خطبہ (۱۷۴)
(۱٧٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۴)
اِنْتَفِعُوْا بِبَیَانِ اللهِ، وَ اتَّعِظُوْا بِمَوَاعِظِ اللهِ، وَ اقْبَلُوْا نَصِیْحَةَ اللهِ، فَاِنَّ اللهَ قَدْ اَعْذَرَ اِلَیْكُمْ بِالْجَلِیَّةِ، وَ اتَّخَذَ عَلَیْكُمْ الْحُجَّةَ، وَ بَیَّنَ لَكُمْ مَحَابَّهٗ مِنَ الْاَعْمَالِ، وَ مَكَارِهَهٗ مِنْهَا، لِتَتَّبِعُوْا هٰذِهٖ، وَ تَجْتَنِبُوْا هٰذِهٖ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللهِ- ﷺ كَانَ یَقُوْلُ: «اِنَّ الْجَنَّةَ حُفَّتْ بِالْمَكَارِهٖ، وَ اِنَّ النَّارَ حُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ».
خداوند عالم کے ارشادات سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کے موعظوں سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحتوں کو مانو، کیونکہ اس نے واضح دلیلوں سے تمہارے لئے کسی عذر کی گنجائش نہیں رکھی اور تم پر (پوری طرح) حجت کو تمام کردیا ہے اور اپنے پسندیدہ و ناپسند اعمال تم سے بیان کر دیئے ہیں تاکہ اچھے اعمال بجا لاؤ اور برے کاموں سے بچو۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: «جنت ناگواریوں میں گھری ہوئی ہے اور دوزخ خواہشوں میں گھرا ہوا ہے»۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ مَا مِنْ طَاعَةِ اللهِ شَیْءٌ اِلَّا یَاْتِیْ فِیْ كُرْهٍ، وَ مَا مِنْ مَّعْصِیَةِ اللهِ شَیءٌ اِلَّا یَاْتِیْ فِیْ شَهْوَةٍ. فَرَحِمَ اللهُ رَجُلًا نَّزَعَ عَنْ شَهْوَتِهٖ، وَ قَمَعَ هَوٰی نَفْسِهٖ، فَاِنَّ هٰذِهِ النَّفْسَ اَبْعَدُ شَیْءٍ مَّنْزِعًا، وَ اِنَّهَا لَا تَزَالُ تَنْزِ عُ اِلٰی مَعْصِیَةٍ فِیْ هَوًی.
یاد رکھو کہ اللہ کی ہر اطاعت ناگوار صورت میں اور اس کی ہر معصیت عین خواہش بن کر سامنے آتی ہے۔ خدا اس شخص پر رحمت کرے جس نے خواہشوں سے دوری اختیار کی اور اپنے نفس کے ہوا و ہوس کو جڑ بنیاد سے اکھیڑ دیا، کیونکہ نفس خواہشوں میں لا محدود درجہ تک بڑھنے والا ہے اور وہ ہمیشہ خواہش و آرزوئے گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے۔
وَ اعْلَمُوْا ـ عِبَادَ اللهِ! ـ اَنَّ الْمُؤْمِنَ لَا یُمْسِیْ وَ لَا یُصْبِـحُ اِلَّا وَ نَفْسُهٗ ظَنُوْنٌ عِنْدَهُ، فَلَا یَزَالُ زَارِیًا عَلَیْهَا وَ مُسْتَزِیْدًا لَهَا. فَكُوْنُوْا كَالسَّابِقِیْنَ قَبْلَكُمْ، وَ الْمَاضِیْنَ اَمَامَكُمْ. قَوَّضُوْا مِنَ الدُّنْیَا تَقْوِیْضَ الرَّاحِلِ، وَ طَوَوْهَا طَیَّ الْمَنَازِلِ.
