خطبات

خطبہ (۲۰۸)

(٢٠٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۲۰۸)

وَ قَدْ سَئَلَهٗ سَآئِلٌ عَنْ اَحَادِیْثِ الْبِدَعِ وَ عَمَّا فِیْۤ اَیْدِی النَّاسِ مِنِ اخْتِلَافِ الْخَبَرِ، فَقالَؑ:

ایک شخص [۱] نے آپؑ سے من گھڑت اور متعارض حدیثوں کے متعلق دریافت کیا جو (عام طور سے) لوگوں کے ہاتھوں میں پائی جاتی ہیں تو آپؑ نے فرمایا کہ:

اِنَّ فِیْۤ اَیْدِی النَّاسِ حَقًّا وَّ بَاطِلًا، وَ صِدْقًا وَّ كَذِبًا، وَ نَاسِخًا وَّ مَنْسُوْخًا، وَ عَامًّا وَّ خَاصًّا، وَ مُحْكَمًا وَّ مُتَشَابِهًا، وَ حِفْظًا وَّ وَهْمًا، وَ لَقَدْ كُذِبَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ عَلٰی عَهْدِهٖ، حَتّٰی قَامَ خَطِیْبًا، فَقَالَ: «مَنْ كَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْیَتَبَوَّاْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ».

لوگوں کے ہاتھوں میں حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، ناسخ اور منسوخ، عام اور خاص، واضح اور مبہم، صحیح او رغلط، سب ہی کچھ ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ کے دور میں آپؐ پر بہتان لگائے گئے، یہاں تک کہ آپؐ کو کھڑے ہو کر خطبہ میں کہنا پڑا کہ: «جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر بہتان باندھے گا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے»۔

وَ اِنَّمَاۤ اَتَاكَ بِالْحَدِیْثِ اَرْبَعَةُ رِجَالٍ لَّیْسَ لَهُمْ خَامِسٌ:

تمہارے پاس چار طرح کے لوگ حدیث لانے والے ہیں کہ جن کا پانچواں نہیں [۲] :

رَجُلٌ مُّنَافِقٌ مُّظْهِرٌ لِلْاِیْمَانِ، مُتَصَنِّـعٌۢ بِالْاِسْلَامِ، لَا یَتَاَثَّمُ وَ لَا یَتَحَرَّجُ، یَكْذِبُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ مُتَعَمِّدًا، فَلَوْ عَلِمَ النَّاسُ اَنَّهٗ مُنَافِقٌ كَاذِبٌ لَّمْ یَقْبَلُوْا مِنْهُ، وَ لَمْ یُصَدِّقُوْا قَوْلَهٗ، وَ لٰكِنَّهُمْ قَالُوْا: صَاحِبُ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ رَاٰهُ، وَ سَمِـعَ مِنْهُ، وَ لَقِفَ عَنْهُ، فَیَاْخُذُوْنَ بِقَوْلِهٖ، وَ قَدْ اَخْبَرَكَ اللهُ عَنِ الْمُنَافِقِیْنَ بِمَاۤ اَخْبَرَكَ، وَ وَصَفَهُمْ بِمَا وَصَفَهُمْ بِهٖ لَكَ، ثُمَّ بَقُوْا بَعْدَهٗ عَلَيْهِ وَ اٰلِهِ السَّلَامُ، فَتَقرَّبُوْۤا اِلٰۤی اَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ، وَ الدُّعَاةِ اِلَی النَّارِ بِالزُّوْرِ وَ الْبُهْتَانِ، فَوَلَّوْهُمُ الْاَعْمَالَ، وَ جَعَلُوْهُمْ حُكَّامًا عَلٰی رِقَابِ النَّاسِ، فَاَكَلُوْا بِهِمُ الدُّنْیَا، وَ اِنَّمَا النَّاسُ مَعَ الْمُلُوْكِ وَ الدُّنْیَا، اِلَّا مَنْ عَصَمَ اللهُ، فَهٰذَاۤ اَحَدُ الْاَرْبَعَةِ.

