خطبہ (۱۸۱)
(۱٨۱) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۱)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمَعْرُوْفِ مِنْ غَیْرِ رُؤْیَةٍ، وَ الْخَالِقِ مِنْ غَیْرِ مَنْصَبَةٍ، خَلَقَ الْخَلَآئِقَ بِقُدْرَتِهٖ، وَ اسْتَعْبَدَ الْاَرْبَابَ بِعِزَّتِهٖ، وَ سَادَ الْعُظَمَآءَ بِجُوْدِهٖ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے کہ جو بِن دیکھے جانا پہچانا ہوا اور بے رنج و تعب اٹھائے (ہر چیز کا) پیدا کرنے والا ہے۔ اس نے اپنی قدرت سے مخلوقات کو پیدا کیا اور اپنی عزت و جلالت کے پیش نظر فرمانرواؤں سے اطاعت و بندگی لی اور اپنے جود و عطا کی بدولت با عظمت لوگوں پر سرداری کی۔
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَسْكَنَ الدُّنْیَا خَلْقَهٗ، وَ بَعَثَ اِلَی الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ رُسُلَهٗ، لِیَكْشِفُوْا لَهُمْ عَنْ غِطَآئِهَا، وَ لِیُحَذِّرُوْهُمْ مِنْ ضَرَّآئِهَا، وَ لِیَضْرِبُوْا لَهُمْ اَمْثَالَهَا، وَ لِیُبَصِّرُوْهُمْ عُیُوْبَهَا، وَ لِیَهْجُمُوْا عَلَیْهِمْ بِمُعْتَبَرٍ مِّنْ تَصَرُّفِ مَصَاحِّهَا وَ اَسْقَامِهَا، وَ حَلَالِهَا وَ حَرَامِهَا، وَ مَاۤ اَعَدَّ اللّٰهُ لِلْمُطِیْعِیْنَ مِنْهُمْ وَ الْعُصَاةِ مِنْ جَنَّةٍ وَّ نَارٍ، وَ كَرَامَةٍ وَّ هَوَانٍ.
وہ اللہ جس نے دنیا میں اپنی مخلوقات کو آباد کیا اور اپنے رسولوں کو جن و انس کی طرف بھیجا تاکہ وہ ان کے سامنے دنیا کو بے نقاب کریں اور اس کی مضرتوں سے انہیں ڈرائیں دھمکائیں، اس کی (بیوفائی کی) مثالیں بیان کریں اور اس کی صحت و بیماری کے تغیرات سے ایک دَم انہیں پوری پوری عبرت دلانے کا سامان کردیں اور اس کے عیوب اور حلال و حرام کے (ذرائع اکتساب) اور فرمانبرداروں اور نافرمانوں کیلئے جو بہشت و دوزخ او رعزت و دولت کے سامان اللہ نے مہیا کئے ہیں دکھلائیں۔
اَحْمَدُهٗۤ اِلٰی نَفْسِهٖ كَمَا اسْتَحْمَدَ اِلٰی خَلْقِهٖ، وَ جَعَلَ ﴿لِكُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا﴾، وَ لِكُلِّ قَدْرٍ اَجَلًا، وَ لِكُلِّ اَجَلٍ كِتَابًا.
میں اس کی ذات کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کی ایسی حمد و ثنا کرتا ہوں جیسی حمد اس نے اپنی مخلوقات سے چاہی ہے۔ اس نے ہر شے کا ایک اندازہ اور ہر اندازے کی ایک مدت اور ہر مدت کیلئے ایک نوشتہ قرار دیا ہے۔
[مِنْهَا]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
فَالْقُرْاٰنُ اٰمِرٌ زَاجِرٌ، وَ صَامِتٌ نَّاطِقٌ. حُجَّةُ اللهِ عَلٰی خَلْقِهٖ، اَخَذَ عَلَیْهِ مِیْثَاقَهُمْ، وَ ارْتَهَنَ عَلَیْهِ اَنْفُسَهُمْ، اَتَمَّ نُوْرَهٗ، وَ اَكْمَلَ بِهٖ دِیْنَهٗ، وَ قَبَضَ نَبِیَّهٗ -ﷺ وَ قَدْ فَرَغَ اِلَی الْخَلْقِ مِنْ اَحْكَامِ الْهُدٰی بِهٖ.
