خطبہ (۱۹۱)
(۱٩۱) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹۱)
رُوِیَ اَنَّ صَاحِبًا لِّاَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ یُقَالُ لَهٗ: «هَمَّامٌ» كَانَ رَجُلًا عَابِدًا،فَقَالَ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ صِفْ لِیَ الْمُتَّقِیْنَ حَتّٰۤى كَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلَیْهِمْ، فَتَثَاقَلَ ؑ عَنْ جَوَابِهٖ،ثُمَّ قَالَ: يَا هَمَّامُ! اتَّقِ اللّٰهَ وَ اَحْسِنْ فَـ ﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ﴾، فَلَمْ يَقْنَعْ هَمَّامٌۢ بِھٰذَا الْقَوْلِ حَتّٰى عَزَمَ عَلَيْهِ، فَحَمِدَ اللّٰهَ وَ اَثْنٰى عَلَيْهِ وَ صَلّٰى عَلَى النَّبِیِّ ﷺ، ثُمَّ قَالَ:
بیان کیا گیا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے ایک صحابی [۱] نے کہ جنہیں ہمام کہا جاتا ہے اور جو بہت عبادت گزار شخص تھے، حضرتؑ سے عرض کیا کہ: یا امیر المومنینؑ! مجھ سے پرہیز گاروں کی حالت اس طرح بیان فرمائیں کہ ان کی تصویر میری نظروں میں پھرنے لگے۔ حضرتؑ نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا۔ پھر اتنا فرمایا کہ: اے ہمام! اللہ سے ڈرو اور اچھے عمل کرو، کیونکہ’’اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی و نیک کردار ہوں‘‘۔ ہمام نے آپؑ کے اس جواب پر اکتفا نہ کیا اور آپؑ کو (مزید بیان فرمانے کیلئے) قسم دی جس پر حضرتؑ نے خدا کی حمد و ثنا کی اور نبی ﷺ پر درود بھیجا اور یہ فرمایا:
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللهَ ـ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰی ـ خَلَقَ الْخَلْقَ حِیْنَ خَلَقَهُمْ غَنِیًّا عَنْ طَاعَتِهِمْ، اٰمِنًا مِّنْ مَّعْصِیَتِهِمْ، لِاَنَّہٗ لَا تَضُرُّهٗ مَعْصِیَةُ مَنْ عَصَاهُ، وَ لَا تَنْفَعُهٗ طَاعَةُ مَنْ اَطَاعَهٗ، فَقَسَمَ بَیْنَهُمْ مَعَایِشَهُمْ، وَ وَضَعَهُمْ مِنَ الدُّنْیَا مَوَاضِعَهُمْ.
اللہ سبحانہ نے جب مخلوقات کو پیدا کیا تو ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ان کے گناہوں سے بے خطر ہو کر کارگاہ ہستی میں انہیں جگہ دی، کیونکہ اسے نہ کسی معصیت کار کی معصیت سے نقصان اور نہ کسی فرمانبردار کی اطاعت سے فائدہ پہنچتا ہے۔ اس نے زندگی کا سر و سامان ان میں بانٹ دیا ہے اور دنیا میں ہر ایک کو اس کے مناسب حال محل و مقام پہ رکھا ہے۔
فَالْمُتَّقُوْنَ فِیْهَا هُمْ اَهْلُ الْفَضَآئِلِ: مَنْطِقُهُمُ الصَّوَابُ، وَ مَلْبَسُهُمُ الْاِقْتِصَادُ، وَ مَشْیُهُمُ التَّوَاضُعُ. غَضُّوْا اَبْصَارَهُمْ عَمَّا حَرَّمَ اللهُ عَلَیْهِمْ، وَ وَقَفُوْا اَسْمَاعَهُمْ عَلَی الْعِلْمِ النَّافِعِ لَهُمْ. نُزِّلَتْ اَنْفُسُهُمْ مِنْهُمْ فِی الْبَلَآءِ كَالَّتِیْ نُزِّلَتْ فِی الرَّخَآءِ. وَ لَوْلَا الْاَجَلُ الَّذِیْ كَتَبَ اللهُ لَھُمْ لَمْ تَسْتَقِرَّ اَرْوَاحُهُمْ فِیْۤ اَجْسَادِهِمْ طَرْفَةَ عَیْنٍ، شَوْقًا اِلَی الثَّوَابِ، وَ خَوْفًا مِّنَ الْعِقَابِ.
