خطبہ (۲۰۷)
(٢٠٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۰۷)
بِالْبَصْرَةِ وَ قَدْ دَخَلَ عَلَى الْعَلَاءِ بْنِ زِیَادٍ الْحَارِثِیِّ وَ هُوَ مِنْ اَصْحَابِهٖ یَعُوْدُهٗ،فَلَمَّا رَاٰى سَعَةَ دَارِهٖ قَالَ ؑ:
بصرہ میں اپنے ایک صحابی علاء ابن زیاد حارثی کے ہاں عیادت کیلئے تشریف لے گئے تو اس کے گھر کی وسعت کو دیکھ کر فرمایا:
مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسَعَةِ هٰذِهِ الدَّارِ فِی الدُّنْیَا، اَمَا اَنْتَ اِلَیْهَا فِی الْاٰخِرَةِ كُنْتَ اَحْوَجَ؟ وَ بَلٰۤی اِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الْاٰخِرَةَ: تَقْرِیْ فِیْهَا الضَّیْفَ، وَ تَصِلُ فِیْهَا الرَّحِمَ، وَ تُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوْقَ مَطَالِعَهَا، فَاِذَاۤ اَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الْاٰخِرَةَ.
تم دنیا میں اس گھر کی وسعت کو کیا کرو گے؟ درآنحالیکہ آخرت میں تم گھر کی وسعت کے زیادہ محتاج ہو (کہ جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے)۔ ہاں! اگر اس کے ساتھ تم آخرت میں بھی وسیع گھر چاہتے ہو تو اس میں مہمانوں کی مہمان نوازی، قریبیوں سے اچھا برتاؤ اور موقع و محل کے مطابق حقوق کی ادائیگی کرو۔ اگر ایسا کیا تو اس کے ذریعے آخرت کی کامرانیوں کو پالو گے۔
فَقَالَ لَهُ الْعَلَآءُ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، اَشْكُوْۤ اِلَیْكَ اَخِیْ عَاصِمَ بْنَ زِیَادٍ. قَالَ: وَ مَا لَهٗ؟ قَالَ: لَبِسَ الْعَبَآءَةَ وَ تَخَلّٰی عَنِ الدُّنْیَا. قَالَ: عَلَیَّ بِهٖ. فَلمَّا جَآءَ قَالَ ؑ:
علاء ابن زیاد نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! مجھے اپنے بھائی عاصم ابن زیاد کی آپؑ سے شکایت کرنا ہے۔ حضرتؑ نے پوچھا: ’’کیوں، اسے کیا ہوا؟‘‘ علاء [۱] نے کہا کہ: اس نے بالوں کی چادر اوڑھ لی ہے اور دنیا سے بالکل بے لگاؤ ہو گیا ہے تو حضرتؑ نے کہا کہ: ’’اسے میرے پاس لاؤ‘‘۔ جب وہ آیا تو آپؑ نے فرمایا کہ:
یَا عُدَیَّ نَفْسِهٖ! لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكَ الْخَبِیْثُ! اَمَا رَحِمْتَ اَهْلَكَ وَ وَلَدَكَ! اَتَرَی اللهَ اَحَلَّ لَكَ الطَّیِّبٰتِ، وَ هُوَ یَكْرَهُ اَنْ تَاْخُذَهَا! اَنْتَ اَهْوَنُ عَلَی اللهِ مِنْ ذٰلِكَ!.
اے اپنی جان کے دشمن! تمہیں شیطان خبیث نے بھٹکا دیا ہے، تمہیں اپنی آل اولاد پر ترس نہیں آتا؟ اور کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لئے حلال کیا ہے اگر تم انہیں کھاؤ برتو گے تو اسے ناگوار گزرے گا؟ تم اللہ کی نظروں میں اس سے کہیں زیادہ گرے ہوئے ہو کہ وہ تمہارے لئے یہ چاہے۔
قَالَ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! هٰذَاۤ اَنْتَ فِیْ خُشُوْنَةِ مَلْبَسِكَ وَ جُشُوْبَةِ مَاْكَلِكَ؟!
اس نے کہا کہ یا امیر المومنینؑ! یہ آپؑ کا پہناوا بھی تو موٹا جھوٹا اور کھانا روکھا سوکھا ہوتا ہے؟
قَالَ: وَیْحَكَ! اِنِّیْ لَسْتُ كَاَنْتَ، اِنَّ اللهَ فَرَضَ عَلٰۤی اَئِمَّةِ الْعَدْلِ اَنْ یُّقَدِّرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ، كَیْلَا یَتَبَیَّغَ بِالْفَقِیْرِ فَقْرُهٗ!.
