خطبہ (۱۹۸)
(۱٩٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۹۸)
وَاللهِ! مَا مُعَاوِیَةُ بِاَدْهٰی مِنِّیْ، وَ لٰكِنَّهٗ یَغْدِرُ وَ یَفْجُرُ، وَ لَوْلَا كَرَاهِیَةُ الْغَدْرِ لَكُنْتُ مِنْ اَدْهَی النَّاسِ، وَ لٰكِنْ كُلُّ غَدْرَةٍ فَجْرَةٌ، وَ كُلُّ فَجْرَةٍ كَفْرَةٌ، وَ لِكُلِّ غَادِرٍ لِّوَآءٌ یُّعْرَفُ بِهٖ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ. وَاللهِ! مَاۤ اُسْتَغْفَلُ بِالْمَكِیْدَةِ، وَ لَا اُسْتَغْمَزُ بِالشَّدِیْدَةِ.
خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ چلتا پرزہ اور ہوشیار نہیں [۱] ، مگر فرق یہ ہے کہ وہ غداریوں سے چوکتا نہیں اور بد کرداریوں سے باز نہیں آتا۔ اگر مجھے عیاری و غداری سے نفرت نہ ہوتی تو میں سب لوگوں سے زائد ہوشیار و زیرک ہوتا، لیکن ہر غداری گناہ اور ہر گناہ حکم الٰہی کی نافرمانی ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن ہر غدار کے ہاتھوں میں ایک جھنڈا ہو گا جس سے وہ پہچانا جائے گا۔ خدا کی قسم! مجھے ہتھکنڈوں سے غفلت میں نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ سختیوں سے دبایا جا سکتا ہے۔
۱وہ افراد جو مذہب و اخلاق سے بیگانہ، شرعی قید و بند سے آزاد اور جزا و سزا کے تصور سے نا آشنا ہوتے ہیں، ان کیلئے مطلب برآری کیلئے حیل و ذرائع کی کمی نہیں ہوتی۔ وہ ہر منزل پر کامیابی و کامرانی کی تدبیریں نکال لیتے ہیں۔ لیکن جہاں انسانی و اسلامی تقاضے اور اخلاقی و شرعی حدیں روک بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں وہاں حیلہ و تدبیر کا میدان تنگ اور جو لانگاہِ عمل کی وسعت محدود ہو جاتی ہے۔ چنانچہ معاویہ کا نفوذ و تسلط انہی تدابیر و حِیَل کا نتیجہ تھا کہ جن پر عمل پیرا ہونے میں اسے کوئی روک ٹوک نہ تھی۔نہ حلال و حرام کا سوال اس کیلئے سد راہ ہوتا تھا اور نہ پاداش آخرت کا کوئی خوف اسے ان مطلق العنانیوں اور بیباکیوں سے روکتا تھا۔ جیسا کہ امام راغب اصفہانی اس کی سیرت و کردار کا جائزہ لیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
لَمْ يَكُنْ غَايَتُهٗ اِلَّا دَرْكَ الْغَایَةِ بِالْحِيْلَةِ حَلَّ اَوْ حَرُمَ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ يُّبَالِیْ بِالدِّيْنِ وَ لَا يَتَفَكَّرُ فِیْ سَخَطِ رَبِّ الْعَلٰمِيْنَ.
اس کا مطمح نظر یہی ہوتا تھا کہ جس طرح بن پڑے اپنا مطلب پورا کرو۔ نہ حلال و حرام سے اسے کوئی واسطہ تھا، نہ دین کی اسے کوئی پرواہ تھی اور نہ خدا کے غضب کی کوئی فکر تھی۔ (محاضرات)
چنانچہ اس نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے غلط بیانی و افترا پردازی کے سہارے ڈھونڈھے، طرح طرح کے مکر و فریب کے حربے استعمال کئے اور جب یہ دیکھا کہ امیر المومنین علیہ السلام کو جنگ میں الجھائے بغیر کامیابی نہیں ہو سکتی تو:طلحہ و زبیر کو آپؑ کے خلاف ابھار کر کھڑا کر دیا۔ اور جب اس صورت سے بھی کامیابی نہ ہوئی تو شامیوں کو بھڑکا کر جنگ صفین کا فتنہ برپا کر دیا۔ اور پھر حضرت عمارؓ کی شہادت سے جب اس کا ظلم و عدوان بے نقاب ہونے لگا تو عوام فریبی کیلئے کبھی یہ کہہ دیا کہ عمار کے قاتل علیؑ ہیں، کیونکہ وہی انہیں ہمراہ لانے والے ہیں اور کبھی حدیث پیغمبرؐ میں لفظِ «اَلْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ» کی یہ تاویل کی کہ اس کے معنی ’’باغی گروہ‘‘ کے نہیں،بلکہ اس کے معنی ’’طلب کرنے والی جماعت‘‘ کے ہیں۔ یعنی عمار اس گروہ کے ہاتھ سے قتل ہوں گے جو خون عثمان کے قصاص کا طالب ہو گا۔ حالانکہ اس حدیث کا دوسرا ٹکڑا: « یَدْعُوْھُمْ اِلَی الْجَنَّةِ وَ یَدْعُوْنَہُمْ اِلَی النَّارِ:» ’’عمار ان کو بہشت کی دعوت دیں گے اور وہ انہیں جہنم کی طرف بلائیں گے‘‘، اس تاویل کی کوئی گنجائش پیدا نہیں کرتا۔