اللہ کے بند و! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مومن (زندگی کے) صبح وشام میں اپنے نفس سے بد گمان رہتا ہے اور اس پر (کوتاہیوں کا) الزام لگاتا ہے اور اس سے (عبادتوں میں) اضافہ کا خواہشمند رہتا ہے۔ تم ان لوگوں کی طرح بنو کہ جو تم سے پہلے آگے بڑھ چکے ہیں اور تمہارے قبل اس راہ سے گزر چکے ہیں۔ انہوں نے دنیا سے یوں اپنا رخت ِسفر باندھا جس طرح مسافر اپنا ڈیرا اٹھا لیتا ہے اور دنیا کو اس طرح طے کیا جس طرح (سفر کی ) منزلوں کو۔
وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ هُوَ النَّاصِحُ الَّذِیْ لَا یَغُشُّ، وَالْهَادِی الَّذِیْ لَا یُضِلُّ، وَالْمُحَدِّثُ الَّذِیْ لَا یَكْذِبُ. وَمَا جَالَسَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ اَحَدٌ اِلَّا قَامَ عَنْهُ بِزِیَادَةٍ اَوْ نُقْصَانٍ: زِیَادَةٍ فِیْ هُدًی، اَوْ نُقْصَانٍ مِّنْ عَمًی.
یاد رکھو کہ یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا اور ایسا ہدایت کرنے والا ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا۔ جو بھی اس قرآن کا ہم نشین ہوا وہ ہدایت کو بڑھا کر اور گمراہی و ضلالت کو گھٹا کر اس سے الگ ہوا۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَیْسَ عَلٰۤی اَحَدٍۭ بَعْدَ الْقُرْاٰنِ مِنْ فَاقَةٍ، وَ لَا لِاَحَدٍ قَبْلَ الْقُرْاٰنِ مِنْ غِنًی، فَاسْتَشْفُوْهُ مِنْ اَدْوَآئِكُمْ، وَ اسْتَعِیْنُوْا بِهٖ عَلٰی لَاْوَآئِكُمْ، فَاِنَّ فِیْهِ شِفَآءً مِنْ اَكْبَرِ الدَّآءِ، وَ هُوَ الْكُفْرُ وَ النِّفَاقُ، وَ الْغَیُّ وَ الضَّلَالُ، فَاسْئَلُوا اللهَ بِهٖ، وَ تَوَجَّهُوْۤا اِلَیْهِ بِحُبِّهٖ، وَ لَا تَسْئَلُوْا بِهٖ خَلْقَهٗ، اِنَّهٗ مَا تَوَجَّهَ الْعِبَادُ اِلَی اللهِ بِمِثْلِهٖ.
جان لو کہ کسی کو قرآن (کی تعلیمات) کے بعد (کسی اور لائحہ عمل کی) احتیاج نہیں رہتی اور نہ کوئی قرآن سے (کچھ سیکھنے) سے پہلے اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے۔ اس سے اپنی بیماریوں کی شفا چاہو اور اپنی مصیبتوں پر اس سے مدد مانگو۔ اس میں کفر و نفاق اور ہلاکت و گمراہی جیسی بڑی بڑی مرضوں کی شفا پائی جاتی ہے۔ اس کے وسیلہ سے اللہ سے مانگو اور اس کی دوستی کو لئے ہوئے اس کا رخ کرو اور اسے لوگوں سے مانگنے کا ذریعہ نہ بناؤ۔ یقیناً بندوں کیلئے اللہ کی طرف متوجہ ہونے کا اس جیسا کوئی ذریعہ نہیں۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ شَافِعٌ مُّشَفَّعٌ، وَ قَآئِلٌ مُّصَدَّقٌ، وَ اَنَّهٗ مَنْ شَفَعَ لَهُ الْقُرْاٰنُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ شُفِّـعَ فِیْهِ، وَ مَنْ مَّحَلَ بِهِ الْقُرْاٰنُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ صُدِّقَ عَلَیْهِ، فَاِنَّهٗ یُنَادِیْ مُنَادٍ یَوْمَ الْقِیٰمةِ: اَلَا اِنَّ كُلَّ حَارِثٍ مُّبْتَلًی فِیْ حَرْثِهٖ وَ عَاقِبَةِ عَمَلِهٖ غَیْرَ حَرَثَةِ الْقُراٰنِ، فَكُوْنُوْا مِنْ حَرَثَتِهٖ وَ اَتْبَاعِهٖ، وَ اسْتَدِلُّوْهُ عَلٰی رَبِّكُمْ، وَ اسْتَنْصِحُوْهُ عَلٰۤی اَنْفُسِكُمْ، وَ اتَّهِمُوْا عَلَیْهِ اٰرَآءَكُمْ، وَ اسْتَغِشُّوْا فِیْهِ اَهْوَآءَكُمْ.
