِرَ قَاتِلِیْهِ اَوْ اَنْ یُّنَابِذَ نَاصِرِیْهٖ، وَ لَئِنْ كَانَ مَظْلُوْمًا لَقَدْ كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یَّكُوْنَ مِنَ الْمُنَهْنِهِیْنَ عَنْهُ وَ الْمُعَذِّرِیْنَ فِیْهِ، وَ لَئِنْ كَانَ فِیْ شَكٍّ مِّنَ الْخَصْلَتَیْنِ، لَقَدْ كَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یَّعْتَزِلَهٗ وَ یَرْكُدَ جَانِبًا وَّ یَدَعَ النَّاسَ مَعَهٗ، فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِّنَ الثَّلَاثِ، وَ جَآءَ بِاَمْرٍ لَّمْ یُعْرَفْ بَابُهٗ، وَ لَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِیْرُهٗ.
خدا کی قسم! اس نے عثمان کے معاملہ میں ان تین باتوں میں سے ایک بات پر بھی تو عمل نہیں کیا: اگر ابن عفان جیسا کہ اس کا خیال تھا ظالم تھے [۱] تو (اس صورت میں) اسے چاہیے تھا کہ ان کے قاتلوں کی مدد کرتا یا ان کے مددگاروں سے علیحدگی اختیار کر لیتا اور اگر وہ مظلوم تھے تو اس صورت میں اس کیلئے مناسب تھا کہ ان کے قتل سے روکنے والوں اور ان کی طرف سے عذر و معذرت کرنے والوں میں ہوتا اور اگر ان دونوں باتوں میں اسے شبہ تھا تو اس صورت میں اسے یہ چاہیے تھا کہ ان سے کنارہ کش ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتا (کہ وہ جانیں اور ان کا کام)۔ لیکن اس نے ان باتوں میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا اور ایک ایسی بات کو لے کر سامنے آ گیا ہے کہ جس کی صحت کی کوئی صورت ہی نہیں اور نہ اس کا کوئی عذر درست ہے۔
۱مطلب یہ ہے کہ اگر طلحہ حضرت عثمان کو ظالم سمجھتے تھے تو ان کے قتل ہونے کے بعد ان کے قاتلوں سے آمادۂ قصاص ہونے کے بجائے ان کی مدد کرنا چاہیے تھی اور ان کے اس اقدام کو صحیح و درست قرار دینا چاہیے تھا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ظالم ہونے کی صورت میں محاصرہ کرنے والوں کی ان کو مدد کرنا چاہیے تھی، کیونکہ ان کی مدد و ہمت افزائی تو وہ کرتے ہی رہے تھے۔