خطبات

خطبہ (۱۹۰)

(۱٩٠) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۱۹۰)

تُسَمَّی الْقَاصِعَۃَ

اس خطبہ کا نام ’’خطبہ قاصعہ‘‘ ہے

وَ هِیَ تَتَضَمَّنُ ذَمَّ اِبْلِيْسَ لَعَنَهُ اللّٰهُ ، عَلَى اسْتِكْبَارِهٖ وَ تَرْكِهِ السُّجُوْدَ لِاٰدَمَ ؑ، وَ اَنَّهٗ اَوَّلُ مَنْ اَظْهَرَ الْعَصَبِيَّةَ وَ تَبِعَ الْحَمِيَّةَ، وَ تَحْذِيْرَ النَّاسِ مِنْ سُلُوْكِ طَرِيْقَتِهٖ:

جس میں ابلیس کی مذمت ہے، اس کے تکبر و غرور اور آدم علیہ السلام کے آگے سر بسجود نہ ہونے پر اور یہ کہ وہ پہلا فرد ہے جس نے عصبیّت کا مظاہرہ کیا اور غرور و نخوت کی راہ اختیار کی اور لوگوں کو اس کے طور طریقوں پر چلنے سے تنبیہ کی گئی ہے:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَبِسَ الْعِزَّ وَ الْكِبْرِیَآءَ، وَ اخْتَارَهُمَا لِنَفْسِهٖ دُوْنَ خَلْقِهٖ، وَ جَعَلَهُمَا حِمًی وَّ حَرَمًا عَلٰی غَیْرِهٖ، وَ اصْطَفَاهُمَا لِجَلَالِهٖ. وَ جَعَلَ اللَّعْنَةَ عَلٰی مَنْ نَّازَعَهٗ فِیْهِمَا مِنْ عِبَادِهٖ، ثُمَّ اخْتَبَرَ بِذٰلِكَ مَلٰٓئِكَتَهُ الْمُقَرَّبِیْنَ، لِیَمِیْزَ الْمُتَوَاضِعِیْنَ مِنْهُمْ مِنَ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ وَ هُوَ الْعَالِمُ بِمُضْمَرَاتِ الْقُلُوْبِ، وَ مَحْجُوْبَاتِ الْغُیُوْبِ: ﴿اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ۝ فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ۝ فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ۝ اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ؕ ﴾، اعْتَرَضَتْهُ الْحَمِیَّةُ، فَافْتَخَرَ عَلٰۤی اٰدَمَ بِخَلْقِهٖ، وَ تَعَصَّبَ عَلَیْهِ لِاَصْلِهٖ.

ہر تعریف اس اللہ کیلئے ہے جو عزت و کبریائی کی ردا اوڑھے ہوئے ہے اور جس نے ان دونوں صفتوں کو بلا شرکت غیرے اپنی ذات کیلئے مخصوص کیا ہے اور دوسروں کیلئے ممنوع و ناجائز قرار دیتے ہوئے صرف اپنے لئے انہیں منتخب کیا ہے اور اس کے بندوں میں سے جو ان صفتوں میں سے اس سے ٹکر لے اس پر لعنت کی ہے اور اسی کی رُو سے اس نے اپنے مقرب فرشتوں کا امتحان لیا تاکہ ان میں سے فروتنی کرنے والوں کو گھمنڈ کرنے والوں سے چھانٹ کر الگ کر دے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ نے باوجودیکہ وہ دل کے بھیدوں اور پردۂ غیب میں چھپی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہے فرمایا کہ: ’’میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ جب میں اس کو تیار کر لوں اور اپنی خاص روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس‘‘۔ اسے سجدہ کرنے میں عار آئی اور اپنے مادہ تخلیق کی بنا پر آدمؑ کے مقابلے میں گھمنڈ کیا اور اپنی اصل کے لحاظ سے ان کے سامنے اکڑ گیا۔

فَعَدُوُّ اللهِ اِمَامُ الْمُتَعَصِّبِیْنَ، وَ سَلَفُ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ، الَّذِیْ وَضَعَ اَسَاسَ الْعَصَبِیَّةِ، وَ نَازَعَ اللهَ رِدَآءَ الْجَبَرِیَّةِ، وَ ادَّرَعَ لِبَاسَ التَّعَزُّزِ، وَ خَلَعَ قِنَاعَ التَّذَلُّلِ.

چنانچہ یہ دشمن خدا عصبیت برتنے والوں کا سرغنہ اور سرکشوں کا پیشرو ہے کہ جس نے تعصب کی بنیاد رکھی، اللہ سے اس کی ردائے عظمت و کبریائی کو چھیننے کا تصور کیا، تکبر و سر کشی کا جامہ پہن لیا اور عجز و فروتنی کی نقاب اتار ڈالی۔

اَلَا تَرَوْنَ كَیْفَ صَغَّرَهُ اللهُ بِتَكَبُّرِهٖ، وَ وَضَعَهٗ بِتَرَفُّعِهٖ، فَجَعَلَهٗ فِی الدُّنْیَا مَدْحُوْرًا، وَ اَعَدَّ لَهٗ فِی الْاٰخِرَةِ سَعِیْرًا؟!.

پھر تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے اسے بڑے بننے کی وجہ سے کس طرح چھوٹا بنایا اور بلندی کے زعم کی وجہ سے کس طرح پستی دی۔ دنیا میں اسے راندۂ درگاہ بنایا اور آخرت میں اس کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کی۔

وَ لَوْ اَرَادَ اللهُ اَنْ یَّخْلُقَ اٰدَمَ مِنْ نُّوْرٍ یَّخْطَفُ الْاَبْصَارَ ضِیَآؤُهٗ، وَ یَبْهَرُ الْعُقُوْلَ رُوَاؤُهُ، وَ طِیْبٍ یَّاْخُذُ الْاَنْفَاسَ عَرْفُهٗ، لَفَعَلَ، وَ لَوْ فَعَلَ لَـظَلَّتْ لَهُ الْاَعْنَاقُ خَاضِعَةً، وَ لَخَفَّتِ الْبَلْوٰی فِیْهِ عَلَی الْمَلٰٓئِكَةِ. وَ لٰكِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ یَبْتَلِیْ خَلْقَهٗ بِبَعْضِ مَا یَجْهَلُوْنَ اَصْلَهُ، تَمْیِیْزًۢا بِالْاِخْتِبَارِ لَهُمْ، وَ نَفْیًا لِّلْاِسْتِكَبَارِ عَنْهُمْ، وَ اِبْعَادًا لِّلْخُیَلَآءِ مِنْهُمْ.

اور اگر اللہ چاہتا تو آدم علیہ السلام کو ایک ایسے نور سے پیدا کرتا کہ جس کی روشنی آنکھوں کو چندھیا دے اور اس کی خوشنمائی عقلوں پر چھا جائے اور ایسی خوشبو سے کہ جس کی مہک سانسوں کو جکڑ لے اور اگر ایسا کرتا تو ان کے آگے گردنیں خم ہو جاتیں اور فرشتوں کی ان کے بارے میں آزمائش ہلکی ہو جاتی، لیکن اللہ سبحانہ اپنی مخلوقات کو ایسی چیزوں سے آزماتا ہے کہ جن کى اصل و حقیقت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں تاکہ اس آزمائش کے ذریعے (اچھے اور برے افراد میں) امتیاز کر دے، ان سے نخوت و برتری کو الگ اور غرور و خود پسندی کو دور کر دے۔

فَاعْتَبِرُوْا بِمَا كَانَ مِنْ فِعْلِ اللهِ بِاِبْلِیْسَ، اِذْ اَحْبَطَ عَمَلَهُ الطَّوِیْلَ، وَ جَهْدَهُ الْجَهِیْدَ، وَ كَانَ قَدْ عَبَدَ اللهَ سِتَّةَ اٰلَافِ سَنَةٍ، لَا یُدْرٰی اَ مِنْ سِنِی الدُّنْیَاۤ اَمْ مِنْ سِنِی الْاٰخِرَةِ، عَنْ كِبْرِ سَاعَةٍ وَّاحِدَةٍ.

تمہیں چاہیے کہ اللہ نے شیطان کے ساتھ جو کیا اس سے عبرت حاصل کرو کہ اس کی طول طویل عبادتوں اور بھر پور کوششوں پر اس کے ایک گھڑی کے گھمنڈ سے پانی پھیر دیا۔ حالانکہ اس نے چھ ہزار برس تک جو پتہ نہیں دنیا کے سال تھے یا آخرت کے اس کی عبادت کی تھی۔

فَمَنْ ذَا بَعْدَ اِبْلِیْسَ یَسْلَمُ عَلَی اللهِ بِمِثْلِ مَعْصِیَتِهٖ؟ كَلَّا، مَا كَانَ اللهُ سُبْحَانَهٗ لِیُدْخِلَ الْجَنَّةَ بَشَرًۢا بِاَمْرٍ اَخْرَجَ بِهٖ مِنْهَا مَلَكًا. اِنَّ حُكْمَهٗ فِیْۤ اَهْلِ السَّمَآءِ وَ اَهْلِ الْاَرْضِ لَوَاحِدٌ، وَ مَا بَیْنَ اللهِ وَ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ خَلْقِهٖ هَوَادَةٌ فِیْۤ اِبَاحَةِ حِمًی حَرَّمَهٗ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ.

تو اَب ابلیس کے بعد کون رہ جاتا ہے جو اس جیسی معصیت کر کے اللہ کے عذاب سے محفوظ رہ سکتا ہو؟ ہرگز نہیں! یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ نے جس چیز کی وجہ سے ایک مَلک کو جنت سے نکال باہر کیا ہو اسی پر کسی بشر کو جنت میں جگہ دے۔ اس کا حکم تو اہل آسمان اور اہل زمین میں یکساں ہے۔ اللہ اور مخلوقات میں سے کسی فرد خاص کے درمیان دوستی نہیں کہ اس کو ایسے امر ممنوع کی اجازت ہو کہ جسے تمام جہان والوں کیلئے اس نے حرام کیا ہو۔

فَاحْذَرُوْا عِبَادَ اللّٰہِ! عَدُوَّ اللهِ اَنْ یُّعْدِیَكُمْ بِدَآئِهٖ، وَ اَنْ یَّسْتَفِزَّكُمْ بِنِدَآئِهٖ، وَ اَنْ یُّجْلِبَ عَلَیْكُمْ بِخَیْلِهٖ وَ رَجْلِهٖ. فَلَعَمْرِیْ لَقَدْ فَوَّقَ لَكُمْ سَهْمَ الْوَعِیْدِ، وَ اَغْرَقَ لَكُمْ بِالنَّزْعِ الشَّدِیْدِ، وَ رَمَاكُمْ مِنْ مَّكَانٍ قَرِیْبٍ، وَ قَالَ: ﴿رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ۝﴾، قَذْفًۢا بِغَیْبٍۭ بَعِیْدٍ، وَ رَجْمًۢا بِظَنٍّ غَیْرِ مُصِیْبٍ، صَدَّقَهٗ بِهِ اَبْنَآءُ الْحَمِیَّةِ، وَ اِخْوَانُ الْعَصَبِیَّةِ، وَ فُرْسَانُ الْكِبْرِ وَ الْجَاهِلِیَّةِ.

خدا کے بندو! اللہ کے دشمن سے ڈرو کہ کہیں وہ تمہیں اپنا روگ نہ لگا دے، اپنی پکار سے تمہیں بہکا نہ دے اور اپنے سوار و پیادے لے کر تم پر چڑھ نہ دوڑے۔ اس لئے کہ میری جان کی قسم!اس نے شر انگیزی کے تیر کو چلہ کمان میں جوڑ رکھا ہے اور قریب کی جگہ سے تمہیں اپنے نشانہ کی زد پر رکھ کر کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے۔ جیسا کہ اللہ نے اس کی زبانی فرمایا ہے کہ: ’’اے میرے پروردگار! چونکہ تو نے مجھے بہکا دیا ہے، اب میں بھی ان کے سامنے زمین میں گناہوں کو سج کر پیش کروں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا‘‘، حالانکہ یہ اس نے بالکل اٹکل پچو کہا تھا اور غلط گمان کی بنا پر (اندھیرے میں) تیر چلایا تھا، لیکن فرزندانِ رعونت، برادرانِ عصبیت اور شہسواران غرور و جاہلیت نے اس کی بات کو سچ کر دکھایا۔

حَتّٰۤی اِذَا انْقَادَتْ لَهُ الْجَامِحَةُ مِنْكُمْ، وَ اسْتَحْكَمَتِ الطَّمَاعِیَّةُ مِنْهُ فِیْكُمْ، فَنَجَمَتِ الْحَالُ مِنَ السِّرِّ الْخَفِیِّ اِلَی الْاَمْرِ الْجَلِیِّ، اسْتَفْحَلَ سُلْطَانُهٗ عَلَیْكُمْ، وَ دَلَفَ بِجُنُوْدِهٖ نَحْوَكُمْ، فَاَقْحَمُوْكُمْ وَلَجَاتِ الذُّلِّ، وَ اَحَلُّوْكُمْ وَرَطَاتِ الْقَتْلِ، وَ اَوْطَاُوْكُمْ اِثْخَانَ الْجِرَاحَةِ، طَعْنًا فِیْ عُیُوْنِكُمْ، وَ حَزًّا فِیْ حُلُوْقِكُمْ، وَ دَقًّا لِّمَنَاخِرِكُمْ، وَ قَصْدًا لِّمَقَاتِلِكُمْ، وَ سَوْقًۢا بِخَزَآئِمِ الْقَهْرِ اِلَی النَّارِ الْمُعَدَّةِ لَكُمْ، فَاَصْبَحَ اَعْظَمَ فِیْ دِیْنِكُمْ جَرْحًا، وَ اَوْرٰی فِیْ دُنْیَاكُمْ قَدْحًا، مِنَ الَّذِیْنَ اَصْبَحْتُمْ لَهُمْ مُنَاصِبِیْنَ، وَ عَلَیْهِمْ مُتَاَلِّبِیْنَ.