قرآن (اچھائیوں کا )حکم دینے والا، برائیوں سے روکنے والا، (بظاہر) خاموش اور (بباطن) گویا اور مخلوقات پر اللہ کی حجت ہے کہ جس پر (عمل کرنے کا) اس نے بندوں سے عہد لیا ہے اور ان کے نفسوں کو اس کا پابند بنایا ہے، اس کے نور کو کامل اور اس کے ذریعہ سے دین کو مکمل کیا ہے اور نبی ﷺ کو اس حالت میں دنیا سے اٹھایا کہ وہ لوگوں کو ایسے احکام قرآن کی تبلیغ کر کے فارغ ہو چکے تھے کہ جو ہدایت و رستگاری کا سبب ہیں۔
فَعَظِّمُوْا مِنهُ سُبْحَانَهٗ مَا عَظَّمَ مِنْ نَّفْسِهٖ، فَاِنَّهٗ لَمْ یُخْفِ عَنْكُمْ شَیئًا مِّنْ دِیْنِهٖ، وَ لَمْ یَتْرُكْ شَیئًا رَّضِیَهٗۤ اَوْ كَرِهَهٗۤ اِلَّا وَ جَعَلَ لَهٗ عَلَمًۢا بَادِیًا، وَ اٰیَةً مُّحْكَمَةً، تَزْجُرُ عَنْهُ، اَوْ تَدْعُوْۤ اِلَیْهِ، فَرِضَاهُ فِیْمَا بَقِیَ وَاحِدٌ، وَ سَخَطُهٗ فِیْمَا بَقِیَ وَاحِدٌ.
لہٰذا اللہ سبحانہ کو ایسی بزرگی و عظمت کے ساتھ یاد کرو جیسی اپنی بزرگی خود اس نے بیان کی ہے، کیونکہ اس نے اپنے دین کی کوئی بات تم سے نہیں چھپائی اور کسی شے کو خواہ اسے پسند ہو یا ناپسند بغیر کسی واضح علامت اور محکم نشان کے نہیں چھوڑا، جو ناپسند امور سے روکے اور پسندیدہ باتوں کی طرف دعوت دے (ان احکام کے متعلق)اس کی خوشنودی و ناراضگی کا معیار زمانہ آئندہ میں بھی ایک رہے گا۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَنْ یَّرْضٰی عَنْكُمْ بِشَیءٍ سَخِطَهٗ عَلٰی مَنْ كَانَ قَبْلَكُم، وَ لَنْ یَّسْخَـطَ عَلَیْكُمْ بِشَیْءٍ رَّضِیَهٗ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَ اِنَّمَا تَسِیْرُوْنَ فِیْۤ اَثَرٍ بَیِّنٍ، وَ تَتَكَلَّمُوْنَ بِرَجْعِ قَوْلٍ قَدْ قَالَهُ الرِّجَالُ مِنْ قَبْلِكُمْ، قَدْ كَفَاكُمْ مَؤُوْنَةَ دُنْیَاكُمْ، وَ حَثَّكُمْ عَلَی الشُّكْرِ، وَ افْتَرَضَ مِنْ اَلْسِنَتِكُمُ الذِّكْرَ، وَ اَوْصَاكُمْ بِالتَّقْوٰی، وَ جَعَلَهَا مُنْتَهٰی رِضَاهُ، وَ حَاجَتَهٗ مِنْ خَلْقِهٖ.
یاد رکھو! کہ وہ تم سے کسی ایسی چیز پر رضا مند نہ ہو گا کہ جس پر تمہارے اگلوں سے ناراض ہو چکا ہو اور نہ کسی ایسی چیز پر غضبناک ہو گا کہ جس پر پہلے لوگوں سے خوش رہ چکا ہو۔ تمہیں تو بس یہی چاہیے کہ تم واضح نشانوں پر چلتے رہو اور تم سے پہلے لوگوں نے جو کہا ہے اسے دہراتے رہو۔ وہ تمہاری ضروریات دنیا کا ذمہ لے چکا ہے اور تمہیں صرف شکر گزار رہنے کی ترغیب دی ہے اور تم پر واجب کیا ہے کہ اپنی زبان سے اس کا ذکر کرتے رہو اور تمہیں تقویٰ و پرہیز گاری کی ہدایت کی ہے اور اسے اپنی رضا و خوشنودی کی حد آخر اور مخلوق سے اپنا مدعا قرار دیا ہے۔
فَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِعَیْنِهٖ، وَ نَوَاصِیْكُمْ بِیَدِهٖ، وَ تَقَلُّبُكُمْ فِیْ قَبْضَتِهٖ، اِنْ اَسْرَرْتُمْ عَلِمَهٗ، وَ اِنْ اَعْلَنْتُمْ كَتَبَهٗ، قَدْ وَكَّلَ بِذٰلِكَ حَفَظَةً كِرَامًا، لَا یُسْقِطُوْنَ حَقًّا، وَ لَا یُثْبِتُوْنَ بَاطِلًا.
