خطبات

خطبہ (۱۸۴)

(۱٨٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۸۴)

فِی التَّوْحِيْدِ

یہ خطبہ توحید کے متعلق ہے

وَ تَجْمَعُ هٰذِهِ الْخُطْبَةُ مِنْ اُصُوْلِ الْعِلْمِ مَا لَا تَجْمَعُهٗ خُطْبَةٌ (غَیْرَھَا)

اور علم و معرفت کی اتنی بنیادی باتوں پر مشتمل ہے کہ جن پر کوئی دوسرا خطبہ حاوی نہیں ہے:

مَا وَحَّدَهٗ مَنْ كَیَّفَهٗ، وَ لَا حَقِیْقَتَهٗۤ اَصَابَ مَنْ مَّثَّلَهٗ، وَ لَاۤ اِیَّاهُ عَنٰی مَنْ شَبَّهَهٗ، وَ لَا صَمَدَهٗ مَنْ اَشَارَ اِلَیْهِ وَ تَوَهَّمَهٗ. كُلُّ مَعْرُوْفٍۭ بِنَفْسِهٖ مَصْنُوْعٌ، وَ كُلُّ قَآئِمٍ فِیْ سِوَاهُ مَعْلُوْلٌ.

جس نے اسے مختلف کیفیتوں سے متصف کیا اس نے اسے یکتا نہیں سمجھا، جس نے اس کا مثل ٹھہرایا اس نے اس کی حقیقت کو نہیں پایا، جس نے اسے کسی چیز سے تشبیہ دی اس نے اس کا قصد نہیں کیا، جس نے اسے قابل اشارہ سمجھا اور اپنے تصور کا پابند بنایا اس نے اس کا رخ نہیں کیا۔ جو اپنی ذات سے پہچانا جائے وہ مخلوق ہو گا اور جو دوسرے کے سہارے پر قائم ہو وہ علت کا محتاج ہو گا۔

فَاعِلٌ لَّا بِاضْطِرَابِ اٰلَةٍ، مُقَدِّرٌ لَّا بِجَوْلِ فِكْرَةٍ، غَنِیٌّ لَّا بِاسْتِفَادَةٍ. لَا تَصْحَبُهُ الْاَوْقَاتُ، وَ لَا تَرْفُدُهُ الْاَدَوَاتُ، سَبَقَ الْاَوْقَاتَ كَوْنُهٗ، وَ الْعَدَمَ وُجُوْدُهٗ، وَ الْاِبْتِدَآءَ اَزَلُهٗ.

وہ فاعل ہے بغیر آلات کو حرکت میں لائے۔ وہ ہر چیز کا اندازہ مقرر کرنے والا ہے، بغیر فکر کی جولانی کے۔ وہ تونگر و غنی ہے بغیر دوسروں سے استفادہ کئے۔ نہ زمانہ اس کا ہم نشین اور نہ آلات اس کے معاون و معین ہیں۔ اس کی ہستی زمانہ سے پیشتر، اس کا وجود عدم سے سابق اور اس کی ہمیشگی نقطۂ آغاز سے بھی پہلے سے ہے۔

بِتَشْعِیْرِهِ الْمَشَاعِرَ عُرِفَ اَنْ لَّا مَشْعَرَ لَهٗ، وَ بِمُضَادَّتِهٖ بَیْنَ الْاُمُوْرِ عُرِفَ اَنْ لَّا ضِدَّ لَهٗ، وَ بِمُقَارَنَتِهِ بَیْنَ الْاَشْیَآءِ عُرِفَ اَنْ لَّا قَرِیْنَ لَهٗ. ضَادَّ النُّوْرَ بِالظُّلْمَةِ، وَ الْوُضُوْحَ بِالْبُهْمَةِ، وَ الْجُمُوْدَ بِالْبَلَلِ، وَ الْحَرُوْرَ بِالصَّرَدِ. مُؤَلِّفٌۢ بَیْنَ مُتَعَادِیَاتِهَا، مُقَارِنٌۢ بَیْنَ مُتَبَایِنَاتِهَا، مُقَرِّبٌۢ بَیْنَ مُتَبَاعِدَاتِهَا، مُفَرِّقٌۢ بَیْنَ مُتَدَانِیَاتِهَا.