ایک تو وہ جس کا ظاہر کچھ ہے اور باطن کچھ، وہ ایمان کی نمائش کرتا ہے اور مسلمانوں کی سی وضع قطع بنا لیتا ہے، نہ گناہ کرنے سے گھبراتا ہے اور نہ کسی افتاد میں پڑنے سے جھجکتا ہے۔وہ جان بوجھ کر رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ اگر لوگوں کو پتہ چل جاتا کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو اس سے نہ کوئی حدیث قبول کرتے اور نہ اس کی بات کی تصدیق کرتے، لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہے، اس نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا بھی ہے اور ان سے حدیثیں بھی سنی ہیں اور آپؐ سے تحصیل علم بھی کی ہے۔ چنانچہ وہ (بے سوچے سمجھے) اس کی بات کو قبول کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ نے تمہیں منافقوں کے متعلق خبر دے رکھی ہے اور ان کے رنگ ڈھنگ سے بھی تمہیں آگاہ کر دیا ہے۔ پھر وہ رسول ﷺ کے بعد بھی باقی و برقرار رہے اور کذب و بہتان کے ذریعہ گمراہی کے پیشواؤں اور جہنم کا بلاوا دینے والوں کے یہاں اثر و رسوخ پیدا کیا۔ چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے) عہدوں پر لگایا اور حاکم بنا کر لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیا اور ان کے ذریعہ سے اچھی طرح دنیا کو حلق میں اتارا اور لوگوں کا تو یہ قاعدہ ہے ہی کہ وہ بادشاہوں اور دنیا (والوں)کا ساتھ دیا کرتے ہیں۔مگر سوا ان (معدودے چند) افراد کے کہ جنہیں اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ چار میں سے ایک تو یہ ہوا۔

وَ رَجُلٌ سَمِـعَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ شَیْئًا لَّمْ یَحْفَظْهُ عَلٰی وَجْهِهٖ، فَوَهِمَ فِیْهِ، وَ لَمْ یَتَعَمَّدْ كَذِبًا، فَهُوَ فِیْ یَدَیْهِ، یَرْوِیْهِ وَ یَعْمَلُ بِهٖ، وَ یَقُوْلُ: اَنَا سَمِعْتُهٗ مِنْ رَسُولِ اللهِ –ﷺ، فَلَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ اَنَّهٗ وَهِمَ فِیْهِ لَمْ یَقْبَلُوْهُ مِنْهُ، وَ لَوْ عَلِمَ هُوَ اَنَّهٗ كَذٰلِكَ لَرَفَضَهٗ!.

اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے (تھوڑا بہت) رسول اللہ ﷺ سے سنا، لیکن جوں کا توں اسے یاد نہ رکھ سکا او راس میں اسے سہو ہو گیا۔ یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا، یہی کچھ اس کے دسترس میں ہے، اسے ہی دوسروں سے بیان کرتا ہے اور اسی پر خود بھی عمل پیرا ہوتا ہے اور کہتا بھی یہی ہے کہ: میں نے رسول ﷺ سے سنا ہے۔ اگر مسلمانوں کو یہ خبر ہو جاتی کہ اس کی یادداشت میں بھول چوک ہو گئی ہے تو وہ اس کی بات کو نہ مانتے اور اگر خود بھی اسے اس کا علم ہو جاتا تو اسے چھوڑ دیتا۔

وَ رَجُلٌ ثَالِثٌ، سَمِـعَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ -ﷺ شَیْئًا یَّاْمُرُ بِهٖ، ثُمَّ نَهٰی عَنْهُ وَ هُوَ لَا یَعْلَمُ، اَوْ سَمِعَهٗ یَنْهٰی عَنْ شَیْءٍ، ثُمَّ اَمَرَ بِهٖ وَ هُوَ لَایَعْلَمُ، فَحَفِظَ الْمَنْسُوْخَ، وَ لَمْ یَحْفَظِ النَّاسِخَ، فَلَوْ عَلِمَ اَنَّهٗ مَنْسُوْخٌ لَّرَفَضَهٗ، وَ لَوْ عَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ اِذْ سَمِعُوْهُ مِنْهُ اَنَّهٗ مَنْسُوْخٌ لَّرَفَضُوْهُ.