چنانچہ فضیلت ان کیلئے ہے جو پرہیزگار ہیں کیونکہ ان کی گفتگو جچی تلی ہوئی، پہناوا میانہ روی اور چال ڈھال عجز و فروتنی ہے۔ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور فائدہ مند علم پر کان دھر لئے ہیں۔ ان کے نفس زحمت و تکلیف میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے آرام و آسائش میں۔ اگر (زندگی کی مقررہ) مدت نہ ہوتی جو اللہ نے ان کیلئے لکھ دی ہے تو ثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے جسموں میں چشم زدن کیلئے بھی نہ ٹھہرتیں۔
عَظُمَ الْخَالِقُ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ فَصَغُرَ مَا دُوْنَهٗ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ، فَهُمْ وَ الْجَنَّةُ كَمَنْ قَدْ رَاٰهَا، فَهُمْ فِیْهَا مُنَعَّمُوْنَ، وَهُمْ وَ النَّارُ كَمَنْ قَدْ رَاٰهَا، فَهُمْ فِیْهَا مُعَذَّبُوْنَ.
خالق کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لئے کہ اس کے ماسوا ہر چیز ان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے۔ ان کو جنت کا ایسا ہی یقین ہے جیسے کسی کو آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتا ہے، تو گویا وہ اسی وقت جنت کی نعمتوں سے سرفراز ہیں اور دوزخ کا بھی ایسا ہی یقین ہے جیسے کہ وہ دیکھ رہے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے وہاں کا عذاب ان کے گرد و پیش موجود ہے۔
قُلُوْبُهُمْ مَّحْزُوْنَةٌ، وَ شُرُوْرُهُمْ مَاْمُوْنَةٌ، وَ اَجْسَادُهُمْ نَحِیْفَةٌ، وَ حَاجَاتُهُمْ خَفِیْفَةٌ، وَ اَنْفُسُهُمْ عَفِیْفَةٌ. صَبَرُوْا اَیَّامًا قَصِیْرَةً اَعْقَبَتْهُمْ رَاحَةً طَوِیْلَةً، تِجَارَةٌ مُّرْبِحَةٌ، یَسَّرَهَا لَهُمْ رَبُّهُمْ. اَرَادَتْهُمُ الدُّنْیَا فَلَمْ یُرِیْدُوْهَا، وَ اَسَرَتْهُمْ فَفَدَوْۤا اُنْفُسَهُمْ مِنْهَا.
ان کے دل غمزدہ و محزون اور لوگ ان کے شر و ایذا سے محفوظ و مامون ہیں۔ ان کے بدن لاغر، ضروریات کم اور نفس نفسانی خواہشوں سے بری ہیں۔ انہوں نے چند مختصر سے دنوں کی ( تکلیفوں پر) صبر کیا جس کے نتیجہ میں دائمی آسائش حاصل کی۔ یہ ایک فائدہ مند تجارت ہے جو اللہ نے ان کیلئے مہیا کی۔ دنیا نے انہیں چاہا مگر انہوں نے دنیا کو نہ چاہا۔ اس نے انہیں قیدی بنایا تو انہوں نے اپنے نفسوں کا فدیہ دے کر اپنے کو چھڑا لیا۔
اَمَّا اللَّیْلَ فَصَافُّوْنَ اَقْدَامَهُمْ، تَالِیْنَ لِاَجْزَآءِ الْقُرْاٰنِ یُرَتِّلُوْنَهٗ تَرْتِیْلًا، یُحَزِّنُوْنَ بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ، وَ یَسْتَثِیْرُوْنَ بِهٖ دَوَآءَ دَآئِهِمْ، فَاِذَا مَرُّوْا بِاٰیَةٍ فِیْهَا تَشْوِیْقٌ رَكَنُوْۤا اِلَیْهَا طَمَعًا، وَ تَطَلَّعَتْ نُفُوْسُهُمْ اِلَیْهَا شَوْقًا، وَ ظَنُّوْا اَنَّهَا نُصْبُ اَعْیُنِهِمْ، وَ اِذَا مَرُّوْا بِاٰیَةٍ فِیْهَا تَخْوِیْفٌ اَصْغَوْۤا اِلَیْهَا مَسَامِعَ قُلُوْبِهِمْ، وَ ظَنُّوْا اَنَّ زَفِیْرَ جَهَنَّمَ وَ شَهِیْقَهَا فِیْۤ اُصُوْلِ اٰذَانِهِمْ، فَهُمْ حَانُوْنَ عَلٰۤی اَوْسَاطِهِمْ، مُفْتَرِشُوْنَ لِجِبَاهِهِمْ وَ اَكُفِّهِمْ وَ رُكَبِهِمْ، وَ اَطْرَافِ اَقْدَامِهِمْ، یَطْلُبُوْنَ اِلَی اللهِ تَعَالٰی فِیْ فَكَاكِ رِقَابِهِمْ.