اس نے جو احساس و شعور کی قوتوں کو ایجاد کیا اسی سے معلوم ہوا کہ وہ خود حواس و آلات شعور نہیں رکھتا اور چیزوں میں ضدیت قرار دینے سے معلوم ہوا کہ اس کی ضد نہیں ہو سکتی اور چیزوں کو جو اس نے ایک دوسرے کے ساتھ رکھا ہے اسی سے معلوم ہوا کہ اس کا کوئی ساتھی نہیں۔ اس نے نور کو ظلمت کی، روشنی کو اندھیرے کی، خشکی کو تری کی اور گرمی کو سردی کی ضد قرار دیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کی دشمن چیزوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے والا، متضاد چیزوں کو ملانے والا، ایک دوسرے سے دور کی چیزوں کو باہم قریب لانے والا اور باہم پیوستہ چیزوں کو الگ الگ کرنے والا ہے۔

لَا یُشْمَلُ بِحَدٍّ، وَ لَا یُحْسَبُ بِعَدٍّ، وَ اِنَّمَا تَحُدُّ الْاَدَوَاتُ اَنْفُسَهَا، وَ تُشِیْرُ الْاٰلَاتُ اِلٰی نَظَآئِرِهَا، مَنَعَتْهَا »مُنْذُ« الْقِدَمِیَّةَ، وَ حَمَتْهَا »قَدُ« الْاَزَلِیَّةَ، وَ جَنَّبَتْهَا »لَوْلَا« التَّكْمِلَةَ! بِهَا تَجَلّٰی صَانِعُهَا لِلْعُقُوْلِ، وَ بِهَا امْتَنَعَ عَنْ نَّظَرِ الْعُیُوْنِ.

وہ کسی حد میں محدود نہیں اور نہ گننے سے شمار میں آتا ہے۔ جسمانی قویٰ تو جسمانی ہی چیزوں کو گھیرا کرتے ہیں اور اپنے ہی ایسوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔ انہیں لفظ ’’منذ‘‘ نے قدیم ہو نے سے روک دیا ہے اور لفظِ ’’قد‘‘ نے ہمیشگی سے منع کر دیا ہے اور لفظ ’’لولا‘‘ [۱] نے کمال سے ہٹا دیا ہے۔ انہی اعضاء و جوارح اور حواس و مشاعر کے ذریعہ ان کا موجد عقلوں کے سامنے جلوہ گر ہوا ہے اور ان ہی کے تقاضوں کے سبب سے آنکھوں کے مشاہدہ سے بری ہو گیا ہے۔

لَا یَجْرِیْ عَلَیْهِ السُّكُوْنُ وَ الْحَرَكَةُ، وَ كَیْفَ یَجْرِیْ عَلَیْهِ مَا هُوَ اَجْرَاهُ، وَ یَعُوْدُ فِیْهِ مَا هُوَ اَبْدَاهُ، وَ یَحْدُثُ فِیْهِ مَا هُوَ اَحْدَثَةٗ! اِذًا لَّتَفَاوَتَتْ ذَاتُهٗ، وَ لَتَجَزَّاَ كُنْهُهٗ، وَ لَامْتَنَعَ مِنَ الْاَزَلِ مَعْنَاهُ، وَ لَكَانَ لَهٗ وَرَآءٌ اِذْ وُجِدَ لَهٗ اَمَامٌ، وَ لَالْتَمَسَ التَّمَامَ اِذْ لَزِمَهٗ النُّقْصَانُ. وَ اِذًا لَّقَامَتْ اٰیَةُ الْمَصْنُوْعِ فِیْهِ، وَ لَتَحَوَّلَ دَلِیْلًۢا بَعْدَ اَنْ كَانَ مَدْلُوْلًا عَلَیْهِ، وَ خَرَجَ بِسُلْطَانِ الْاِمْتِنَاعِ مِنْ اَنْ یُّؤَثِّرَ فِیْهِ مَا یُؤثِّرُ فِیْ غَیْرِهِ. الَّذِیْ لَا یَحُوْلُ وَ لَا یَزُوْلُ، وَ لَا یَجُوْزُ عَلَیْهِ الْاُفُوْلُ.