تیسرا شخص وہ ہے کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی زبان سے سنا کہ آپؐ نے ایک چیز کے بجا لانے کا حکم دیا ہے، پھر پیغمبر ﷺ نے تو اس سے روک دیا، لیکن یہ اسے معلوم نہ ہو سکا، یا یوں کہ اس نے پیغمبر ﷺ کو ایک چیز سے منع کرتے ہوئے سنا پھر آپؐ نے اس کی اجازت دے دی، لیکن اس کے علم میں یہ چیز نہ آسکی۔ اس نے (قول) منسوخ کو یاد رکھا اور (حدیث) ناسخ کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ اگر اسے خود معلوم ہو جاتا کہ یہ منسوخ ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا اور مسلمانوں کو بھی اگر اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر ہوتی تو وہ بھی اسے نظر انداز کر دیتے۔

فَهٰذِهِ وَجُوْهُ مَا عَلَیْهِ النَّاسُ فِی اخْتِلَافِهِمْ، وَ عِلَلِهِمْ فِیْ رِوَایَاتِهِمْ.

یہ ہیں لوگوں کے احادیث و روایات میں اختلاف کے وجوہ و اسباب۔

۱؂یہ ’’سلیم ابن قیس ہلالی‘‘ تھے جو امیر المومنین علیہ السلام کے رواة حدیث میں سے ہیں۔

۲؂امیر المومنین علیہ السلام نے اس خطبہ میں رواة حدیث کو چار قسموں میں منحصر کیا ہے:

پہلی قسم یہ ہے کہ راوی خود سے کسی روایت کو وضع کر کے پیغمبر ﷺ کی طرف منسوب کر دے۔ چنانچہ ایسی روایتیں گھڑ کر آپؐ کے سر منڈھ دی جاتی تھیں اور یونہی یہ سلسلہ جاری رہا اور نت نئی روایتیں معرض وجود میں آتی رہیں۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اگر کوئی انکار کرتا ہے تو اس کی بنیاد علم و بصیرت پر نہیں، بلکہ سخن پروری و مناظرانہ ضرورت پر ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک مرتبہ علم الہدیٰ سیّد مرتضیٰ کو علمائے اہل سنت سے مناظرہ کا اتفاق ہوا تو سیّد مرتضیٰؒ نے تاریخی حقائق سے ثابت کیا کہ اکابر صحابہ کے فضائل میں جو روایتیں نقل کی جاتی ہیں وہ خود ساختہ اور جعلی ہیں۔ اس پر ان علماء نے کہا کہ: یہ ناممکن ہے کہ کوئی رسول اللہ ﷺ پر افترا باندھنے کی جرأت کرے او ر اپنی طرف سے کوئی روایت گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دے۔سیّد مرتضیٰؒ نے فرمایا کہ پیغمبر ﷺ کی حدیث ہے کہ:

سَتَكْثُرُ عَلَىَّ الْكَذَّابَةُ بَعْدَ مَوْتِىْ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّاْ مَقْعَدَهٗ مِنَ النَّارِ.

میرے بعد مجھ پر کثرت سے جھوٹ باندھا جائے گا۔ دیکھو!جو مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔[۱]