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول اور ایسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات) تصدیق شدہ ہے۔ قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا وہ اس کے حق میں مانی جائے گی او راس روز جس کے عیوب بتائے گا تو اس کے بارے میں بھی اس کے قول کی تصدیق کی جائے گی۔ قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا کہ: دیکھو! قرآن کی کھیتی بو نے والوں کے علاوہ ہر بونے والا اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجہ میں مبتلا ہے،لہٰذا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اس کے پیروکار بنو اور اپنے پروردگار تک پہنچنے کیلئے اسے دلیل راہ بناؤ اور اپنے نفسوں کیلئے اس سے پند و نصیحت چاہو اور اس کے خلاف اپنی رایوں پر بھروسا نہ کرو اور اس کے مقابلہ میں اپنی خواہشوں کو غلط و فریب خوردہ سمجھو۔
اَلْعَمَلَ الْعَمَلَ، ثُمَّ النِّهَایَةَ النِّهَایَةَ، وَ الْاِسْتِقَامَةَ الْاِسْتِقَامَةَ، ثُمَّ الصَّبْرَ الصَّبْرَ، وَ الْوَرَعَ الْوَرَعَ! اِنَّ لَكُمْ نِهَایَةً فَانْتَهُوْا اِلٰی نِهَایَتِكُمْ، وَ اِنَّ لَكُمْ عَلَمًا فَاهْتَدُوْا بِعَلَمِكُمْ، وَ اِنَّ لِلْاِسْلَامِ غَایَةً فَانْتَهُوْۤا اِلٰی غَایَتِهٖ. وَ اخْرُجُوْۤا اِلَی اللهِ بِمَا افْتَرَضَ عَلَیْكُمْ مِنْ حَقِّهٖ، وَ بَیَّنَ لَكُمْ مِنْ وَّظَآئِفِهٖ. اَنَا شَاهِدٌ لَّكُمْ، وَ حَجِیْجٌ یَّوْمَ الْقِیٰمَةِ عَنْكُمْ.
عمل کر و،عمل کرو اور عاقبت و انجام کو دیکھو، استوار و برقرار رہو، پھر یہ کہ صبر کرو، صبر کرو، تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرو۔ تمہارے لئے ایک منزل منتہا ہے اپنے کو وہاں تک پہنچاؤ اور تمہارے لئے ایک نشان ہے اس سے ہدایت حاصل کر و۔ اسلام کی ایک حد ہے، تم اس حد و انتہا تک پہنچو۔ اللہ نے جن حقوق کی ادائیگی کو تم پر فرض کیا ہے اور جن فرائض کو تم سے بیان کیا ہے انہیں ادا کر کے اس سے عہدہ برآ ہو جاؤ۔ میں تمہارے اعمال کا گواہ اور قیامت کے دن تمہاری طرف سے حجت پیش کر نے والا ہوں۔
اَلَا وَ اِنَّ الْقَدَرَ السَّابِقَ قَدْ وَقَعَ، وَ الْقَضَآءَ الْمَاضِیَ قَدْ تَوَرَّدَ، وَ اِنِّیْ مُتَكَلِّمٌۢ بِعِدَةِ اللهِ وَ حُجَّتِهٖ، قَالَ اللهُ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾.