حرکت و سکون اس پر طاری نہیں ہو سکتے۔ بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو، وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے؟ اور جو چیز پہلے پہل اسی نے پیدا کی ہے وہ اس کی طرف عائد کیونکر ہو سکتی ہے؟ اور جس چیز کو اس نے پیدا کیا ہو وہ اس میں کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس کی ذات تغیر پذیر قرار پائے گی اور اس کی ہستی قابل تجزیہ ٹھہرے گی اور اس کی حقیقت ہمیشگی و دوام سے علیحدہ ہو جائے گی۔ اگر اس کیلئے سامنے کی جہت ہوتی تو پیچھے کی سمت بھی ہوتی اور اگر اس میں کمی آتی تو وہ اس کی تکمیل کا محتاج ہوتا اور اس صورت میں اس کے اندر مخلوق کی علامتیں آ جاتیں، اور جبکہ ساری چیزیں اس کی ہستی کی دلیل تھیں اس صورت میں وہ خود کسی خالق کے وجود کی دلیل بن جاتا۔ حالانکہ وہ اس امر مسلّمہ کی رو سے کہ اس میں مخلوق کی صفتوں کا ہونا ممنوع ہے، اس سے بری ہے کہ اس میں وہ چیز اثر انداز ہو جو ممکنات میں اثر انداز ہوتی ہے۔ وہ ادلتا بدلتا نہیں، نہ زوال پذیر ہوتا ہے، نہ غروب ہونا اس کیلئے روا ہے۔

لَمْ یَلِدْ فَیَكُوْنَ مَوْلُوْدًا، وَ لَمْ یُوْلَدْ فَیَصِیْرَ مَحْدُوْدًا، جَلَّ عَنِ اتِّخَاذِ الْاَبْنَآءِ، وَ طَهُرَ عَنْ مُّلَامَسَةِ النِّسَآءِ. لَا تَنَالُهُ الْاَوْهَامُ فَتُقَدِّرَهٗ، وَ لَا تَتَوَهَّمُهُ الْفِطَنُ فَتُصَوِّرَهٗ، وَ لَا تُدْرِكُهُ الْحَوَاسُّ فَتَحُسَّهٗ، وَ لَا تَلْمِسُهُ الْاَیْدِیْ فَتَمَسَّهٗ.

اس کی کوئی اولاد نہیں اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے، ورنہ محدود ہو کر رہ جائے گا۔ وہ آل اولاد رکھنے سے بالاتر اور عورتوں کو چھونے سے پاک ہے۔ تصوّرات اسے پا نہیں سکتے کہ اس کا اندازہ ٹھہرا لیں اور عقلیں اس کا تصور نہیں کر سکتیں کہ اس کی کوئی صورت مقرر کر لیں، حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے کہ اسے محسوس کر لیں اور ہاتھ اس سے مس نہیں ہو سکتے کہ اسے چھو لیں۔

لَا یَتَغَیَّرُ بِحَالٍ، وَ لَا یَتَبَدَّلُ فِی الْاَحْوَالِ، وَ لَا تُبْلِیْهِ اللَّیَالِیْ وَ الْاَیَّامُ، وَ لَا یُغَیِّرُهُ الضِّیَآءُ وَ الظَّلَامُ، وَ لَا یُوْصَفُ بِشَیءٍ مِّنَ الْاَجْزَآءِ، وَ لَا بِالْجَوَارِحِ وَ الْاَعْضَآءِ، وَ لَا بِعَرَضٍ مِّنَ الْاَعْرَاضِ، وَ لَا بِالْغَیْرِیَّةِ وَ الْاَبْعَاضِ. وَ لَا یُقَالُ لَهٗ حَدٌّ وَّ لَا نِهَایَةٌ، وَ لَا انْقِطَاعٌ وَّ لَا غَایَةٌ، وَ لَاۤ اَنَّ الْاَشْیَآءَ تَحْوِیْهِ فَتُقِلَّهٗ اَوْ تُهْوِیَهٗ، اَوْ اَنَّ شَیْئًا یَّحْمِلُهٗ، فَیُمِیْلَهٗ اَوْ یُعَدِّلَهٗ. لَیْسَ فِی الْاَشْیَآءِ بِوَالِجٍ، وَ لَا عَنْهَا بِخَارِجٍ.

