خطبہ (۱۷۷)
(۱٧٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۷)
وَ قَدْ سَئَلَهٗ ذِعْلِبُ الْیَمَانِیُّ فَقَالَ: هَلْ رَاَیْتَ رَبَّكَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ فَقَالَ ؑ: اَفَاَعْبُدُ مَا لَاۤ اَرٰی؟ فَقَالَ: وَ كَیْفَ تَرَاهُ؟ فَقَالَ:
ذعلب یمنی نے آپؑ سے سوال کیا کہ: یا امیر المومنینؑ! کیا آپؑ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: کیا میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے دیکھا تک نہیں؟ اس نے کہا کہ آپؑ کیونکر دیکھتے ہیں؟تو آپؑ نے ارشاد فرمایا کہ:
لَا تَرَاهُ الْعُیُوْنُ بِمُشَاهَدَةِ الْعِیَانِ، وَ لٰكِنْ تُدْرِكُهُ الْقُلُوْبُ بِحَقَآئِقِ الْاِیْمَانِ، قَرِیْبٌ مِّنَ الْاَشْیَآءِ غَیْرُ مُلَامِسٍ، بَعِیْدٌ مِّنْهَا غَیْرُ مُبَایِنٍ، مُتَكَلِّمٌۢ لَا بِرَوِیَّةٍ، مُرِیْدٌۢ لَا بِهِمَّةٍ، صَانِعٌ لَّا بِجَارِحَةٍ.
آنکھیں اسے کھلم کھلا نہیں دیکھتیں، بلکہ دل ایمانی حقیقتوں سے اسے پہچانتے ہیں۔ وہ ہر چیز سے قریب ہے،لیکن جسمانی اتصال کے طور پر نہیں، وہ ہر شے سے دور ہے، مگر الگ نہیں، وہ غور و فکر کئے بغیر کلام کرنے والا اور بغیر آمادگی کے قصد و ارادہ کرنے والا اور بغیر اعضاء (کی مدد) کے بنانے والا ہے۔
لَطِیْفٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْخَفَآءِ، كَبِیْرٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْجَفَآءِ، بَصِیْرٌ لَّا یُوْصَفُ بِالْحَاسَّةِ، رَحِیْمٌ لَّا یُوْصَفُ بِالرِّقَّةِ. تَعْنُو الْوُجُوْهُ لِعَظَمَتِهٖ، وَ تَجِبُ الْقُلُوْبُ مِنْ مَّخَافَتِهٖ.
وہ لطیف ہے لیکن پوشیدگی سے اسے متصف نہیں کیا جا سکتا، وہ بزرگ و برترہے مگر تند خوئی و بدخلقی کی صفت اس میں نہیں، وہ دیکھنے والا ہے مگر حواس سے اسے موصوف نہیں کیا جا سکتا، وہ رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کو نرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، چہرے اس کی عظمت کے آگے ذلیل و خوار اور دل اس کے خوف سے لرزاں و ہراساں ہیں۔