دیکھو! جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا اور جو فیصلہ خداوندی تھا وہ سامنے آ گیا۔ میں الٰہی وعدہ و برہان کی رو سے کلام کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’بے شک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر وہ اس (عقیدہ) پر جمے رہے، ان پر فرشتے اترتے ہیں اور (یہ کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کھاؤ اور غمگین نہ ہو۔ تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔
وَقَدْ قُلْتُمْ: ﴿رَبُّنَا اللهُ﴾، فَاسْتَقِیْمُوْا عَلٰی كِتَابِهٖ، وَ عَلٰی مِنْهَاجِ اَمْرِهٖ، وَ عَلَی الطَّرِیْقَةِ الصَّالِحَةِ مِنْ عِبَادَتِهٖ، ثُمَّ لَا تَمْرُقُوْا مِنْهَا، وَ لَا تَبْتَدِعُوْا فِیْهَا، وَ لَا تُخَالِفُوْا عَنْهَا، فَاِنَّ اَهْلَ الْمُرُوْقِ مُنْقَطَعٌۢ بِهِمْ عِنْدَ اللهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ.
اب تمہارا قول تو یہ ہے کہ: ’’ہمارا پروردگار اللہ ہے‘‘ تو اب اس کی کتاب اور اس کی شریعت کی راہ اور اس کی عبادت کے نیک طریقہ پر جمے رہو اور پھر اس سے نکل نہ بھاگو اور نہ اس میں بدعتیں پیدا کر و اور نہ اس کے خلاف چلو۔ اس لئے کہ اس راہ سے نکل بھاگنے والے قیامت کے دن اللہ (کی رحمت) سے جدا ہونے والے ہیں۔
ثُمَّ اِیَّاكُمْ وَ تَهْزِیْعَ الْاَخْلَاقِ وَ تَصْرِیْفَهَا، وَ اجْعَلُوا اللِّسَانَ وَاحِدًا، وَ لْيَخْزُنِ الرَّجُلُ لِسَانَهٗ، فَاِنَّ هٰذَا اللِّسَانَ جَمُوْحٌۢ بِصَاحِبِهٖ.
پھر یہ کہ تم اپنے اخلاق و اطوار کو پلٹنے اور انہیں ادلنے بدلنے سے پرہیز کرو۔ دو رخی اور متلون مزاجی سے بچتے رہو اور ایک زبان رکھو۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھے۔ اس لئے کہ یہ اپنے مالک سے منہ زوری کرنے والی ہے۔
وَاللهِ! ماۤ اَرٰی عَبْدًا یَّتَّقِیْ تَقْوٰی تَنْفَعُهٗ حَتّٰی یَخْزُنَ لِسَانَهٗ، وَ اِنَّ لِسَانَ الْمُؤْمِنِ مِنْ وَّرَآءِ قَلْبِهٖ، وَ اِنَّ قَلْبَ الْمُنَافِقِ مِنْ وَّرَآءِ لِسَانِهٖ: لِاَنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَاۤ اَرَادَ اَنْ یَّتَكَلَّمَ بَكَلَامٍ تَدَبَّرَهٗ فِیْ نَفْسِهٖ، فَاِنْ كَانَ خَیْرًا اَبْدَاهُ، وَ اِنْ كَانَ شَرًّا وَّارَاهُ، وَ اِنَّ الْمُنَافِقَ یَتَكَلَّمُ بِمَاۤ اَتٰی عَلٰی لِسَانِهٖ لَا یَدْرِی مَاذَا لَهٗ، وَ مَاذَا عَلَیْهِ.