وہ کسی حال میں بدلتا نہیں اور نہ مختلف حالتوں میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔ نہ شب و روز اسے کہنہ کرتے ہیں، نہ روشنی و تاریکی اسے متغیر کرتی ہے۔ اسے اجزا و جوارح، صفات میں سے کسی صفت اور ذات کے علاوہ کسی بھی چیز اور حصوں سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیلئے کسی حد اور اختتام اور زوال پذیری اور انتہا کو کہا نہیں جا سکتا اور نہ یہ کہ چیزیں اس پر حاوی ہیں کہ خواہ اسے بلند کریں اور خواہ پست، یا چیزیں اسے اٹھائے ہوئے ہیں کہ چاہے اسے اِدھر اُدھر موڑیں اور چاہے اسے سیدھا رکھیں۔ نہ وہ چیزوں کے اندر ہے اور نہ ان سے باہر۔

یُخْبِرُ لَا بِلِسَانٍ وَّ لَهَوَاتٍ، وَ یَسْمَعُ لَا بِخُرُوْقٍ وَّ اَدَوَاتٍ، یَقُوْلُ وَ لَا یَلْفِظُ، وَ یَحْفَظُ وَ لَا یَتَحَفَّظُ، وَ یُرِیْدُ وَ لَا یُضْمِرُ. یُحِبُّ وَ یَرْضٰی مِنْ غَیْرِ رِقَّةٍ، وَ یُبْغِضُ وَ یَغْضَبُ مِنْ غَیْرِ مَشَقَّةٍ.

وہ خبر دیتا ہے بغیر زبان اور تالو جبڑے کی حرکت کے، وہ سنتا ہے بغیر کانوں کے سوراخوں اور آلات سماعت کے، وہ بات کرتا ہے بغیر تلفظ کے، وہ ہر چیز کو یاد رکھتا ہے بغیر یاد کرنے کی زحمت کے، وہ ارادہ کرتا ہے بغیر قلب اور ضمیر کے، وہ دوست رکھتا ہے اور خوشنود ہوتا ہے بغیر رقت طبع کے، وہ دشمن رکھتا ہے اور غضبناک ہوتا ہے بغیر غم و غصہ کی تکلیف کے۔

یَقُوْلُ لِمَنْ اَرَادَ كَوْنَهٗ: ﴿كُنْ فَیَكُوْنُ۝﴾، لَا بِصَوْتٍ یَّقْرَعُ، وَ لَا بِنِدَآءٍ یُّسْمَعُ، وَ اِنَّمَا كَلَامُهٗ سُبْحَانَهٗ فِعْلٌ مِّنْهُ اَنْشَاَهُ، وَ مِثْلُهٗ لَمْ یَكُنْ مِّنْ قَبْلِ ذٰلِكَ كَآئِنًا، وَ لَوْ كَانَ قَدِیْمًا لَّكَانَ اِلٰهًا ثَانِیًا.

جسے پیدا کرنا چاہتا ہے اسے ’’ہو جا!‘‘ کہتا ہے جس سے وہ ہو جاتی ہے، بغیر کسی ایسی آواز کے جو کان (کے پردوں) سے ٹکرائے اور بغیر ایسی صدا کے جو سنی جا سکے۔ بلکہ اللہ سبحانہ کا کلام بس اس کا ایجاد کردہ فعل ہے اور اس طرح کا کلام پہلے سے موجود نہیں ہوسکتا اور اگر وہ قدیم ہوتا تو دوسرا خدا ہوتا۔

لَا یُقَالُ: كَانَ بَعْدَ اَنْ لَّمْ یَكُنْ، فَتَجْرِیَ عَلَیْهِ الصِّفَاتُ الْمُحْدَثَاتُ، وَ لَا یَكُوْنُ بَیْنَهَا وَ بَیْنَهٗ فَصْلٌ، وَ لَا لَهٗ عَلَیْهَا فَضْلٌ، فَیَسْتَوِیَ الصَّانِعُ وَ الْمَصْنُوْعُ، وَ یَتَكَافَاَ المُبْتَدَعُ وَالْبَدِیْعُ.

یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ عدم کے بعد وجود میں آیا ہے کہ اس پر حادث صفتیں منطبق ہو نے لگیں اور اس میں اور مخلوقات میں کوئی فرق نہ رہے اور نہ اسے اس پر کوئی فوقیت و برتری رہے کہ جس کے نتیجہ میں خالق و مخلوق ایک سطح پر آ جائیں اور صانع و مصنوع برابر ہو جائیں۔

