خطبہ (۱۸۳)
(۱٨٣) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۳)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا تُدْرِكُهُ الشَّوَاهِدُ، وَ لَا تَحْوِیْهِ الْمَشَاهِدُ، وَ لَا تَرَاهُ النَّوَاظِرُ، وَ لَا تَحْجُبُهُ السَّوَاتِرُ، الدَّالِّ عَلٰی قِدَمِهٖ بِحُدُوْثِ خَلْقِهٖ، وَ بِحُدُوْثِ خَلْقِهٖ عَلٰی وُجُوْدِهٖ، وَ بِاشْتِبَاهِهِمْ عَلٰۤی اَنْ لَّا شِبْهَ لَهٗ، الَّذِیْ صَدَقَ فِیْ مِیْعَادِهٖ، وَ ارْتَفَعَ عَنْ ظُلْمِ عِبَادِهٖ، وَ قَامَ بِالْقِسْطِ فِیْ خَلْقِهٖ، وَ عَدَلَ عَلَیْهِمْ فِیْ حُكْمِهٖ، مُسْتَشْهِدٌۢ بِحُدُوْثِ الْاَشْیَآءِ عَلٰی اَزَلِیَّتِهٖ، وَ بِمَا وَ سَمَهَا بِهٖ مِنَ الْعَجْزِ عَلٰی قُدْرَتِهٖ، وَ بِمَا اضْطَرَّهَاۤ اِلَیْهِ مِنَ الْفَنَآءِ عَلٰی دَوَامِهٖ.
ساری حمد و ستائش اس اللہ کیلئے ہے جسے حواس پا نہیں سکتے، نہ جگہیں اسے گھیر سکتی ہیں، نہ آنکھیں اسے دیکھ سکتی ہیں، نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ وہ مخلوقات کے نیست کے بعد ہست ہونے سے اپنے ہمیشہ سے ہونے کا اور ان کے باہم مشابہ ہونے سے اپنے بے مثل و بے نظیر ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ وہ اپنے وعدہ میں سچا اور بندوں پر ظلم کرنے سے بالا تر ہے۔ وہ مخلوق کے بارے میں عدل سے چلتا ہے اور اپنے حکم میں انصاف برتتا ہے۔ وہ چیزوں کے وجود پذیر ہونے سے اپنی قدامت پر اور ان کے عجز و کمزوری کے نشانوں سے اپنی قدرت پر اور ان کے فنا ہو جانے کی اضطراری کیفیتوں سے اپنی ہمیشگی پر، (عقل سے) گواہی حاصل کرتا ہے۔
وَاحِدٌ لَّا بِعَدَدٍ، وَ دَآئِمٌ لَّا بِاَمَدٍ، وَ قَآئِمٌ لَا بِعَمَدٍ، تَتَلَقَّاهُ الْاَذْهَانُ لَا بِمُشَاعَرَةٍ، وَ تَشْهَدُ لَهُ الْمَرَآئِیْ لَا بِمُحَاضَرَةٍ، لَمْ تُحِطْ بِهِ الْاَوْهَامُ، بَلْ تَجَلّٰی لَهَا بِهَا، وَ بِهَا امْتَنَعَ مِنْهَا، وَ اِلَیْهَا حَاكَمَهَا، لَیْسَ بِذِیْ كِبَرٍ امْتَدَّتْ بِهِ النِّهَایَاتُ فَكَبَّرَتْهُ تَجْسِیْمًا، وَ لَا بِذِیْ عِظَمٍ تَنَاهَتْ بِهِ الْغَایَاتُ فَعَظَّمَتْهُ تَجْسِیْدًا، بَلْ كَبُرَ شَاْنًا وَّ عَظُمَ سُلْطَانًا.