رات ہوتی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں، جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈتے ہیں۔ جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس میں (جنت کی) ترغیب دلائی گئی ہو تو اس کے طمع میں ادھر جھک پڑتے ہیں اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل بے تابانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (پر کیف) منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے کہ جس میں (دوزخ سے )ڈرایا گیا ہو تو اس کی جانب دل کے کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے۔ وہ (رکوع میں) اپنی کمریں جھکائے اور (سجدہ میں) اپنی پیشانیاں، ہتھیلیاں، گھٹنے اور پیروں کے کنارے (انگوٹھے) زمین پر بچھائے ہوئے ہیں اور اللہ سے گلو خلاصی کیلئے التجائیں کرتے ہیں۔
وَ اَمَّا النَّهَارَ فَحُلَمَآءُ عُلَمَآءُ، اَبْرَارٌ اَتْقِیَآءُ، قَدْ بَرَاهُمُ الْخَوْفُ بَرْیَ الْقِدَاحِ، یَنْظُرُ اِلَیْهِمُ الْنَّاظِرُ فَیَحْسَبُهُمْ مَرْضٰی، وَ مَا بِالْقَوْمِ مِنْ مَّرَضٍ، وَ یَقُوْلُ: لَقَدْ خُوْلِطُوْا! وَ لَقَدْ خَالَطَهُمْ اَمْرٌ عَظِیْمٌ! لَا یَرْضَوْنَ مِنْ اَعْمَالِهِمُ الْقَلِیْلَ، وَ لَا یَسْتَكْثِرُوْنَ الْكَثِیْرَ.
دن ہوتا ہے تو وہ (بردبار) دانشمند عالم، نیکو کار اور پرہیز گار نظر آتے ہیں۔ خوف نے انہیں تیروں کی طرح لاغر کر چھوڑا ہے۔ دیکھنے والا انہیں دیکھ کر مریض سمجھتا ہے، حالانکہ انہیں کوئی مرض نہیں ہوتا اور جب ان کی باتوں کو سنتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ ان کی عقلوں میں فتور ہے، (ایسا نہیں) بلکہ انہیں تو ایک دوسرا ہی خطرہ لاحق ہے۔ وہ اپنے اعمال کی کم مقدار سے مطمئن نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ نہیں سمجھتے۔
فَهُمْ لِاَنْفُسِهِمْ مُتَّهِمُوْنَ، وَ مِنْ اَعْمَالِهِمْ مُشْفِقُوْنَ، اِذَا زُكِّـیَ اَحَدُهُمْ خَافَ مِمَّا یُقَالُ لَهٗ، فَیَقُوْلُ: اَنَا اَعْلَمُ بِنَفْسِیْ مِنْ غَیْرِیْ، وَ رَبِّیْۤ اَعْلَمُ بِیْ مِنِّیْ بِنَفْسِیْ! اَللّٰهُمَّ لَا تُؤَاخِذْنِیْ بِمَا یَقُوْلُوْنَ، وَ اجْعَلْنِیْۤ اَفْضَلَ مِمَّا یَظُنُّوْنَ، وَ اغْفِرْ لِیْ مَا لَا یَعْلَمُوْنَ.
