خطبہ (۱۷۳)
(۱٧٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۳)
اَیُّهَا الْغَافِلُوْنَ غَیْرُ الْمَغْفُوْلِ عَنْهُمْ، وَ التَّارِكُوْنَ الْمَاْخُوْذُ مِنْهُمْ، مَا لِیْۤ اَرَاكُمْ عَنِ اللهِ ذَاهِـبِیْنَ، وَ اِلٰی غَیْرِهٖ رَاغِبـِیْنَ!.
اے غافلو! کہ جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جا رہی اور اے چھوڑ دینے والو! کہ جن کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ تعجب ہے کہ میں تمہیں اس حالت میں دیکھتا ہوں کہ تم اللہ سے دور ہٹتے جا رہے ہو اور دوسروں کی طرف شوق سے بڑھ رہے ہو۔
كَاَنَّكُمْ نَعَمٌ اَرَاحَ بِهَا سَآئِمٌ اِلٰی مَرْعًی وَّبِیٍّ، وَ مَشْرَبٍ دَوِیٍّ، اِنَّمَا هِیَ كَالْمَعْلُوْفَةِ لِلْمُدٰی لَا تَعْرِفُ مَاذَا یُرَادُ بِهَا! اِذَاۤ اُحْسِنَ اِلَیْهَا تَحْسَبُ یَوْمَهَا دَهْرَهَا، وَ شِبَعَهَاۤ اَمْرَهَا.
گویا تم وہ اونٹ ہو جن کا چرواہا انہیں ایک ہلاک کرنے والی چراگاہ اور تباہ کرنے والے گھاٹ پر لایا ہو۔ یہ ان چوپاؤں کی مانند ہیں جنہیں چھریوں سے ذبح کرنے کیلئے چارہ دیا جا رہا ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ جب ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جا تا ہے تو ان سے مقصود کیا ہے۔ یہ تو اپنے دن کو اپنا پورا زمانہ خیال کرتے ہیں اور پیٹ بھر کر کھا لینا ہی اپنا کام سمجھتے ہیں۔
وَاللهِ! لَوْ شِئْتُ اَنْ اُخْبِرَ كُلَّ رَجُلٍ مِّنْكُمْ بِمَخْرَجِهٖ وَ مَوْلِجِهٖ وَ جَمِیْعِ شَاْنِهٖ لَفَعَلْتُ، وَ لٰكِنْ اَخَافُ اَنْ تَكْفُرُوْا فِیَّ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ. اَلَا وَ اِنِّیْ مُفْضِیْهِ اِلَی الْخَاصَّةِ مِمَّنْ یُّؤْمَنُ ذٰلِكَ مِنْهُ.
خدا کی قسم! اگر میں بتانا چاہوں تو تم میں سے ہر شخص کو بتا سکتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہاں جانا ہے اور اس کے پورے حالات کیا ہیں۔ لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم مجھ میں (کھو کر)پیغمبر ﷺ سے کفر اختیار کر لو گے۔ البتہ میں اپنے مخصوص دوستوں تک یہ چیزیں ضرور پہنچاؤں گا کہ جن کے بھٹک جانے کا اندیشہ نہیں۔
وَالَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ وَ اصْطَفَاهُ عَلَی الْخَلْقِ! مَاۤ اَنْطِقُ اِلَّا صَادِقًا، وَ لَقَدْ عَهِدَ اِلَیَّ بِذٰلِكَ كُلِّهٖ، وَ بِمَهْلِكِ مَنْ یَّهْلِكُ، وَ مَنْجٰی مَنْ یَّنْجُوْ، وَ مَاٰلِ هٰذَا الْاَمْرِ، وَ مَاۤ اَبْقٰی شَیْئًا یَّمُرُّ عَلٰی رَاْسِیْۤ اِلَّاۤ اَفْرَغَهٗ فِیْۤ اُذُنَییَّ وَ اَفْضٰی بِهٖۤ اِلَیَّ.
اس ذات کی قسم جس نے پیغمبر ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور ساری مخلوقات میں سے ان کو منتخب فرمایا! میں جو کہتا ہوں سچ کہتا ہوں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان تمام چیزوں اور ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر (خلافت) کے انجام کی خبر دی ہے اور ہر وہ چیز جو میرے سر پر گزرے گی اسے میرے کانوں میں ڈالے اور مجھ تک پہنچائے بغیر نہیں چھوڑا۔ [۱]
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنِّیْ وَاللهِ! مَاۤ اَحُثُّكُمْ عَلٰی طَاعَةٍ اِلَّا وَ اَسْبِقُكُمْ اِلَیْهَا، وَ لَاۤ اَنْهَاكُمْ عَنْ مَّعْصِیَةٍ اِلَّا وَ اَتَنَاهٰی قَبْلَكُمْ عَنْهَا.