وہ گنتی اور شمار میں آئے بغیر ایک (یگانہ) ہے۔ وہ کسی (متعینہ) مدت کے بغیر ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور ستونوں (اعضاء) کے سہارے کے بغیر قائم و برقرار ہے۔ حواس و مشاعر کے بغیر ذہن اسے قبول کرتے ہیں اور اس تک پہنچے بغیر نظر آنے والی چیزیں اس کی ہستی کی گواہی دیتی ہیں۔ عقلیں اس کی حقیقت کا احاطہ نہیں کر سکتیں، بلکہ وہ عقلوں کے وسیلہ سے عقلوں کیلئے آشکارا ہوا ہے اور عقلوں ہی کے ذریعہ سے عقل و فہم میں آنے سے انکاری ہے اور ان کے معاملہ میں خود انہی کو حکم ٹھہرایا ہے۔ وہ اس معنی سے بڑا نہیں کہ اس کے حدود و اطراف پھیلے ہوئے ہیں کہ جو اُسے مجسّم صورت میں بڑا کر کے دکھاتے ہیں اور نہ اس اعتبار سے عظیم ہے کہ وہ جسامت میں انتہائی حدوں تک پھیلا ہوا ہے، بلکہ وہ شان و منزلت کے اعتبار سے بڑا ہے اور دبدبه و اقتدار کے لحاظ سے عظیم ہے۔
وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُہُ الصَّفِیُّ، وَ اَمِیْنُهُ الرَّضِیُّ -ﷺ اَرْسَلَهٗ بِوُجُوْبِ الْحُجَجِ، وَ ظُهُوْرِ الْفَلَجِ، وَ اِیْضَاحِ الْمَنْهَجِ، فَبَلَّغَ الرِّسَالَةَ صَادِعًۢا بِهَا، وَ حَمَلَ عَلَی الْمَحَجَّةِ دَالًّا عَلَیْهَا، وَ اَقَامَ اَعْلَامَ الْاِهْتِدَآءِ وَ مَنَارَ الضِّیَآءِ، وَ جَعَلَ اَمْرَاسَ الْاِسْلَامِ مَتِیْنَةً، وَ عُرَا الْاِیْمَانِ وَثِیْقَةً.
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے عبد اور برگزیدہ رسول اور پسندیدہ امین ہیں۔ خدا ان پر اور ان کے اہل بیتؑ پر رحمت فراواں نازل کرے۔ اللہ نے انہیں ناقابل انکار دلیلوں، واضح کامرانیوں اور راہ (شریعت) کی رہنمائیوں کے ساتھ بھیجا۔ چنانچہ آپؐ نے (حق کو باطل سے) چھانٹ کر اس کا پیغام پہنچایا، راہ حق دکھا کر اس پر لوگوں کو لگایا، ہدایت کے نشان اور روشنی کے مینار قائم کئے، اسلام کی رسیوں اور ایمان کے بندھنوں کو مستحکم کیا۔
[مِنْهَا:]
[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے]
فِیْ صِفَةِ عَجِیْبِ خَلْقِ اَصْنَافٍ مِّنَ الْحَیَوَانِ
جس میں مختلف قسم کے جانوروں کی عجیب و غریب آفرینش کا ذکر فرمایا ہے
وَ لَوْ فَكَّرُوْا فِیْ عَظِیْمِ الْقُدْرَةِ، وَ جَسِیْمِ النِّعْمَةِ، لَرَجَعُوْۤا اِلَی الطَّرِیْقِ، وَ خَافُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ، وَ لٰكِنَّ الْقُلُوْبَ عَلِیْلَةٌ، وَ الْبَصَآئِرَ مَدْخُوْلَةٌ! اَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلٰی صَغِیْرِ مَا خَلَقَ، كَیْفَ اَحْكَمَ خَلْقَهٗ، وَ اَتْقَنَ تَرْكِیْبَهٗ، وَ فَلَقَ لَهُ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ، وَ سَوّٰی لَهُ الْعَظْمَ وَ الْبَشَرَ!.