اس اللہ سے ڈرو کہ تم جس کی نظروں کے سامنے ہو اور جس کے ہاتھ میں تمہاری پیشانیوں کے بال اور جس کے قبضہ قدرت میں تمہارا اٹھنا بیٹھنا اور چلنا پھرنا ہے۔ اگر تم کوئی بات مخفی رکھو گے تو وہ اسے جان لے گا اور ظاہر کرو گے تو اسے لکھ لے گا، (یوں کہ) اس نے تم پر نگہبانی کرنے والے مکرم فرشتے مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ کسی حق کو نظر انداز اور کسی غلط چیز کو درج نہیں کرتے۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ ﴿مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ﴾ مِنَ الْفِتَنِ، وَ نُوْرًا مِّنَ الظُّلَمِ، وَ یُخَلِّدْهُ فِیْمَا اشْتَهَتْ نَفْسُهٗ، وَ یُنْزِلْهُ مَنْزِلَ الْكَرَامَةِ عِنْدَهٗ، فِیْ دَارٍ اصْطَنَعَهَا لِنَفْسِهٖ، ظِلُّهَا عَرْشُهٗ، وَ نُوْرُهَا بَهْجَتُهٗ، وَ زُوَّارُهَا مَلٰٓئِكَتُهٗ، وَ رُفَقَآؤُهَا رُسُلُهٗ.
یاد رکھو! کہ جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کیلئے فتنوں سے (بچ کر) نکلنے کی راہ نکال دے گا اور اندھیاریوں سے اجالے میں لے آئے گا اور اس کے حسب دلخواہ نعمتوں میں اسے ہمیشہ رکھے گا اور اسے اپنے پاس ایسے گھر میں کہ جسے اس نے اپنے لئے منتخب کیا ہے عزت و بزرگی کی منزل میں لا اتارے گا۔ اس گھر کا سایہ عرش، اس کی روشنی جمالِ قدرت (کی چھوٹ)، اس میں ملاقاتی ملائکہ اور رفیق و ہم نشین انبیاء و مرسلین علیہم السلام ہیں۔
فَبَادِرُوا الْمَعَادَ، وَ سَابِقُوا الْاٰجَالَ، فَاِنَّ النَّاسَ یُوْشِكُ اَنْ یَّنْقَطِعَ بِهِمُ الْاَمَلُ، وَ یَرْهَقَهُمُ الْاَجَلُ، وَ یُسَدَّ عَنْهُمْ بَابُ التَّوْبَةِ، فَقَدْ اَصْبَحْتُمْ فِیْ مِثْلِ مَا سَئَلَ اِلَیْهِ الرَّجْعَةَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَ اَنْتُمْ بَنُوْ سَبِیْلٍ، عَلٰی سَفَرٍ مِّنْ دَارٍ لَّیْسَتْ بِدَارِكُمْ، وَ قَدْ اُوْذِنْتُمْ مِنْهَا بِالْاِرْتِحَالِ، وَ اُمِرْتُمْ فِیْهَا بِالزَّادِ.