خَلَقَ الْخَلَآئِقَ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ خَلَا مِنْ غَیْرِهٖ، وَ لَمْ یَسْتَعِنْ عَلٰی خَلْقِهَا بِاَحَدٍ مِّنْ خَلْقِهٖ. وَ اَنْشَاَ الْاَرْضَ فَاَمْسَكَهَا مِنْ غَیْرِ اشْتِغَالٍ، وَ اَرْسَاهَا عَلٰی غَیْرِ قَرَارٍ، وَ اَقَامَهَا بِغَیْرِ قَوَآئِمَ، وَ رَفَعَهَا بِغَیْرِ دَعَآئِمَ، وَ حَصَّنَهَا مِنَ الْاَوَدِ وَ الْاِعْوِجَاجِ، وَ مَنَعَهَا مِنَ التَّهَافُتِ وَ الْاِنْفِرَاجِ، اَرْسٰۤی اَوْتَادَهَا، وَ ضَرَبَ اَسْدَادَهَا، وَ اسْتَفَاضَ عُیُوْنَهَا، وَ خَدَّ اَوْدِیَتَهَا، فَلَمْ یَهِنْ مَا بَنَاهُ، وَ لَا ضَعُفَ مَا قَوَّاهُ.

اس نے مخلوقات کو بغیر کسی ایسے نمونہ کے پیدا کیا کہ جو اس سے پہلے کسی دوسرے نے قائم کیا ہو اور اس کے بنانے میں اس نے مخلوقات میں سے کسی ایک سے بھی مدد نہیں چاہی۔ وہ زمین کو وجود میں لایا اور بغیر اس کام میں الجھے ہوئے اسے برابر روکے تھامے رہا اور بغیر کسی چیز پر ٹکائے ہوئے اسے برقرار کر دیا اور بغیر ستونوں کے اس نے قائم اور بغیر کھمبوں کے اسے بلند کیا، کجی اور جھکاؤ سے اسے محفوظ کر دیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرنے اور پھٹنے سے اسے بچائے رہا۔ اس کے پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑا اور چٹانوں کو مضبوطی سے نصب کیا، اس کے چشموں کو جاری اور پانی کی گزر گاہوں کو شگافتہ کیا۔ اس نے جو بنایا اس میں کوئی سستی نہ آئی اور جسے مضبوط کیا اس میں کمزوری نہیں پیدا ہوئی۔

هُوَ الظّاهِرُ عَلَیْهَا بِسُلْطَانِهٖ وَ عَظَمَتِهٖ، وَ هُوَ الْبَاطِنُ لَهَا بِعِلْمِهٖ وَ مَعْرِفَتِهٖ، وَ الْعَالِیْ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ مِّنهَا بِجَلَالِهٖ وَ عِزَّتِهِ. لَا یُعْجِزُهُ شَیْءٌ مِّنْهَا طَلَبَهٗ، وَ لَا یَمْتَنِعُ عَلَیْهِ فَیَغْلِبَهٗ، وَ لَا یَفُوْتُهُ السَّرِیْعُ مِنْهَا فَیَسْبِقَهٗ، وَ لَا یَحْتَاجُ اِلٰی ذِیْ مَالٍ فَیَرْزُقَهٗ.

وہ اپنی عظمت و شاہی کے ساتھ زمین پر غالب، علم و دانائی کی بدولت اس کے اندرونی رازوں سے واقف اور اپنے جلال و عزت کے سبب سے اس کی ہر چیز پر چھایا ہوا ہے۔ وہ جس چیز کا اس سے خواہاں ہوتا ہے وہ اس کی دسترس سے باہر نہیں ہو سکتی اور نہ اس سے روگردانی کرکے اس پر غالب آسکتی ہے اور نہ کوئی تیزرَو اس کے قبضہ سے نکل سکتا ہے کہ اس سے بڑھ جائے اور نہ وہ کسی مالدار کا محتاج ہے کہ وہ اسے روزی دے۔