وہ اپنے ہی نفسوں پر (کوتاہیوں کا) الزام رکھتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ جب ان میں سے کسی ایک کو (صلاح و تقویٰ کی بنا پر) سراہا جاتا ہے تو وہ اپنے حق میں کہی ہوئی باتوں سے لرز اٹھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ: میں دوسروں سے زیادہ اپنے نفس کو جانتا ہوں اور میرا پروردگار مجھ سے بھی زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے۔ خدایا! ان کی باتوں پر میری گرفت نہ کرنا اور میرے متعلق جو یہ حسن ظن رکھتے ہیں مجھے اس سے بہتر قرار دینا اور میرے ان گناہوں کو بخش دینا جو ان کے علم میں نہیں۔
فَمِنْ عَلَامَةِ اَحَدِهِمْ اَنَّكَ تَرٰی لَهٗ قُوَّةً فِیْ دِیْنٍ، وَ حَزْمًا فِیْ لِیْنٍ، وَ اِیْمَانًا فِیْ یَقِیْنٍ، وَ حِرْصًا فِیْ عِلْمٍ، وَ عِلْمًا فِیْ حِلْمٍ، وَ قَصْدًا فِیْ غِنًی، وَ خُشُوْعًا فِیْ عِبَادَةٍ، وَ تَجَمُّلًا فِیْ فَاقَةٍ، وَ صَبْرًا فِیْ شِدَّةٍ، وَ طَلَبًا فِیْ حَلَالٍ، وَ نَشَاطًا فِیْ هُدًی، وَ تَحَرُّجًا عَنْ طَمَعٍ.
ان میں سے ایک کی علامت یہ ہے کہ تم اس کے دین میں استحکام، نرمی و خوش خلقی کے ساتھ دور اندیشی، ایمان میں یقین و استواری، (حصول علم میں طمع)، بردباری کے ساتھ دانائی، خوشحالی میں میانہ روی، عبادت میں عجزو نیاز مندی، فقر و فاقہ میں آن بان، مصیبت میں صبر، طلب رزق میں حلال پر نظر، ہدایت میں کیف و سرور اور طمع سے نفرت و بے تعلقی دیکھو گے۔
یَعْمَلُ الْاَعْمَالَ الصَّالِحَةَ وَ هُوَ عَلٰی وَجَلٍ، یُمْسِیْ وَ هَمُّهُ الشُّكْرُ، وَ یُصْبِحُ وَ هَمُّهُ الذِّكْرُ. یَبِیْتُ حَذِرًا، وَ یُصْبِحُ فَرِحًا، حَذِرًا لِمَا حُذِّرَ مِنَ الْغَفْلَةِ، وَ فَرِحًۢا بِمَاۤ اَصَابَ مِنَ الْفَضْلِ وَ الرَّحْمَةِ. اِنِ اسْتَصْعَبَتْ عَلَیْهِ نَفْسُهٗ فِیْمَا تَكْرَهُ لَمْ یُعْطِهَا سُؤْلَهَا فِیْمَا تُحِبُّ. قُرَّةُ عَیْنِهٖ فِیْمَا لَا یَزُوْلُ، وَ زَهَادَتُهٗ فِیْمَا لَا یَبْقٰی، یَمْزُجُ الْحِلْمَ بِالْعِلْمَ، وَ الْقَوْلَ بِالْعَمَلِ.
وہ نیک اعمال بجا لانے کے باوجود خائف رہتا ہے۔ شام ہوتی ہے تو اس کے پیش نظر اللہ کا شکر اور صبح ہوتی ہے تو اس کا مقصد یاد خدا ہوتا ہے۔ رات خوف و خطر میں گزارتا ہے اور صبح کو خوش اٹھتا ہے۔ خطرہ اس کا کہ رات غفلت میں نہ گزر جائے اور خوشی اس فضل و رحمت کی دولت پر جو اسے نصیب ہوئی ہے۔ اگر اس کا نفس کسی ناگوار صورت حال کے برداشت کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ اس کی من مانی خواہش کو پورا نہیں کرتا۔ جاودانی نعمتوں میں اس کیلئے آنکھوں کا سرور ہے اور دارِ فانی کی چیزوں سے بے تعلقی و بیزاری ہے۔ اس نے علم میں حلم اور قول میں عمل کو سمو دیا ہے۔
تَرَاهُ قَرِیْبًا اَمَلُهٗ، قَلِیْلًا زَلَلُـهٗ، خَاشِعًا قَلْبُهْ، قَانِعَةً نَّفْسُهٗ، مَنْزُوْرًا اَكْلُهٗ، سَهْلًا اَمْرُهٗ، حَرِیْزًا دِیْنُهٗ، مَیِّتَةً شَهْوَتُهٗ، مَكْظُوْمًا غَیْظُهٗ. الْخَیْرُ مِنْهُ مَاْمُوْلٌ، وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَاْمُوْنٌ. اِنْ كَانَ فِی الْغَافِلِیْنَ كُتِبَ فِی الذَّاكِرِیْنَ، وَ اِنْ كَانَ فِی الذَّاكِرِیْنَ لَمْ یُكْتَبْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ.