یہاں تک کہ جب تم میں سے سرکش اور منہ زور لوگ اس کے فرمانبردار ہو گئے اور تمہارے بارے میں اس کی ہوس و طمع قوی ہو گئی اور صورت حال پردۂ خفا سے نکل کر کھلم کھلا سامنے آ گئی تو اس کا پورا پورا تسلط تم پر ہو گیا اور وہ اپنے لشکر و سپاہ کو لے کر تمہاری طرف بڑھ آیا اور انہوں نے تمہیں ذلت کے غاروں میں دھکیل دیا اور قتل و خون کے بھنوروں میں لا گرایا اور گھاؤ پر گھاؤ لگا کر تمہیں کچل دیا، تمہاری آنکھوں میں نیزے گاڑ کر، تمہارے گلے کاٹ کر، تمہارے نتھنوں کو پارہ پارہ کر کے، تمہارے ایک ایک جوڑ بند کو توڑ کر اور تمہاری ناک میں غلبہ و تسلط کی نکیلیں ڈال کر تمہیں اس آگ کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے جو تمہارے لئے تیار کی گئی ہے۔ اسی طرح ان دشمنوں سے جن سے کھلم کھلا تمہاری مخالفت ہے اور جن کے مقابلے کیلئے تم فوجیں جمع کرتے ہو، زیادہ بڑھ چڑھ کر وہ تمہارے دین کو مجروح کرنے والا اور دنیا میں تمہارے لئے (فتنہ و فساد) کے شعلے بھڑکانے والا ہے۔

فَاجْعَلُوْا عَلَیْهِ حَدَّكُمْ، وَ لَهٗ جِدَّكُمْ، فَلَعَمْرُ اللهِ لَقَدْ فَخَرَ عَلٰۤی اَصْلِكُمْ، وَ وَقَعَ فِیْ حَسَبِكُمْ، وَ دَفَعَ فِیْ نَسَبِكُمْ، وَ اَجْلَبَ بِخَیْلِهٖ عَلَیْكُمْ، وَ قَصَدَ بِرَجْلِهٖ سَبِیْلَكُمْ، یَقْتَنِصُوْنَكُمْ بِكُلِّ مَكَانٍ، وَ یَضْرِبُوْنَ مِنْكُمْ كُلَّ بَنَانٍ، لَا تَمْتَنِعُوْنَ بِحِیْلَةٍ، وَ لَا تَدْفَعُوْنَ بِعَزِیْمَةٍ، فِیْ حَوْمَةِ ذُلٍّ، وَ حَلْقَةِ ضِیْقٍ، وَ عَرْصَةِ مَوْتٍ، وَ جَوْلَةِ بَلَآءٍ.

لہٰذا تمہیں لازم ہے کہ اپنے جوش و غضب کا پورا مرکز اسے قرار دو اور پوری کوشش اس کے خلاف صرف کرو، کیونکہ اس نے شروع ہی میں تمہاری اصل (آدمؑ) پر فخر کیا، تمہارے حسب (قدر و منزلت) پر حرف رکھا، تمہارے نسب (اصل و طینت )پر طعن کیا اور اپنے سواروں کو لے کر تم پر یورش کی اور اپنے پیادوں کو لے کر تمہارے راستہ کا قصد کیا ہے۔ وہ ہر جگہ سے تمہیں شکار کرتے ہیں اور تمہاری (انگلی کی) ایک ایک پور پر چوٹیں لگاتے ہیں۔ نہ کسی حیلہ و تدبیر سے تم اپنا بچاؤ اور نہ پورا تہیہ کر کے اس کی روک تھام کر سکتے ہو، درآنحالیکہ تم رسوائی کے بھنور، تنگی و ضیق کے دائرہ، موت کے میدان اور مصیبت و بلا کی جولانگاہ میں ہو۔

فَاَطْفِئُوْا مَا كَمَنَ فِیْ قُلُوْبِكُمْ مِنْ نِّیْرَانِ الْعَصَبِیَّةِ، وَ اَحْقَادِ الْجَاهِلِیَّةِ، فَاِنَّمَا تِلْكَ الْحَمِیَّةُ تَكُوْنُ فِی الْمُسْلِمِ مِنْ خَطَرَاتِ الشَّیْطٰنِ وَ نَخَوَاتِهٖ، وَ نَزَغَاتِهٖ وَ نَفَثَاتِهٖ.

تمہیں لازم ہے کہ اپنے دلوں میں چھپی ہوئی عصبیت کی آگ اور جاہلیت کے کینوں کو فرو کرو۔ کیونکہ مسلمان میں یہ غرور اور خود پسندی، شیطان کی وسوسہ اندازی، نخوت پسندی،فتنہ انگیزی اور فسوں کاری ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔

وَ اعْتَمِدُوْا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلٰی رُؤُوْسِكُمْ، وَ اِلْقَآءَ التَّعَزُّزِ تَحَتْ اَقْدَامِكُمْ، وَ خَلْعَ التَّكَبُّرِ مِنْ اَعْنَاقِكُمْ. وَ اتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ مَسْلَحَةًۢ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ عَدُوِّكُمْ اِبْلِیْسَ وَ جُنُوْدِهٖ، فَاِنَّ لَهٗ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ جُنُوْدًا وّاَعْوَانًا، وَ رَجْلًا وَّ فُرْسَانًا، وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالْمُتَكَبِّرِ عَلَی ابْنِ اُمِّهٖ مِنْ غَیْرِ مَا فَضْلٍ جَعَلَهُ اللهُ فِیْهِ سِوٰی مَاۤ اَلْحَقَتِ الْعَظَمَةُ بِنَفْسِهٖ مِنْ عَدَاوَةِ الْحَسَدِ، وَ قَدَحَتِ الْحَمِیَّةُ فِیْ قَلْبِهٖ مِنْ نَّارِ الْغَضَبِ، وَ نَفَخَ الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اَنْفِهٖ مِنْ رِّیْحِ الْكِبْرِ الَّذِیْۤ اَعْقَبَهُ اللهُ بِهِ النَّدَامَةَ، وَ اَلْزَمَهٗ اٰثَامَ الْقَاتِلِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ.

عجز و فروتنی کو سر کا تاج بنانے، کبر و خود بینی کو پیروں تلے روندنے اور تکبر و رعونت کا طوق گردن سے اتارنے کا عزم بالجزم کر لو۔ اپنے اور اپنے دشمن شیطان اور اس کی سپاہ کے درمیان تواضع و فروتنی کا مورچہ قائم کرو، کیونکہ ہر جماعت میں اس کے لشکر، یار و مددگار اور سوار و پیادے موجود ہیں۔ تم اس کی طرح نہ بنو کہ جس نے اپنے ماں جائے بھائی کے مقابلے میں غرور کیا، بغیر کسی فضیلت و بلندی کے کہ جو اللہ نے اس میں قرار دی ہو، سوا اس کے کہ حاسدانہ عداوت سے اس میں اپنی بڑائی کا احساس پیدا ہوا اور خود پسندی نے اس کے دل میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکا دی اور شیطان نے اس کی ناک میں کبر و غرور کی ہوا پھونک دی کہ جس کی وجہ سے اللہ نے ندامت و پشیمانی کو اس کے پیچھے لگا دیا اور قیامت تک کے قاتلوں کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دیے۔

اَلَا وَ قَدْ اَمْعَنْتُمْ فِی الْبَغْیِ، وَ اَفْسَدْتُّمْ فِی الْاَرْضِ، مُصَارَحَةً لِّـلّٰهِ بِالْمُنَاصَبَةِ، وَ مُبَارَزَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ بِالْمُحَارَبَةِ. فَاللهَ اللهَ فِیْ كِبْرِ الْحَمِیَّةِ، وَ فَخْرِ الْجَاهِلِیَّةِ! فَاِنَّهٗ مَلَاقِحُ الشَّنَاٰنِ، وَ مَنَافِخُ الشَّیْطٰنِ، الَّتِیْ خَدَعَ بِهَا الْاُمَمَ الْمَاضِیَةَ، وَ الْقُرُوْنَ الْخَالِیَةَ، حَتّٰۤی اَعْنَقُوْا فِیْ حَنَادِسِ جَهَالَتِهٖ، وَ مهَاوِیْ ضَلَالَتِهٖ، ذُلُلًا عَنْ سِیَاقِهٖ، سُلُسًا فِیْ قِیَادِهٖ، اَمْرًا تَشَابَهَتِ الْقُلُوْبُ فِیْهِ، وَ تَتَابَعَتِ الْقُرُوْنُ عَلَیْهِ، وَ كِبْرًا تَضَایَقَتِ الصُّدُوْرُ بِهٖ.

دیکھو! تم نے اللہ سے کھلم کھلا دشمنی پر اتر کر اور مومنین سے آمادۂ پیکار ہو کر ظلم و تعدی کی انتہا کر دی اور زمین میں فساد مچا دیا۔ تم زمانہ جاہلیت والی خود بینی کی بنا پر فخر و غرور کرنے سے اللہ کا خوف کھاؤ، کیونکہ یہ دشمنی و عناد کا سر چشمہ اور شیطان کی فسوں کاری کا مرکز ہے، جس سے اس نے گزشتہ اُمتوں اور پہلی قوموں کو ورغلایا۔ یہاں تک کہ وہ اس کے دھکیلنے اور آگے سے کھینچنے پر بے چون و چرا جہالت کی اندھیاریوں اور ضلالت کے گڑھوں میں تیزی سے جا پڑیں۔ ایسی صورت سے جس میں ایسے لوگوں کے تمام دل ملتے جلتے ہوئے ہیں اور صدیوں کا حال ایک ہی سا رہا ہے اور ایسا غرور جس کے چھپانے سے سینوں کی وسعتیں تنگ ہوتی ہیں۔

اَلَا فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ مِنْ طَاعَةِ سَادَاتِكُمْ وَ كُبَرَآئِكُمْ! الَّذِیْنَ تَكَبَّرُوْا عَنْ حَسَبِهِمْ، وَ تَرَفَّعُوْا فَوْقَ نَسَبِهِمْ، وَ اَلْقَوُا الْهَجِیْنَةَ عَلٰی رَبِّهِمْ، وَ جَاحَدُوا اللهَ مَا صَنَعَ بِهِمْ، مُكَابَرَةً لِّقَضَآئِهٖ، وَ مُغَالَبَةً لِّاٰلَآئِهٖ، فَاِنَّهُمْ قَوَاعِدُ اَسَاسِ الْعَصَبِیَّةِ، وَ دَعَآئِمُ اَرْكَانِ الْفِتْنَةِ، وَ سُیُوْفُ اعْتِزَآءِ الْجَاهِلِیَّةِ.

دیکھو! اپنے ان سرداروں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈرو کہ جو اپنی جاہ وحشمت پر اکڑتے اور اپنے نسب کی بلندیوں پر غرہ کرتے ہوں اور بدنما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیتے ہوں اور اس کی قضا و قدر سے ٹکر لینے اور اس کی نعمتوں پر غلبہ پانے کیلئے اس کے احسانات سے یکسر انکار کر دیتے ہوں۔ یہی لوگ تو عصبیت کی عمارت کی گہری بنیاد، فتنہ کے کاخ و ایوان کے ستون اور جاہلیت کے نسبی تفاخر کی تلواریں ہیں۔

فَاتَّقُوا اللهَ وَ لَا تَكُوْنُوْا لِنِعَمِهٖ عَلَیْكُمْ اَضْدَادًا، وَ لَا لِفَضْلِهٖ عِنْدَكُمْ حُسَّادًا، وَ لَا تُطِیْعُوا الْاَدْعِیَآءَ الَّذِیْنَ شَرِبْتُمْ بِصَفْوِكُمْ كَدَرَهُمْ، وَ خَلَطْتُمْ بِصِحَّتِكُمْ مَرَضَهُمْ، وَ اَدْخَلْتُمْ فِیْ حَقِّكُمْ بَاطِلَهُمْ، وَ هُمْ اَسَاسُ الْفُسُوْقِ، وَ اَحْلَاسُ الْعُقُوْقِ، اتَّخَذَهُمْ اِبْلِیْسُ مَطَایَا ضَلَالٍ، وَ جُنْدًۢا بِهِمْ یَصُوْلُ عَلَی النَّاسِ، وَ تَرَاجِمَةً یَّنْطِقُ عَلٰۤی اَلْسِنَتِهِمْ، اسْتِرَاقًا لِّعُقُوْلِكُمْ، وَ دُخُوْلًا فِیْ عُیُوْنِكُمْ، وَ نَفْثًا فِیْۤ اَسْمَاعِكُمْ، فَجَعَلَكُمْ مَرْمٰی نَبْلِهٖ، وَ مَوْطِئَ قَدَمِهٖ، وَ مَاْخَذَ یَدِهٖ.

لہٰذا اللہ سے ڈرو اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کے دشمن نہ بنو اور نہ اس کے فضل و کرم کے جو تم پر ہے حاسد بنو [۱] اور اُن جھوٹے مدعیانِ اسلام کی پیروی نہ کرو کہ جن کا گدلا پانی تم اپنے صاف پانی میں سمو کر پیتے ہو اور اپنی درستگی کے ساتھ ان کی خرابیوں کو خلط ملط کر لیتے ہو اور اپنے حق میں ان کے باطل کیلئے بھی راہ پیدا کر دیتے ہو۔ وہ فسق و فجور کی بنیاد ہیں اور نافرمانیوں کے ساتھ چسپیدہ ہیں، جنہیں شیطان نے گمراہی کی بار بردار سواری قرار دے رکھا ہے اور ایسا لشکر جس کو ساتھ لے کر لوگوں پر حملہ کرتا ہے اور ایسے ترجمان کہ جن کی زبان سے وہ گویا ہوتا ہے، تاکہ تمہاری عقلیں چھین لے، تمہاری آنکھوں میں گھس جائے اور تمہارے کانوں میں پھونک دے۔ اس طرح اس نے تمہیں اپنے تیروں کا ہدف، اپنے قدموں کی جولانگاہ اور اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنا لیا ہے۔

فَاعْتَبِرُوْا بِمَاۤ اَصَابَ الْاُمَمَ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ مِنْۢ بَاْسِ اللهِ وَ صَوْلَاتِهٖ، وَ وَقَآئِعِهٖ وَ مَثُلَاتِهٖ، وَ اتَّعِظُوْا بِمَثَاوِیْ خُدُوْدِهِمْ، وَ مَصَارِعِ جُنُوْبِهِمْ، وَ اسْتَعِیْذُوْا بِاللهِ مِنْ لَّوَاقِحِ الْكِبْرِ، كَمَا تَسْتَعِیْذُوْنَهٗ مِنْ طَوَارِقِ الدَّهْرِ.

تمہیں لازم ہے کہ تم سے قبل سرکش اُمتوں پر جو قہر و عذاب اور عتاب و عقاب نازل ہوا، اس سے عبرت لو اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے اور پہلوؤں کے بل گرنے کے مقامات سے نصیحت حاصل کرو اور جس طرح زمانہ کی مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو اسی طرح مغرور و سرکش بنانے والی چیزوں سے اللہ کے دامن میں پناہ مانگو۔

فَلَوْ رَخَّصَ اللهُ فِی الْكِبْرِ لِاَحَدٍ مِّنْ عِبَادِهٖ لَرَخَّصَ فِیْهِ لِخَاصَّةِ اَنْۢبِیَآئِهٖ وَ اَوْلِیَآئِهٖ، وَ لٰكِنَّهٗ سُبْحَانَهٗ كَرَّهَ اِلَیْهِمُ التَّكَابُرَ، وَ رَضِیَ لَهُمُ التَّوَاضُعَ، فَاَلْصَقُوْا بِالْاَرْضِ خُدُوْدَهُمْ، وَ عَفَّرُوْا فِی التُّرَابِ وُجُوْهَهُمْ، وَ خَفَضُوْۤا اَجْنِحَتَهُمْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ، وَ كَانُوْا اَقْوَامًا مُّسْتَضْعَفِیْنَ، قَدِ اخْتَبَرَهُمُ اللهُ بِالْمَخْمَصَةِ، وَ ابْتَلَاهُمْ بِالْمَجْهَدَةِ، وَ امْتَحَنَهُمْ بِالْمَخَاوِفِ، وَ مَخَضَهُمْ بِالْمَكَارِهٖ.