خَضَعَتِ الْاَشْیَآءُ لَهٗ، وَ ذَلَّتْ مُسْتَكِیْنَةً لِّعَظَمَتِهٖ، لَا تَسْتَطِیْعُ الْهَرَبَ مِنْ سُلْطَانِهٖ اِلٰی غَیْرِهٖ فَتَمْتَنِعَ مِنْ نَّفْعِهٖ وَ ضَرِّهٖ، وَ لَا كُفْؤَ لَهٗ فَیُكَافِئَهٗ، وَ لَا نَظِیْرَ لَهٗ فَیُسَاوِیَهٗ. هُوَ الْمُفْنِیْ لَهَا بَعْدَ وُجُوْدِهَا، حَتّٰی یَصِیْرَ مَوْجُوْدُهَا كَمَفْقُوْدِهَا. وَ لَیْسَ فَنَآءُ الدُّنْیَا بَعْدَ ابْتِدَاعِهَا بِاَعْجَبَ مِنْ اِنْشَآئِهَا وَ اخْتِرَاعِهَا، وَ كَیفَ وَ لَوِ اجْتَمَعَ جَمِیْعُ حَیَوَانِهَا مِنْ طَیْرِهَا وَ بَهَآئِمِهَا، وَ مَا كَانَ مِنْ مُّرَاحِهَا وَ سَآئِمِهَا، وَ اَصْنَافِ اَسْنَاخِهَا وَ اَجْنَاسِهَا، وَ مُتَبَلِّدَةِ اُمَمِهَا وَ اَكْیَاسِهَا، عَلٰۤی اِحْدَاثِ بَعُوْضَةٍ، مَا قَدَرَتْ عَلٰۤی اِحْدَاثِهَا، وَ لَا عَرَفَتْ كَیْفَ السَّبِیْلُ اِلٰی اِیْجَادِهَا، وَ لَتَحَیَّرَتْ عُقُوْلُهَا فِیْ عِلْمِ ذٰلِكَ وَ تَاهَتْ، وَ عَجَزَتْ قُوَاهَا وَ تَنَاهَتْ، وَ رَجَعَتْ خَاسِئَةً حَسِیْرَةً، عَارِفَةًۢ بِاَنَّهَا مَقْهُوْرَةٌ، مُقِرَّةًۢ بِالْعَجْزِ عَنْ اِنْشَآئِهَا، مُذْعِنَةً بِالضَّعْفِ عَنْ اِفْنَآئِهَا!.

تمام چیزیں اس کے سامنے عاجز اور اس کی بزرگی و عظمت کے آگے ذلیل و خوار ہیں۔ اس کی سلطنت (کی وسعتوں) سے نکل کر کسی اور طرف بھاگ جانے کی ہمت نہیں رکھتیں کہ اس کے جود و عطا سے (بے نیاز) اور اس کی گرفت سے اپنے کو محفوظ سمجھ لیں۔ نہ اس کا کوئی ہمسر ہے جو اس کے برابر اُتر سکے، نہ اس کا کوئی مثل و نظیر ہے جو اُس سے برابری کر سکے۔ وہی ان چیزوں کو وجود کے بعد فنا کرنے والا ہے، یہاں تک کہ موجود چیزیں ان چیزوں کی طرح ہو جائیں کہ جو کبھی تھیں ہی نہیں اور یہ دنیا کو پیدا کرنے کے بعد نیست و نابود کرنا اس کے شروع شروع وجود میں لانے سے زیادہ تعجب خیز (و دشوار) نہیں اور کیونکر ایسا ہوسکتا ہے جبکہ تمام حیوان، وہ پرندے ہوں یا چوپائے، رات کو گھروں کی طرف پلٹ کر آنے والے ہوں یا چراگاہوں میں چرنے والے، جس نوع کے بھی ہوں اور جس قسم کے ہوں وہ اور تمام آدمی، کودن و غبی صنف سے ہوں یا زیرک و ہوشیار، سب مل کر اگر ایک مچھر کو پیدا کرنا چاہیں تو وہ اس کے پیدا کرنے پر قادر نہ ہوں گے اور نہ یہ جان سکیں گے کہ اس کے پیدا کرنے کی کیا صورت ہے اور اس جاننے کے سلسلہ میں ان کی عقلیں حیران و سرگرداں اور قوتیں عاجز و درماندہ ہو جائیں گی اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ شکست خور دہ ہیں اور یہ اقرار کرتے ہوئے کہ وہ اس کی ایجاد سے درماندہ ہیں اور یہ اعتراف کرتے ہوئے کہ وہ اس کے فنا کرنے سے بھی عاجز ہیں، خستہ و نامراد ہو کر پلٹ آئیں گے۔

وَ اِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ یَعُوْدُ بَعْدَ فَنَآءِ الدُّنْیَا وَحْدَهٗ لَا شَیْءَ مَعَهٗ، كَمَا كَانَ قَبْلَ ابْتِدَآئِهَا، كَذٰلِكَ یَكُوْنُ بَعْدَ فَنَآئِهَا، بِلَا وَقْتٍ وَّ لَا مَكَانٍ، وَ لَا حِیْنٍ وَّ لَا زَمَانٍ، عُدِمَتْ عِنْدَ ذٰلِكَ الْاٰجَالُ وَ الْاَوْقَاتُ، وَ زَالَتِ السِّنُوْنَ وَ السَّاعَاتُ، فَلَا شَیْءَ اِلَّا الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ الَّذِیْ اِلَیْهِ مَصِیْرُ جَمِیْعِ الْاُمُوْرِ، بِلَا قُدْرَةٍ مِّنْهَا كَانَ ابْتِدَآءُ خَلْقِهَا، وَ بِغَیْرِ امْتِنَاعٍ مِّنْهَا كَانَ فَنَآؤُهَا، وَ لَوْ قَدَرَتْ عَلَی الْاِمْتِنَاعِ لَدَامَ بَقَآؤُهَا.