اگر لوگ اس کی عظیم الشان قدرتوں اور بلند پايہ نعمتوں میں غور و فکر کریں تو سیدھی راہ کی طرف پلٹ آئیں اور دوزخ کے عذاب سے خوف کھانے لگیں، لیکن دل بیمار اور بصیرتیں کھوٹی ہیں۔ کیا وہ لوگ ان چھوٹے چھوٹے جانوروں کو کہ جنہیں اس نے پیدا کیا ہے، نہیں دیکھتے کہ کیونکر ان کی آفرینش کو استحکام بخشا ہے اور ان کے جوڑ بند کو باہم استواری کے ساتھ ملایا ہے اور ان کیلئے کان اور آنکھ (کے سوراخ) کھولے ہیں اور ہڈی اور کھال کو (پوری مناسبت سے) درست کیا ہے۔
اُنْظُرُوْۤا اِلَی النَّمْلَةِ فِیْ صِغَرِ جُثَّتِهَا، وَ لَطَافَةِ هَیْئَتِهَا، لَا تَكَادُ تُنَالُ بِلَحْظِ الْبَصَرِ، وَ لَا بِمُسْتَدْرَكِ الْفِكَرِ، كَیْفَ دَبَّتْ عَلٰۤی اَرْضِهَا، وَ صُبَّتْ عَلٰی رِزْقِهَا، تَنْقُلُ الْحَبَّةَ اِلٰی جُحْرِهَا، وَ تُعِدُّهَا فِیْ مُسْتَقَرِّهَا، تَجْمَعُ فِیْ حَرِّهَا لِبَرْدِهَا، وَ فِیْ وُرُوْدِهَا لِصَدَرِهَا، مَكْفُوْلَۃٌۢ بِرِزْقِهَا، مَرْزُوْقَةٌۢ بِوِفْقِهَا، لَا یُغْفِلُهَا الْمَنَّانُ، وَ لَا یَحْرِمُهَا الدَّیَّانُ، وَلَوْ فِی الصَّفَا الْیَابِسِ، وَ الْحَجَرِ الْجَامِسِ!.
ذرا اس چیونٹی [۱] کی طرف اس کی جسامت کے اختصار اور شکل و صورت کی باریکی کے عالم میں نظر کرو۔ اتنی چھوٹی کہ گوشۂ چشم سے بمشکل دیکھی جا سکے اور نہ فکروں میں سماتی ہے۔ دیکھو تو کیونکر زمین پر رینگتی پھرتی ہے اور اپنے رزق کی طرف لپکتی ہے اور دانے کو اپنے بِل کی طرف لئے جاتی ہے اور اسے اپنے قیام گاہ میں مہیا رکھتی ہے اور گرمیوں میں جاڑے کے موسم کیلئے اور قوت و توانائی کے زمانے میں عجز و درماندگی کے دنوں کیلئے ذخیرہ اکٹھا کر لیتی ہے۔ اس کی روزی کا ذمہ لیا جا چکا ہے اور اس کے مناسب حال رزق اسے پہنچتا رہتا ہے۔ خدائے کریم اس سے تغافل نہیں برتتا اور صاحب عطا و جزا اسے محروم نہیں رکھتا، اگرچہ وہ خشک پتھر اور جمے ہوئے سنگ خارا کے اندر کیوں نہ ہو۔
وَ لَوْ فَكَّرْتَ فِیْ مَجَارِیْۤ اَكْلِهَا، وَ فِیْ عُلْوِهَا وَ سُفْلِهَا، وَ مَا فِی الْجَوْفِ مِنْ شَرَاسِیْفِ بَطْنِهَا، وَ مَا فِی الرَّاْسِ مِنْ عَیْنِهَا وَ اُذُنِهَا، لَقَضَیْتَ مِنْ خَلْقِهَا عَجَبًا، وَ لَقِیْتَ مِنْ وَّصْفِهَا تَعَبًا! فَتَعَالَی الَّذِیْۤ اَقَامَهَا عَلٰی قَوَآئِمِهَا، وَ بَنَاهَا عَلٰی دَعَآئِمِهَا! لَمْ یَشْرَكْهُ فِیْ فِطْرَتِهَا فَاطِرٌ، وَ لَمْ یُعِنْهُ فِیْ خَلْقِهَا قَادِرٌ.
اگر تم اس کی غذا کی نالیوں اور اس کے بلند و پست حصوں اور اس کے خول میں پیٹ کی طرف جھکے ہوئے پسلیوں کے کناروں اور اس کے سر میں (چھوٹی چھوٹی) آنکھوں اور کانوں (کی ساخت) میں غور و فکر کرو گے تو اس کی آفرینش پر تمہیں تعجب ہو گا اور اس کا وصف کرنے میں تمہیں تعب اٹھانا پڑے گا۔ بلند و برتر ہے وہ کہ جس نے اس کو اس کے پیروں پر کھڑا کیا ہے اور ستونوں (اعضاء) پر اس کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کے بنانے میں کوئی بنانے والا اس کا شریک نہیں ہوا ہے اور نہ اس کے پیدا کرنے میں کسی قادر و توانا نے اس کا ہاتھ بٹایا ہے۔
وَ لَوْ ضَرَبْتَ فِیْ مَذَاهِبِ فِكْرِكَ لِتَبْلُغَ غَایَاتِهٖ، مَا دَلَّتْكَ الدَّلَالَةُ اِلَّا عَلٰۤی اَنَّ فَاطِرَ النَّمْلَةِ هُوَ فَاطِرُ النَّخْلَةِ، لِدَقِیْقِ تَفْصِیْلِ كُلِّ شَیْءٍ، وَ غَامِضِ اخْتِلَافِ كُلِّ حَیٍّ. وَ مَا الْجَلِیْلُ وَ اللَّطِیْفُ، وَ الثَّقِیْلُ وَ الْخَفِیْفُ، وَ الْقَوِیُّ وَ الضَّعِیْفُ، فِیْ خَلْقِهٖۤ اِلَّا سَوَآءٌ، وَ كَذٰلِكَ السَّمَآءُ وَ الْهَوَآءُ، وَ الرِّیَاحُ وَ الْمَآءُ.