تو حضرتؑ نے فرمایا کہ: تم پر حیف ہے! میں تمہارے مانند نہیں ہوں۔ خدا نے آئمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں، تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔
۱’’رہبانیت‘‘ و ’’ترک علائق‘‘ کو زمانہ قدیم سے طہارت نفس و درستگی اعمال کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ جو لوگ زہد و استغراق میں زندگی بسر کرنا چاہتے تھے وہ شہروں اور بستیوں سے نکل کھڑے ہوتے اور جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں سکونت اختیار کر کے بخیال خود الله سے لو لگائے پڑے رہتے۔ اگر کسی راہ گیر یا آس پاس کی بستی والے نے کچھ کھانے کو دے دیا تو کھا لیا، ورنہ جنگلی درختوں کے پھلوں اور چشموں کے پانی پر قناعت کر لیتے اور اس طرح زندگی کے لمحات گزار دیتے۔
اس طریقہ عبادت کی ابتدا یوں ہوئی کہ کچھ لوگ حکمرانوں کے ظلم و تشدد سے تنگ آ کر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور ان کی گرفت سے بچنے کیلئے کسی سنسان جنگل یا کسی پہاڑ کی کھو میں جا چھپے اور وہاں اللہ کی عبادت و پرستش میں منہمک ہو گئے۔ بعد میں اس قہری زہد و انزوا نے اختیاری صورت حاصل کر لی اور لوگ با ختیار خود کھوؤں اور غاروں میں گوشہ نشین ہونے لگے اور یہ طریقہ رائج ہو گیا کہ جو روحانی ترقی کا خواہشمند ہوتا وہ تمام دنیوی بندھنوں کو توڑ کر کسی گوشے میں معتکف ہو جاتا۔ چنانچہ صدیوں تک اس پر عمل در آمد ہوتا رہا اور اب تک اس طریقہ عبادت کے آثار بدھسٹوں اور عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن اسلام کا اعتدال پسندانہ مزاج اس خانقاہی زندگی سے سازگار نہیں ہے۔ وہ روحانی ترقی کیلئے دنیا کی نعمتوں اور سعادتوں سے ہاتھ اٹھا لینے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ اس چیز کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ مسلمان گھر بار چھوڑ کر اور ابنائے جنس سے علیحدہ ہو کر کسی گوشے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور صرف رسمی عبادت میں لگا رہے۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم صرف چند مخصوص اعمال تک محدود نہیں ہے، بلکہ جائز ذریعہ معاش سے روزی کی تلاش اور باہمی سلوک و ہمدردی اور تعاون و سازگاری کو بھی عبادت کا ایک اہم جزو قرار دیتا ہے۔ اگر انسان دنیوی حقوق و فرائض کو نظر انداز کر دے کہ نہ اہل و عیال کی ذمہ داریوں کو محسوس کرے، نہ کسب معاش کیلئے سعی و کوشش کو برسرکار رکھے اور دوسروں پر سہارا کر کے ہر وقت مراقبہ میں پڑا رہے تو وہ مقصد حیات کو پورا کرنے کے بجائے اپنی زندگی کو تباہ کر رہا ہے۔ اگر اللہ کو یہی چیز مطلوب ہوتی تو پھر دنیا کو بسانے اور آباد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، جب کہ پہلے ہی سے ایک ایسی مخلوق موجود تھی جو ہمہ وقت اس کی عبادت و پرستش میں مشغول رہتی تھی۔ انسان کو تو قدرت نے اس دو راہے پر کھڑا کیا ہے کہ جس میں حد وسط ہی ہدایت کا مرکز ہے کہ اگر ذرا اس نقطہ اعتدال سے اِدھر اُدھر ہوا تو اس کیلئے گمراہی ہی گمراہی ہے اور وہ حد وسط یہ ہے کہ انسان نہ دنیا کی طرف اتنا جھکے کہ آخرت کو نظر انداز کر کے صرف دنیا ہی کا ہو کر رہ جائے اور نہ دنیا سے اتنا کنارہ کش ہو جائے کہ کسی چیز سے کوئی لگاؤ نہ رکھے اور ہر چیز سے دستبردار ہو کر کسی گوشہ میں معتکف ہو جائے۔