بلا شبہ اللہ سبحانہ دنیا کے مٹ مٹا جانے کے بعد ایک اکیلا ہو گا، کوئی چیز اس کے ساتھ نہ ہو گی۔ جس طرح کہ دنیا کی ایجاد و آفرینش سے پہلے تھا، یونہی اس کے فنا ہو جانے کے بعد بغیر وقت و مکان اور ہنگام و زمان کے ہو گا۔ اس وقت مدتیں اور اوقات سال اور گھڑیاں سب نابود ہوں گی سوائے اس خدائے واحد و قہار کے جس کی طرف تمام چیزوں کی باز گشت ہے، کوئی چیز باقی نہ رہے گی۔ان کی آفرینش کی ابتدا ان کے اختیار و قدرت سے باہر تھی اور ان کا فنا ہونا بھی ان کی روک ٹوک کے بغیر ہو گا۔اگر ان کو انکار پر قدرت ہوتی تو ان کی زندگی بقا سے ہمکنار ہوتی۔

لَمْ یَتَكَآءَدْهُ صُنْعُ شَیْءٍ مِّنْهَاۤ اِذْ صَنَعَهٗ، وَ لَمْ یَؤُدْهُ مِنْهَا خَلْقُ مَا خَلَقَهٗ وَ بَرَاَهٗ، وَ لَمْ یُكَوِّنْهَا لِتَشْدِیْدِ سُلْطَانٍ، وَ لَا لِخَوْفٍ مِّنْ زَوَالٍ وَ نُقْصَانٍ، وَ لَا لِلْاِسْتِعَانَةِ بِهَا عَلٰی نِدٍّ مُّكَاثِرٍ، وَ لَا لِلْاِحْتِرَازِ بِهَا مِنْ ضِدٍّ مُّثَاوِرٍ، وَ لَا لِلْاِزْدِیَادِ بِهَا فِیْ مُلْكِهٖ، وَ لَا لِمُكَاثَرَةِ شَرِیْكٍ فِیْ شِرْكِهٖ، وَ لَا لِوَحْشَةٍ كَانَتْ مِنْهُ، فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَاْنِسَ اِلَیْهَا. ثُمَّ هُوَ یُفْنِیْهَا بَعْدَ تَكْوِیْنِهَا، لَا لِسَاَمٍ دَخَلَ عَلَیْهِ فِیْ تَصْرِیْفِهَا وَ تَدْبِیْرِهَا، وَ لَا لِرَاحَةٍ وَّاصِلَةٍ اِلَیْهِ، وَ لَا لِثِقَلِ شَیْءٍ مِّنْهَا عَلَیْهِ.

جب اس نے کسی چیز کو بنایا تو اس کے بنانے میں اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئی اور نہ جس چیز کو اس نے خلق و ایجاد کیا اس کی آفرینش نے اسے خستہ و درماندہ کیا۔ اس نے اپنی سلطنت (کی بنیادوں) کو استوار کرنے اور(مملکت کے) زوال اور(عزت کے) انحطاط کے خطرات (سے بچنے ) اور کسی جمع جتھے والے حریف کے خلاف مدد حاصل کرنے اور کسی حملہ آور غنیم سے محفوظ رہنے اور ملک و سلطنت کا دائرہ بڑھانے اور کسی شریک کے مقابلہ میں اپنی کثرت پر اترانے کیلئے ان چیزوں کو پیدا نہیں کیا اور نہ اس لئے کہ اُس نے (تنہائی کی) وحشت سے(گھبرا کر) یہ چاہا ہو کہ ان چیزوں سے جی لگائے، پھر وہ ان چیزوں کو بنانے کے بعد فنا کر دے گا، اس لئے نہیں کہ ان میں ردّ و بدل کرنے اور ان کی دیکھ بھال رکھنے سے اسے دل تنگی لاحق ہوئی ہو اور نہ اس آسودگی و راحت کے خیال سے کہ جو (انہیں مٹا کر) اسے حاصل ہونے کی توقع ہو اور نہ اس وجہ سے کہ ان میں سے کسی چیز کا اس پر بوجھ ہو۔