اپنی جائے باز گشت کی طرف بڑھو اور زاد عمل فراہم کرنے میں موت پر سبقت کرو۔ اس لئے کہ وہ وقت قریب ہے کہ لوگوں کی امیدیں ٹوٹ جائیں، موت ان پر چھا جائے اور توبہ کا دروازہ ان کیلئے بند ہو جائے۔ ابھی تو تم اس دور میں ہو کہ جس کی طرف پلٹنے کی تم سے قبل گزر جانے والے لوگ تمنا کرتے ہیں۔ تم اس دار دنیا میں کہ جو تمہارے رہنے کا گھر نہیں ہے مسافر راہ نورد ہو۔ اس سے تمہیں کوچ کرنے کی خبر دی جا چکی ہے اور اس میں رہتے ہوئے تمہیں زاد کے مہیا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّهٗ لَیْسَ لِهٰذَا الْجِلْدِ الرَّقِیْقِ صَبْرٌ عَلَی النَّارِ، فَارْحَمُوْا نُفُوْسَكُمْ، فَاِنَّكُمْ قَدْ جَرَّبْتُمُوْهَا فِیْ مَصَآئِبِ الدُّنْیَا. اَفَرَاَیْتُمْ جَزَعَ اَحَدِكُمْ مِنَ الشَّوْكَةِ تُصِیْبُهٗ، وَ الْعَثْرَةِ تُدْمِیْهِ، وَ الرَّمْضَآءِ تُحْرِقُهٗ؟ فَكَیْفَ اِذَا كَانَ بَیْنَ طَابَقَیْنِ مِنْ نَّارٍ، ضَجِیْعَ حَجَرٍ، وَ قَرِیْنَ شَیْطَانٍ! اَعَلِمْتُمْ اَنَّ مَالِكًا اِذَا غَضِبَ عَلَی النَّارِ حَطَمَ بَعْضُهَا بَعْضًا لِّغَضَبِهٖ، وَ اِذَا زَجَرَهَا تَوَثَّبَتْ بَیْنَ اَبْوَابِهَا جَزَعًا مِّنْ زَجْرَتِهٖ!.
یاد رکھو! کہ اس نرم و نازک کھال میں آتش جہنم کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں (تو پھر) اپنی جانوں پر رحم کھاؤ، کیونکہ تم نے ان کو دنیا کی مصیبتوں میں آزما کر دیکھ لیا ہے۔ کیا تم نے اپنے میں سے کسی ایک کو دیکھا ہے کہ وہ (جسم میں) کانٹا لگنے سے یا ایسی ٹھوکر کھانے سے کہ جو اسے لہولہان کر دے یا ایسی گرم ریت (کی تپش) سے کہ جو اسے جلا دے کس طرح بے چین ہو کر چیختا ہے۔ (ذرا سوچو تو) کہ اس وقت کیا حالت ہو گی کہ جب وہ جہنم کے دو آتشیں تووں کے درمیان (دہکتے ہوئے) پتھروں کا پہلو نشین اور شیطان کا ساتھی ہو گا۔ کیا تمہیں خبر ہے کہ جب مالک (پاسبان جہنم) آگ پر غضبناک ہو گا تو وہ اس کے غصہ سے (بھڑک کر آپس میں ٹکرانے لگے گی اور) اس کے اجزا ایک دوسرے کو توڑنے پھوڑنے لگیں گے اور جب اسے جھڑکے گا تو اس کی جھڑکیوں سے (تلملا کر) دوزخ کے دروازوں میں اچھلنے لگے گی۔
اَیُّهَا الْیَفَنُ الْكَبِیْرُ! الَّذِیْ قَدْ لَهَزَهُ الْقَتَیْرُ، كَیْفَ اَنْتَ اِذَا الْتَحَمَتْ اَطْوَاقُ النَّارِ بِعِظَامِ الْاَعْنَاقِ، وَ نَشِبَتِ الْجَوَامِعُ حَتّٰۤی اَكَلَتْ لُحُوْمَ السَّوَاعِدِ.
اے پیر کہن سال! کہ جس پر بڑھاپا چھایا ہوا ہے، اس وقت تیری کیا حالت ہو گی؟ کہ جب آتشیں طوق گردن کی ہڈیوں میں پیوست ہو جائیں گے اور (ہاتھوں میں) ہتھکڑیاں گڑ جائیں گی، یہاں تک کہ وہ کلائیوں کا گوشت کھالیں گی۔
فَاللهَ اللهَ مَعْشَرَ الْعِبَادِ! وَ اَنْتُمْ سَالِمُوْنَ فِی الصِّحَّةِ قَبْلَ السُّقْمِ، وَ فِی الْفُسْحَةِ قَبْلَ الضِّیْقِ، فَاسْعَوْا فِیْ فَكَاكِ رِقَابِكُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُغْلَقَ رَهَآئِنُهَا، اَسْهِرُوْا عُیُوْنَكُمْ، وَ اَضْمِرُوْا بُطُوْنَكُمْ، وَ اسْتَعْمِلُوْا اَقْدَامَكُمْ، وَ اَنْفِقُوْا اَمْوَالَكُمْ، وَ خُذُوْا مِنْ اَجْسَادِكُمْ وَ جُوْدُوْا بِهَا عَلٰۤی اَنْفُسِكُمْ، وَ لَا تَبْخَلُوْا بِهَا عَنْهَا، فَقَدْ قَالَ اللهُ سُبْحَانَهٗ: ﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ﴾، وَ قَالَ تَعَالٰی: ﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ كَرِیْمٌۚ﴾.