تو اگر اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہو تو تسلیم کرو کہ پیغمبر ﷺ پر جھوٹ باندھا گیا اور اگر غلط سمجھتے ہو تو اس کا غلط ہونا خود ہمارے دعویٰ کی دلیل ہے۔ بہر صورت یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں نفاق بھرا ہوا تھا اور دین میں فتنہ و انتشار پیدا کرنے اور کمزور عقیدہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کیلئے من گھڑت روایتیں بناتے رہتے تھے اور جس طرح پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں سے گھلے ملے رہتے تھے اس طرح ان کے بعد بھی ان میں گھلے ملے رہے اور جس طرح اس وقت فساد و تخریب میں لگے رہتے تھے اسی طرح ان کے بعد بھی اسلام کی تعلیمات کو بگاڑنے اور اس کے نقوش کو مسخ کرنے کی فکر سے غافل نہ تھے، بلکہ پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں تو ڈرے سہمے رہتے تھے کہ کہیں پیغمبر ﷺ انہیں بے نقاب کر کے رسوا نہ کر دیں، مگر آنحضرتؐ کے بعد ان کی منافقانہ سرگرمیاں بڑھ گئیں اور بے جھجک اپنے ذاتی مفاد و اغراض کیلئے پیغمبر ﷺ پر افترا باندھ ديتے تھے اور سننے والے انہیں صحابی رسولؐ سمجھ کر اعتبار و اعتماد کر لیتے تھے کہ بس جو کہہ دیا ہے وہ صحیح ہے اور جو فرما دیا ہے وہ درست ہے اور بعد میں بھی «اَلصَّحَابَةُ کُلُّھُمْ عَدُوْلٌ» : ’’صحابہ سب کے سب عادل ہیں‘‘ کے عقیدہ نے زبانوں پر پہرا بٹھا دیا کہ جس کی وجہ سے نقد و نظر اور جرح و تعدیل سے انہیں بلند و بالا سمجھ لیا گیا اور پھر ان کے کا رہائے نمایاں نے انہیں بارگاہ حکومت میں بھی مقرب بنا رکھا تھا جس کی وجہ سے ان کے خلاف زبان کھولنے کیلئے جرأت و ہمت کی ضرورت تھی۔ چنانچہ امیر المومنین علیہ السلام کا یہ قول شاہد ہے:

فَتَقَرَّبُوْا اِلٰۤى اَئِمَّةِ الضَّلَالَةِ وَ الدُّعَاةِ اِلَى النَّارِ بِالزُّوْرِ وَ الْبُهْتَانِ فَوَلَّوْهُمُ الْاَعْمَالَ وَ جَعَلُوْهُمْ حُكَّامًا عَلٰى رِقَابِ النَّاسِ.

ان لوگوں نے کذب و بہتان کے ذریعے گمراہی کے پیشواؤں اور جہنم کا بلاوا دینے والوں کے یہاں اثر و رسوخ پیدا کیا۔ چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے) عہدوں پر لگایا اور حاکم بنا کر لوگوں کی گردنوں پر مسلّط کر دیا۔

منافقین کا مقصد اسلام کی تخریب کے ساتھ دنیا کا حاصل کرنا بھی تھا اور وہ انہیں مدعی اسلام بنے رہنے کی وجہ سے پوری فراوانی سے حاصل ہو رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اسلام کی نقاب اتار کر اپنے اصلی خط و خال میں سامنے آنا نہیں چاہتے تھے اور اسلام ہی کے پردے میں اپنے شیطانی اطوار کو جاری رکھتے تھے اور اس کی بنیادی تخریب کیلئے روایات وضع کر کے انتشار و افتراق پھیلانے میں لگے رہتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے:

لَمَّا تُرِكُوْا تَرَكُوْا وَ حَيْثُ سُكِتَ عَنْهُمْ سَكَتُوْا عَنِ الْاِسْلَامِ وَ اَهْلِهٖ اِلَّا فِیْ دَسِيْسَةٍ خَفِيَّةٍ يَّعْمَلُوْنَهَا نَحْوَ الْكِذْبِ الَّذِیْۤ اَشَارَ اِلَيْهِ اَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ، فَاِنَّهٗ خَالَطَ الْحَدِيْثَ كِذْبٌ كَثِيْرٌ صَدَرَ عَنْ قَوْمٍ غَيْرِ صَحِيْحِی الْعَقِيْدَةِ، قَصَدُوْا بِهِ الْاِضْلَالِ وَ تَخْبِيْطِ الْقُلُوْبِ وَ الْعَقَآئِدِ وَ قَصَدَ بِهٖ بَعْضُهُمُ التَّنْوِيْهَ بِذِكْرِ قَوْمٍ كَانَ لَهُمْ فِی التَّنْوِيْهِ بِذِكْرِهِمْ غَرَضٌ دُنْيَوِیٌّ.