جب ایسے اوچھے ہتھیاروں سے بھی فتح و کامرانی کے آثار نظر نہ آئے تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرنے کا پُر فریب حربہ استعمال کیا، حالانکہ اس کی نظروں میں نہ قرآن کا کوئی وزن اور نہ اس کے فیصلہ کی کوئی اہمیت تھی۔ اگر اسے قرآن کا فیصلہ ہی مطلوب ہوتا تو یہ مطالبہ جنگ کے چھڑنے سے پہلے کرتا اور پھر جب اس پر یہ حقیقت کھل گئی کہ عمرو ابن العاص نے ابو موسیٰ کو فریب دے کر اس کے حق میں فیصلہ کیا ہے اور اس کے فیصلہ کو قرآن سے دور کا بھی لگا ؤ نہیں ہے تو وہ اس پُر فریب تحکیم کے فیصلہ پر رضا مند نہ ہوتا اور عمرو ابن العاص کو اس فریب کاری کی سزا دیتا یا کم از کم تنبیہ و سرزنش کرتا۔ مگر یہاں تو اس کے کارناموں پر اس کی تحسین و آفرین کی جاتی ہے اور اس کارگردگی کے صلہ میں اسے مصر کا گورنر بنا دیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت، شریعت و اخلاق کے اعلیٰ معیار کا نمونہ تھی۔ وہ ناموافق حالات میں بھی حق و صداقت کے مقتضیات کو نظر میں رکھتے تھے اور اپنی پاکیزہ زندگی کو حیلہ و مکر کی آلودگیوں سے آلودہ نہ ہونے دیتے تھے۔ وہ چاہتے تو حیلوں کا توڑ حیلوں سے کر سکتے تھے اور اس کی رکاکت آمیز حرکتوں کا جواب ویسی ہی حرکتوں سے دیا جا سکتا تھا، جیسے اس نے فرات پر پہرا بٹھا کر پانی روک دیا تھا تو اس کو اس امر کے جواز میں پیش کیا جا سکتا تھا کہ جب عراقیوں نے فرات پر قبضہ کر لیا تو ان پر بھی پانی بند کر دیا جاتا اور اس ذریعہ سے ان کی قوت حرب و ضرب کو مضمحل کر کے انہیں مغلوب بنا لیا جاتا۔ مگر امیرالمومنین علیہ السلام ایسے ننگ انسانیت اقدام سے کہ جس کی کوئی آئین و اخلاق اجازت نہیں دیتا کبھی اپنے دامن کو آلودہ نہ ہونے دیتے تھے۔ اگرچہ دنیا والے ایسے حربوں کو دشمن کے مقابلہ میں جائز سمجھتے ہیں اور اپنی کامرانی کیلئے ظاہر و باطن کی دو رنگی کو سیاست و حسن تدبیر سے تعبیر کرتے ہیں، مگر امیر المومنین علیہ السلام کسی موقعہ پر فریب کاری و دو رنگی سے اپنے اقتدار کے استحکام کا تصوّر بھی نہ کرتے تھے۔ چنانچہ جب لوگوں نے آپؑ کو یہ مشورے دیئے کہ عثمانی دور کے عمال کو ان کے عہدوں پر برقرار رہنے دیا جائے اور طلحہ و زبیر کو کوفہ و بصرہ کی امارت دے کر ہمنوا بنا لیا جائے اور معاویہ کو شام کا اقتدار سونپ کر اس کے دنیوی تدبر سے فائدہ اٹھایا جائے تو آپؑ نے دنیوی مصلحتوں پر شرعی تقاضوں کو ترجیح دیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور معاویہ کے متعلق صاف صاف لفظوں میں فرمایا:
اِنْ اَقْرَرْتُ مُعَاوِيَةَ عَلٰى مَا فِیْ يَدِهٖ كُنْتُ مُتَّخِذَ الْمُضِلِّيْنَ عَضُدًا.
اگر میں معاویہ کو اس کے مقبوضہ علاقہ پر برقرار رہنے دوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ میں گمراہ کرنے والوں کو اپنا قوت بازو بنا رہا ہوں۔ (استیعاب، ج۱، ص۲۵۹)
ظاہر بین لوگ صرف ظاہری کامیابی کو دیکھتے ہیں اور یہ دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ یہ کامیابی کن ذرائع سے حاصل ہوئی ہے۔ وہ شاطرانہ چالوں اور عیارانہ گھاتوں سے جسے کامیاب و کامران ہوتے دیکھتے ہیں اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور اسے مدبر و بافہم اور سیاست دان و بیدار مغز اور خدا جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں اور جو الٰہی تعلیمات اور اسلامی ہدایات کی پابندی کی وجہ سے چالوں اور ہتھکنڈوں کو کام میں نہ لائے اور غلط طریق کار سے حاصل کی ہوئی کامیابی پر محرومی کو ترجیح دے وہ ان کی نظروں میں سیاست سے ناآشنا اور سوجھ بوجھ کے لحاظ سے کمزور سمجھا جاتا ہے۔انہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ وہ یہ سوچیں کہ ایک پابند اصول و شرع کی راہ میں کتنی مشکلیں اور رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں کہ جو منزل کامرانی کے قریب پہنچنے کے باوجود اسے قدم آگے بڑھا نے سے روک دیتی ہیں۔↑