خطبہ (۱۸۵)
(۱٨٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۵)
تَخْتَصُّ بِذِکْرِ الْمَلَاحِمِ
یہ حوادث و فتن کے ذکر سے مخصوص ہے
اَلَا بِاَبِیْ وَ اُمِّیْ، هُمْ مِنْ عِدَّةٍ اَسْمَآؤُهُمْ فِی السَّمَآءِ مَعْرُوْفَةٌ وَّ فِی الْاَرْضِ مَجْهُوْلَةٌ. اَلَا فَتَوَقَّعُوْا مَا یَكُوْنُ مِنْ اِدْبَارِ اُمُوْرِكُمْ، وَ انْقِطَاعِ وُصَلِكُمْ، وَ اسْتِعْمَالِ صِغَارِكُمْ:
ہاں! میرے ماں باپ ان گنتی کے چند افراد پر قربان ہوں جن کے نام آسمانوں میں جانے پہچانے ہوئے اور زمین میں انجانے ہیں۔ لہٰذا اس صورت حال کے متوقع رہو کہ تمہیں مسلسل ناکامیاں ہوتی رہیں اور تمہارے تعلقات درہم برہم ہوں اور تم میں کے چھوٹے بر سر کار نظر آئیں۔
ذَاكَ حَیْثُ تَكُوْنُ ضَرْبَةُ السَّیْفِ عَلَی الْمُؤْمِنِ اَهْوَنَ مِنَ الدِّرْهَمِ مِنْ حِلِّهٖ! ذَاكَ حَیْثُ یَكُوْنُ الْمُعْطٰۤی اَعْظَمَ اَجْرًا مِّنَ الْمُعْطِیْ! ذَاكَ حَیْثُ تَسْكَرُوْنَ مِنْ غَیْرِ شَرَابٍ، بَلْ مِنَ النِّعْمَةِ وَ النَّعِیْمِ، وَ تَحْلِفُوْنَ مِنْ غَیْرِ اضْطِرَارٍ، وَ تَكْذِبُوْنَ مِنْ غیْرِ اِحْرَاجٍ، ذَاكَ اِذَا عَضَّكُمُ الْبَلَآءُ كَمَا یَعَضُّ الْقَتَبُ غَارِبَ الْبَعِیْرِ. مَاۤ اَطْوَلَ هٰذَا الْعَنَآءَ، وَ اَبْعَدَ هٰذَا الرَّجَآءَ!.
یہ وہ ہنگام ہو گا کہ جب مومن کیلئے بطریق حلال ایک درہم حاصل کرنے سے تلوار کا وار کھانا آسان ہو گا۔ وہ وہ وقت [۱] ہو گا جب لینے والے (فقیر بے نوا) کا اجر و ثواب دینے والے اغنیاء سے بڑھا ہوا ہو گا۔ یہ وہ زمانہ ہو گا کہ جب تم مست و سرشار ہو گے، شراب سے نہیں بلکہ عیش و آرام سے اور بغیر کسی مجبوری کے (بات بات پر) قسمیں کھاؤ گے اور بغیر کسی لاچاری کے جھوٹ بولو گے۔ یہ وہ وقت ہو گا کہ جب مصیبتیں تمہیں اس طرح کاٹیں گی جس طرح اونٹ کی کوہان کو پالان۔ (آہ)ان سختیوں کی مدت کتنی دراز اور اس سے (چھٹکارا پانے کی) امیدیں کتنی دور ہیں۔
اَیُّهَا النَّاسُ! اَلْقُوْا هٰذِهِ الْاَزِمَّةَ الَّتِیْ تَحْمِلُ ظُهُوْرُهَا الْاَثْقَالَ مِنْ اَیْدِیْكُمْ، وَ لَا تَصَدَّعُوْا عَلٰی سُلْطَانِكُمْ فَتَذُمُّوْا غِبَّ فِعَالِكُمْ، وَ لَا تَقْتَحِمُوْا مَا اسْتَقْبَلْتُمْ مِنْ فَوْرِ نَارِ الْفِتْنَةِ، وَ اَمِیْطُوْا عَنْ سَنَنِهَا، وَ خَلُّوْا قَصْدَ السَّبِیْلِ لَهَا: فَقَدْ لَعَمْرِیْ یَهْلِكُ فِیْ لَهَبِهَا الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْلَمُ فِیْهَا غَیْرُ الْمُسْلِمِ.
اے لوگو! ان سواروں کی باگیں اتار پھینکو کہ جن کی پشت نے تمہارے ہاتھوں گناہوں کے بوجھ اٹھائے ہیں، اپنے حاکم سے کٹ کر علیحدہ نہ ہو جاؤ، ورنہ اپنی بد اعمالیوں کے انجام میں اپنے ہی نفسوں کو برا بھلا کہو گے اور جو آتش فتنہ تمہارے آگے شعلہ ور ہے اس میں اندھا دھند کود نہ پڑو، اس کی راہ سے مڑ کر چلو اور درمیانی راہ کو اس کیلئے خالی کر دو، کیونکہ میری جان کی قسم! یہ وہ آگ ہے کہ مومن اس کی لپٹوں میں تباہ و برباد اور کافر اِس میں سالم و محفوظ رہے گا۔
اِنَّمَا مَثَلِیْ بَیْنَكُمْ مَثَلُ السِّرَاجِ فِی الظُّلْمَةِ، یَسْتَضِیْٓءُ بِهٖ مَنْ وَّلَجَهَا. فَاسْمَعَوْا اَیُّهَا النَّاسُ وَ عُوْا، وَ اَحْضِرُوْۤا اٰذَانَ قُلُوْبِكُمْ تَفْهَمُوْا.
تمہارے درمیان میری مثال ایسی ہے، جیسے اندھیرے میں چراغ کہ جو اس میں داخل ہو، وہ اس سے روشنی حاصل کرے۔ اے لوگو! سنو اور یاد رکھو اور دل کے کانوں کو (کھول کر)سامنے لاؤ، تاکہ سمجھ سکو۔
۱اس دور میں دینے والے مالدار سے، لینے والے فقیر و نادار کا اجر و ثواب اس لئے زیادہ ہو گا کہ مالدار کے اکتساب رزق کے ذرائع ناجائز و حرام ہوں گے اور وہ جو کچھ دے گا اس میں نمود و رِیا اور شہرت و نمائش مقصود ہو گی جس کی وجہ سے وہ کسی اجر کا مستحق نہ ہو گا اور غریب لے گا تو اپنی غربت و بے چارگی سے مجبور ہو کر اور اسے صحیح مصرف میں صرف کرنے سے اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔
شارح معتزلی نے اس کے ایک اور معنی بھی تحریر کئے ہیں اور وہ یہ کہ: اگر وہ مال دولتمند کے پاس رہتا اور یہ فقیر اسے نہ لیتا تو وہ حسب معمول اسے بھی حرام کاریوں اور عیش پرستیوں میں صرف کرتا اور چونکہ اس کا لے لینا بظاہر اس کے مصرفِ ناجائز میں صرف کرنے سے سد راہ ہوا ہے، لہٰذا اس برے مصرف کی روک تھام کی وجہ سے وہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا۔↑