اگر خداوند عالم اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو بھی کبر و رعونت کی اجازت دے سکتا ہوتا تو وہ اپنے مخصوص انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کو اس کی اجازت دیتا، لیکن اس نے ان کو کبر و غرور سے بیزار ہی رکھا اور ان کیلئے عجز و مسکنت ہی کو پسند فرمایا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے رخسارے زمین سے پیوستہ اور چہرے خاک آلودہ رکھے اور مومنین کے آگے تواضع و انکسار سے جھکتے رہے اور وہ دنیا میں کمزور و بے بس تھے، جنہیں اللہ نے بھوک سے آزمایا، تعب و مشقت میں مبتلا کیا، خوف و خطر کے موقعوں سے ان کا امتحان لیا اور ابتلا و مصیبت سے انہیں تہ و بالا کیا۔

فَلَا تَعْتَبِرُوا الرِّضٰی وَ السُّخْطَ بِالْمَالِ وَ الْوَلَدِ جَهْلًۢا بِمَوَاقِعِ الْفِتْنَةِ، وَ الْاِخْتِبَارِ فِیْ مَوَاضِعِ الْغِنٰی وَ الْاِقْتِدَارِ، فَقَدْ قَالَ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰی: ﴿اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّ بَنِیْنَۙ۝ نُسَارِعُ لَهُمْ فِی الْخَیْرٰتِ ؕ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۝﴾.

لہٰذا خدا کی خوشنودی و ناخوشنودی کا معیار اولادو مال کو قرار نہ دو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اللہ دولت اور اقتدار سے بھی کس کس طرح بندوں کا امتحان لیتا ہے۔ چنانچہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: ’’وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد سے انہیں سہارا دیتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں سرگرم ہیں مگر (جو اصل واقعہ ہے اسے) یہ لوگ سمجھتے نہیں‘‘۔

فَاِنَّ اللهَ سْبْحَانَهٗ یَخْتَبِرُ عِبَادَهُ الْمُسْتَكْبِرِیْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ بِاَوْلِیَآئِهِ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ. وَلَقَدْ دَخَلَ مُوْسَی بْنُ عِمْرَانَ وَ مَعَهٗ اَخُوْهُ هَارُوْنُ -عَلَیْهِمَا السَّلَامُ- عَلٰی فِرْعَوْنَ، وَ عَلَیْهِمَا مَدَارِعُ الصُّوْفِ، وَ بِاَیْدِیْهِمَا الْعِصِیُّ، فَشَرَطَا لَهٗ ـ اِنْ اَسْلَمَ ـ بَقَآءَ مُلْكِهٖ، وَ دَوَامَ عِزِّهٖ، فَقَالَ: اَلَا تَعْجَبُوْنَ مِنْ هٰذَیْنِ یَشْرِطَانِ لِیْ دَوَامَ الْعِزِّ، وَ بَقَآءَ الْمُلْكِ، وَ هُمَا بِمَا تَرَوْنَ مِنْ حَالِ الْفَقْرِ وَ الذُّلِّ، فَهَلَّاۤ اُلْقِیَ عَلَیْهِمَاۤ اَسَاوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ؟ اِعْظَامًا لِّلذَّهَبِ وَ جَمْعِهٖ، وَ احْتِقَارًا لِّلصُّوْفِ وَ لُبْسِهٖ!.

اسی طرح واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے ان بندوں کا جو بجائے خود اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے ہیں امتحان لیتا ہے، اپنے ان دوستوں کے ذریعہ سے جو ان کی نظروں میں عاجز و بے بس ہیں۔ (چنانچہ اس کی مثال یہ ہے کہ) موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو ساتھ لے کر اس حالت میں فرعون کے پاس آئے کہ ان کے جسم پر اونی کُرتے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں اور اس سے یہ قول و قرار کیا کہ اگر وہ اسلام قبول کرلے تو اس کا ملک بھی باقی رہے گا اور اس کی عزت بھی برقرار رہے گی، تو اس نے (اپنے حاشیہ نشینوں سے) کہا کہ: تمہیں ان پر تعجب نہیں ہوتا کہ یہ دونوں مجھ سے یہ معاملہ ٹھہرا رہے ہیں کہ میری عزت بھی برقرار رہے گی اور میرا ملک بھی باقی رہے گا اور جس پھٹے حال اور ذلیل صورت میں یہ ہیں تم دیکھ ہی رہے ہو، (اگر ان میں اتنا ہی دم خم تھا تو پھر) ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے۔ یہ اس لئے کہ وہ سونے کو اور اس کی جمع آوری کو بڑی چیز سمجھتا تھا اور بالوں کے کپڑوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔

وَ لَوْ اَرَادَ اللهُ سُبْحَانَهٗ لِاَنْۢبِیَآئِهٖ حَیْثُ بَعَثَهُمْ اَنْ یَّفْتَحَ لَهُمْ كُنُوْزَ الْذِّهْبَانِ، وَ مَعَادِنَ الْعِقْیَانِ، وَ مَغَارِسَ الْجِنَانِ، وَ اَنْ یَّحْشُرَ مَعَهُمْ طُیُوْرَ السَّمَآءِ وَ وُحُوْشَ الْاَرْضِ لَفَعَلَ، وَ لَوْ فَعَلَ لَسَقَطَ الْبَلَآءُ، وَ بَطَلَ الْجَزَآءُ، وَ اضْمَحَلَّتِ الْاَنْۢبَآءُ، وَ لَمَا وَجَبَ لِلْقَابِلِیْنَ اُجُوْرُ الْمُبْتَلِیْنَ، وَ لَا اسْتَحَقَّ الْمُؤمِنُوْنَ ثَوَابَ الْمُحْسِنِیْنَ، وَ لَا لَزِمَتِ الْاَسْمَآءُ مَعَانِیَهَا، وَ لٰكِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ جَعَلَ رُسُلَهٗ اُولِیْ قُوَّةٍ فِیْ عَزَآئِمِهِمْ، وَ ضَعَفَةً فِیْمَا تَرَی الْاَعْیُنُ مِنْ حَالَاتِهِمْ، مَعَ قَنَاعَةٍ تَمْلَاُ الْقُلُوْبَ وَ الْعُیُوْنَ غِنًی، وَ خَصَاصَةٍ تَمْلَاُ الْاَبْصَارَ وَ الْاَسْمَاعَ اَذًی.

اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ جس وقت اس نے نبیوں کو مبعوث کیا تو ان کیلئے سونے کے خزانوں اور خالص طلا کی کانوں کے منہ کھول دیتا اور باغوں کی کشت زاروں کو ان کیلئے مہیا کر دیتا اور فضا کے پرندوں اور زمین کے صحرائی جانوروں کو ان کے ہمراہ کر دیتا تو کر سکتا تھا اور اگر ایسا کرتا تو پھر آزمائش ختم، جزا و سزا بیکار اور (آسمانی)خبریں اَکارت ہو جاتیں اور آزمائش میں پڑنے والوں کا اجر اس طرح کے ماننے والوں کیلئے ضروری نہ رہتا اور نہ ایسے ایمان لانے والے [۲] نیک کرداروں کی جزا کے مستحق رہتے او رنہ الفاظ اپنے معنی کا ساتھ دیتے، لیکن اللہ سبحانہ اپنے رسولوں کو ارادوں میں قوی اور آنکھوں کو دکھائی دینے والی ظاہری حالت میں کمزور و ناتواں قرار دیتا ہے اور انہیں ایسی قناعت سے سرفراز کرتا ہے جو (دیکھنے اور سننے والوں کے) دلوں اور آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہے اور ایسا افلاس ان کے دامن سے وابستہ کر دیتا ہے کہ جس سے آنکھوں کو دیکھ کر اور کانوں کو سن کر اذیت ہوتی ہے۔

وَ لَوْ كَانَتِ الْاَنْۢبِیَآءُ اَهْلَ قُوَّةٍ لَّا تُرَامُ، وَ عِزَّةٍ لَّا تُضَامُ، وَ مُلْكٍ تَمْتَدُّ نَحْوَهٗ اَعْنَاقُ الرِّجَالِ، وَ تُشَدُّ اِلَیْهِ عُقَدُ الرِّحَالِ، لَكَانَ ذٰلِكَ اَهْوَنَ عَلَی الْخَلْقِ فِی الِاعْتِبَارِ، وَ اَبْعَدَ لَهُمْ فِی الْاِسْتَكْبَارِ، وَ لَاٰمَنُوْا عَنْ رَّهْبَةٍ قَاهِرَةٍ لَّهُمْ، اَوْ رَغْبَةٍ مَّآئِلَةٍۭ بِهِمْ، فَكَانَتِ النِّیَّاتُ مُشْتَرَكَةً، وَ الْحَسَنَاتُ مُقْتَسَمَةً.

اگر انبیاء علیہم السلام ایسی قوت و طاقت رکھتے کہ جسے دبانے کا قصد و ارادہ بھی نہ ہو سکتا ہوتا اور ایسا تسلط و اقتدار رکھتے کہ جس پر تعدی ممکن ہی نہ ہوتی اور ایسی سلطنت کے مالک ہو تے کہ جس کی طرف لوگوں کی گردنیں مڑتیں اور اس کے رخ پر سواریوں کے پالان کسے جاتے تو یہ چیز نصیحت پذیری کیلئے بڑی آسان اور اس سے انکار و سرتابی بہت بعید ہوتی اور لوگ چھائے ہوئے خوف یا مائل کرنے والے اسباب رغبت کی بنا پر ایمان لے آتے تو اس صورت میں ان کی نیتیں مشترک اور نیک عمل بٹے ہوئے ہوتے۔

وَ لٰكِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗۤ اَرَادَ اَنْ یَّكُوْنَ الْاِتِّبَاعُ لِرُسُلِهٖ، وَ التَّصْدِیْقُ بِكُتُبِهٖ، وَ الْخُشُوْعُ لِوَجْهِهٖ، وَ الْاِسْتِكَانَةُ لِاَمْرِهٖ، وَ الْاِسْتِسْلَامُ لِطَاعَتِهٖ، اُمُوْرًا لَّهٗ خَاصَّةً، لَا تَشُوْبُهَا مِنْ غَیْرِهَا شَآئِبَةٌ، وَ كُلَّمَا كَانَتِ الْبَلْوٰی وَ الْاِخْتِبَارُ اَعْظَمَ كَانَتِ الْمَثُوْبَةُ وَ الْجَزَآءُ اَجْزَلَ.

لیکن اللہ سبحانہ نے تو یہ چاہا کہ اس کے پیغمبروں کا اتباع، اس کی کتابوں کی تصدیق، اس کے سامنے فروتنی، اس کے احکام کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت، یہ سب چیزیں اسی کیلئے مخصوص ہوں اور ان میں کوئی دوسرا شائبہ تک نہ ہو اور جتنی آزمائش کڑی ہو گی اتنا ہی اجر و ثواب زیادہ ہو گا۔

اَلَا تَرَوْنَ اَنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ، اخْتَبَرَ الْاَوَّلِیْنَ مِنْ لَّدُنْ اٰدَمَ صَلَوَاتُ اللهِ عَلَیْهِ، اِلَی الْاٰخِرِیْنَ مِنْ هٰذَا الْعَالَمِ، بِاَحْجَارٍ لَّا تَضُرُّ وَ لَا تَنْفَعُ، وَ لَا تُبْصِرُ وَ لَا تَسْمَعُ، فَجَعَلَهَا بَیْتَهُ الْحَرَامَ الَّذِیْ جَعَلَهٗ لِلنَّاسِ قِیَامًا. ثُمَّ وَضَعَهٗ بِاَوْعَرِ بِقَاعِ الْاَرْضِ حَجَرًا، وَ اَقَلِّ نَتَآئِقِ الدُّنْیَا مَدَرًا، وَ اَضْیَقِ بُطُوْنِ الْاَوْدِیَةِ قُطْرًا، بَیْنَ جِبَالٍ خَشِنَةٍ، وَ رِمَالٍ دَمِثَةٍ، وَ عُیُوْنٍ وَّشِلَةٍ، وَ قُرًی مُّنْقَطِعَةٍ، لَا یَزْكُوْ بِهَا خُفٌّ وَّ لَا حَافِرٌ وَّ لَا ظِلْفٌ.

تم دیکھتے نہیں کہ اللہ سبحانہ نے آدم علیہ السلام سے لے کر اس جہان کے آخر تک کے اگلے پچھلوں کو ایسے پتھروں سے آزمایا ہے کہ جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ، نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس نے ان پتھروں ہی کو اپنا محترم گھر قرار دیا کہ جسے لوگوں کیلئے (امن کے) قیام کا ذریعہ ٹھہرایا ہے۔ پھر یہ کہ اس نے اسے زمین کے رقبوں میں سے ایک سنگلاخ رقبہ اور دنیا میں بلندی پر واقع ہونے والی آبادیوں میں سے ایک کم مٹی والے مقام اور گھاٹیوں میں سے ایک تنگ اطراف والی گھاٹی میں قرار دیا، کھرے اور کھردرے پہاڑوں، نرم رتیلے میدانوں، کم آب چشموں اور متفرق دیہاتوں کے درمیان کہ جہاں اونٹ، گھوڑا اور گائے بکری نشو و نما نہیں پا سکتے۔

ثُمَّ اَمَرَ اٰدَمَ ؑ وَ وَلَدَهٗۤ اَنْ یَّثْنُوْۤا اَعْطَافَهُمْ نَحْوَهٗ، فَصَارَ مَثَابَةً لِّمُنْتَجَعِ اَسْفَارِهِمْ، وَ غَایَةً لِّمُلْقٰی رِحَالِهِمْ، تَهْوِیْۤ اِلَیْهِ ثِمَارُ الْاَفْئِدَةِ مِنْ مَّفَاوِزِ قِفَارٍ سَحِیْقَةٍ، وَ مَهَاوِیْ فِجَاجٍ عَمِیْقَةٍ، وَ جَزَآئِرِ بِحَارٍ مُّنْقَطِعَةٍ، حَتّٰی یَهُزُّوْا مَنَاكِبَهُمْ ذُلُلًا یُّهَلِّلُوْنَ لِلّٰهِ حَوْلَهٗ، وَ یَرْمُلُوْنَ عَلٰۤی اَقْدَامِهِمْ شُعْثًا غُبْرًا لَّهٗ. قَدْ نَبَذُوا السَّرَابِیْلَ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ، وَ شَوَّهُوْا بِاِعْفَآءِ الشُّعُوْرِ مَحَاسِنَ خَلْقِهِمُ، ابْتِلَآءً عَظِیْمًا، وَ امْتِحَانًا شَدِیْدًا، وَ اخْتِبَارًا مُّبِیْنًا، وَ تَمْحِیْصًۢا بَلِیْغًا، جَعَلَهُ اللهُ سَبَبًا لِّرَحْمَتِهٖ، وَ وُصْلَةً اِلٰی جَنَّتِهٖ.