اگر تم سوچ بچار کی راہوں کو طے کرتے ہوئے اس کی آخری حد تک پہنچ جاؤ تو عقل کی رہنمائی تمہیں بس اس نتیجے پر پہنچائے گی کہ جو چیونٹی کا پیدا کرنے والا ہے وہی کھجور کے درخت کا پیدا کرنے والا ہے، کیونکہ ہر چیز [۲] کی تفصیل لطافت و باریکی لئے ہوئے ہے اور ہر ذی حیات کے مختلف اعضاء میں باریک ہی سا فرق ہے۔ اس کی مخلوقات میں بڑی اور چھوٹی، بھاری اور ہلکی، طاقتور اور کمزور چیزیں یکساں ہیں اور یونہی آسمان، فضا، ہوا اور پانی برابر ہیں۔
فَانْظُرْ اِلَی الشَّمْسِ وَ الْقَمَرِ، وَ النَّبَاتِ وَ الشَّجَرِ، وَ الْمَآءِ وَ الْحَجَرِ، وَاخْتِلَافِ هٰذَا اللَّیْلِ وَ النَّهَارِ، وَ تَفَجُّرِ هٰذِهِ الْبِحَارِ، وَ كَثْرَةِ هٰذِهِ الْجِبَالِ، وَ طُوْلِ هٰذِهِ الْقِلَالِ، وَ تَفَرُّقِ هٰذِهِ اللُّغَاتِ، وَ الْاَلْسُنِ الْمُخْتَلِفَاتِ. فَالْوَیْلُ لِمَنْ جَحَدَ الْمُقَدِّرَ، وَ اَنْكَرَ الْمُدَبِّرَ! زَعَمُوْۤا اَنَّهُمْ كَالنَّبَاتِ مَا لَهُمْ زَارِعٌ، وَ لَا لِاخْتِلَافِ صُوَرِهِمْ صَانِعٌ، وَ لَمْ یَلْجَؤُوْا اِلٰی حُجَّةٍ فِیْمَا ادَّعَوْا، وَ لَا تَحْقِیْقٍ لِّمَاۤ اَوْعَوْا، وَ هَلْ یَكُوْنُ بِنَآءٌ مِّنْ غَیْرِ بَانٍ؟، اَوْ جِنَایَةٌ مِّنْ غَیْرِ جَانٍ؟!.