خدا کی قسم! میں نے کسی پرہیزگار کو نہیں دیکھا کہ تقویٰ اس کیلئے مفید ثابت ہوا ہو جب تک کہ اس نے اپنی زبان کی حفاظت نہ کی ہو۔ بے شک مومن کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور منافق کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے، کیونکہ مومن جب کوئی بات کہنا چاہتا ہے تو پہلے اسے دل میں سوچ لیتا ہے، اگر وہ اچھی بات ہوتی ہے تو اسے ظاہر کرتا ہے اور اگر بری ہوتی ہے تو اسے پوشیدہ ہی رہنے دیتا ہے اور منافق کی زبان پر جو آتا ہے کہہ گزرتا ہے، اسے یہ کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کون سی بات اس کے حق میں مفید ہے اور کون سی مضر ہے۔
وَ لَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: «لَا یَسْتَقِیْمُ اِیْمَانُ عَبْدٍ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ قَلْبُهٗ. وَ لَا یَسْتَقِیْمُ قَلْبُهٗ حَتّٰی یَسْتَقِیْمَ لِسَانُهٗ». فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ اَنْ یَلْقَی اللهَ وَ هُوَ نَقِیُّ الرَّاحَةِ مِنْ دِمَآءِ الْمُسْلِمِیْنَ وَ اَمْوَالِهِمْ، سَلِیْمُ اللِّسَانِ مِنْ اَعْرَاضِهِمْ، فَلْیَفْعَلْ.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ: «کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک اس کا دل مستحکم نہ ہو اور دل اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک زبان مستحکم نہ ہو»۔ لہٰذا تم میں سے جس سے یہ بن پڑے کہ وہ اللہ کے حضور میں اس طرح پہنچے کہ اس کا ہاتھ مسلمانوں کے خون اور ان کے مال سے پاک و صاف اور اس کی زبان ان کی آبرو ریزی سے محفوظ رہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے۔
وَ اعْلَمُوْا عِبَادَ اللهِ! اَنَّ الْمُؤْمِنَ یَسْتَحِلُّ الْعَامَ مَا اسْتَحَلَّ عَامًا اَوَّلَ، وَ یُحَرِّمُ الْعَامَ مَا حَرَّمَ عَامًا اَوَّلَ، وَ اَنَّ مَاۤ اَحْدَثَ النَّاسُ لَا یُحِلُّ لَكُمْ شَیْئًا مِّمَّا حُرِّمَ عَلَیْكُمْ، وَ لٰكِنَّ الْحَلَالَ مَاۤ اَحَلَّ اللهُ، وَ الْحَرَامَ مَا حَرَّمَ اللهُ، فَقَدْ جَرَّبْتُمُ الْاُمُوْرَ وَ ضَرَّسْتُمُوْهَا، وَ وُعِظْتُمْ بِمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَ ضُرِبَتِ الْاَمْثَالُ لَكُمْ، وَ دُعِیتُمْ اِلَی الْاَمْرِ الْوَاضِحِ، فَلَا یَصَمُّ عَنْ ذٰلِكَ اِلَّاۤ اَصَمُّ، وَ لَا یَعْمٰی عَنْ ذٰلِكَ اِلَّاۤ اَعْمٰی.
خد اکے بندو! یاد رکھو کہ مومن اس سال بھی اسی چیز کو حلال سمجھتا ہے جسے پار سال حلال سمجھ چکا ہے اور اس سال بھی اسی چیز کو حرام کہتا ہے جسے گزشتہ سال حرام کہہ چکا ہے اور یاد رکھو کہ لوگوں کی پیدا کی ہوئی بدعتیں ان چیزوں کو جو خدا کی طرف سے حرام ہیں حلال نہیں کر سکتیں،بلکہ حلال وہ ہے جسے اللہ نے حلال کیا ہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ تم تمام چیزوں کو تجربہ و آزمائش سے پرکھ چکے ہو اور پہلے لوگوں سے تمہیں پند و نصیحت بھی کی جا چکی ہے اور (حق و باطل کی) مثالیں بھی تمہارے سامنے پیش کی جا چکی ہیں اور واضح حقیقتوں کی طرف تمہیں دعوت دی جا چکی ہے۔ اب اس آواز کے سننے سے قاصر وہی ہو سکتا ہے جو واقعی بہرا ہو اور اس کے دیکھنے سے معذور وہی سمجھا جا سکتا ہے جو اندھا ہو۔
وَ مَنْ لَّمْ یَنْفَعْهُ اللهُ بِالْبَلَآءِ وَ التَّجَارِبِ لَمْ یَنْتَفِعْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْعِظَةِ، وَاَتَاهُ التَّقْصِیْرُ مِنْ اَمَامِهٖ، حَتّٰی یَعْرِفَ مَاۤ اَنْكَرَ، وَ یُنْكِرَ مَا عَرَفَ. وَاِنَّمَا النَّاسُ رَجُلَانِ: مُتَّبِـعٌ شِرْعَةً، وَ مُبْتَدِعٌۢ بِدْعَةً لَّیْسَ مَعَهٗ مِنَ اللهِ سُبْحَانَهٗ بُرْهَانُ سُنَّةٍ وَّ لَا ضِیَآءُ حُجَّةٍ.