جب الله نے انسان کو دنیا میں پیدا کیا ہے تو اسے اس دنیا میں رہتے ہوئے دستور حیات پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور حد اعتدال میں رہتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ اندوز ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو کھانا برتنا خدا پرستی کے خلاف ہو، بلکہ قدرت نے ان نعمتوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ جو خاصان خدا تھے وہ دنیا میں مل جل کر رہتے سہتے اور دنیا داروں کی طرح کھاتے پیتے تھے، انہیں ویرانوں اور پہاڑوں کی غاروں کو اپنا مسکن بنانے اور دنیا والوں سے منہ موڑ کر کسی دور دراز جگہ پر منزل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ بلکہ دنیا کے جھمیلوں میں پڑ کر الله کو یاد رکھتے تھے اور زندگی کی آسائشوں اور راحتوں کے باوجود موت کو نہ بھولتے تھے۔
رہبانیت کی زندگی عموماً ایسے مفاسد کا باعث ہوتی ہے کہ جو دنیا کے ساتھ عقبیٰ کو بھی تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور انسان صحیح معنی میں «خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ » کا مصداق ہو کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ جب فطری خواہشات کو حلال و مشروع طریقے سے پورا نہیں کیا جاتا تو انسان کا ذہن خیالات فاسدہ کا مرکز بن جاتا ہے اور اطمینان و یکسوئی سے عبادت کو سر انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور کبھی ہوائے نفس اس طرح اس پر غلبہ پا لیتی ہے کہ وہ تمام اخلاقی بندھنوں کو توڑ کر نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے کے در پے ہو جاتا ہے اور پھر ہلاکت کے ایسے گڑھے میں جا پڑتا ہے کہ جس سے نکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اسی لئے شریعت نے متاہل کی عبادت کو غیر متاہل کی عبادت پر فضیلت دی ہے، کیونکہ وہ عبادت و اعمال میں ذہنی سکون و یکسوئی بہم پہنچا سکتا ہے۔
وہ افراد جو جامہ تصوف پہن کر زہد و بے تعلقی دنیا اور روحانی عظمت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں وہ اسلام کی عملی راہ سے الگ اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے نا آشنا ہیں اور صرف شیطان کے بہکانے سے خود ساختہ سہاروں پر بھروسا کر کے ضلالت کے راستے پر گامزن ہیں۔ چنانچہ ان کی گمراہی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے پیشواؤں کو اس سطح پر سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا ان کی آواز خدا کی آواز اور ان کا عمل خدا کا عمل ہے اور کبھی شرعی حدود و قیود سے اپنے کو آزاد سمجھتے ہوئے ہر امر قبیح کو اپنے لئے جائز قرار دے لیتے ہیں۔
اس الحاد و بے دینی کو ’’تصوف‘‘ کے نام سے پیش کیا جاتا ہے اور اس کے غیر شرعی اصولوں کو ’’طریقت‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ مسلک اختیار کرنے والے ’’صوفی‘‘ کہے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ابو ہاشم کوفی و شامی نے یہ لقب اختیار کیا کہ جو اموی النسب اور جبری العقیدہ تھا۔ اسے اس لقب سے پکارے جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے زہد و تقویٰ کی نمائش کیلئے ’’صوف‘‘ کا لباس پہن رکھا تھا۔ بعد میں اس لقب نے عمومیت حاصل کر لی اور اس کی وجہ تسمیہ میں مختلف توجیہات گھڑ لی گئیں۔ چنانچہ:
ایک توجیہ یہ ہے کہ ’’صوف‘‘ کے تین حرف ہیں: ’’ص، و، ف،‘‘۔ ’’صاد‘‘ سے مراد صبر، صدق اور صفا ہے اور ’’واو‘‘ سے مراد وُدّ، ورد اور وفا ہے اور ’’فا‘‘ سے مراد فرد، فقر اور فنا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ’’صفہ‘‘ سے ماخوذ ہے اور صفہ مسجد نبوی کے قریب ایک چبوترا تھا جس پر کجھور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی جس میں رہنے والے ’’اصحاب صفہ‘‘ کہلاتے تھے اور غربت و بیچارگی کی وجہ سے وہیں پڑے رہتے تھے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ عرب کے ایک قبیلہ کے جد اعلیٰ کا نام ’’صوفہ‘‘ تھا اور یہ قبیلہ خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت کے فرائض سر انجام دیتا تھا اور اسی قبیلہ کی نسبت سے یہ لوگ ’’صوفی‘‘ کہے جاتے ہیں۔