لہٰذا تم سورج، چاند، سبزے، درخت، پانی اور پتھر کی طرف دیکھو اور اس رات دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے اور ان دریاؤں کے جاری ہونے اور ان پہاڑوں کی بہتات اور ان چوٹیوں کی اچان پر نگاہ دوڑاؤ اور ان نعمتوں اور قسم قسم کی زبانوں کے اختلاف پر نظر کرو۔ اس کے بعد افسوس ہے!ان پر کہ جو قضا و قدر کی مالک ذات اور نظم و انضباط کے قائم کرنے والی ہستی سے انکار کریں۔ انہوں نے تو یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ گھاس پھونس کی طرح خود بخود اُگ آئے ہیں۔ نہ ان کا کوئی بونے والا ہے اور نہ ان کی گوناگوں صورتوں کا کوئی بنانے والا ہے۔ انہوں نے اپنے اس دعوے کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں رکھی اور نہ سنی سنائی باتوں کی تحقیق کی ہے۔ (ذرا سوچو تو کہ) کیا کوئی عمارت بغیر بنانے والے کے ہوا کرتی ہے؟اور کوئی جرم بغیر مجرم کے ہوتا ہے؟
وَ اِنْ شِئْتَ قُلْتَ فِی الْجَرَادَةِ، اِذْ خَلَقَ لَهَا عَیْنَیْنِ حَمْرَاوَیْنِ، وَ اَسْرَجَ لَهَا حَدَقَتَیْنِ قَمْرَاوَیْنِ، وَ جَعَلَ لَهَا السَّمْعَ الْخَفِیَّ، وَ فَتَحَ لَهَا الْفَمَ السَّوِیَّ، وَ جَعَلَ لَهَا الْحِسَّ الْقَوِیَّ، وَ نَابَیْنِ بِهِمَا تَقْرِضُ، وَ مِنْجَلَیْنِ بِهِمَا تَقْبِضُ، یَرْهَبُهَا الزُّرَّاعُ فِیْ زَرْعِهِمْ، وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ذَبَّهَا، وَ لَوْ اَجْلَبُوْا بِجَمْعِهِمْ، حَتّٰی تَرِدَ الْحَرْثَ فِیْ نَزَوَاتِهَا، وَ تَقْضِیَ مِنْهُ شَهَوَاتِهَا، وَ خَلْقُهَا كُلُّهٗ لَا یَكُوْنُ اِصْبَعًا مُّسْتَدِقَّةً.
اگر چاہو تو (چیونٹی کی طرح) ٹڈی [۳] کے متعلق بھی کچھ کہو کہ اس کیلئے لال بھبوکا دو آنکھیں پیدا کیں اور اس کی آنکھوں کے چاند سے دونوں حلقوں کے چراغ روشن کئے اور اس کیلئے بہت ہی چھوٹے چھوٹے کان بنائے اور مناسب و معتدل منہ کا شگاف بنایا اور اس کے حس کو قوی اور تیز قرار دیا اور ایسے دو دانت بنائے کہ جن سے وہ (پتیوں کو) کاٹتی ہے اور درانتی کی طرح کے دو پیر دیئے کہ جن سے وہ (گھاس پات کو) پکڑتی ہے۔ کاشتکار اپنی زراعت کے بارے میں اس سے ہراساں رہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے جتھوں کو سمیٹ لیں، جب بھی اس ٹڈی دل کا ہنکانا ان کے بس میں نہیں ہوتا، یہاں تک کہ وہ جست و خیز کرتا ہوا ان کی کھیتیوں پر ٹوٹ پڑتا ہے اور ان سے اپنی خواہشوں کو پورا کر لیتا ہے۔ حالانکہ اس کا جسم ایک باریک انگلی کے بھی برابر نہیں ہوتا۔
فَتَبَارَكَ اللهُ الَّذِیْ یَسْجُدُ لَهٗ ﴿مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ طَوْعًا وَّ كَرْهًا ﴾، وَ یُعَفِّرُ لَهٗ خَدًّا وَّ وَجْهًا، وَ یُلْقِیْ اِلَیْهِ بِالْطَّاعَةِ سِلْمًا وَّ ضَعْفًا، وَ یُعْطِیْ لَہُ الْقِیَادَ رَهْبَةً وَّ خَوْفًا!.
پاک ہے وہ ذات کہ جس کے سامنے آسمان و زمین میں جو کوئی بھی ہے خوشی یا مجبوری سے بہر صورت سجدہ میں گرا ہوا ہے اور اس کیلئے رخسار اور چہرے کو خاک پر مل رہا ہے اور عجز و انکسار سے اس کے آگے سرنگوں ہے اور خوف و دہشت سے اپنی باگ ڈور اسے سونپے ہوئے ہے۔
فَالطَّیْرُ مُسَخَّرَةٌ لِاَمْرِهٖ، اَحْصٰی عَدَدَ الرِّیْشِ مِنْهَا وَ النَّفَسَ، وَاَرْسٰی قَوَآئِمَهَا عَلَی النَّدٰی وَ الْیَبَسِ، وَ قَدَّرَ اَقْوَاتَهَا، وَ اَحْصٰۤی اَجْنَاسَهَا، فَهٰذَا غُرَابٌ وَّ هٰذَا عُقَابٌ، وَ هٰذَا حَمَامٌ وَّ هٰذَا نَعَامٌ، دَعَا كُلَّ طَآئِرٍۭ بِاسْمِهٖ، وَ كَفَلَ لَهٗ بِرِزْقِهٖ. وَ اَنْشَاَ ﴿السَّحَابَ الثِّقَالَۚ﴾، فَاَهْطَلَ دِیَمَهَا، وَ عَدَّدَ قِسَمَهَا، فَبَلَّ الْاَرْضَ بَعْدَ جُفُوْفِهَا، وَ اَخْرَجَ نَبْتَهَا بَعْدَ جُدُوْبِهَا.