اور جسے اللہ کی آزمائشوں اور تجربوں سے فائدہ نہ پہنچے وہ کسی پند و نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے زیاں کاریاں ہی درپیش ہوں گی، یہاں تک کہ وہ بری باتوں کو اچھا اور اچھی باتوں کو برا سمجھے گا۔ چونکہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک شریعت کے پیروکار اور دوسرے بدعت ساز کہ جن کے پاس نہ سنت پیغمبرؑ کی کوئی سند ہوتی ہے اور نہ دلیل وبرہان کی کوئی روشنی۔
وَ اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَعِظْ اَحَدًۢا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ، فَاِنَّهٗ حَبْلُ اللهِ الْمَتِیْنُ، وَ سَبَبُهُ الْاَمِیْنُ، وَ فِیْهِ رَبِیْعُ الْقَلْبِ، وَ یَنَابِیْعُ الْعِلْمِ، وَ مَا لِلْقَلْبِ جِلَآءٌ غَیْرُهٗ، مَعَ اَنَّهٗ قَدْ ذَهَبَ الْمُتَذَكِّرُوْنَ، وَ بَقِیَ النَّاسُوْنَ اَوِ الْمُتَنَاسُوْنَ. فَاِذَا رَاَیْتُمْ خَیْرًا فَاَعِیْنُوْا عَلَیْهِ، وَ اِذَا رَاَیْتُمْ شَرًّا فَاذْهَبُوْا عَنْهُ، فَاِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ -كَانَ یَقُوْلُ: «یَابْنَ اٰدَمَ! اعْمَلِ الْخَیْرَ وَ دَعِ الشَّرَّ، فَاِذَاۤ اَنْتَ جَوَادٌ قَاصِدٌ».
بلاشبہ اللہ سبحانہ نے کسی کو ایسی نصیحت نہیں کی جو اس قرآن کے مانند ہو، کیونکہ یہ اللہ کی مضبوط رسی اور امانتدار وسیلہ ہے۔ اسی میں دل کی بہار اور علم کے سر چشمے ہیں اور اسی سے (آئینہ) قلب پر جلا ہوتی ہے، باوجودیکہ یاد رکھنے والے گزر گئے اور بھول جانے والے یا بھلاوے میں ڈالنے والے باقی رہ گئے ہیں۔ اب تمہارا کام یہ ہے کہ بھلائی کو دیکھو تو اسے تقویت پہنچاؤ اور برائی کو دیکھو تو اس سے (دامن بچا کر) چل دو۔ اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ: «اے فرزند آدم! اچھے کام کر اور برائیوں کو چھوڑ دے۔ اگر تو نے ایسا کیا تو تو نیک چلن اور راست رو ہے»۔
اَلَا وَ اِنَّ الظُّلْمَ ثَلَاثَةٌ: فَظُلْمٌ لَّا یُغْفَرُ، وَ ظُلْمٌ لَّا یُتْرَكُ، وَ ظُلْمٌ مَّغْفُوْرٌ لَّا یُطْلَبُ.
