خطبہ (۱۹۵)
(۱٩٥) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹۵)
وَ لَقَدْ عَلِمَ الْمُسْتَحْفَظُوْنَ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ -ﷺ اَنِّیْ لَمْ اَرُدَّ عَلَی اللهِ وَ لَا عَلٰی رَسُوْلِهٖ سَاعَةً قَطُّ.
پیغمبر ﷺ کے وہ اصحاب جو (احکام شریعت) کے امین ٹھہرائے گئے تھے اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ میں [۱] نے کبھی ایک آن کیلئے بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام سے سرتابی نہیں کی۔
وَ لَقَدْ وَاسَیْتُهٗ بِنَفْسِیْ فِی الْمَوَاطِنِ الَّتِیْ تَنْكُصُ فِیْهَا الْاَبْطَالُ وَ تَتَاَخَّرُ فِیْهَا الْاَقْدَامُ، نَجْدَةً اَكْرَمَنِی اللهُ بِهَا.
اور میں نے اس جواں مردی [۲] کے بل بوتے پر کہ جس سے اللہ نے مجھے سرفراز کیا ہے پیغمبر ﷺ کی دل و جان سے مدد ان موقعوں پر کی کہ جن موقعوں سے بہادر (جی چرا کر) بھاگ کھڑے ہوتے تھے اور قدم (آگے بڑھنے کی بجائے) پیچھے ہٹ جاتے تھے۔
وَ لَقَدْ قُبِضَ رَسُوْلُ اللهِ -ﷺ وَ اِنَّ رَاْسَهٗ لَعَلٰی صَدْرِیْ. وَلَقَدْ سَالَتْ نَفْسُهٗ فِیْ كَفِّیْ، فَاَمْرَرْتُهَا عَلٰی وَجْهِیْ.
جب رسول اللہ ﷺ نے رحلت فرمائی تو ان کا سر (اقدس) میرے سینے پر تھا اور جب میرے ہاتھوں میں ان کی روحِ طیب نے مفارقت کی تو میں نے (تبرکاً) اپنے ہاتھ منہ پر پھیر لئے۔
وَ لَقَدْ وَلِیْتُ غُسْلَهٗ -ﷺ وَ الْمَلٰٓئِكُةُ اَعْوَانِیْ، فَضَجَّتِ الدَّارُ وَ الْاَفْنِیَةُ: مَلَاٌ یَّهْبِطُ، وَ مَلَاٌ یَّعْرُجُ، وَ مَا فَارَقَتْ سَمْعِیْ هَیْنَمَةٌ مِّنْهُمْ، یُصَلُّوْنَ عَلَیْهِ حَتّٰی وَارَیْنَاهُ فِیْ ضَرِیْحِهٖ. فَمَنْ ذاۤ اَحَقُّ بِهٖ مِنِّیْ حَیًّا وَّ مَیِّتًا؟ فَانْفُذُوْا عَلٰی بَصَآئِرِكُمْ، وَلْتَصْدُقْ نِیَّاتُكُمْ فِیْ جِهَادِ عَدُوِّكُمْ.
میں نے آپؐ کے غسل کا فریضہ انجام دیا، اس عالم میں کہ ملائکہ میرا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ (آپؐ کی رحلت سے) گھر اور اس کے اطراف و جوانب نالہ و فریاد سے گونج رہے تھے، (فرشتوں کا تانتا بندھا ہوا تھا) ایک گروہ اُترتا تھا اور ایک گروہ چڑھتا تھا، وہ حضرتؐ پر نماز پڑھتے تھے اور ان کی دھیمی آوازیں برابر میرے کانوں میں آ رہی تھیں، یہاں تک کہ ہم نے انہیں قبر میں چھپا دیا تو اب ان کی زندگی میں اور موت کے بعد مجھ سے زائد کون ان کا حقدار ہو سکتا ہے؟ (جب میرا حق تمہیں معلوم ہو چکا) تو تم بصیرت کے جلو میں دشمن سے جہاد کرنے کیلئے صدق نیت سے بڑھو۔
فَوَالَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ اِنِّیْ لَعَلٰی جَادَّةِ الْحَقِّ، وَ اِنَّهُمْ لَعَلٰی مَزَلَّةِ الْبَاطِلِ. اَقُوْلُ مَا تَسْمَعُوْنَ، وَ اَسْتَغْفِرُ اللهَ لِیْ وَ لَكُمْ!.