پھر بھی اس نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو حکم دیا کہ اپنے رخ اس کی طرف موڑیں۔ چنانچہ وہ ان کے سفروں سے فائدہ اٹھانے کا مرکز اور پالانوں کے اترنے کی منزل بن گیا کہ دور افتادہ بے آب و گیاه بیابانوں، دور و دراز گھاٹیوں کے نشیبی راہوں اور (زمین سے) کٹے ہوئے دریاؤں کے جزیروں سے نفوس انسانی ادھر متوجہ ہوتے ہیں، یہاں تک کہ وہ پوری فرمانبرداری سے اپنے کندھوں کو ہلاتے ہوئے اس کے گرد لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ کی آوازیں بلند کرتے ہیں اور اپنے پیروں سے پویا دوڑ لگاتے ہیں، اس حالت میں کہ ان کے بال بکھرے ہوئے اور بدن خاک میں اَٹے ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنا لباس پشت پر ڈال دیا ہوتا ہے اور بالوں کو بڑھا کر اپنے کو بدصورت بنا لیا ہوتا ہے۔ یہ بڑی ابتلا، کڑی آزمائش، کھلم کھلا امتحان اور پوری پوری جانچ ہے۔ اللہ نے اسے اپنی رحمت کا ذریعہ اور جنت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔

وَ لَوْ اَرَادَ سُبْحَانَهٗ اَنْ یَّضَعَ بَیْتَهُ الْحَرَامَ، وَ مَشَاعِرَهُ الْعِظَامَ، بَیْنَ جَنَّاتٍ وَّ اَنْهَارٍ، وَ سَهْلٍ وَّ قَرَارٍ، جَمِّ الْاَشْجَارِ، دَانِی الثِّمَارِ، مُلْتَفِّ الْبُنٰی، مُتَّصِلِ الْقُرٰی، بَیْنَ بُرَّةٍ سَمْرَآءَ، وَ رَوْضَةٍ خَضْرَآءَ، وَ اَرْیَافٍ مُّحْدِقَةٍ، وَ عِرَاصٍ مُّغْدِقَةٍ، وَ زُرُوْعٍ نَّاضِرَةٍ، وَ طُرُقٍ عَامِرَةٍ، لَكَانَ قَدْ صَغُرَ قَدْرُ الْجَزَآءِ عَلٰی حَسَبِ ضَعْفِ الْبَلَاءِ.

اور اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ وہ اپنا محترم گھر اور بلند پایہ عبادت گاہیں ایسی جگہ پر بنائے کہ جس کے گرد باغ و چمن کی قطاریں اور بہتی ہوئی نہریں ہوں، زمین نرم و ہموار ہو کہ (جس میں) درختوں کے جھنڈ اور (ان میں) جھکے ہوئے پھلوں کے خوشے ہوں، جہاں عمارتوں کا جال بچھا ہوا اور آبادیوں کا سلسلہ ملا ہوا ہو، جہاں سرخی مائل گیہوں کے پودے، سر سبز مرغزار، چمن درکنار، سبزہ زار، پانی میں شرابور میدان، لہلہاتے ہوئے کھیت اور آباد گزرگاہیں ہوں تو البتہ وہ جزا و ثواب کو اسی اندازہ سے کم کر دیتا ہے کہ جس اندازہ سے ابتلا و آزمائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔

وَ لَوْ كَانَ الْاِسَاسُ الْمَحْمُوْلُ عَلَیْهَا، وَ الْاَحْجَارُ الْمَرْفُوْعُ بِهَا، بَیْنَ زُمُرُّدَةٍِ خَضْرَآءَ، وَ یَاقُوْتَةٍ حَمْرَآءَ، وَ نُوْرٍ وَّ ضِیَآءٍ، لَخَفَّفَ ذٰلِكَ مُصَارَعَةَ الشَّكِّ فِی الصُّدُوْرِ، وَ لَوَضَعَ مُجَاهَدَةَ اِبْلِیْسَ عَنِ الْقُلُوْبِ، وَ لَـنَفٰی مُعْتَلِجَ الرَّیْبِ مِنَ النَّاسِ. وَ لٰكِنَّ اللهَ یَخْتَبِرُ عِبَادَهٗ بِاَنْوَاعِ الشَّدَآئِدِ، وَ یَتَعَبَّدُهُمْ بِاَنْوَاعِ الْمَجَاهِدِ، وَ یَبْتَلِیْهِمْ بِضُرُوْبِ الْمَكَارِهٖ، اِخْرَاجًا لِّلتَّكَبُّرِ مِنْ قُلُوْبِهِمْ، وَ اِسْكَانًا لِّلتَّذَلُّلِ فِیْ نُفُوْسِهمْ، وَ لِیَجْعَلَ ذٰلِكَ اَبْوَابًا فُتُحًا اِلٰی فَضْلِهٖ، وَ اَسْبَابًا ذُلُلًا لِّعَفْوِهٖ.

اگر وہ بنیاد کہ جس پر اس گھر کی تعمیر ہوئی ہے اور وہ پتھر کہ جس پراس کی عمارت اٹھائی گئی ہے، زمرد سبز و یاقوت سرخ کے ہوتے اور (ان میں) نور و ضیاء ( کی تابانی) ہوتی تو یہ چیز سینوں میں شک و شبہات کے ٹکراؤ کو کم کر دیتی اور دلوں سے شیطان کی دوڑ دھوپ (کا اثر) مٹا دیتی اور لوگوں سے شکوک کے خلجان دور کر دیتی، لیکن اللہ سبحانہ اپنے بندوں کو گو ناگوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے کہ جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہو اور انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت و غرور کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے اور یہ کہ اس ابتلا و آزمائش(کی راہ) سے اپنے فضل و امتنان کے کھلے ہوئے دروازوں تک (انہیں ) پہنچائے اور اسے اپنی معافی و بخشش کا آسان وسیلہ و ذریعہ قرار دے۔

فَاللهَ اللهَ فِیْ عَاجِلِ الْبَغْیِ، وَ اٰجِلِ وَخَامَةِ الظُّلْمِ، وَ سُوْٓءِ عَاقِبَةِ الْكِبْرِ، فَاِنَّهَا مَصْیَدَةُ اِبْلِیْسَ الْعُظْمٰی، وَ مَكِیْدَتُهُ الْكُبْرٰی، الَّتِیْ تُسَاوِرُ قُلُوْبَ الرِّجَالِ مُسَاوَرَةَ السُّمُوْمِ الْقَاتِلَةِ، فَمَا تُكْدِیْۤ اَبَدًا، وَ لَا تُشْوِیْۤ اَحَدًا، لَا عَالِمًا لِّعِلْمِهٖ، وَ لَا مُقِلًّا فِیْ طِمْرِهٖ.

دنیا میں سرکشی کی پاداش اور آخرت میں ظلم کی گرانباری کے عذاب اور غرور و نخوت کے برے انجام کے خیال سے اللہ کا خوف کھاؤ، کیونکہ یہ (سرکشی، ظلم او رغرور و تکبر) شیطان کا بہت بڑا جال اور بہت بڑا ہتھکنڈا ہے کہ جو لوگوں کے دلوں میں زہر قاتل کی طرح اتر جاتا ہے۔ نہ اس کا اثر کبھی رائیگاں جاتا ہے نہ اس کا وار کسی سے خطا کرتا ہے، نہ عالم سے اس کے علم کے باوجود اور نہ پھٹے پرانے چیتھڑوں میں کسی فقیر بے نوا سے [۳] ۔

وَ عَنْ ذٰلِكَ مَا حَرَسَ اللهُ عِبَادَهُ الْمُؤْمِنِیْنَ بِالصَّلَوَاتِ وَ الزَّكَوَاتِ، وَ مُجَاهَدَةِ الصِّیَامِ فِی الْاَیَّامِ الْمَفْرُوْضَاتِ، تَسْكِیْنًا لِّاَطْرَافِهِمْ، وَ تَخْشِیْعًا لِّاَبْصَارِهِمْ، وَ تَذْلِیْلًا لِّنُفُوْسِهِمْ، وَ تَخْفِیْضًا لِّقُلُوْبِهِمْ، وَ اِذْهَابًا لِّلْخُیَلَآءِ عَنْهُمْ، لِمَا فِیْ ذٰلِكَ مِنْ تَعْفِیْرِ عِتَاقِ الْوُجُوْهِ بِالتُّرَابِ تَوَاضُعًا، وَ الْتِصَاقِ كَرَآئِمِ الْجَوَارِحِ بِالْاَرْضِ تَصَاغُرًا، وَ لُحُوْقِ الْبُطُوْنِ بِالْمُتُوْنِ مِنَ الصِّیَامِ تَذَلُّلًا، مَعَ مَا فِی الزَّكٰوةِ مِنْ صَرْفِ ثَمَرَاتِ الْاَرْضِ وَ غَیْرِ ذٰلِكَ اِلٰۤی اَهْلِ الْمَسْكَنَةِ وَ الْفَقْرِ.

یہی وہ چیز ہے جس سے خداوند عالم ایمان سے سرفراز ہونے والے بندوں کو نماز، زکوٰة اور مقرر دنوں میں روزوں کے جہاد کے ذریعہ محفوظ رکھتا ہے اور اس طرح ان کے ہاتھ پیروں (کی طغیانیوں) کو سکون کی سطح پر لاتا ہے، ان کی آنکھوں کو عجزو شکستگی سے جھکا کر، نفس کو رام اور دلوں کو متواضع بنا کر، رعونت و خود پسندی کو ان سے دور کرتا ہے۔ (نماز میں) نازک چہروں کو عجز و نیاز مندی کی بنا پر خاک آلودہ کیا جاتا ہے اور روزوں میں از روئے فرمانبرداری پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں اور زکوٰة میں زمین کی پیداوار وغیرہ کو فقرا اور مساکین تک پہنچایا جاتا ہے۔

اُنْظُرُوْۤا اِلٰی مَا فِیْ هٰذِهِ الْاَفْعَالِ مِنْ قَمْعِ نَوَاجِمِ الْفَخْرِ، وَ قَدْعِ طَوَالِعِ الْكِبْرِ! وَ لَقَدْ نَظَرْتُ فَمَا وَجَدْتُّ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ یَتَعَصَّبُ لِشَیْءٍ مِّنَ الْاَشْیَآءِ اِلَّا عَنْ عِلَّةٍ تَحْتَمِلُ تَمْوِیْهَ الْجُهَلَآءِ، اَوْ حُجَّةٍ تَلِیْطُ بِعُقُوْلِ السُّفَهَآءِ غَیْرَكُمْ، فَاِنَّكُمْ تَتَعَصَّبُوْنَ لِاَمْرٍ لَّا یُعْرَفُ لَهٗ سَبَبٌ وَّ لَا عِلَّةٌ.

دیکھو! کہ ان اعمال و عبادات میں غرور کے ابھرے ہوئے اثرات کو مٹانے اور تمکنت کے نمایاں ہونے والے آثار کو دبانے کے کیسے کیسے فوائد مضمر ہیں۔ میں نے نگاہ دوڑائی تو دنیا بھر میں ایک فرد کو بھی ایسا نہ پایا کہ وہ کسی چیز کی پاسداری کرتا ہو، مگر یہ کہ اس کی نظروں میں اس کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے کہ جو جاہلوں کے اشتباہ کا باعث بن جاتی ہے یا کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے جو بیوقوفوں کی عقلوں سے چپک جاتی ہے، سوا تمہارے کہ تم ایک چیز کی جنبہ داری تو کرتے ہو مگر اس کی کوئی علت اور وجہ نہیں معلوم ہوتی۔

اَمَّاۤ اِبْلِیْسُ فَتَعَصَّبَ عَلٰۤی اٰدَمَ ؑ لِاَصْلِهٖ، وَ طَعَنَ عَلَیْهِ فِیْ خِلْقَتِهٖ، فَقَالَ: اَنَا نَارِیٌّ وَّ اَنْتَ طِیْنِیٌّ. وَ اَمَّا الْاَغْنِیَآءُ مِنْ مُّتْرَفَةِ الْاُمَمِ، فَتَعَصَّبُوْا لِاٰثَارِ مَوَاقِعِ النِّعَمِ فَقَالُوْا: ﴿نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًا ۙ وَّ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِیْنَ۝﴾.

ابلیس ہی کو لو کہ اس نے آدم علیہ السلام کے سامنے حمیت و جاہلیت کا مظاہرہ کیا تو اپنی اصل (آگ) کی وجہ سے اور ان پر چوٹ کی تو اپنی خلقت و پیدائش کی بنا پر، چنانچہ اس نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ: میں آگ سے بنا ہوں اور تم مٹی سے۔ (یونہی) خوش حال قوموں کے مالدار لوگ اپنی نعمتوں پر اتراتے ہوئے بڑا بول بولے کہ: ’’ہم مال و اولاد میں بڑھے ہوئے ہیں، ہمیں کیونکر عذاب کیا جا سکتا ہے‘‘۔

فَاِنْ كَانَ لَا بُدَّ مِنَ الْعَصَبِیَّةِ، فَلْیَكُنْ تَعَصُّبُکُمْ لِمَكَارِمِ الْخِصَالِ، وَ مَحَامِدِ الْاَفْعَالِ، وَ مَحَاسِنِ الْاُمُوْرِ، الَّتِیْ تَفَاضَلَتْ فِیْهَا الْمُجَدَآءُ وَ النُّجَدَآءُ مِنْۢ بُیُوْتَاتِ الْعَرَبِ وَ یَعَاسِیْبِ الْقَبَآئِلِ، بِالْاَخْلَاقِ الرَّغِیْبَةِ، وَ الْاَحْلَامِ الْعَظِیْمَةِ، وَ الْاَخْطَارِ الْجَلِیْلَةِ، وَ الْاٰثَارِ الْمَحْمُوْدَةِ. فَتَعَصَّبُوْا لِخِلَالِ الْحَمْدِ مِنَ الْحِفْظِ لِلْجِوَارِ، وَ الْوَفَآءِ بِالذِّمَامِ، وَ الطَّاعَةِ لِلْبِرِّ، وَ الْمَعْصِیَةِ لِلْكِبْرِ، وَ الْاَخْذِ بِالْفَضْلِ، وَ الْكَفِّ عَنِ الْبَغْیِ، وَ الْاِعْظَامِ لِلْقَتْلِ، وَ الْاِنْصَافِ لِلْخَلْقِ، وَ الْكَظْمِ لِلْغَیْظِ، وَ اجْتِنَابِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ.