تم دیکھو گے کہ اس کی امیدوں کا دامن کوتاہ، لغزشیں کم، دل متواضع اور نفس قانع، غذا قلیل، رویہ بے زحمت، دین محفوظ، خواہشیں مردہ اور غصہ ناپید ہے۔ اس سے بھلائی ہی کی توقع ہو سکتی ہے اور اس سے گزند کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا۔ جس وقت ذکر خدا سے غافل ہونے والوں میں نظر آتا ہے جب بھی ذکر کرنے والوں میں لکھا جاتا ہے، (چونکہ اس کا دل غافل نہیں ہوتا) اور جب ذکر کرنے والوں میں ہوتا ہے تو ظاہر ہی ہے کہ اسے غفلت شعاروں میں شمار نہیں کیا جاتا۔
یَعْفُوْ عَمَّنْ ظَلَمَهٗ، وَ یُعْطِیْ مَنْ حَرَمَهٗ، وَ یَصِلُ مَنْ قَطَعَهٗ. بَعِیْدًا فُحْشُهٗ، لَیِّنًا قَوْلُهٗ، غَآئِبًا مُّنْكَرُهٗ، حَاضِرًا مَّعْرُوْفُهٗ، مُقْبِلًا خَیْرُهٗ، مُدْبِرًا شَرُّهٗ. فِی الزَّلَازِلِ وَقُوْرٌ، وَ فِی الْمَكَارِهِ صَبُوْرٌ، وَ فِی الرَّخَآءِ شَكُوْرٌ.
جو اس پر ظلم کرتا ہے اس سے درگزر کر جاتا ہے، جو اسے محروم کرتا ہے اس کا دامن اپنی عطا سے بھر دیتا ہے، جو اس سے بگاڑتا ہے یہ اس سے بناتا ہے۔ بیہودہ بکواس اس کے قریب نہیں پھٹکتی۔ اس کی باتیں نرم، برائیاں ناپید اور اچھائیاں نمایاں ہیں، خوبیاں اُبھر کر سامنے آتی ہیں اور بدیاں پیچھے ہٹتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ مصیبت کے جھٹکوں میں کوہ ِحلم و وقار، سختیوں پر صابر اور خوشحالی میں شاکر رہتا ہے۔
لَا یَحِیْفُ عَلٰی مَنْ یُبْغِضُ، وَ لَا یَاْثَمُ فِیْمَنْ یُّحِبُّ. یَعْتَرِفُ بِالْحَقِّ قَبْلَ اَنْ یُشْهَدَ عَلَیْهِ. لَا یُضَیِّـعُ مَا اسْتُحْفِظَ، وَ لَا یَنْسٰی مَا ذُكِّرَ، وَ لَا یُنَابِزُ بِالْاَلْقَابِ، وَ لَا یُضَارُّ بِالْجَارِ، وَ لَا یَشْمَتُ بِالْمَصَآئِبِ، وَ لَا یَدْخُلُ فِی الْبَاطِلِ، وَ لَا یَخْرُجُ مِنَ الْحَقِّ.
جس کا دشمن بھی ہو اس کے خلاف بے جا زیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہوتا ہے اس کی خاطر بھی کوئی گناہ نہیں کرتا۔ قبل اس کے کہ اس کی کسی بات کے خلاف گواہی کی ضرورت پڑے وہ خود ہی حق کا اعتراف کر لیتا ہے۔ امانت کو ضائع و برباد نہیں کرتا، جو اسے یاد دلایا گیا ہے اسے فراموش نہیں کرتا۔ نہ دوسروں کو برے ناموں سے یاد کرتا ہے نہ ہمسایوں کو گزند پہنچاتا ہے، نہ دوسروں کی مصیبتوں پر خوش ہوتا ہے،نہ باطل کی سرحد میں داخل ہوتا ہے اور نہ جادۂ حق سے قدم باہر نکالتا ہے۔
اِنْ صَمَتَ لَمْ یَغُمَّهٗ صَمْتُهٗ، وَ اِنْ ضَحِكَ لَمْ یَعْلُ صَوْتُهٗ، وَ اِنْۢ بُغِیَ عَلَیْهِ صَبَرَ حَتّٰی یَكُوْنَ اللهُ هُوَ الَّذِیْ یَنْتَقِمُ لَهٗ. نَفْسُهُ مِنْهُ فِیْ عَنَآءٍ، وَ النَّاسُ مِنْهُ فِیْ رَاحَةٍ. اَتْعَبَ نَفْسَهٗ لِاٰخِرَتِهٖ، وَ اَرَاحَ النَّاسَ مِنْ نَّفْسِهٖ.