دیکھو! ظلم تین طرح کا ہوتا ہے: ایک ظلم وہ جو بخشا نہیں جائے گا اور دوسرا ظلم وہ جس کا (مواخذہ) چھوڑا نہیں جائے گا، تیسرا وہ جو بخش دیا جائے گا اور اس کی باز پرس نہیں ہو گی۔
فَاَمَّا الظُّلْمُ الَّذِیْ لَا یُغْفَرُ فَالشِّرْكُ بِاللهِ، قَالَ اللهُ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ ﴾، وَ اَمَّا الظُّلْمُ الَّذِیْ یُغْفَرُ فَظُلْمُ الْعَبْدِ نَفْسَهٗ عِنْدَ بَعْضِ الْهَنَاتِ، وَ اَمَّا الظُّلْمُ الَّذِیْ لَا یُتْرَكُ فَظُلْمُ الْعِبَادِ بَعْضِهِمْ بَعْضًا. الْقِصَاصُ هُنَاكَ شَدِیْدٌ، لَیْسَ هُوَ جَرْحًا بِالْمُدٰی وَ لَا ضَرْبًۢا بِالسِّیَاطِ، وَ لٰكِنَّهٗ مَا یُسْتَصْغَرُ ذٰلِكَ مَعَهٗ.
لیکن وہ ظلم جو بخشا نہیں جائے گا وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: ’’خدا اس (گناہ) کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے‘‘۔ اور وہ ظلم جو بخش دیا جائے گا وہ ہے جو بندہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کا مرتکب ہو کر اپنے نفس پر کرتا ہے۔ اور وہ ظلم کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنا ہے جس کا آخرت میں سخت بدلہ لیا جائے گا۔وہ کوئی چھریوں سے کچوکے دینا اور کوڑوں سے مارنا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا سخت عذاب ہے جس کے مقابلے میں یہ چیزیں بہت ہی کم ہیں۔
فَاِیَّاكُمْ وَ التَّلَوُّنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ، فَاِنَّ جَمَاعَةً فِیْمَا تَكْرَهُوْنَ مِنَ الْحَقّ خَیْرٌ مِّنْ فُرْقَةٍ فِیْمَا تُحِبُّوْنَ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یُعْطِ اَحَدًۢا بِفُرْقَةٍ خَیْرًا مِمَّنْ مَّضٰی، وَ لَا مِمَّنْۢ بَقِیَ.
دین خدا میں رنگ بدلنے سے بچو، کیونکہ تمہارا حق پر ایکا کر لینا جسے تم ناپسند کرتے ہو، باطل راستوں پر جا کر بٹ جانے سے جو تمہارا محبوب مشغلہ ہے، بہتر ہے۔ بے شک اللہ سبحانہ نے اگلوں اور پچھلوں میں سے کسی کو متفرق اور پراگندہ ہو جانے سے کوئی بھلائی نہیں دی۔
یَاۤ اَیُّهَا النَّاسُ! طُوْبٰی لِمَنْ شَغَلَهٗ عَیْبُهٗ عَنْ عُیُوْبِ النَّاسِ، وَ طُوْبٰی لِمَنْ لَّزِمَ بَیْتَهٗ، وَ اَكَلَ قُوْتَهٗ، وَ اشْتَغَلَ بِطَاعَةِ رَبِّهٖ، وَ بَكٰی عَلٰی خَطِیْٓئَتِهٖ، فَكَانَ مِنْ نَّفْسِهٖ فِیْ شُغُلٍ، وَ النَّاسُ مِنْهُ فِیْ رَاحَةٍ!.
اے لوگو! لائق مبارکباد وہ شخص ہے جسے اپنے عیوب دوسروں کی عیب گیری سے باز رکھیں اور قابل مبارکباد وہ شخص ہے جو اپنے گھر (کے گوشہ) میں بیٹھ جائے اور جو کھانا میسر آ جائے کھا لے اور اپنے اللہ کی عبادت میں لگا رہے اور اپنے گناہوں پر آنسو بہائے کہ اس طرح وہ بس اپنی ذات کی فکر میں رہے اور دوسرے لوگ اس سے آرام میں رہیں۔