اب اگر تمہیں فخر ہی کرنا ہے تو اس کی پاکیزگی اخلاق، بلندیٔ کردار اور حسن سیرت پر فخر و ناز کرو کہ جس میں عرب گھرانوں کے با عظمت و بلند ہمت سردارانِ قوم اپنی خوش اطواریوں، بلند پایہ دانائیوں، اعلیٰ مرتبوں اور پسندیدہ کارناموں کی وجہ سے ایک دوسرے پر برتری ثابت کرتے تھے۔ تم بھی ان قابل ستائش خصلتوں کی طرفداری کرو، جیسے ہمسایوں کے حقوق کی حفاظت کرنا، عہد و پیمان کو نبھانا، نیکوں کی اطاعت اور سرکشوں کی مخالفت کرنا، حسن سلوک کا پابند اور ظلم و تعدی سے کنارہ کش رہنا، خونریزی سے پناہ مانگنا، خلق خدا سے عدل و انصاف برتنا، غصہ کو پی جانا، زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا۔

واحْذَرُوْا مَا نَزَلَ بِالْاُمَمِ قَبْلَكُمْ مِنَ الْمَثُلَاتِ بِسُوْٓءِ الْاَفْعَالِ، وَ ذَمِیْمِ الْاَعْمَالِ، فَتَذَكَّرُوْا فِی الْخَیْرِ وَ الشَّرِّ اَحْوَالَهُمْ، وَ احْذَرُوْا اَنْ تَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَهُمْ.

تمہیں ان عذابوں سے ڈرنا چاہیے جو تم سے پہلی اُمتوں پر ان کی بد اعمالیوں اور بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہوئے اور (اپنے) اچھے اور برے حالات میں ان کے احوال و واردات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تم بھی انہی کے ایسے نہ ہو جاؤ۔ [۴]

فَاِذَا تَفَكَّرْتُمْ فِیْ تَفَاوُتِ حَالَیْهِمْ، فَالْزَمُوْا كُلَّ اَمْرٍ لَّزِمَتِ الْعِزَّةُ بِهٖ شَاْنَهُمْ، وَ زَاحَتِ الْاَعْدَآءُ لَهٗ عَنْهُمْ، وَ مُدَّتِ الْعَافِیَةُ فِیْہِ عَلَیْهِمْ، وَ انْقَادَتِ النِّعْمَةُ لَهٗ مَعَهُمْ، وَ وَصَلَتِ الْكَرَامَةُ عَلَیْهِ حَبْلَهُمْ مِنَ الْاِجْتِنَابِ لِلْفُرْقَةِ، وَ اللُّزُوْمِ لِلْاُلْفَةِ، وَ التَّحَاضِّ عَلَیْهَا، وَ التَّوَاصِیْ بِهَا.

اگر تم نے ان کی دونوں (اچھی بری) حالتوں پر غور کر لیا ہے تو پھر ہر اس چیز کی پابندی کرو کہ جس کی وجہ سے عزت و برتری نے ہر حال میں ان کا ساتھ دیا اور دشمن ان سے دور دور رہے اور عیش و سکون کے دامن ان پر پھیل گئے اور نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہو لیں اور عزت و سرفرازی نے اپنے بندھن ان سے جوڑ لئے۔ (وہ کیا چیزیں تھیں؟) یہ کہ وہ افتراق سے بچے اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہے، اسی پر ایک دوسرے کو ابھارتے تھے او راسی کی باہم سفارش کرتے تھے۔

وَ اجْتَنِبُوْا كُلَّ اَمْرٍ كَسَرَ فَقْرَتَهُمْ، وَ اَوْهَنَ مُنَّتَهُمْ مِنْ تَضَاغُنِ الْقُلُوْبِ، وَتَشَاحُنِ الصُّدُوْرِ، وَ تَدَابُرِ النُّفُوْسِ، وَ تَخَاذُلِ الْاَیْدِیْ.

اور تم ہر اس امر سے بچ کر رہو کہ جس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ ڈالا اور قوت و توانائی کو ضعف سے بدل دیا، (اور وہ یہ تھا) کہ انہوں نے دلوں میں کینہ اور سینوں میں بغض رکھا، ایک دوسرے کی مدد سے پیٹھ پھرا لی اور باہمی تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا۔

وَ تَدَبَّرُوْا اَحْوَالَ الْمَاضِیْنَ مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ قَبْلَكُمْ، كَیْفَ كَانُوْا فِیْ حَالِ التَّمْحِیْصِ وَ الْبَلَآءِ. اَ لَمْ یَكُوْنُوْۤا اَثْقَلَ الْخَلَآئِقِ اَعْبَآءً، وَ اَجْهَدَ الْعِبَادِ بَلَآءً، وَ اَضْیَقَ اَهْلِ الدُّنْیَا حَالًا اتَّخَذَتْهُمُ الْفَراعِنَةُ عَبِیْدًا فَسَامُوْهُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ، وَ جَرَّعُوْهُمُ الْمُرَارَ، فَلَمْ تَبْرَحِ الْحَالُ بِهِمْ فِیْ ذُلِّ الْهَلَكَةِ وَ قَهْرِ الْغَلَبَةِ، لَا یَجِدُوْنَ حِیْلَةً فِی امْتِنَاعٍ، وَ لَا سَبِیْلًا اِلَی دِفَاعٍ، حَتّٰۤی اِذَا رَاَی اللهُ جِدَّ الصَّبْرِ مِنْهُمْ عَلَی الْاَذٰی فِیْ مَحَبَّتِهٖ، وَ الْاِحْتِمَالَ لِلْمَكْرُوْهِ مِنْ خَوْفِهٖ، جَعَلَ لَهُمْ مِنْ مَّضَایِقِ الْبَلَآءِ فَرَجًا، فَاَبْدَلَهُمُ الْعِزَّ مَكَانَ الذُّلِّ، وَ الْاَمْنَ مَكَانَ الْخَوْفِ، فَصَارُوْا مُلُوْكًا حُكَّامًا، وَ اَئِمَّةً اَعْلَامًا، وَ قَدْ بَلَغَتِ الْكَرَامَةُ مِنَ اللهِ لَهُمْ مَا لَمْ تَذْهَبِ الْاٰمَالُ اِلَیْهِ بِهِمْ.

اور تم کو لازم ہے کہ گزشتہ زمانہ کے اہل ایمان کے وقائع و حالات میں غور و فکر کرو کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جانکاہ) مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی، کیا وہ ساری کائنات سے زیادہ گرانبار، تمام لوگوں سے زائد مبتلائے تعب و مشقت اور دنیا جہان سے زیادہ تنگی و ضیق کے عالم میں نہ تھے؟ کہ جنہیں دنیا کے فرعونوں نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور انہیں سخت سے سخت اذیتیں پہنچاتے اور تلخیوں کے گھونٹ پلاتے تھے اور ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ تباہی و ہلاکت کی ذلتوں اور غلبہ و تسلط کی قہر سامانیوں میں گھرتے چلے جا رہے تھے۔ نہ انہیں بچاؤ کی کوئی تدبیر اور نہ روک تھام کا کوئی ذریعہ سو جھتا تھا۔ یہاں تک کہ جب اللہ سبحانہ نے یہ دیکھا کہ یہ میری محبت میں اذیتوں پر پوری کد و کاوش سے صبر کئے جا رہے ہیں اور میرے خوف (کے خیال) سے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں تو ان کیلئے مصیبت و ابتلا کی تنگنائے سے وسعت کی راہیں نکالیں اور ان کی ذلت کو عزت اور خوف و ہراس کو امن سے بدل دیا۔ چنانچہ وہ تخت ِ فرمانروائی پر سلطان اور مسند ِ ہدایت پر رہنما ہوئے اور انہیں امیدوں سے بڑھ چڑھ کر اللہ کی طرف سے عزت و سرفرازی حاصل ہوئی۔

فَانْظُرُوْا كَیْفَ كَانُوْا حَیْثُ كَانَتِ الْاَمْلَآءُ مُجْتَمِعَةً، وَ الْاَهْوَآءُ مُؤْتَلِفَةً، وَ الْقُلُوْبُ مُعْتَدِلَةً، وَ الْاَیْدِیْ مُتَرَادِفَةً، وَ السُّیُوْفُ مُتَنَاصِرَةً، وَ الْبَصَآئِرُ نَافِذَةً، وَ الْعَزَآئِمُ وَاحِدَةً، اَلَمْ یَكُوْنُوْا اَرْبَابًا فِیْۤ اَقْطَارِ الْاَرَضِیْنَ، وَ مُلُوْكًا عَلٰی رِقَابِ الْعٰلَمِیْنَ!.

غور کرو! کہ جب ان کی جمعیتیں یکجا، خیالات یکسو اور دل یکساں تھے اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے تو اس وقت ان کا عالم کیا تھا؟ کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمران نہ تھے؟

فَانْظُرُوْۤا اِلٰی مَا صَارُوْۤا اِلَیْهِ فِیْۤ اٰخِرِ اُمُوْرِهِمْ، حِیْنَ وَقَعَتِ الْفُرْقَةُ، وَ تَشَتَّتَتِ الْاُلْفَةُ، وَ اخْتَلَفَتِ الْكَلِمَةُ وَ الْاَفْئِدَةُ، وَ تَشَعَّبُوْا مُخْتَلِفِیْنَ، وَ تَفَرَّقُوْا مُتَحَارِبِیْنَ، قَدْ خَلَعَ اللهُ عَنْهُمْ لِبَاسَ كَرَامَتِهٖ، وَ سَلَبَهُمْ غَضَارَةَ نِعْمَتِهٖ، وَ بَقِیَ قَصَصُ اَخْبَارِهِمْ فِیْكُمْ عِبَرًا لِّلْمُعْتَبِرِیْنَ.

اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑ گئی، یکجہتی درہم و برہم ہو گئی، ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کیلئے عبرت بن کر رہ گئیں۔

فَاعْتَبِرُوْا بِحَالِ وَلَدِ اِسْمَاعِیْلَ وَ بَنِیْۤ اِسْحَاقَ وَ بَنِیْۤ اِسْرَآئِیْلَ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ، فَمَاۤ اَشَدَّ اعْتِدَالَ الْاَحْوَالِ، وَ اَقْرَبَ اشْتِبَاهَ الْاَمْثَالِ! تَاَمَّلُوْا اَمْرَهُمْ فِیْ حَالِ تَشَتُّتِهِمْ وَ تَفَرُّقِهِمْ، لَیَالِیَ كَانَتِ الْاَكَاسِرَةُ وَ الْقَیَاصِرَةُ اَرْبَابًا لَّهُمْ، یَحْتَازُوْنَهُمْ عَنْ رِیْفِ الْاٰفَاقِ، وَ بَحْرِ الْعِرَاقِ، وَ خُضْرَةِ الدُّنْیَا، اِلٰی مَنَابِتِ الشِّیْحِ، وَ مَهَافِی الرِّیْحِ، وَ نَكَدِ الْمَعَاشِ، فَتَرَكُوْهُمْ عَالَةً مَّسَاكِیْنَ اِخْوَانَ دَبَرٍ وَّ وَبَرٍ، اَذَلَّ الْاُمَمِ دارًا، وَ اَجْدَبَهُمْ قَرَارًا، لَا یَاْوُوْنَ اِلٰی جَنَاحِ دَعْوَةٍ یَّعْتَصِمُوْنَ بِهَا، وَ لَاۤ اِلٰی ظِلِّ اُلْفَةٍ یَّعْتَمِدُوْنَ عَلٰی عِزِّهَا، فَالْاَحْوَالُ مُضْطَرِبَةٌ، وَ الْاَیْدِیْ مُخْتَلِفَةٌ، وَ الْكَثْرَةُ مُتَفَرِّقَةٌ، فِیْ بَلَآءِ اَزْلٍ، و اَطْبَاقِ جَهْلٍ! مِنْۢ بَنَاتٍ مَّوْءُوْدَةٍ، وَ اَصْنَامٍ مَّعْبُوْدَةٍ، وَ اَرْحَامٍ مَّقْطُوْعَةٍ، وَ غَارَاتٍ مَّشْنُوْنَةٍ.

(اب ذرا) اسماعیل علیہ السلام کی اولاد، اسحاق علیہ السلام کے فرزندوں اور یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے حالات سے عبرت و نصیحت حاصل کرو۔ حالات کتنے ملتے ہوئے ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں۔ان کے منتشر و پراگندہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رونما ہوئے، ان میں فکر و تامل کرو کہ جب شاہانِ عجم اور سلاطین روم ان پر حکمران تھے، وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے خار دار جھاڑیوں، ہواؤں کی بے روگ گزر گاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخر انہیں فقیر و نادار اور زخمی پیٹھ والے اونٹوں کا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا باشندہ بنا کر چھوڑتے تھے۔ ان کے گھر بار دنیا جہان سے بڑھ کر خستہ و خراب اور ان کے ٹھکانے خشک سالیوں سے تباہ حال تھے، نہ ان کی کوئی آواز تھی جس کے پرو بال کا سہارا لیں،نہ انس و محبت کی چھاؤں تھی جس کے بل بوتے پر بھروسا کریں، ان کے حالات پراگندہ، ہاتھ الگ الگ تھے، کثرت و جمعیت بٹی ہوئی، جانگداز مصیبتوں اور جہالت کی تہ بہ تہ تہوں میں پڑے ہوئے تھے، یوں کہ لڑکیاں زندہ درگور تھیں، (گھر گھر) مورتی پوجا ہوتی تھی، رشتے ناتے توڑے جا چکے تھے اور لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری تھی۔

فَانْظُرُوْۤا اِلٰی مَوَاقِعِ نِعَمِ اللهِ عَلَیْهِمْ حِیْنَ بَعَثَ اِلَیْهِمْ رَسُوْلًا، فَعَقَدَ بِمِلَّتِهٖ طَاعَتَهُمْ، وَ جَمَعَ عَلٰی دَعْوَتِهٖۤ اُلْفَتَهُمْ، كَیْفَ نَشَرَتِ النِّعْمَةُ عَلَیْهِمْ جَنَاحَ كَرَامَتِهَا، وَ اَسَالَتْ لَهُمْ جَدَاوِلَ نَعِیْمِهَا، وَ الْتَفَّتِ الْمِلَّةُ بِهِمْ فِیْ عَوَآئِدِ بَرَكَتِهَا، فَاَصْبَحُوْا فِیْ نِعْمَتِهَا غَرِقِیْنَ، وَ فِیْ خُضْرَةِ عَیْشِهَا فَكِهِیْنَ، قَدْ تَرَبَّعَتِ الْاُمُوْرُ بِهِمْ فِیْ ظِلِّ سُلْطَانٍ قَاهِرٍ، وَ اٰوَتْهُمُ الْحَالُ اِلٰی كَنَفِ عِزٍّ غَالِبٍ، وَ تَعَطَّفَتِ الْاُمُوْرُ عَلَیْهِمْ فِیْ ذُرٰی مُلْكٍ ثَابِتٍ، فَهُمْ حُكَّامٌ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ، وَ مُلُوْكٌ فِیْۤ اَطْرَافِ الْاَرَضِیْنَ، یَمْلِكُوْنَ الْاُمُوْرَ عَلٰی مَنْ كَانَ یَمْلِكُهَا عَلَیْهِمْ، وَ یُمْضُوْنَ الْاَحْكَامَ فِیْمَنْ كَانَ یُمْضِیْهَا فِیْهِمْ! لَا تُغْمَزُ لَهُمْ قَنَاةٌ، وَ لَا تُقْرَعُ لَهُمْ صَفَاةٌ!.