جب انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا تو انہوں نے بھی بہت سی باتوں کو چھوڑ دیا اور جب ان سے خاموشی اختیار کر لی گئی تو انہوں نے بھی اسلام اور اہل اسلام کے بارے میں چپ سادھ لی، مگر درپردہ فریب کاریاں عمل میں لاتے رہتے تھے۔ جیسے کذب تراشی کہ جس کی طرف امیر المومنین علیہ السلام نے اشارہ کیا ہے، کیونکہ حدیث میں جھوٹ کی بہت زیادہ آمیزش کر دی گئی تھی اور یہ فاسد عقیدہ رکھنے والوں کی طرف سے ہوتی تھی۔ چنانچہ وہ اس کے ذریعہ سے گمراہی پھیلاتے، دلوں میں خدشے اور عقائد میں خرابیاں پیدا کرتے تھے اور بعض کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ ایک جماعت کو بلند کریں کہ جس سے ان کی دنیوی اغراض وابستہ ہوتی تھیں۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۴)

اس دور کے گزرنے کے بعد جب معاویہ دین کی راہنمائی اور ملک کی قیادت کا ذمہ دار بن کر تخت فرمانروائی پر متمکن ہوا تو اس نے جعلی روایتیں گھڑنے کا باقاعدہ ایک محکمہ کھول دیا اور اپنے کارندوں کو اس پر مامور کیا کہ وہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی تنقیص اور عثمان اور بنی امیہ کے فضائل میں حدیثیں گھڑ کر نشر کریں اور اس کیلئے انعامات اور جاگیریں مقرر کیں جس کے نتیجہ میں کثیر التعداد خود ساختہ فضائل کی روایتیں کتب احادیث میں پھیل گئیں۔ چنانچہ ابوالحسن مدائنی نے کتاب ’’الاحداث‘‘ میں تحریر کیا ہے اور ابن ابی الحدید نے اپنی شرح میں اسے درج کیا ہے کہ:

وَ كَتَبَ اِلَيْهِمْ اَنِ انْظُرُوْا مِنْ قِبَلِكُمْ مِنْ شِيْعَةِ عُثْمَانَ وَ مُحِبِّيْهِ وَ اَهْلِ وِلَايَتِهٖ وَ الَّذِيْنَ يَرْوُوْنَ فَضَآئِلَهٗ وَ مَنَاقِبَهٗ، فَاَدْنُوْا مَجَالِسَهُمْ وَ قَرِّبُوْهُمْ وَ اَكْرِمُوْهُمْ وَ اكْتُبُوْا لِیْ بِكُلِّ مَا يَرْوِیْ كُلُّ رَجُلٍ مِّنْهُمْ وَ اسْمَهٗ وَ اسْمَ اَبِيْهِ وَ عَشِيْرَتِهٖ. فَفَعَلُوْا ذٰلِكَ حَتّٰى اَكْثَرُوْا فِیْ فَضَآئِلِ عُثْمَانَ وَ مَنَاقِبِهٖ لَمَّا كَانَ يَبْعَثُهٗ اِلَيْهِمْ مُعَاوِيَةُ مِنَ الصِّلَاتِ وَ الْكِسَآءِ وَ الْحِبَآءِ وَ الْقِطَآئِعِ‏.

معاویہ نے اپنے عمال حکومت کو تحریر کیا کہ جو تمہارے یہاں عثمان کے طرفدار، ہوا خواہ اور دوستدار ہوں ان پر نظر توجہ رکھو اور ان لوگوں کو جو ان کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں انہیں اپنا دربار نشین اور مقرب قرار دو اور ان کا احترام کرو اور ان میں سے جو شخص جو روایت کرے وہ مجھے لکھو اور اس کے اور اس کے باپ اور اس کے قوم قبیلے کے نام سے مجھے آگاہ کرو۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، یہاں تک کہ عثمان کے مناقب و فضائل کے انبار لگا دیئے، کیونکہ امیر معاویہ ایسے لوگوں کو جائزے، خلعتیں، عطیات اور جاگیریں دیتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۶)

جب حضرت عثمان کے فضائل میں خود ساختہ روایتیں چار دانگ عالم میں پھیل گئیں تو اس خیال سے کہ پہلے خلفاء کا پلہ سبک نہ رہ جائے، اس نے اپنے عمال کو تحریر کیا:

فَاِذَا جَآءَكُمْ كِتَابِیْ هٰذَا فَادْعُوا النَّاسَ اِلَى الرِّوَايَةِ فِیْ فَضَآئِلِ الصَّحَابَةِ وَ الْخُلَفَآءِ الْاَوَّلِيْنَ وَ لَا تَتْرَكُوْا خَبَرًا يَّرْوِيْهِ اَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ فِیْۤ اَبِیْ تُرَابٍ اِلَّا وَ تَاْتُوْنِیْ بِمَنَاقِضٍ لَّهٗ فِی الصَّحَابَةِ، فَاِنَّ هٰذَا اَحَبُّ اِلَیَّ وَ اَقَرُّ لِعَيْنِیْ وَ اَدْحَضُ لِحُجَّةِ اَبِیْ تُرَابٍ وَّ شِيْعَتِهٖ وَ اَشَدُّ عَلَيْهِمْ مِنْ مَّنَاقِبِ عُثْمَانَ وَ فَضْلِهٖ. فَقُرِئَتْ كُتُبُهٗ عَلَى النَّاسِ فَرُوِيَتْ اَخْبَارٌ كَثِيْرَةٌ فِیْ مَنَاقِبِ الصَّحَابَةِ مُفْتَعَلَةٌ لَّا حَقِيْقَةَ لَهَا.

جب تمہیں میرا یہ فرمان ملے تو لوگوں کو اس امر کی دعوت دو کہ وہ صحابہ اور پہلے خلفاء کے فضائل میں بھی حدیثیں روایت کریں اور دیکھو مسلمانوں میں سے جو شخص بھی ابو تراب علیہ السلام کے بارے میں کوئی حدیث بیان کرے تو اسے توڑنے کیلئے صحابہ کیلئے بھی ویسی ہی حدیثیں گھڑ کر بیان کرو، کیونکہ یہ چیز مجھے بہت پسند اور میرے لئے خنکی چشم کا باعث ہے اور یہ چیز ابوترابؑ اور اس کے شیعوں کی حجت کو کمزور کرنے والی اور عثمان کے فضائل و مناقب سے بھی زیادہ گراں گزرنے والی ہے۔ چنانچہ اس کے خطوط لوگوں کو پڑھ کر سنائے گئے جس کے نتیجے میں صحابہ کے فضائل میں ایسی روایتیں گھڑنا شروع ہو گئیں کہ جن کی کوئی اصل و حقیقت نہ ہوتی تھی۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۶)

اس سلسلہ میں ابن عرفہ معروف بہ ’’لفظویہ‘‘ نے کہ جو اکابر علماء و محدثین میں سے تھے اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے اور ابن ابی الحدید نے اسے اپنی شرح میں درج کیا ہے کہ:

اِنَّ اَكْثَرَ الْاَحَادِيْثَ الْمَوْضُوْعَةِ فِیْ فَضَآئِلِ الصَّحَابَةِ افْتُعِلَتْ فِیْۤ اَيَّامِ بَنِیْۤ اُمَيَّةَ تَقَرُّبًا اِلَيْهِمْ بِمَا يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ يَرْغَمُوْنَ بِهٖ اُنُوْفَ بَنِیْ هَاشِمٍ.

صحابہ کے فضائل میں اکثر موضوع حدیثیں بنی اُمیہ کے دور میں گھڑی گئیں تا کہ ان کی بارگاہ میں رسوخ حاصل کیا جائے، کیونکہ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ اس ذریعہ سے بنی ہاشم کو ذلیل و پست کر سکیں گے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۶)