لَا یُمِلُّهٗ طُوْلُ بَقَآئِهَا فَیَدْعُوَهٗ اِلٰی سُرْعَةِ اِفْنَآئِهَا، لٰكِنَّهٗ سُبْحَانَهٗ دَبَّرَهَا بِلُطْفِهٖ، وَ اَمسَكَهَا بِاَمْرِهٖ، وَ اَتْقَنَهَا بِقُدْرَتِهٖ. ثُمَّ یُعِیْدُهَا بَعْدَ الْفَنَآءِ مِنْ غَیْرِ حَاجَةٍ مِّنْهُ اِلَیْهَا، وَ لَا اسْتِعَانَةٍۭ بِشَیْءٍ مِّنْهَا عَلَیْهَا، وَ لَا لِانْصِرَافٍ مِّنْ حَالِ وَحْشَةٍ اِلٰی حَالِ اسْتِئْنَاسٍ، وَ لَا مِنْ حَالِ جَهْلٍ وَّ عَمًی اِلٰی حَالِ عِلْمٍ وَّ الْتِمَاسٍ، وَ لَا مِنْ فَقْرٍ وَّ حَاجَةٍ اِلٰی غِنًی وَّ كَثْرَةٍ، وَ لَا مِنْ ذُلٍّ وَّضَعَةٍ اِلٰی عِزٍّ وَ قُدْرَةٍ.

اسے ان چیزوں کی طول طویل بقا آزردہ و دل تنگ نہیں بناتی کہ یہ انہیں جلدی سے فنا کر دينے کی اسے دعوت دے، بلکہ اللہ سبحانہ نے اپنے لطف و کرم سے ان کا بندوبست کیا ہے اور اپنے فرمان سے ان کی روک تھام کر رکھی ہے اور اپنی قدرت سے ان کو مضبوط بنایا ہے۔ پھر وہ ان چیزوں کو فنا کے بعد پلٹائے گا، نہ اس لئے کہ ان میں سے کسی چیز کی اسے احتیاج ہے اور ان کی مدد کا خواہاں ہے اور نہ تنہائی کی الجھن سے منتقل ہو کر دل بستگی کی حالت پیدا کرنے کیلئے اور جہالت و بے بصیرتی کی حالت سے واقفیت اور تجربات کی دنیا میں آنے کیلئے اور فقر و احتیاج سے دولت و فراوانی اور ذلت و پستی سے عزت و توانائی کی طرف منتقل ہونے کیلئے ان کو دوبارہ پیدا کرتا ہے۔

۱؂مطلب یہ ہے کہ لفظ «مُنْذُ» ، «قَدْ» ، اور «لَوْلَا» جن معانی کیلئے وضع ہیں وہ قدیم و ازلی و کامل ہونے کے منافی ہیں، لہٰذا ان کا اشیاء سے متعلق ہونا ان کے حادث و ناقص ہونے کی دلیل ہوگا۔ وہ اس طرح کہ «مُنْذُ» ابتدائے زمانہ کی تعیین کیلئے وضع ہے، جیسے: «قَدْ وُجِدَ مُنْذُ کَذَا» : ’’یہ چیز فلاں وقت سے پائی جاتی ہے‘‘۔ اس سے وقت کی تعیین و حد بندی ہو گئی اور جس کیلئے تحدید وقت ہو سکے وہ قدیم نہیں ہو سکتی اور لفظ «قَدْ» ماضی قریب کے معنی دیتا ہے اور یہ معنی اسی میں ہو سکتے ہیں جو زمانہ میں محدود ہو اور «لَوْلَا» کی وضع «اِمْتِنَاعُ الشَّیْءِ لِوُجُوْدِ غَیْرِہٖ » کیلئے ہے، جیسے: «مَاۤ اَحْسَنَہٗ وَ اَکْمَلَہٗ لَوْلَا فِیْہِ کَذَا» : ’’یہ چیز کتنی حسین و کامل ہوتی اگر اس میں یہ بات نہ ہوتی‘‘، لہٰذا جس سے یہ متعلق ہو گا وہ حسن و کمال میں دوسرے کا محتاج اور اپنی ذات میں ناقص ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button