دیکھو! کہ اللہ نے ان پر کتنے احسانات کئے کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز ِوحدت پر جمع کر دیا اور کیونکر خوشحالی نے اپنے پر و بال ان پر پھیلا دیئے اور ان کیلئے بخشش و فیضان کی نہریں بہا دیں اور شریعت نے انہیں اپنی برکت کے بے بہا فائدوں میں لپیٹ لیا، چنانچہ وہ اس کی نعمتوں میں شرابور اور اس کی زندگی کی تر و تازگیوں میں خوشحال اور ایک مسلط فرمانروا (اسلام) کے زیر سایہ ان (کی زندگی) کے تمام شعبے (نظم و ترتیب سے) قائم ہو گئے اور ان کے حالات (کی درستگی) نے انہیں غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دی اور ایک مضبوط سلطنت کی سر بلند چوٹیوں میں (دین و دنیا کی) سعادتیں ان پر جھک پڑیں۔ وہ تمام جہان پر حکمران اور زمین کی پہنائیوں میں تخت و تاج کے مالک بن گئے اور جن پابندیوں کی بنا پر دوسروں کے زیر دست تھے، اب یہ انہیں پابند بنا کر ان پر مسلّط ہو گئے اور جن کے زیر ِ فرمان تھے ان کے فرمانروا بن گئے۔ نہ ان کا دم خم ہی نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کا کس بل توڑا جا سکتا ہے۔

اَلَا وَ اِنَّكُمْ قَد نَفَضْتُمْ اَیْدِیَكُمْ مِنْ حَبْلِ الطَّاعَةِ، وَ ثَلَمْتُمْ حِصْنَ اللهِ الْمَضْرُوْبَ عَلَیْكُمْ، بِاَحْكَامِ الْجَاهِلِیَّةِ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ قَدِ امْتَنَّ عَلٰی جَمَاعَةِ هٰذِهِ الْاُمَّةِ فِیْمَا عَقَدَ بَیْنَهُمْ مِنْ حَبْلِ هٰذِهِ الْاُلْفَةِ الَّتِیْ یَنْتَقِلُوْنَ فِیْ ظِلِّهَا، وَ یَاْوُوْنَ اِلٰی كَنَفِهَا، بِنِعْمَةٍ لَّا یَعْرِفُ اَحَدٌ مِّنَ الْمَخْلُوْقِیْنَ لَهَا قِیْمَةً، لِاَنَّهَاۤ اَرْجَحُ مِنْ كُلِّ ثَمَنٍ، وَ اَجَلُّ مِنْ كُلِّ خَطَرٍ.

دیکھو! تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا اور زمانۂ جاہلیت کے طور طریقوں سے اپنے گرد کھچے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا۔ خداوند عالم نے اس اُمت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا ہے کہ جس کی قدر و قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا، کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہوئی) قیمت سے گراں تر اور ہر شرف و بلندی سے بالاتر ہے اور وہ یہ کہ ان کے درمیان انس و یکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں اور جس کے کنار (عاطفت) میں پناہ لیتے ہیں۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ صِرْتُمْ بَعْدَ الْهِجْرَةِ اَعْرَابًا، وَ بَعْدَ الْمُوَالَاةِ اَحْزَابًا، مَا تَتَعَلَّقُوْنَ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا بِاسْمِهٖ، وَ لَا تَعْرِفُوْنَ مِنَ الْاِیْمَانِ اِلَّا رَسْمَهٗ، تَقُوْلُوْنَ: النَّارَ وَ لَا الْعَارَ! كَاَنَّكُمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تُكْفِئُوا الْاِسْلَامَ عَلٰی وَجْهِهٖ، انْتِهَاكًا لِّحَرِیْمِهٖ، وَ نَقْضًا لِّمِیْثَاقِهِ الَّذِیْ وَضَعَهُ اللهُ لَكُمْ حَرَمًا فِیْۤ اَرْضِهٖ، وَ اَمْنًۢا بَیْنَ خَلْقِهٖ.

یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد پھر صحرائی بد و اور باہمی دوستی کی بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو، اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ تمہارا قول یہ ہے کہ: آگ میں کود پڑیں گے مگر عار قبول نہ کریں گے۔ گویا تم یہ چاہتے ہو کہ اسلام کی ہتک حرمت اور اس کا عہد توڑ کر اسے منہ کے بَل اوندھا کر دو، وہ عہد کہ جسے اللہ نے زمین میں پناہ اور مخلوقات میں امن قرار دیا ہے۔

وَ اِنَّكُمْ اِنْ لَّجَاْتُمْ اِلٰی غَیْرِهٖ حَارَبَكُمْ اَهْلُ الْكُفْرِ، ثُمَّ لَا جَبْرَآئِیْلُ وَ لَا مِیْكَآئِیْلُ وَ لَا مُهَاجِرُوْنَ وَ لَاۤ اَنْصَارٌ یَّنْصُرُوْنَكُمْ اِلَّا الْمُقَارَعَةَ بِالسَّیْفِ حَتّٰی یَحْكُمَ اللهُ بَیْنَكُمْ. وَ اِنَّ عِنْدَكُمُ الْاَمْثَالَ مِنْۢ بَاْسِ اللهِ وَ قَوَارِعِهٖ، وَ اَیَّامِهٖ وَ وَقَآئِعِهٖ، فَلَا تَسْتَبْطِئُوْا وَعِیْدَهٗ جَهْلًۢا بِاَخْذِهٖ، وَ تَهَاوُنًۢا بِبَطْشِهٖ، وَ یاْسًا مِّنْۢ بَاْسِهٖ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ لَمْ یَلْعَنِ الْقَرْنَ الْمَاضِیَ بَیْنَ اَیْدِیْكُمْ اِلَّا لِتَرْكِهِمُ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَلَعَنَ اللهُ السُّفَهَآءَ لِرُكُوْبِ الْمَعَاصِیْ، وَ الْحُلَمَآءَ لِتَرْكِ الْتَّنَاهِیْ!.

(یاد رکھو!کہ ) اگر تم نے اسلام کے علاوہ کہیں اور کا رخ کیا تو کفار تم سے جنگ کیلئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پھر نہ جبرئیلؑ و میکائیلؑ ہیں اور نہ انصار و مہاجر ہیں کہ تمہاری مدد کریں، سوا اس کے کہ تلواروں کو کھٹکھٹاؤ، یہاں تک کہ اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے۔ خدا کا سخت عذاب، جھنجھوڑنے والا عقاب، ابتلاؤں کے دن اور تعزیر و ہلاکت کے حادثے تمہارے سامنے ہیں۔ اس کی گرفت سے انجان بن کر اور اس کی پکڑ کو آسان سمجھ کر اور اس کی سختی سے غافل ہو کر اس کے قہر و عذاب کو دور نہ سمجھو۔ خداوند عالم نے گزشتہ اُمتوں کو محض اس لئے اپنی رحمت سے دور رکھا کہ وہ اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے سے منہ موڑ چکے تھے۔ چنانچہ اللہ نے بے وقوفوں پر ارتکاب گناہ کی وجہ سے اور دانشمندوں پر خطاؤں سے باز نہ آنے کے سبب سے لعنت کی ہے۔

اَلَا وَ قَدْ قَطَعْتُمْ قَیْدَ الْاِسْلَامِ، وَ عَطَّلْتُمْ حُدُوْدَهٗ، وَ اَمَتُّمْ اَحْكَامَهٗ.

دیکھو! تم نے اسلام کی پابندیاں توڑ دیں اور اس کی حدیں بیکار کر دیں اور اس کے احکام سرے سے ختم کر دیئے۔

اَلَا وَ قَدْ اَمَرَنِیَ اللهُ بِقِتَالِ اَهْلِ الْبَغْیِ وَ الْنَّكْثِ وَ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ: فَاَمَّا النَّاكِثُوْنَ فَقَدْ قَاتَلْتُ، وَ اَمَّا الْقَاسِطُوْنَ فَقَدْ جَاهَدْتُّ، وَ اَمَّا الْمَارِقَةُ فَقَدْ دَوَّخْتُ، وَ اَمَّا شَیْطٰنُ الرَّدْهَةِ فَقَدْ كُفِیْتُهٗ بِصَعْقَةٍ سُمِعَتْ لَهَا وَجْبَةُ قَلْبِهٖ وَ رَجَّةُ صَدْرِهٖ، وَ بَقِیَتْ بَقِیَّةٌ مِّنْ اَهْلِ الْبَغْیِ، وَ لَئِنْ اَذِنَ اللهُ فِی الْكَرَّةِ عَلَیْهِمْ لَاُدِیْلَنَّ مِنْهُمْ اِلَّا مَا یَتَشَذَّرُ فِیْۤ اَطْرَافِ الْبِلَادِ تَشَذُّرًا!. اَنَا وَضَعْتُ فِی الصِّغَرِ بِكَلَاكِلِ الْعَرَبِ، وَ كَسَرْتُ نَوَاجِمَ قُرُوْنِ رَبِیْعَةَ وَ مُضَرَ.

معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے باغیوں، عہد شکنوں اور زمین میں فساد پھیلانے والوں سے جہاد کا حکم دیا۔ چنانچہ میں نے عہد شکنوں (اصحاب جمل)سے جنگ کی، نافرمانوں (اہل صفین ) سے جہاد کیا اور بے دینوں (خوارج نہروان ) کو بھی پوری طرح ذلیل کرکے چھوڑا۔ مگر گڑھے [۵] (میں گر کر مرنے) والا شیطان، میرے لئے اس کی مہم سر ہو گئی، ایک ایسی چنگھاڑ کے ساتھ کہ جس میں اس کے دل کی دھڑکن اور سینے کی تھرتھری کی آواز میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ اب باغیوں میں سے کچھ رہے سہے باقی رہ گئے ہیں، اگر اللہ نے پھر مجھے ان پر دھاوا بولنے کی اجازت دی تو میں انہیں تہس نہس کر کے دولت و سلطنت کا رخ دوسری طرف موڑ دوں گا۔ (پھر) وہی لوگ بچ سکیں گے جو مختلف شہروں کی دور و دراز حدوں میں تتر بتر ہوچکے ہوں گے۔ میں نے تو بچپن ہی میں عرب کا سینہ پیوند زمین کر دیا تھا اور قبیلہ ربیعہ و مضر کے ابھرے ہوئے سینگوں کو توڑ دیا تھا۔

وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِیْ مِنْ رَّسُوْلِ اللهِ ﷺ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیْبَةِ، وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصِیْصَةِ: وَضَعَنِیْ فِیْ حِجْرِهٖ وَ اَنَا وَلَدٌ یَّضُمُّنِیْۤ اِلٰی صَدْرِهٖ، وَ یَكْنُفُنِیْ فِیْ فِرَاشِهٖ، وَ یُمِسُّنِیْ جَسَدَهٗ، وَ یُشِمُّنِیْ عَرْفَهٗ. وَ كَانَ یَمْضَغُ الشَّیْءَ ثُمَّ یُلْقِمُنِیْهِ، وَ مَا وَجَدَ لِیْ كَذْبَةً فِیْ قَوْلٍ، وَ لَا خَطْلَةً فِیْ فِعْلٍ.

تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ ﷺ سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا۔ میں بچہ ہی تھا کہ رسول ﷺ نے مجھے گود میں لے لیا تھا، اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کرتے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔ پہلے آپؐ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے۔ انہوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی۔

وَ لَقَدْ قَرَنَ اللهُ بِهٖ ﷺ- مِنْ لَّدُنْ اَنْ كَانَ فَطِیْمًا اَعْظَمَ مَلَكٍ مِّنْ مَّلٰٓئِكَتِهٖ یَسْلُكُ بِهٖ طَرِیْقَ الْمَكَارِمِ، وَ مَحَاسِنَ اَخْلَاقِ الْعَالَمِ، لَیْلَهٗ وَ نَهَارَهٗ، وَ لَقَدْ كُنْتُ اَتَّبِعُهُ اتِّبَاعَ الْفَصِیْلِ اَثَرَ اُمِّهٖ، یَرْفَعُ لِیْ فِیْ كُلِّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلَاقِهٖ عَلَمًا، وَ یَاْمُرُنِیْ بِالْاِقْتِدَآءِ بِهٖ، وَ لَقَدْ كَانَ یُجَاوِرُ فِیْ كُلِّ سَنَةٍۭ بِحِرَآءَ، فَاَرَاهُ وَ لَا یَرَاهُ غَیْرِیْ، وَ لَمْ یَجْمَعْ بَیْتٌ وَّاحِدٌ یَّوْمَئِذٍ فِی الْاِسْلَامِ غَیْرَ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ وَ خَدِیْجَةَ وَ اَنَا ثَالِثُهُمَا، اَرٰی نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الرِّسَالَةِ، وَ اَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَّةِ.

اللہ نے آپؐ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس) کو آپؐ کے ساتھ لگا دیا تھا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا اور میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے۔ آپؐ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور ہر سال (کوہ)حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہاں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ اور (اُمّ المومنین) خدیجہؑ کے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا البتہ تیسرا ان میں مَیں تھا۔ میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سو نگھتا تھا۔

وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیْطٰنِ حِیْنَ نَزَلَ الْوَحْیُ عَلَیْهِ- ﷺ فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَا هٰذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ: »هٰذَا الشَّیْطٰنُ قَدْ اَیِسَ مِنْ عِبَادَتِهٖ، اِنَّكَ تَسْمَعُ مَاۤ اَسْمَعُ، وَ تَرٰی مَاۤ اَرٰی، اِلَّاۤ اَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ، وَ لٰكِنَّكَ وَزِیْرٌ، وَ اِنَّكَ لَعَلٰی خَیْرٍ«.

