خطبہ (۱۷۹)
(۱٧٩) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۷۹)
وَ قَدْ اَرْسَلَ رَجُلًا مِّنْ اَصْحَابِهٖ یَعْلَمُ لَهٗ عِلْمَ اَحْوَالِ قَوْمٍ مِّنْ جُنْدِ الْكُوْفَةِ قَدْ هَمُّوْابِاللِّحَاقِ بِالْخَوَارِجِ، وَ كَانُوْا عَلٰى خَوْفٍ مِّنْهُ ؑ، فَلَمَّا عَادَ اِلَیْهِ الرَّجُلُ قَالَ لَهٗ: اَ اَمِنُوْا فَقَطَنُوْا، اَمْ جَبُنُوْا فَظَعَنُوْا؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: بَلْ ظَعَنُوْا یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ.فَقَالَ ؑ:
حضرتؑ نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کو سپاہِ کوفہ کی ایک جماعت [۱] کی خبر لانے کیلئے بھیجا جو خارجیوں سے منضم ہو نے کا تہیہ کئے بیٹھی تھی، لیکن حضرتؑ سے خائف تھی۔ چنانچہ جب وہ شخص پلٹ کر آیا تو آپؑ نے دریافت کیا کہ: کیا وہ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے ہیں یا کمزوری و بزدلی دکھاتے ہوئے چل دیے ہیں۔ اس نے کہا: یا امیر المومنینؑ وہ تو چلے گئے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:
بُعْدًا لَّهُمْ ﴿كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠﴾، اَمَا لَوْ اُشْرِعَتِ الْاَسِنَّةُ اِلَیْهِمْ وَ صُبَّتِ السُّیُوْفُ عَلٰی هَامَاتِهِمْ، لَقَدْ نَدِمُوْا عَلٰی مَا كَانَ مِنْهُمْ، اِنَّ الشَّیْطٰنَ الْیَوْمَ قَدِ اسْتَفَلَّهُمْ، وَ هُوَ غَدًا مُّتَبَرِّئٌ مِّنْهُمْ، وَ مُتَخَلٍّ عَنْهُمْ، فَحَسْبُهُمْ بِخُرُوْجِهِمْ مِنَ الْهُدٰی، وَ ارْتِكَاسِهِمْ فِی الضَّلَالِ وَ الْعَمٰی، وَ صَدِّهِمْ عَنِ الْحَقِّ، وَ جِمَاحِهِمْ فِی التِّیْهِ.
انہیں قوم ثمود کی طرح خدا کی رحمت سے دوری ہو! دیکھنا جب نیزوں کے رخ ان کی طرف سیدھے ہوں گے اور تلواروں کے وار ان کی کھوپڑیوں پر پڑیں گے تو اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔ آج تو شیطان نے انہیں تتر بتر کر دیا ہے اور کل ان سے اظہار بیزاری کرتا ہوا ان سے الگ ہو جائے گا۔ ان کا ہدایت سے نکل جانا، گمراہی و ضلالت میں جا پڑنا، حق سے منہ پھیر لینا اور ضلالتوں میں منہ زوریاں دکھانا ہی ان کے (مستحق عذاب) ہونے کیلئے کافی ہے۔
۱قبیلہ بنی ناجیہ کا ایک شخص ’’خریت ابن راشد‘‘ جنگ صفین میں امیر المومنین علیہ السلام کے ساتھ شریک تھا، مگر تحکیم کے بعد بغاوت پر اتر آیا اور تیس آدمیوں کے ہمراہ حضرتؑ کے سامنے آ کر کہنے لگا: «وَ اللّٰهِ! لَاۤ اُطِيْعُ اَمْرَكَ وَ لَاۤ اُصَلِّیْ خَلْفَكَ وَ اِنِّیْ غَدًا لَّمُفَارِقٌ لَّكَ» [۱]:
خدا کی قسم! نہ میں آپؑ کا کوئی حکم مانوں گا، نہ آپؑ کے پیچھے نماز پڑھوں گا اور کل آپؑ سے الگ ہو جاؤں گا۔ جس پر حضرتؑ نے فرمایا کہ: تمہیں پہلے اس تحکیم کے وجوہ پر غور کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں مجھ سے بات چیت کرنا چاہیے، اگر تمہارا اطمینان نہ ہو تو پھر جو چاہو کرو۔اس نے کہا کہ میں کل آؤں گا اور اس کے متعلق گفتگو کروں گا۔
حضرتؑ نے فرمایا کہ: دیکھو یہاں سے جا کر دوسروں کے بہکانے میں نہ آ جانا اور کوئی دوسرا راستہ اختیار نہ کرنا، اگر تم سمجھنا چاہو گے تو میں تمہیں اس ٹیڑھی راہ سے ہٹا کر شاہراہ ہدایت پر لگا دوں گا۔ اس گفتگو کے بعد وہ واپس ہو گیا، مگر اس کے تیور اس امر کے غماز تھے کہ وہ بغاوت پر تلا بیٹھا ہے اور کسی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھے گا۔ چنانچہ یہی ہوا کہ وہ معاملہ فہمی کی بجائے اپنی بات پر اَڑ گیا اور اپنی منزل پر پہنچ کر اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ جب ہم نے امیر المومنین علیہ السلام سے الگ ہونے کا تہیہ کر لیا ہے تو ان کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں اور ہمیں جو قدم اٹھانا ہے اٹھا لینا چاہیے۔ اس موقع پر عبداللہ بن قعین ازدی بھی ان کی ٹوہ لگانے کیلئے ان کے ہاں پہنچ گئے۔ جب انہوں نے یہ رنگ دیکھا تو مدرک ابن ریان ناجی سے کہا کہ تم اسے سمجھاؤ اور اس بغاوت کے تباہ کن نتائج سے آگاہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ اپنے پورے قبیلے کیلئے تباہی کا باعث بن جائے جس پر مدرک نے اطمینان دلایا کہ اسے کوئی غلط قدم نہیں اٹھانے دیا جائے گا۔ چنانچہ عبد اللہ مطمئن ہو کر واپس پلٹ آئے اور دوسرے دن امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر تمام کیفیت سے آپؑ کو مطلع کیا، جس پر حضرتؑ نے فرمایا کہ: دیکھیں اس کے آنے پر کیا صورت ہوتی ہے۔ لیکن مقررہ وقت گزرنے کے بعد جب وہ نہ آیا تو حضرتؑ نے عبد اللہ سے فرمایا کہ: تم جا کر دیکھو کہ کیا بات ہے اور اس تاخیر کا کیا سبب ہے؟ جب عبد اللہ وہاں پہنچے تو وہ سب جا چکے تھے۔ پلٹ کر امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس آئے تو حضرتؑ نے اس موقع پر یہ کلام فرمایا۔
’’خریت ابن راشد‘‘ اور اس کی جماعت کا جو حشر ہوا وہ خطبہ نمبر ۴۴ کے تحت ذکر کیا جا چکا ہے۔↑
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۳، ص ۱۲۸۔