اگر چپ سادھ لیتا ہے تو اس خاموشی سے اس کا دل نہیں بجھتا اور اگر ہنستا ہے تو آواز بلند نہیں ہوتی۔ اگر اس پر زیادتی کی جائے تو سہ لیتا ہے، تاکہ اللہ ہی اس کا انتقام لے۔ اس کا نفس اس کے ہاتھوں مشقت میں مبتلا ہے اور دوسرے لوگ اس سے امن و راحت میں ہیں۔ اس نے آخرت کی خاطر اپنے نفس کو زحمت میں اور خلق خدا کو اپنے نفس (کے شر) سے راحت میں رکھا ہے۔
بُعْدُهٗ عَمَّنْ تَبَاعَدَ عَنْهُ زُهْدٌ وَّ نَزَاهَةٌ، وَ دُنُوُّهٗ مِمَّنْ دَنَا مِنَهُ لِیْنٌ وَّ رَحْمَةٌ، لَیْسَ تَبَاعُدُهٗ بِكِبْرٍ وَّ عَظَمَةٍ، وَ لَا دُنُوُّهٗ بِمَكْرٍ وَّ خَدِیْعَةٍ.
جن سے دوری اختیار کرتا ہے تو یہ زہد و پاکیزگی کیلئے ہوتی ہے اور جن سے قریب ہوتا ہے تو یہ خوش خلقی و رحم دلی کی بنا پر ہے۔ نہ اس کی دوری غرور و کبر کی وجہ سے اور نہ اس کا میل جول کسی فریب اور مکر کی بنا پر ہوتا ہے۔
قَالَ: فَصَعِقَ هَمَّامٌ صَعْقَةً كَانَتْ نَفْسُهٗ فِیْهَا. فَقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ:
راوی کا بیان ہے کہ ان کلمات کو سنتے سنتے ہمام پر غشی طاری ہوئی اور اسی عالم میں اس کی روح پرواز کر گئی۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ:
اَمَا وَاللهِ! لَقَدْ كُنْتُ اَخَافُهَا عَلَیْهِ.
’’خدا کی قسم! مجھے اس کے متعلق یہی خطرہ تھا‘‘۔
ثُمَّ قَالَ:
پھر فرمایا کہ:
هٰكَذَا تَصْنَعُ الْمَوَاعِظُ الْبَالِغَةُ بِاَهْلِهَا.
’’مؤثر نصیحتیں نصیحت پذیر طبیعتوں پر یہی اثر کیا کرتی ہیں‘‘۔
فَقَالَ لَهٗ قَآئِلٌ: فَمَا بَالُكَ یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ؟ فَقَالَ ؑ:
اس وقت ایک کہنے والے [۲] نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! پھر کیا بات ہے کہ خود آپؑ پر ایسا اثر نہیں ہوتا؟ حضرتؑ نے فرمایا کہ:
وَیْحَكَ! اِنَّ لِكُلِّ اَجَلٍ وَّقْتًا لَّا یَعْدُوْهُ، وَ سَبَبًا لَّا یَتَجَاوَزُهٗ، فَمَهْلًا، لَا تَعُدْ لِـمِثْلِهَا، فَاِنَّمَا نَفَثَ الشَّیْطٰنُ عَلٰی لِسَانِكَ!.
’’بلاشبہ موت کیلئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا اور اس کا ایک سبب ہوتا ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا۔ایسی (بے معنی) گفتگو سے جو شیطان نے تمہاری زبان پر جاری کی ہے، باز آؤ اور ایسی بات پھر زبان پر نہ لانا‘‘۔
۱ابن ابی الحدید کے نزدیک اس سے ’’ہمام ابن شریح‘‘ مراد ہیں اور علامہ مجلسیؒ فرماتے ہیں کہ اس سے بظاہر ’’ہمام ابن عبادہ‘‘ مراد ہیں۔
۲یہ شخص ’’عبد ابن کوا‘‘ تھا جو خوارج کی ہنگامہ آرائیوں میں پیش پیش اور حضرتؑ کا سخت مخالف تھا۔