جب آپؐ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ آواز کیسی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ: «یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے۔ (اے علیؑ!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو»۔

وَ لَقَدْ كُنْتُ مَعَهٗ- ﷺ لَمَّاۤ اَتَاهُ الْمَلَاُ مِنْ قُرَیْشٍ، فَقَالُوْا لَهٗ: یَا مُحُمَّدُ! اِنَّكَ قَدِ ادَّعَیْتَ عَظِیْمًا لَّمْ یَدَّعِهٖۤ اٰبَآؤُكَ وَ لَا اَحَدٌ مِّنْ بَیْتِكَ، وَ نَحْنُ نَسَئَلُكَ اَمْرًا اِنْ اَنْتَ اَجَبْتَنَاۤ اِلَیْهِ وَ اَرَیْتَنَاهُ، عَلِمْنَاۤ اَنَّكَ نَبِیٌّ وَّ رَسُوْلٌ، وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ عَلِمْنَاۤ اَنَّكَ سَاحِرٌ كَذَّابٌ. فَقَالَ -ﷺ: »وَ مَا تَسْئَلُوْنَ؟«. قَالُوْا: تَدْعُوْ لَنَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ حَتّٰی تَنْقَلِعَ بِعُرُوْقِهَا وَ تَقِفَ بَیْنَ یَدَیْكَ.

میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ قریش کی ایک جماعت آپؐ کے پاس آئی اور انہوں نے آپؐ سے کہا کہ: اے محمدؐ! آپؐ نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے۔ ایسا دعویٰ نہ تو آپؐ کے باپ دادا نے کیا نہ آپؐ کے خاندان والوں میں سے کسی اور نے کیا۔ ہم آپؐ سے ایک امر کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر آپؐ نے اسے پورا کر کے ہمیں دکھلا دیا تو پھر ہم بھی یقین کر لیں گے کہ آپؐ نبی و رسول ہیں اور اگر نہ کر سکے تو ہم جان لیں گے کہ (معاذ اللہ!) آپؐ جادوگر اور جھوٹے ہیں۔ حضرتؐ نے فرمایا کہ: «وہ تمہارا مطالبہ ہے کیا»؟ انہوں نے کہا کہ آپؐ ہمارے لئے اس درخت کو پکاریں کہ یہ جڑ سمیت اکھڑ آئے اور آپؐ کے سامنے آ کر ٹھہر جائے۔

فَقَالَ -ﷺ: »اِنَّ اللهَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ، فَاِنْ فَعَلَ اللهُ لَكُمْ ذٰلِكَ، اَتُؤْمِنُوْنَ وَ تَشْهَدُوْنَ بِالْحَقِّ؟«. قَالُوْا: نَعَمْ. قَالَ: »فَاِنِّیْ سَاُرِیْكُمْ مَا تَطْلُبُوْنَ، وَ اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَنَّكُمْ لَا تَفِیْٓـئُوْنَ اِلٰی خَیْرٍ، وَ اِنَّ فِیْكُمْ مَنْ یُّطْرَحُ فِی الْقَلِیْبِ، وَ مَنْ یُّحَزِّبُ الْاَحْزَابَ«.

آپؐ نے فرمایا کہ: «بلاشبہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر اس نے تمہارے لئے ایسا کر دکھایا تو کیا تم ایمان لے آؤ گے اور حق کی گواہی دو گے»؟ انہوں نے کہا کہ: ہاں! آپؐ نے فرمایا کہ: «اچھا! جو تم چاہتے ہو تمہیں دکھائے دیتا ہوں اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم بھلائی کی طرف پلٹنے والے نہیں ہو۔ یقیناً تم میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہیں چاہ (بدر) میں جھونک دیا جائے گا اور کچھ وہ ہیں جو (جنگ) احزاب میں جتھا بندی کریں گے»۔

ثُمَّ قَالَ -ﷺ: »یَاۤ اَیَّتُهَا الشَّجَرَةُ! اِنْ كُنْتِ تُؤْمِنِیْنَ بِاللهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَ تَعْلَمِیْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللهِ، فَانْقَلِعِیْ بِعُرُوْقِكِ حَتّٰی تَقِفِیْ بَیْنَ یَدَیَّ بِاِذْنِ اللهِ«. فَوَالَّذِیْ بَعَثَهٗ بِالْحَقِّ لَانْقَلَعَتْ بِعُرُوْقِهَا، وَ جَآءَتْ وَ لَهَا دَوِیٌّ شَدِیْدٌ، وَ قَصْفٌ كَقَصْفِ اَجْنِحَةِ الطَّیْرِ، حَتّٰی وَقَفَتْ بَیْنَ یَدَیْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ مُرَفْرِفَةً، وَ اَلْقَتْ بِغُصْنِهَا الْاَعْلٰی عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ بِبَعْضِ اَغْصَانِهَا عَلٰی مَنْكِبِیْ، وَ كُنْتُ عَنْ یَّمِیْنِهٖ -ﷺ.

پھر آپؐ نے فرمایا کہ: «اے درخت! اگر تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور یہ یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو اپنی جڑ سمیت اُکھڑ آ، یہاں تک کہ تو بحکم خدا میرے سامنے آ کر ٹھہر جائے»۔ (رسول ﷺ کا یہ فرمانا تھا کہ) اس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا! وہ درخت جڑ سمیت اکھڑ آیا اور اس طرح آیا کہ اس سے سخت کھڑکھڑاہٹ اور پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آواز آتی تھی، یہاں تک کہ وہ لچکتا جھومتا ہوا رسول اللہ ﷺ کے رو برو آ کر ٹھہر گیا اور بلند شاخیں ان پر اور کچھ شاخیں میرے کندھے پر ڈال دیں اور میں آپؐ کی دائیں جانب کھڑا تھا۔

فَلَمَّا نَظَرَ الْقَوْمُ اِلٰی ذٰلِكَ قَالُوْا ـ عُلُوًّا وَّ اسْتِكْبَارًاـ: فَمُرْهَا فَلْیَاْتِكَ نِصْفُهَا وَ یَبْقٰی نِصْفُهَا. فَاَمَرَهَا بِذٰلِكَ، فَاَقْبَلَ اِلَیْهِ نِصْفُهَا كَاَعْجَبِ اِقْبَالٍ وَّ اَشَدِّهٖ دَوِیًّا، فَكَادَتْ تَلْتَفُّ بِرَسُوْلِ اللهِ -ﷺ، فَقَالُوْا ـ كُفْرًا وَعُتُوًّاـ: فَمُرْ هٰذَا النِّصْفَ فَلْیَرْجِـعْ اِلٰی نِصْفِهٖ كَمَا كَانَ. فَاَمَرَهٗ -ﷺ فَرَجَعَ، فَقُلْتُ اَنَا: لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ، فَاِنِّیْۤ اَوَّلُ مْؤْمِنٍۭ بِكَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَ اَوَّلُ مَنْ اَقَرَّ بِاَنَّ الشَّجَرَةَ فَعَلَتْ مَا فَعَلَتْ بِاَمْرِ اللهِ تَعَالٰی تَصْدِیْقًۢا بِنُبُوَّتِكَ، وَ اِجْلَالًا لِّكَلِمَتِكَ.

جب قریش نے یہ دیکھا تو نخوت و غرور سے کہنے لگے کہ اسے حکم دیں کہ آدھا آپؐ کے پاس آئے اور آدھا اپنی جگہ پر رہے۔ چنانچہ آپؐ نے اسے یہی حکم دیا تو اس کا آدھا حصہ آپؐ کی طرف بڑھ آیا، اس طرح کہ اس کا آنا (پہلے آنے سے بھی) زیادہ عجیب صورت سے اور زیادہ تیز آواز کے ساتھ تھا اور اب کے قریب تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے لپٹ جائے۔ اب انہوں نے کفر و سرکشی سے کہا کہ: اچھا اب اس آدھے کو حکم دیجیے کہ یہ اپنے دوسرے حصے کے پاس پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا۔ چنانچہ آپؐ نے حکم دیا اور وہ پلٹ گیا۔ میں نے (یہ دیکھ کر) کہا کہ: لاالہ الا اللہ، اے اللہ کے رسولؐ! میں آپؐ پر سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں اور سب سے پہلے اس کا اقرار کرنے والا ہوں کہ اس درخت نے بحکم خدا آپؐ کی نبوت کی تصدیق اور آپؐ کے کلام کی عظمت و برتری دکھانے کیلئے جو کچھ کیا ہے وہ امر واقعی ہے (کوئی آنکھ کا پھیر نہیں)۔

فَقَالَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ: بَلْ سَاحِرٌ كَذَّابٌ، عَجِیْبُ السِّحْرِ خَفِیْفٌ فِیْهِ، وَ هَلْ یُصَدِّقُكَ فِیْۤ اَمْرِكَ اِلَّا مِثْلُ هٰذَا! یَعْنُوْنَنِیْ.

یہ سن کر وہ ساری قوم کہنے لگی کہ: یہ (پناہ بخدا!) پرلے درجے کے جھوٹے اور جادوگر ہیں، ان کا سحر عجیب و غریب ہے اور ہیں بھی اس میں چابک دست، اس امر پر آپؐ کی تصدیق ان جیسے ہی کر سکتے ہیں اور اس سے مجھے مراد لیا۔

وَ اِنِّیْ لَمِنْ قَوْمٍ لَّا تَاْخُذُهُمْ فِی اللهِ لَوْمَةُ لَآئِمٍ، سِیْمَاهُمْ سِیْمَا الصِّدِّیْقِیْنَ، وَ كَلاَمُهُمْ كَلَامُ الْاَبْرَارِ، عُمَّارُ اللَّیْلِ، وَ مَنَارُ النَّهَارِ، مُتَمَسِّكُوْنَ بِحَبْلِ الْقُرْاٰنِ، یُحْیُوْنَ سُنَنَ اللهِ وَ سُنَنَ رَسُوْلِهٖ، لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ وَ لَایَعْلُوْنَ، وَ لَا یَغُلُّوْنَ وَ لَا یُفْسِدُوْنَ، قُلُوْبُهُمْ فِی الْجِنَانِ، وَ اَجْسَادُهُمْ فِی الْعَمَلِ!.

(جو چاہیں کہیں) میں تو اس جماعت میں سے ہوں کہ جن پر اللہ کے بارے میں کوئی ملامت اثر انداز نہیں ہوتی۔ وہ جماعت ایسی ہے جن کے چہرے سچوں کی تصویر اور جن کا کلام نیکوں کے کلام کا آئینہ دار ہے، وہ شب زندہ دار، دن کے روشن مینار اور خدا کی رسی سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے فرمانوں اور پیغمبر ﷺ کی سنتوں کو زندگی بخشتے ہیں، نہ سر بلندی دکھاتے ہیں، نہ خیانت کرتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں۔ ان کے دل جنت میں اٹکے ہوئے اور جسم اعمال میں لگے ہوئے ہیں۔

۱؂مطلب یہ کہ جس طرح ’’حاسد‘‘، محسود کی تباہی کے درپے ہوتا ہے اسی طرح تم کفران نعمت و ارتکاب معاصی سے زوال نعمت کے اسباب پیدا نہ کرو۔

۲؂مطلب یہ ہے کہ اگر ظاہری رعب و دبدبہ سے مرعوب ہو کر ایمان لایا جائے گا اور قوت و طاقت سے متاثر ہو کر عبادت کی جائے گی تو نہ ایمان اپنے حقیقی مفہوم پر اور نہ عبادت اپنے اصلی معنی پر باقی رہے گی، کیونکہ ایمان تصدیق باطنی و یقین قلبی کا نام ہے اور جبر و اکراہ سے جس یقین کا مظاہرہ کیا جائے گا وہ صرف زبانی اقرار ہو گا، مگر قلبی اعتراف نہیں ہو گا اور عبادت، عبودیت کے مظاہرہ کا نام ہے اور جس عبادت میں احساس عبودیت و جذبہ نیاز مندی نہ ہو اور صرف سطوت و ہیبت کے پیش نظر بجا لائی گئی ہو وہ عبادت نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ایسا ایمان اور ایسی عبادت اپنے صحیح معنی و مفہوم کی آئینہ دار نہ ہو گی۔

۳؂’’عالم‘‘ اور’’فقیر‘‘ کی وجہ تخصیص یہ ہے کہ عالم کے پاس علم کی روشنی ہوتی ہے جو اس کی رہنمائی کر سکتی ہے اور فقیر کی بے مائگی اس کیلئے مانع ہو سکتی ہے مگر اس کے باوجود عالم و فقیر دونوں اس کے فریب میں آ جاتے ہیں تو پھر جاہل کس طرح اپنے کو اس کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور مالدار کہ جس کے پاس بے راہ روی کے سارے وسائل و ذرائع موجود ہوتے ہیں کس طرح اس سے اپنا بچاؤ کر سکتا ہے۔ ﴿ كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰٓىۙ‏ ﴿۶﴾ اَنْ رَّاٰهُ اسْتَغْنٰىؕ﴾[۱]: ’’بے شک انسان جب اپنے کو مالدار دیکھتا ہے تو سر کشی کرنے لگتا ہے‘‘۔