یہ گروہ متعدد فرقوں میں بٹا ہوا ہے، لیکن بنیادی فرقے صرف سات ہیں:
۱۔ وحدتیہ:یہ فرقہ وحدة الوجود کا قائل ہے۔ چنانچہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز خدا ہے، یہاں تک کہ ہر نجس و ناپاک چیز کو بھی یہ اسی منزل اُلوہیت پر ٹھہراتے ہیں اور اللہ کو دریا سے اور مخلوقات کو اس میں اٹھنے والی لہروں سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دریا کی لہریں دریا کے علاوہ کوئی جداگانہ وجود نہیں رکھتیں، بلکہ ان کا وجود بعینہ دریا کا وجود ہے جو کبھی ابھرتی ہیں اور کبھی دریا کے اندر سمٹ جاتی ہيں۔ لہٰذا کسی چیز کو اس کی ہستی سے الگ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
۲۔ اتحادیہ:اس فرقہ کا خیال یہ ہے کہ وہ اللہ سے اور اللہ اس سے متحد ہو چکا ہے۔ یہ اللہ کو آگ سے اور اپنے کو اس لوہے سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جو آگ میں پڑا رہنے کی وجہ سے اس کی صورت و خاصیت پیدا کر چکا ہو۔
۳۔ حلولیہ:اس کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند عالم عارفوں اور کاملوں کے اندر حلول کر جاتا ہے اور ان کا جسم اس کی فرود گاہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ بظاہر بشر اور بباطن خدا ہوتے ہیں۔
۴۔ واصلیہ:یہ فرقہ اپنے کو واصل بالله سمجھتا ہے اور اس کا نظریہ ہے کہ احکام شرع تکمیل نفس و تہذیب اخلاق کا ذریعہ ہیں اور جب نفس حق سے متصل ہو جاتا ہے تو پھر اسے تکمیل و تہذیب کی احتیاج نہیں رہتی، لہٰذا واصلین کیلئے عبادات و اعمال بیکار ہو جاتے ہیں، کیونکہ اِذَا حَصَلَتِ الْحَقِیْقَۃُ بَطَلَتِ الشَّرِیْعَۃُ : ’’جب حقیقت حاصل ہو جاتی ہے تو شریعت بیکار ہو جاتی ہے‘‘، لہٰذا وہ جو چاہیں کریں ان پر حرف گیری نہیں کی جا سکتی۔
۵۔ زراقیہ:یہ فرقہ نغمہ و سرود کی دھنوں اور حال و قال کی سرمستیوں کو سرمایہ عبادت سمجھتا ہے اور درویشی و دریوزہ گری سے دنیا کماتا ہے اور اپنے پیشواؤں کی من گھڑت کرامتیں سنا کر عوام کو مرعوب کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔
۶۔ عشاقیہ:اس فرقہ کا نظریہ یہ ہے کہ اَلْمَجَازَةُ قَنْطَرَةُ الْحَقِیْقَۃِ : ’’عشق مجازی، عشق حقیقی کا ذریعہ ہوتا ہے‘‘، لہٰذا عشق الٰہی کی منزل تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ کسی مہوش سے عشق کیا جائے، لیکن جس عشق کو یہ عشق الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ صرف اختلال دماغی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے عاشق قلب و روح کی پوری توجہ کے ساتھ ایک فرد کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس تک رسائی ہی اس کی منزل آخر ہوتی ہے۔ یہ عشق فسق و فجور کی راہ پر تو لگا سکتا ہے، مگر عشق حقیقی کی منزل سے اسے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا:
عشق مجاز چون بحقیقت نظر کنی
دیو است و دیو را نبود پای رھبری
۷۔ تلقیہ:اس فرقے کے نزدیک علوم دینیہ کا پڑھنا اور کتب علمیہ کا مطالعہ کرنا قطعاً حرام ہے، بلکہ جو مرتبہ علمی ستر (۷۰) برس تک پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا وہ ایک ساعت میں مرشد کے تصرف روحانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔
علمائے شیعہ کے نزدیک یہ تمام فرقے گمراہ اور اسلام سے خارج ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آئمہ اطہار علیہم السلام کے بکثرت ارشادات موجود ہیں اور اس خطبہ میں بھی امیر المومنین علیہ السلام نے عاصم بن زیاد کے قطع علائق دنیا کو شیطانی وسوسہ کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اسے اس راہ پر چلنے سے بشدت منع کیا ہے۔↑