اے خدا کے بندو! اب جبکہ تم بیماریوں میں مبتلا ہونے اور تنگی و ضیق میں پڑنے سے پہلے صحت و فراخی کے عالم میں صحیح و سالم ہو، اللہ کا خوف کھالو اور اپنی گردنوں کو قبل اس کے کہ وہ اس طرح گروی ہو جائیں کہ انہیں چھڑایا نہ جا سکے، چھڑانے کی کوشش کرو۔ اپنی آنکھوں کو بیدار اور شکموں کو لاغر بناؤ، (میدانِ سعی میں) اپنے قدموں کو کام میں لاؤ اور اپنے مال کو (اس کی راہ میں) خرچ کرو۔ اپنے جسموں کو اپنے نفسوں پر نثار کر دو اور ان سے بخل نہ برتو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ’’اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا‘‘۔ اور (پھر) فرمایا کہ: ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے، تو خدا اس کے اجر کو دگنا کر دے گا اور اس کیلئے عمدہ جزا ہے‘‘۔
فَلَمْ یَسْتَنْصِرْكُمْ مِنْ ذُلٍّ، وَ لَمْ یَسْتَقْرِضْكُمْ مِنْ قُلٍّ، اسْتَنْصَرَكُمْ وَ لَهٗ ﴿جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ؕ ﴾ ﴿وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ﴾.
خدا نے کسی کمزوری کی بنا پر تم سے مدد نہیں مانگی اور نہ بے مائیگی کی وجہ سے تم سے قرض کا سوال کیا ہے۔ اس نے تم سے مدد چاہی ہے باوجودیکہ اس کے پاس سارے آسمان و زمین کے لشکر ہیں اور وہ غلبہ اور حکمت والا ہے۔
وَ اسْتَقْرَضَكُمْ وَ لَهٗ ﴿خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ ﴾ وَ ﴿هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ﴾، وَ اِنَّمَاۤ اَرَادَ اَنْ یَّبْلُوَكُمْ ﴿اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ؕ ﴾.
اور تم سے قرض مانگا ہے، حالانکہ آسمان و زمین کے خزانے اس کے قبضہ میں ہیں اور وہ بے نیاز و لائق حمد و ثنا ہے۔ اس نے تو یہ چاہا ہے کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اعمال کے لحاظ سے کون بہتر ہے۔
فَبَادِرُوْا بِاَعْمَالِكُمْ تَكُوْنُوْا مَعَ جِیْرَانِ اللهِ فِیْ دَارِهٖ، رَافَقَ بِهِمْ رُسُلَهٗ، وَ اَزَارَهُمْ مَلٰٓئِكَتَهٗ، وَ اَكْرَمَ اَسْمَاعَهُمْ اَنْ تَسْمَعَ حَسِیْسَ نَارٍ اَبَدًا، وَ صَانَ اَجْسَادَهُمْ اَنْ تَلْقٰی لُغُوْبًا وَّ نَصَبًا، ﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾، اَقُوْلُ مَا تَسْمَعُوْنَ، ﴿وَ اللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی﴾ نَفْسِیْ وَ اَنْفُسِكُمْ، وَ هُوَ حَسْبِیْ وَ ﴿نِعْمَ الْوَكِیْلُ﴾!.
تم اپنے اعمال کو لے کر بڑھو، تاکہ اللہ کے ہمسایوں کے ساتھ اس کے گھر (جنت) میں رہو۔ وہ ایسے ہمسائے ہیں کہ اللہ نے جنہیں پیغمبروں کا رفیق بنایا ہے اور فرشتوں کو ان کی ملاقات کا حکم دیا ہے اور ان کے کانوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھا ہے کہ آگ (کی اذیتوں) کی بھنک ان میں نہ پڑے اور ان کے جسموں کو بچائے رکھا ہے کہ وہ رنج او رتکان سے دو چار نہ ہوں۔ ’’یہ خدا کا فضل ہے، وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور خدا تو بڑے فضل و کرم والا ہے‘‘۔ میں وہی کہہ رہا ہوں جو تم سن رہے ہو۔ ’’میرے اور تمہارے نفسوں کیلئے اللہ ہی مدد گار ہے اور وہی میرے لئے کافی اور اچھا ساز گار ہے‘‘۔