۴؂اُمم سابقہ کے عروج و زوال اور وقائع و حالات پر اگر نظر کی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ قوموں کا بننا بگڑنا صرف بخت و اتفاق کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں بڑی حد تک ان کے افعال و اعمال کا دخل ہوتا ہے اور وہ اعمال جس نوعیت کے ہوتے ہیں ویسا ہی ان کا نتیجہ و ثمرہ ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ قوموں کے حالات و واقعات اس کے آئینہ دار ہیں کہ ظلم و بد عملی کا نتیجہ ہمیشہ تباہی و ہلاکت اور نیکی و سلامت روی کا ثمرہ ہمیشہ خوش بختی و کامرانی رہا ہے اور چونکہ زمانوں اور قوموں کے اختلاف سے نتائج میں کوئی فرق نہیں پڑتا، لہٰذا ویسے حالات اگر پھر پیدا ہوں اور ویسے واقعات اگر پھر دہرائے جائیں تو وہی نتائج ابھر کر سامنے آئیں گے جو پہلے حالات کے نتیجہ میں سامنے آ چکے ہیں۔ کیونکہ ہر چیز کے خواص و نتائج کی طرح اچھے اور برے عملوں کے نتائج کا ظہور بھی قطعی اور یقینی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو گزشتہ واقعات اور ان کے نتائج کو پیش کر کے مظلوموں اور بے بس لوگوں کو پُر امید نہ بنایا جا سکتا اور ظالموں اور ستمرانوں کو ان کی پاداش عمل سے خائف و ترساں نہ کیا جا سکتا۔ اس بنا پر کہ کیا ضروری ہے کہ وہی نتائج اب بھی ظاہر ہوں جو ان جیسے واقعات سے ظاہر ہو چکے ہیں، لیکن نتائج کی یک رنگی ہی وہ چیز ہے جو گزشتہ واقعات کو بعد والوں کیلئے مرقع عبرت بنا کر پیش کرتی ہے۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر امیر المومنین علیہ السلام نے بنی اسماعیل و بنی اسحٰق و بنی اسرائیل کے مختلف حالات و اَدوار اور شاہان عجم و روم کے ہاتھوں ان کی ابتلا و مشقت اور تباہی و بربادی کا تذکرہ کر کے دعوت فکر و بصیرت دی ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد بنی اسماعیل اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحٰق علیہ السلام کی اولاد بنی اسحٰق کہلاتی ہے جو بعد میں شاخ در شاخ ہو کر مختلف قبیلوں میں بٹتی اور مختلف ناموں سے موسوم ہوتی گئی۔ ان کا ابتدائی مسکن فلسطین کے علاقے میں مقام کنعان تھا جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سرزمین دجلہ و فرات سے ہجرت کر کے مقیم ہو گئے تھے۔ ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی منزل سرزمین حجاز تھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام انہیں اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو چھوڑ گئے تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے انہی اطراف میں بسنے والے قبیلہ جرہم کی ایک خاتون السیدہ بنت مضاض سے شادی کی جن سے ان کی اولاد پھلی پھولی اور اطراف و اکناف عالم میں پھیل گئی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے فرزند حضرت اسحٰق علیہ السلام کنعان ہی میں مقیم رہے اور ان کے فرزند حضرت یعقوب (اسرائیل) علیہ السلام تھے جنہوں نے اپنے ماموں لبان ابن ناہر کی دختر لیا سے عقد کیا اور اس کے مرنے کے بعد ان کی دوسری صاحبزادی راحیل سے شادی کی اور ان دونوں سے ان کی اولاد ہوئی جو بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ ان فرزندوں میں سے ایک فرزند حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو اپنے ہمسایہ ملک مصر میں ایک ناگہانی صورت سے پہنچ گئے اور غلامی و اسیری کی کڑیاں جھیلنے کے بعد مصر کے تخت و تاج کے مالک ہو گئے۔ اس انقلاب کے بعد انہوں نے اپنے تمام عزیزوں اور کنبہ والوں کو بھی وہیں بلا لیا اور اس طرح مصر بنی اسرائیل کا مستقر قرار پا گیا۔ یہ لوگ کچھ عرصہ تک امن چین سے رہتے سہتے اور عزت و احترام کی زندگی گزارتے رہے مگر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندے انہیں ذلت و حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگے اور انہیں ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنا لیا، یہاں تک کہ لڑکوں کو ذبح اور ان کی عورتوں کو کنیزی کیلئے رکھ لیتے تھے، جس سے ان کی عزم و ہمت پامال اور روح آزادی مضمحل ہو کر رہ گئی۔

آخر حالات نے پلٹا کھایا اور چار سو برس تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنے کے بعد نکبت و مصیبت کا دور کٹا اور فرعونی حکومت کے مظالم سے نجات دلانے کیلئے قدرت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھیج دیا جو انہیں لے کر مصر سے نکل کھڑے ہوئے، لیکن قدرت نے فرعون کو تباہ کرنے کیلئے اسرائیلیوں کا رخ دریائے نیل کی طرف موڑ دیا، جہاں آگے پانی کی طغیا نیاں تھیں اور پیچھے فرعون کی دَل بادَل فوجیں جس سے یہ لوگ سخت پریشان ہوئے۔ مگر قدرت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بے کھٹکے دریا کے اندر اتر جائیں۔ چنانچہ جب وہ بڑھے تو دریا میں ایک چھوڑ کئی راستے پیدا ہو گئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اسرائیلیوں کو لے کر دریا کے اس پار اتر گئے۔ فرعون عقب سے آ ہی رہا تھا۔ جب اس نے ان کو گزرتے ہوئے دیکھا تو لشکر کے ساتھ آگے بڑھا اور جب وسط دریا میں پہنچا تو رُکے ہوئے پانی میں حرکت پیدا ہوئی اور فرعون اور اس کے لشکر کو اپنی لپیٹ میں لے کر فنا کے گھاٹ اتار دیا۔

چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

﴿وَاِذْ نَجَّيْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَآءَكُمْ‌ؕ وَفِىْ ذٰلِكُمْ بَلَاۤءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ‏﴾

اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تمہیں برے سے برا عذاب دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی کٹھن آزمائش تھی۔[۲]

بہر صورت جب یہ حدود مصر سے نکل کر اپنے آبائی وطن فلسطین و شام میں پہنچے تو اپنی سلطنت و حکومت کی بنیاد رکھ کر آزادی کی فضا میں سانس لینے لگے اور قدرت نے ان کی پستی و ذلت کو فرمانروائی کی بلندی و رفعت سے بدل دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَاَوْرَثْنَا الْـقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوْا يُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِىْ بٰرَكْنَا فِيْهَا‌ ؕ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنٰى عَلٰى بَنِىْۤ اِسْرَاۤءِيْلَۙ بِمَا صَبَرُوْا‌ ؕ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهٗ وَمَا كَانُوْا يَعْرِشُوْنَ﴾

ہم نے اس جماعت کو جو کمزور و ناتواں سمجھی جاتی تھی، زمین کے پورب و پچھم کے ان حصوں کا وارث بنایا جنہیں ہم نے اپنی برکتوں سے مالا مال کیا ہے۔ اے پیغمبر! تمہارے پروردگار کا خوشگوار وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا، چونکہ وہ (فرعون کے مظالم پر) صبر و استقامت سے جمے رہے اور جو کچھ فرعون اور اس کی قوم بناتی اور جو عمارتیں بلند کرتی تھی ہم نے سب برباد کر دیں۔[۳]

اسرائیلیوں نے تخت فرما نروائی پر قدم رکھنے اور خوشحال و فارغ البالی حاصل کرنے کے بعد دور غلامی کی تمام ذلتوں اور رسوائیوں کو فراموش کر دیا اور اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں پر شکر گزار ہونے کی بجائے سرکشی و بغاوت پر اتر آئے۔ چنانچہ وہ بد کرداری و بد اخلاقی کی طرف بے جھجک بڑھتے، شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے، حیلے حوالوں سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرانے میں کوئی باک نہ کرتے، خدا کی طرف سے تبلیغ و دعوت کے فرائض انجام دینے والے انبیاء علیہم السلام کو ستاتے اور ان کے خونِ ناحق سے ہاتھ رنگتے۔ اب ان کی بد اعمالیوں کا تقاضا یہی تھا کہ انہیں ان کی پاداشِ عمل کی گرفت میں جکڑ لیا جائے، چنانچہ بخت نصر کہ جو ۶۰۰ق م میں بابل (عراق ) پر اپنا پرچم حکومت لہرا رہا تھا، شام و فلسطین پر حملہ کرنے کیلئے اٹھا اور اپنی خونچکاں تلواروں سے ستر (۷۰) ہزار اسرائیلیوں کو قتل اور ان کی بستیوں کو تباہ و برباد کر دیا اور بقیتہ السیف کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا کر کے اپنے ساتھ لے لیا اور انہیں غلامی کے بندھنوں میں کس کر قعر مذلت میں لا پھینکا۔ اگرچہ اس تباہی و بربادی کے بعد کوئی ایسی صورت نظر نہ آتی تھی کہ وہ پھر اوج و عروج حاصل کر سکیں گے مگر قدرت نے انہیں سنبھلنے کا ایک اور موقع دیا۔ چنانچہ جب بخت نصر کے مرنے کے بعد حکومت کا نظم و نسق بیل شازار کے سپرد ہوا تو اس نے رعیت پر طرح طرح کے مظالم شروع کر دیئے جس سے تنگ آ کر وہاں کے باشندوں نے شہنشاہ فارس (سائرس) کو پیغام بھجوایا کہ ہم اپنے فرمانروا کے ظلم وجور سہتے سہتے عاجز آ گئے ہیں۔ آپ ہماری دستگیری کیجئے اور بیل شازار کے مظالم سے چھٹکارا دلایئے۔ سائرس جو عدل گستر و انصاف پرور حکمران تھا اس آواز پر لبیک کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور وہاں کے لوگوں کے تعاون سے اس نے بابل کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کی گردنوں سے غلامی کا جوا اترا اور انہیں فلسطین کی طرف پلٹ جانے کی اجازت مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ستر برس غلامی میں گزارنے کے بعد دوبارہ اپنے ملک میں قدم رکھا اور حکومت کی باگ سنبھال لی۔

اب اگر وہ گزشتہ واقعات سے عبرت حاصل کرتے تو ان بد اعمالیوں کے مرتکب نہ ہوتے کہ جن کے نتیجہ میں انہیں غلامی کی ذلت سے دوچار ہونا پڑا تھا، مگر اس ناہنجار قوم کے مزاج کی ساخت ہی کچھ اس طرح کی تھی کہ جب بھی انہیں آسائش و فارغ البالی حاصل ہوتی تو دولت کی سر مستیوں میں کھو جاتے اور عیش پرستیوں میں پڑ جاتے، احکام شریعت کا تمسخر اڑاتے اور انبیاء علیہم السلام کا استہزاء کرتے، بلکہ ان کے قتل سے بھی ان کی جبیں پر شکن نہ آتی تھی۔ چنانچہ جب ان کے فرمانروا ہیرو دیس نے اپنی محبوبہ کے کہنے سے حضرت یحی ٰ علیہ السلام کا سر قلم کر کے اسے بطور تحفہ پیش کیا تو کسی ایک سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ اس ظلم کے خلاف کوئی آواز بلند کرتا یا اس سے کوئی اثر لیتا۔

ان کی سرکشیوں اور منہ زوریوں کا یہی عالم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ظہور فرمایا جو انہیں بے راہ رویوں سے روکتے اور نیکی و خوش اطواری کی تلقین فرماتے تھے، لیکن انہوں نے ان کی بھی مخالفت کی اور طرح طرح کے دکھ پہنچائے یہاں تک کہ ان کی زندگی کا خاتمہ کر دینے کے درپے ہو گئے، لیکن قدرت نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے دستبرد سے محفوظ کر دیا۔

جب ان کی طغیانیاں اس حد تک بڑھ گئیں اور قبول ہدایت کی صلاحیتیں دم توڑ چکیں تو تقدیر نے ان کی ہلاکت و بربادی کا سامان مکمل کر کے ان کی تباہی کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ قیصر روم اسنبانوس نے اپنے لڑکے طیطوس (ٹیٹس) کو شام پر حملہ کرنے کیلئے بھیجا۔ جس نے بیت المقدس کے گرد گھیرا ڈال دیا، مکانوں کو مسمار اور ہیکل کی دیواروں کو توڑ دیا، جس سے ہزاروں اسرائیلی گھروں کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے اور ہزاروں بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر گئے اور جو رہ گئے وہ تلواروں کی نذر ہو گئے اور وہ اسرائیلی جو حصار کے زمانہ میں بھاگ کھڑے ہوئے تھے ان میں سے بیشتر حجاز و یثرب میں آ کر آباد ہو گئے۔ مگر پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے انکار سے ان کی قومیت کا شیرازہ اس طرح بکھرا کہ پھر کسی مرکز عزت پر جمع نہ ہو سکے اور ذلت و رسوائی کے سوا عزت و سرفرازی کی زندگی انہیں نصیب نہ ہوئی۔

اسی طرح شاہان عجم نے بھی عرب پر شدید حملے کئے اور وہاں کے باشندوں کو مقہور و مغلوب بنا لیا۔ چنانچہ سابور ابن ہر مزنے سولہ برس کی عمر میں چار ہزار جنگجوؤں کو اپنے ساتھ لے کر ان عربوں پر حملہ کيا جو حدود فارس میں آباد تھے اور پھر بحرين، قطيف اور حجر کی طرف چڑھائی کی اور بنی تمیم و بنی بکر بن وائل و بنی عبد قیس کو تباہ و برباد کیا اور ستر ہزار عربوں کے شانے چیر ڈالے جس سے اس کا لقب ’’ذو الاکناف‘‘ پڑ گیا۔ اس نے عربوں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ صرف بالوں کی جھونپڑیوں میں رہیں، اپنے سر کے بالوں کو بڑھا لیں، سفید لباس نہ پہنیں اور بغیر زین کے گھوڑوں پر سواری کریں اور پھر عراق و شام کے درمیان نصیبین میں بارہ ہزار اصفہان اور فارس کے دوسرے شہروں کے باشندے بسائے اور اس طرح وہاں کے رہنے والوں کو سر سبز و شاداب جگہوں سے صحراؤں اور بے آب و گیاہ جنگلوں کی طرف دھکیل دیا جہاں نہ زندگی و راحت کا کوئی سامان تھا اور نہ معیشت کا کوئی ذریعہ اور یہ آپس کے تفرقہ و انتشار کے نتیجہ میں مدتوں تک دوسروں کی قہر سامانیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ آخر قدرت نے سرور کائنات ﷺ کو مبعوث فرما کر انہیں ذلت سے عروج و رفعت کی بلند سے بلند منزل پر پہنچا دیا۔

۵؂گڑھے میں گر کر مرنے والے شیطان سے مراد ’’ذوالثدیہ‘‘ ہے جو نہروان میں صاعقہ آسمانی کے گرنے سے ہلاک ہوا اور اس پر تلوار اٹھانے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ اس کی ہلاکت کے متعلق پیغمبر اکرم ﷺ پیشنگوئی فرما چکے تھے۔ اس لئے امیر المومنین علیہ السلام نہروان کے میدان میں استیصال خوارج کے بعد اس کی تلاش میں نکلے، لیکن اس کی لاش کہیں نظر نہ آئی، مگر ریان ابن صبرہ نے نہر کے کنارے ایک گڑھے کے اندر چالیس پچاس لاشیں دیکھیں۔جب انہیں نکالا گیا تو ان میں ذو الثدیہ کی بھی لاش تھی اور اس کے شانے پر گوشت کا ایک لوتھڑا ابھرا ہوا تھا جس کی وجہ سے اسے ’’ذوالثدیہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ جب امیرالمومنین علیہ السلام نے دیکھا تو فرمایا: «اَللّٰهُ اَکْبَرُ وَ اللّٰهِ مَا كَذَبْتُ وَ لَا كُذِبْتُ‏» [۴]: اللہ اکبر، خدا کی قسم! نہ میں نے جھوٹ کہا تھا اور نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی تھی۔

[۱]۔ سورۂ علق، آیت ۶-۷۔

[۲]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۴۹۔

[۳]۔ سورۂ اعراف، آیت ۱۳۷۔

[۴]۔ شرح الاخبار فی فضائل الائمۃ الاطہار، ج ۲، ص ۳۲۱

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button