اس ذات کی قسم کہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، بلاشبہ میں جادۂ حق پر ہوں اور وہ (اہل شام) باطل کی ایسی گھاٹی پر ہیں کہ جہاں سے پھسلے کہ پھسلے۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ تم سن رہے ہو۔ میں اپنے اور تمہارے لئے اللہ سے آمرزش کا طلبگار ہوں۔
۱ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ: امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد کہ: ’’میں نے کبھی پیغمبر ﷺ کے احکام سے سرتابی نہیں کی‘‘، یہ ان لوگوں پر ایک طرح کا طنز ہے کہ جو پیغمبر ﷺ کے احکام کو ردّ کرنے میں بیباک تھے اور انہیں ٹوکنے کی جسارت کر گزرتے تھے، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب پیغمبر ﷺ کفار قریش سے صلح پر آمادہ ہو گئے تو صحابہ میں سے ایک صاحب اتنے بر افروختہ ہوئے کہ وہ پیغمبر ﷺ کی رسالت میں شک کا اظہار کرنے لگے جس پر حضرت ابو بکر کو یہ کہنا پڑا:
وَيْحَكَ! الْزَمْ غَرْزَهٗ، فَوَاللهِ! اِنَّهٗ لَرَسُوْلُ اللهِ، وَ اِنَّ اللهَ لَا يُضِيْعُهٗ.
تم پر افسوس ہے! تمہیں ان کی رکاب تھامے رہنا چاہیے۔ یہ یقیناً اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ضائع و برباد نہیں ہونے دے گا۔[۱]
اس شک کے ازالہ کیلئے ’’قسم‘‘، ’’اِنَّ‘‘ اور ’’لام تاکی‘‘ کے ذریعہ نبوت کے یقین دلانے کی کوشش کرنا اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ مخاطب شک کی منزل سے بھی کچھ آگے نکل چکا تھا، کیونکہ یہ تاکیدی لفظیں وہیں پر استعمال کی جاتی ہیں جہاں انکار تک کی نوبت پہنچ چکی ہو۔ بہر صورت اگر ایمان عدم شک کا نام ہے تو شک سے ایمان کا مجروح ہونا بھی ضروری ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے:
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا﴾
مومن بس وہی لوگ ہیں جو اللہ و رسول پر ایمان لانے کے بعد شک نہیں کرتے۔[۲]
اسی طرح جب پیغمبر ﷺ نے ابن سلول کی میت پر نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو پیغمبر ﷺ سے کہا: « كَيْفَ تَسْتَغْفِرُ لِرَاْسِ الْمُنَافِقِيْنَ» : ’’کیا اس منافقوں کے سردار کیلئے آپؐ دُعائے مغفرت کریں گے‘‘؟ اور یہ کہہ کر پیغمبر ﷺ کو دامن سے پکڑ کر کھینچ لیا جس پر پیغمبر ﷺ کو یہ کہنا پڑا کہ میرا کوئی اقدام حکم خدا کے بغیر نہیں ہوتا۔
اسی طرح جیش اسامہ کے ہمراہ جانے میں پیغمبر ﷺ کے تاکیدی حکم کو ٹھکرا دیا گیا۔
اور ان تمام سرتابیوں سے بڑھ کر وہ سر تابی تھی جو تحریر وصیّت کے سلسلہ میں ظاہر ہوئی اور پیغمبرؐ کی طرف ایسی غلط نسبت دی گئی کہ جس سے احکام شریعت پر سے اعتماد ہی اٹھ جاتا ہے اور ہر حکم کے متعلق یہ احتمال پیدا ہو سکتا ہے کہ: نہ معلوم کہ یہ حکم وحی الٰہی کی بنا پر ہے یا معاذ اللہ! کسی بد حواسی کا نتیجہ ہے۔↑
۲اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہر معرکہ اور جان جوکھوں کے موقعہ پر پیغمبر ﷺ کے سینہ سپر رہے اور اپنی خدا داد جرأت و ہمت سے ان کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ چنانچہ: پہلا جانثاری کا موقعہ وہ ہے کہ جب قریش نے قتل پیغمبر ﷺ کا عزم بالجزم کر لیا تو آپؑ تلواروں کے نرغہ اور دشمنوں کے ہجوم میں بستر نبوت پر سو گئے جس سے دشمنوں کو اپنے ارادوں میں ناکام و نامراد ہونا پڑا۔ پھر ان جنگوں میں کہ جہاں دشمن ہجوم کر کے پیغمبر ﷺ پر ٹوٹ پڑتے تھے اور اچھے اچھے بہادروں کے قدم ڈگمگا جاتے تھے، آپؑ علم لشکر کو لئے ہوئے پامردی سے جمے رہتے تھے۔ چنانچہ ابن عبد البر تحریر کرتے ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لِعَلِیٍّ ؑ اَرْبَعُ خِصَالٍ لَّيْسَتْ لِاَحَدٍ غَيْرِهٖ: هُوَ اَوَّلُ عَرَبِیٍّ وَّ عَجَمِیٍّ صَلّٰى مَعَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ، وَ هُوَ الَّذِیْ كَانَ لِوَآئُهٗ مَعَهٗ فِیْ كُلِّ زَحْفٍ وَّ هُوَ الَّذِیْ صَبَرَ مَعَهٗ يَوْمَ فَرَّ عَنْهُ غَيْرُهٗ وَ هُوَ الَّذِیْ غَسَّلَهٗ وَ اَدْخَلَهٗ قَبْرَهٗ.