پرندے اس کے حکم (کی زنجیروں)میں جکڑے ہوئے ہیں۔ وہ ان کے پروں اور سانسوں کی گنتی تک کو جانتا ہے اور (ان میں سے کچھ کے) پیر تری پر اور (کچھ کے)خشکی پر جما دیئے ہیں اور ان کی روزیاں معین کر دی ہیں اور ان کے انواع واقسام پر احاطہ رکھتا ہے کہ یہ کوا ہے اور یہ عقاب، یہ کبوتر ہے اور یہ شتر مرغ۔ اس نے ہر پرندے کو اس کے نام پر دعوت (وجود) دی اور ان کی روزی کا ذمہ لیا اور یہ بھاری بوجھل بادل پیدا کئے کہ جن سے موسلا دھار بارشیں برسائیں اور حصہ رسدی مختلف (سر زمینوں پر) انہیں بانٹ دیا اور زمین کو اس کے خشک ہو جانے کے بعد تر بتر کردیا اور بنجر ہونے کے بعد اس سے (لہلہاتا ہوا) سبزہ اُگایا۔
۱’’چیونٹی‘‘ بظاہر ایک حقیر سی مخلوق ہے اور جسامت کے اعتبار سے نہایت چھوٹی مگر قدرت نے شعور و احساس کی اتنی قوتیں اس میں ودیعت کی ہیں کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کے حسیات خصوصاً قوتِ شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ جہاں کہیں خوراک ہو یہ اپنے حاسہ کی مدد سے فوراً وہاں پہنچ جاتی ہے اور اپنے جسم سے بیس گنا زائد وزن اٹھا لیتی ہے اور جس چیز کو اکیلے نہیں اٹھا سکتی اسے اٹھانے کیلئے دوسری چیونٹیوں کو اطلاع کر دیتی ہے اور وہ سب مل کر اسے اٹھا لے جاتی ہیں۔ اگر دیوار یا بلندی پر چڑھنے سے بوجھ گر پڑتا ہے تو جتنی مرتبہ گرے اسے اٹھا نے کیلئے پلٹتی ہیں۔ دھوپ ہو یا سایہ، گرمی ہو یا سردی، نہ ہمت ہارتی ہیں اور نہ محنت سے جی چراتی ہیں، ہمہ وقت طلب و تلاش میں لگی رہتی ہيں۔
یوں تو گرمی و سردی میں یکساں سعی و کاوش کا مظاہرہ کرتی ہیں مگر گرمیوں میں زیادہ سرگرمِ عمل رہتی ہیں تا کہ سردی اور برسات کیلئے اپنے بلوں میں اتنا ذخیرہ فراہم کر لیں جس سے ان کی گزر بسر ہو سکے۔ ان بلوں میں ٹیڑھے میڑھے راستے بناتی ہیں تا کہ بارش کے پانی سے تحفظ ہو سکے۔ اس غذا کی جمع آوری کے ساتھ اس کے بچاؤ کی بھی تمام تدابیر عمل میں لاتی ہیں۔ چنانچہ جب اس کے خراب یا متعفن ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو اسے بلوں سے باہر نکال کر ہوا میں پھیلا دیتی ہیں اور سوکھ جانے کے بعد اسے پھر بلوں میں منتقل کر دیتی ہیں۔ یہ نقل و حمل عموماً چاندنی راتوں میں کرتی ہیں تا کہ دن کے وقت گزرنے والے کی وجہ سے ذخیرہ پامال نہ ہو اور اتنی روشنی بھی رہے کے کام جاری رکھا جا سکے اور اگر زمین كى تری و رطوبت کی وجہ سے دانوں سے کونپلیں پھوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے تو ہر دانے کے دو ٹکڑے کر دیتی ہیں اور دھنیے کی یہ خاصیت ہے کہ اگر اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں تو بھی اگ آتا ہے اس لئے اس کے چار ٹکڑے کر دیتی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ اہتمام بھی کرتی ہیں کہ دانوں کی سطح پر بھوسے کے تنکے بچھا دیتی ہیں تا کہ زمین کے اندر کی نمی سے محفوظ رہیں۔