اے لوگو! قسم بخدا! میں تمہیں کسی اطاعت پر آمادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس کی طرف بڑھتا ہوں اور کسی گناہ سے تمہیں نہیں روکتا مگر یہ کہ تم سے پہلے خود اس سے باز رہتا ہوں۔
۱سرچشمہ وحی و الہام سے سیراب ہونے والے غیب کے پردوں میں مخفی اور مستقبل میں رونما ہونے والی چیزوں کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح محسوسات کو آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ ارشادِ قدرت: ﴿قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُؕ﴾[۱]: ’’تم کہہ دو کہ اللہ کے سوا زمین و آسمان کے بسنے والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا‘‘، کے منافی نہیں، کیونکہ آیت میں ذاتی طور پر علم غیب کے جاننے کی نفی ہے، اس علم غیب کی نفی نہیں جو انبیاء و اولیاء علیہم السلام کو القائے ربانی سے حاصل ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں وہ مستقبل کے متعلق پیشین گوئیاں کرتے ہیں اور بہت سے احوال و واردات کو بے نقاب کرتے ہیں۔
چنانچہ اس مطلب پر قرآن مجید کی متعدد آیتیں شاہد ہیں:
﴿فَلَمَّا نَـبَّاَهَا بِهٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ هٰذَاؕ قَالَ نَـبَّاَنِىَ الْعَلِيْمُ الْخَبِیْرُ ﴾
جب رسولؐ نے اس واقعہ کی خبر اپنی ایک بیوی کو دی تو وہ کہنے لگی کہ آپؐ کو کس نے خبر دی ہے؟ رسولؐ نے کہا کہ: مجھے ایک جاننے والے اور واقف کار نے خبر دی ہے۔[۲]
﴿تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَاۤ اِلَيْكَۚ﴾
اے رسولؐ! یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں وحی کے ذریعہ تمہیں بتاتے ہیں۔[۳]
لہٰذا اپنے معتقدات کی سخن پروری کرتے ہوئے یہ کہنا کہ انبیاء و اولیاء علیہم السلام کو علم غیب کا حامل سمجھنا شرک فی الصفات ہے، حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ شرک تو اس وقت ہوتا کہ جب یہ کہا جاتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی ذاتی حیثیت سے عالم الغیب ہے۔ جب ایسا نہیں بلکہ انبیاء و آئمہ علیہم السلام کا علم اللہ کا دیا ہوا ہے تو اس کو شرک سے کیا واسطہ اور اگر شرک کے یہی معنی ہیں تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دعویٰ کا کیا نام ہو گا جو قرآن مجید میں مذکور ہے:
﴿اَنِّىْۤ اَخْلُقُ لَـكُمْ مِّنَ الطِّيْنِ كَهَیْـــَٔةِ الطَّيْرِ فَاَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْرًاۢ بِاِذْنِ اللّٰهِۚ وَاُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْىِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَۙ فِىْ بُيُوْتِكُمْؕ﴾
میں تمہارے لئے مٹی سے ایک پرندہ کا ڈھانچہ بناؤں گا، پھر اس میں پھونکوں گا تو وہ خدا کے حکم سے سچ مچ کا پرندہ بن جائے گا اور میں مادر زاد اندھے اور مبروص کو اچھا کر دوں گا او راس کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دوں گا اور جو کچھ تم کھاتے ہو اور گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو تم کو بتا دوں گا۔[۴]
کیا ان کو بحکم خدا خالق و حیات بخش مان لینے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی صفت خلق و احیاء میں ان کو شریک سمجھا گیا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر اللہ کے کسی کو امور غیب پر مطلع کر دینے سے یہ کہاں سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے عالم الغیب ہو نے میں اس کو شریک ٹھہرا لیا گیا ہے کہ علم غیب کے جاننے کو شرک سے تعبیر کر کے اپنی موحدانہ عظمت کا مظاہرہ کیا جائے۔
اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ بعض لوگوں کو خواب میں ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں یا اس کی تعبیر سے ظاہر ہو جاتی ہیں کہ جن کا ظہور مستقبل سے وابستہ ہوتا ہے، حالانکہ خواب کی حالت میں نہ حواس کام دیتے ہیں اور نہ ذہن و ادراک کی قوتیں ساتھ دیتی ہیں۔ تو اگر بیداری میں بعض افراد پر کچھ حقائق منکشف ہو جائیں تو اس پر اچنبھا کیوں اور اس سے وجہ انکار کیا؟جبکہ عقل کہتی ہے کہ جو چیز خواب میں واقع ہو سکتی ہے وہ بیداری میں بھی ممکن ہے۔ چنانچہ ابن میثم نے تحریر کیا ہے کہ خواب میں یہ افادہ و فیضان اس لئے ہوتا ہے کہ نفس تربیت بدن کی الجھنوں سے آزاد اور مادی علائق سے الگ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی ایسی پوشیدہ حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے جن کے دیکھنے سے حجاب عنصری مانع ہوتا ہے۔ یونہی وہ نفوس کاملہ جو جنبۂ مادی سے بے اعتنا اور قلب و روح کی پوری توجہ سے افاضہ علمی کے مرکز سے رجوع ہوتے ہیں، ان پر وہ حقائق و بواطن منکشف ہو جاتے ہیں جنہیں ظاہری آنکھیں دیکھنے سے عاجز و قاصر ہوتی ہیں۔لہٰذا اہل بیت علیہم السلام کی روحانی عظمت کے پیش نظر اس میں قطعاً کوئی استبعاد نہیں کہ وہ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں سے آگاہ ہو سکیں۔ چنانچہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے کہ:
وَ اِذَا كَانَتِ الْكَرَامَةُ تَقَعُ لِغَيْرِهِمْ فَمَا ظَنُّكَ بِهِمْ عِلْمًا وَّ دِيْنًا وَّ اٰثَارًا مِّنَ النَّبُوَّةِ وَ عِنَايَةٍ مِّنَ اللهِ بِالْاَصْلِ الْكَرِيْمِ تَشْهَدُ لِفُرُوْعِهِ الطَّيِّبَةِ، وَ قَدْ يُنْقَلُ بَيْنَ اَهْلِ الْبَيْتِ كَثِيْرٌ مِّنْ هٰذَا الْكَلَامُ غَيْرُ مَنْسُوْبٍ اِلٰۤى اَحَدٍ.
جبکہ کرامات کا ظہور اوروں سے ہو سکتا ہے تو ان ہستیوں کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے کہ جو علم و دیانت کے لحاظ سے ممتاز اور نبوت کی نشانیوں کے آئینہ دار تھے اور اس بزرگ اصل (رسولؐ) پر جو نظر توجہ باری تھی وہ اس کی پاکیزہ شاخوں کے کمالات پر شاہد ہے۔ چنانچہ امور غیب کے متعلق اہل بیت علیہم السلام سے بہت سے واقعات نقل کئے جاتے ہیں جو کسی اور کی طرف منسوب نہیں کئے جا سکتے۔ (مقدمہ ابن خلدون، ص۲۳۴)
اس صورت میں امیر المومنین علیہ السلام کے دعویٰ پر کوئی وجہ استعجاب نہیں جبکہ آپؑ پروردۂ آغوش رسالت و متعلم درس گاہ قدرت تھے۔ البتہ جن کا علم محسوسات کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور ان کے علم و ادراک کا وسیلہ صرف ظاہری حواس ہوتے ہیں وہ عرفان و حقیقت کی راہوں سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے علم بالمغیبات سے انکار کر دیتے ہیں۔ اگر اس قسم کا دعویٰ انوکھا ہوتا اور صرف آپؑ ہی سے سننے میں آیا ہوتا تو ہو سکتا تھا کہ اسے تسلیم کرنے میں دماغ پس و پیش کرتے، طبیعتیں ہچکچاتیں، مگر قرآن میں جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ تک دعویٰ موجود ہے کہ میں تمہیں خبر دے سکتا ہوں کہ تم کیا کھاتے پیتے ہو اور کیا گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو تو امیر المومنین علیہ السلام کے اس دعویٰ پر کیوں پس و پیش کیا جاتا ہے؟ جبکہ یہ مسلم ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر ﷺ کے تمام کمالات و خصوصیات کے وارث تھے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جن چیزوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام جان سکتے تھے پیغمبر اکرم ﷺ ان سے بے خبر تھے۔ تو پھر وارث علم پیغمبرؐ اگر ایسا دعویٰ کرے تو اس سے انکار کیسا؟ جبکہ حضرتؑ کی یہ علمی وسعت پیغمبر ﷺ کے علم و کمال کی ایک بہترین حجت و دلیل اور ان کی صداقت کا ایک زندہ معجزہ ہے۔
اس سلسلہ میں یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ حالات پر مطلع ہونے کے باوجود اپنے کسی قول و عمل سے یہ ظاہر نہ ہونے دیتے تھے کہ وہ انہیں جانتے ہیں۔ چنانچہ سیّد ابن طاؤس علیہ الرحمہ اس دعویٰ کی غیر معمولی عظمت و اہمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ:
وَ مِنْ عَجَآئِبِ هٰذَا الْقَوْلِ اَنَّ عَلِیَّ بْنَ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ كَانَ مَعَ عِلْمِهٖ بِتَفْصِيْلِ الْاَحْوَالِ يَسِيْرُ فِی النَّاسِ بِالْمَقَالِ وَ الْفِعَالِ سِيْرَةً لَّا يَعْتَقِدُ مَنْ يَّرَاهُ اَنَّهٗ عَارِفٌۢ بِبَوَاطِنِ تِلْكَ الْاَعْمَالِ وَ الْاَفْعَالِ وَ الْاَقْوَالِ وَ قَدْ عَرَفَ الْعُقَلَآءُ اَنَّ كُلَّ مَنْ عَرَفَ وَ اطَّلَعَ عَلٰى مَا يَتَجَدَّدُ مِنْ حَرَكَةٍ مِّنْ حَرَكَاتِ نَفْسِهٖ اَوْ حَرَكَاتِ مَنْ يَّصْحَبُهٗ اَوْ يَطَّلِعُ عَلٰۤى اَسْرَارِ النَّاسِ، فَاِنَّهٗ يَظْهَرُ عَلٰى وَجْهِهٖ وَ فِعْلِهٖ اَثَرُ عِلْمِهٖ بِذٰلِكَ، وَ اِنَّ مَنْ یَّعْلَمُ وَ يَكُوْنُ كَمَنْ لَّا يَعْلَمُ، فَاِنَّہٗ مِنَ الْاٰيَاتِ الْبَاهِرَاتِ وَ الْجَمْعِ بَيْنَ الْاَضْدَادِ الْمُشْكِلَاتِ.
اس دعویٰ کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ امیر المومنین علیہ السلام احوال و وقائع سے با خبر تھے پھر بھی قول و عمل کے لحاظ سے ایسی روش اختیار کئے ہوئے تھے کہ دیکھنے والایہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا تھا کہ آپؑ دوسروں کی پوشیدہ باتوں اور مخفی کاموں پر مطلع ہوں گے، کیونکہ عقلاء کو یہ اعتراف ہے کہ جس کو یہ معلوم ہو کہ اس سے کون سا عمل ظہور پذیر ہونے والا ہے؟ یا اس کا ساتھی کیا قدم اٹھانے والا ہے؟ یا لوگوں کے چھپے ہوئے بھید اس کی نظر میں ہوں تو اس علم کے اثرات اس کے چہرے کے خط و خال اور اس کے حرکات و سکنات سے ظاہر ہونے لگتے ہیں اور جو شخص جاننے بوجھنے کے باوجود اس طرح رہے سہے کہ گویا وہ بے خبر ہے اور کچھ نہیں جانتا تو اس کی شخصیت ایک معجزہ اور متضاد چیزوں کا مجموعہ ہو گی۔
(طرائف، ص۴۲۲)
اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے باطنی علم کے مقتضیات پر عمل کیوں نہ کرتے تھے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ احکام شریعت کی بنیاد ظاہری اسباب پر ہے۔ چنانچہ قاضی کو اگر یہ علم ہو جائے کہ فلاں فریق حق بجانب ہے اور فلاں باطل پر ہے تو وہ اپنے علم پر بنا کرتے ہوئے فریق اوّل کے حق میں فیصلہ نہیں کرے گا، بلکہ کسی نتیجہ پر پہنچنے کیلئے جو شرعی اور متعارف طریقے ہیں انہی پر چلے گا اور ان سے جو نتیجہ نکلے گا اسی کا پابند ہو گا۔ مثلاً قاضی کو اگر خواب، مکاشفہ یا فراست سے یہ علم ہو جائے کہ زید نے عمرو کی دیوار گرائی ہے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے اس علم کے مطابق فیصلہ کرے، بلکہ وہ یہ دیکھے گا کہ بینہ و شہادت کی رُو سے اس پر جرم عائد ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر ان ظاہری طریق سے جرم ثابت نہ ہو گا تو اسے مجرم نہ قرار دیا جائے گا، اگرچہ اسے اپنے مقام پر اس کے مجرم ہونے کا یقین ہو۔ اس کے علاوہ انبیاء و اولیاء علیہم السلام اپنے علم باطنی پر بنا کرتے ہوئے عمل درآمد کرتے تو یہ امر اختلال و انتشار اُمت کا باعث ہو جاتا۔ مثلاً اگر کوئی نبی یا ولی اپنے علم باطنی کی وجہ سے کسی واجب القتل کو قتل کی سزا دے تو دیکھنے والوں میں ایک اضطراب و ہیجان پیدا ہو جائے گا کہ اس نے ناحق ایک شخص کو قتل کر دیا ہے۔ اسی لئے قدرت نے خاص موارد کے علاوہ علم باطنی پر بنا کر کے نتائج مرتب کرنے کی اجازت نہیں دی اور صرف ظواہر کا پابند بنایا ہے۔ چنانچہ پیغمبر ﷺ بعض منافقین کے نفاق سے آگاہ ہونے کے باوجود ان سے وہی رویہ رکھتے تھے جو ایک مسلمان کے ساتھ رکھنا چاہیے۔
اب اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اگر وہ پوشیدہ چیزوں کو جانتے تھے تو اس کے مطابق عمل کیوں نہ کرتے تھے، کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ علم باطنی کے مقتضیات پر عمل پیرا ہونے کیلئے مامور ہی نہ تھے۔ البتہ پند و موعظت اور انذار و بشارت کیلئے جہاں حالات و مقتضیات ہوتے تھے بعض امور کو ظاہر کر دیتے تھے تا کہ پیش آئندہ واقعات کی پیش بندی کی جا سکے، جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے یحییٰ ابن زید کو مطلع کر دیا کہ وہ اگر نکلے تو قتل کر دیئے جائیں گے۔ چنانچہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے:
وَ قَدْ صَحَّ عَنْهُ اَنَّهٗ كَانَ يُحَذِّرُ بَعْضَ قَرَابَتِهٖ بِوَقَآئِعِ تَكُوْنُ لَهُمْ، فَتَصِحُّ كَمَا يَقُوْلُ وَ قَدْ حَذَّرَ يَحْيٰى ابْنَ عَمِّهٖ زَيْدٍ مِّنْ مَّصْرَعَهٖ وَ عَصَاهُ فَخَرَجَ وَ قُتِلَ بِالْجَوْزَجَانِ.
امام جعفر صادق علیہ السلام سے صحیح طریقہ پر وارد ہوا ہے کہ وہ اپنے بعض عزیزوں کو پیش آنے والے حادثوں سے آگاہ کر دیتے تھے اور وہ اسی طرح ہو کر رہتے تھے جس طرح آپؑ فرما دیتے تھے۔ چنانچہ آپؑ نے اپنے ابن عم یحییٰ ابن زید کو قتل ہو جانے سے متنبہ کیا۔ مگر وہ آپؑ کے حکم سے سرتابی کرتے ہوئے چل دیئے اور جوزجان میں قتل کر دیئے گئے۔ (مقدمہ ابن خلدون، ص۲۴۳)
البتہ جہاں ذہنوں میں تشویش پیدا ہو نے کا اندیشہ ہوتا تھا وہاں اس کا اظہار تک نہ کیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس خطبہ میں حضرتؑ نے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ ان کو رسول ﷺ کی منزل سے بھی بالاتر سمجھنے لگیں گے زیادہ تفصیل سے کام نہیں لیا۔لیکن اس کے باوجود جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں لوگ بھٹک گئے اور انہیں ’’ابن اللہ‘‘ کہنے لگے،یونہی حضرتؑ کے متعلق بعض کج فہم کچھ کا کچھ کہنے لگے اور غلو کی حد تک پہنچ کر گمراہ ہو گئے۔↑
[۱]۔ سورۂ نمل، آیت ۶۵۔
[۲]۔ سورۂ تحریم، آیت ۳۔
[۳]۔ سورۂ ھود، آیت ۴۹۔
[۴]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۴۹۔