ابن عباس کہتے ہیں کہ: امیر المومنین علیہ السلام میں چار خصوصیتیں ایسی تھیں جو ان کے علاوہ کسی کو حاصل نہ تھیں: ایک یہ کہ آپؑ نے ہر عربی و غیر عربی سے پہلے رسول ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور دوسرے ہر معرکۂ دار و گیر میں علمبردار ہوتے رہے اور تیسرے جب لوگ پیغمبر ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے تو آپؑ صبر و استقامت سے جمے رہتے تھے اور چوتھے یہ کہ آپؑ ہی نے پیغمبر ﷺ کو غسل دیا اور قبر میں اتارا۔ (استیعاب، ج۲، ص۴۷۰)
اسلامی غزوات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ جنگ تبوک کے علاوہ کہ جس میں بحکم پیغمبرؐ امیر المومنین علیہ السلام شرکت نہ کر سکے، تمام جنگیں آپؑ کی حسن کارکردگی کی آئینہ دار اور تمام فتوحات آپؑ کے قوت بازو کی مرہون منت ہیں۔ چنانچہ:
جنگ بدر میں ستر کفار قتل ہوئے جن میں سے نصف امیر المومنین علیہ السلام کی تلوار سے مارے گئے۔
جنگ اُحد میں جب مسلمانوں کے مال غنیمت پر ٹوٹ پڑنے کی وجہ سے فتح شکست کی صورت اختیار کر گئی اور دشمنوں کے اچانک حملہ سے مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے تو امیر المومنین علیہ السلام جہاد کو فریضہ ایمانی سمجھتے ہوئے ثابت قدمی سے جمے رہے اور پیغمبر ﷺ کی ہمدردی و جان نثاری میں وہ کار نمایاں کیا کہ جس کا پیغمبر ﷺ نے بھی اعتراف کیا اور مَلَک نے بھی اقرار کیا۔
جنگ احزاب میں پیغمبر ﷺ کے ہمراہ تین ہزار نبرد آزما تھے، مگر عمرو ابن عبدود کے مقابلہ میں بڑھنے کی کسی ایک کو بھی جرأت نہ ہوئی۔ آخر امیر المومنین علیہ السلام نے اسے قتل کر کے مسلمانوں کو رسوائی سے بچا لیا۔
جنگ خیبر میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر علم لے کر گئے مگر پلٹ آئے اس موقع پر بھی امیر المومنین علیہ السلام نے اس مہم کو سر کیا۔
جنگ حنین میں مسلمانوں کو اپنی کثرت پر بڑا گھمنڈ تھا چونکہ ان کی تعداد دس ہزار تھی اور کفار کی گنتی چار ہزار تھی، مگر یہاں بھی مال غنیمت پر لپک پڑے جس کی وجہ سے کفار کو موقع مل گیا کہ وہ ان پر ٹوٹ پڑیں۔ چنانچہ اس اچانک حملہ سے مسلمان گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿لَـقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِىْ مَوَاطِنَ كَثِيْرَةٍ ۙ وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ اِذْ اَعْجَبَـتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْـًٔـا وَّضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّـيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَۚ ﴾
اللہ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مدد کی اور حنین کے دن بھی کہ جب تم اپنی کثرت پر اتراتے تھے اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی، پھر تم پیٹھ پھیر کر چلتے بنے۔[۳]
اس موقع پر بھی امیر المومنین علیہ السلام پہاڑ کی طرح جمے رہے اور آخر تائید خداوندی سے فتح و کامرانی حاصل ہوئی۔↑
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۰، ص ۱۸۰۔
[۲]۔ سورۂ حجرات، آیت ۱۵۔
[۳]۔ سورۂ توبہ، آیت ۲۵۔