چیونٹیوں میں نظم و ضبط سے رہنے، مل جل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے کا بھرپور جذبہ ہوتا ہے۔ ان میں کچھ کارکن ہوتی ہیں جو خوراک فراہم کرتی ہیں اور کچھ حفاظتی فریضہ انجام دیتی ہیں اور ایک ملکہ ہوتی ہے جو نگران کار ہوتی ہے۔ غرض یہ تمام کام تقسیم عمل اور نظم و ضبط کے تحت انجام پاتے ہیں۔↑
۲مطلب یہ ہے کہ اگر کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا جائزہ لیا جائے تو وہ اپنے اندر ان تمام چیزوں کو سمیٹے ہوئے ہو گی جو بڑی سے بڑی چیز کے اندر پائی جاتی ہیں اور ہر ایک میں قدرت کی صنعت طرازی و کارسازی کی جھلک یکساں اور ہر ایک کی نسبت اس کی قوت و توانائی کی طرف برابر ہوگی۔ خواہ وہ چیونٹی کی طرح چھوٹی ہو، یا درخت خرما کی طرح بڑی۔ ایسا نہیں کہ چھوٹی چیز کو بنانا سہل اور بڑی چیز کو پیدا کرنا اس کیلئے مشکل ہو۔ کیونکہ صورت، رنگ، حجم اور مقدار کا اختلاف صرف اس کی حکمت و تدبیر کی کارفرمائی کی بنا پر ہے، مگر اصل خلقت کے اعتبار سے ان میں کوئی تفاوت نہیں۔ لہٰذا خلقت و آفرنیش کی یہ یک رنگی اس کے صانع کی وحدت و یکتائی کی دلیل ہے۔
’’ٹڈی‘‘ ایک مختصر جسامت کا جانور ہے۔ بچپنے میں اس کے پیر چھوٹے، ٹانگیں لمبی، سر بڑا اور دُم چھوٹی ہوتی ہے۔ جب بچپنے کا دور گزر جاتا ہے تو پر بڑے اور جسم کی لمبائی زیادہ ہو جاتی ہے۔ خوراک کی تلاش میں جتھا بنا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پرواز کرتا رہتا ہے۔ اس پرواز سے اس کے جسم اور اعصاب پر خوشگوار اثر پڑتا ہے اور جسم قوی اور اعصاب مضبوط ہو جاتے ہیں، لیکن یہ دور اس کیلئے انتہائی پریشان کن ہوتا ہے، کیونکہ بھوک کی شدّت اسے کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتی۔ چنانچہ جب ٹڈی دل مل کر پرواز کرتا ہے تو جہاں کہیں سبزہ نظر آتا ہے بے تحاشا ٹوٹ پڑتا ہے اور مادہ اپنی دُم سے زمین میں سوراخ کر کے انڈے چھوڑ جاتی ہے جن سے بچے نکلتے ہیں اور جب ان کے جسم وجان میں توانائی آتی ہے تو اُڑنے لگتے ہیں۔↑
۳ان کا پھیلاؤ کبھی کبھی دو ہزار مربع میل تک پہنچ جاتا ہے اور ایک دن میں بارہ سو میل کی مسافت طے کر لیتے ہیں اور جدھر سے ہو کر گزرتے ہیں کھڑی کھیتیوں اور سبزہ زاروں کو اس طرح چاٹ جاتے ہیں کہ روئیدگی کا نام و نشان تک نہیں رہتا۔ یہ پرواز گرم خشک موسم میں ہوتی ہے اور جب تک موسم ساز گار رہتا ہے پرواز جاری رہتی ہے۔ جب سخت سردی یا تیز آندھی انہیں منتشر کر دیتی ہے تو جماعتی زندگی کی کشمکش سے آزاد ہو کر تنہا رہ جاتے ہیں۔ یہ تنہائی کی زندگی ان کیلئے بڑی مطمئن زندگی ہوتی ہے۔ نہ انہیں بھوک ستاتی ہے اور نہ پرواز کی تعب و مشقت نڈھال کرتی ہے۔