وضع روایات کی عادت تو پڑ ہی چکی تھی، اب دنیا پرستوں نے سلاطین و امراء کا تقرب حاصل کرنے اور مال دنیا سمیٹنے کیلئے اسے ایک ذریعہ بنا لیا۔ جیسا کہ غیاث ابن ابراہیم نے مہدی ابن منصور کو خوش کرنے اور اس سے تقرب حاصل کرنے کیلئے کبوتروں کی پرواز میں ایک روایت گھڑ کر سنا دی اور ابو سعید مدائنی وغیرہ نے اسے ذریعہ معاش بنا لیا اور حد یہ ہے کہ کرامیہ اور بعض متصوفہ نے معصیت سے روکنے اور اطاعت کی طرف راغب کرنے کیلئے وضع حدیث کے جواز کا فتویٰ بھی دے دیا۔ چنانچہ ترغیب و ترہیب کے سلسلہ میں بے کھٹکے روایتیں وضع کی جاتی تھیں اور اسے شریعت و دیانت کے خلاف نہ سمجھا جاتا تھا، بلکہ عموما ًیہ کام وہی لوگ انجام دیتے تھے کہ جو بظاہر زہد و تقویٰ اور صلاح و رشد سے آراستہ ہوتے تھے اور جن کی راتیں مصلوں پر اور دن جھوٹی روایتوں سے دفتر سیاہ کرنے میں گزرتے تھے۔ چنانچہ ان جعلی روایتوں کی کثرت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ امام بخاری نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے دو ہزار چھ سو اکسٹھ حدیثیں منتخب کیں، مسلم نے آٹھ لاکھ حدیثوں میں سے چار ہزار حدیثیں قابل انتخاب سمجھیں، ابو داؤد نے پانچ لاکھ حدیثوں میں سے چار ہزار آٹھ سو حدیثیں انتخاب کیں، احمد بن حنبل نے سات لاکھ پچاس ہزار حدیثوں میں سے تیس ہزار منتخب کیں،مگر جب بھی اس انتخاب کو دیکھا جاتا ہے تو ایسی حدیثیں سامنے آتی ہیں کہ وہ کسی حالت میں بھی پیغمبر اکرم ﷺ کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتیں۔ چنانچہ آج مسلمانوں میں ایک معتدبہ طبقہ ایسا پیدا ہو چکا ہے جو کہ ان مسانید و صحاح پر نظر کرنے کے بعد سرے سے حدیث کی حجیت ہی سے انکار کر چکا ہے۔

دوسری قسم کے رواة وہ ہیں کہ جو موقع و محل کو سمجھے بغیر جو الٹا سیدھا انہیں یاد رہ جاتا تھا وہ روایت کر دیتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری، باب البکاء علی المیت میں ہے کہ جب حضرت عمر زخمی ہوئے تو صہیب روتے ہوئے ان کے ہاں آئے تو حضرت عمر نے کہا کہ:

يَا صُهَيْبُ! اَ تَبْكِیْ عَلَىَّ وَ قَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهُ ﷺ: اِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَآءِ اَهْلِهٖ عَلَیْہِ.

اے صہیب! تم مجھ پر روتے ہو، حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ: ’’گھر والوں کے رونے سے میّت پر عذاب ہوتا ہے‘‘۔

جب حضرت عمر کے انتقال کے بعد حضرت عائشہ سے اس کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ: خدا عمر پر رحم کرے! رسول اللہ ﷺ نے تو ایسا نہیں فرمایا تھا کہ گھر والوں کے رونے سے مومن کی میت پر عذاب ہوتا ہے۔ البتہ یہ فرمایا تھا کہ کافر کی میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ام المومنین نے فرمایا کہ: قرآن میں تو یہ ہے کہ ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى‌ ﴾ [۲]: ’’ایک کا بار دوسرا نہیں اٹھاتا‘‘ تو یہاں رونے والوں کا بار میت کیسے اٹھائے گی۔ پھر حضرت عائشہ سے یہ حدیث درج کی ہے کہ جس سے پہلی حدیث کی مزید تشریح ہوتی ہے:

عن عَآئِشَةَ زَوْجِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَتْ: اِنَّمَا مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ عَلٰى يَهُوْدِيَّةٍ يَّبْكِیْ عَلَيْهَا اَهْلُهَا، فَقَالَ: اِنَّهُمْ لَيَبْكُوْنَ عَلَيْهَا وَ اِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِھَا.

زوجہ رسولؐ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ: رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کی طرف سے ہو کر گزرے کہ جس پر اس کے گھر والے رو رہے تھے تو آپؐ نے فرمایا کہ: اس کے گھر والے تو اس پر رو رہے ہیں اور وہ قبر میں مبتلائے عذاب ہے۔[۳]

تیسری قسم کے رواة وہ ہیں کہ جنہوں نے پیغمبر ﷺ سے حدیث منسوخ کو سنا مگر اس کی ناسخ حدیث کے سننے کا ان کو موقع ہی نہ ملا کہ وہ اسے بیان کرتے یا اس پر عمل کرتے۔ حدیث ناسخ کی مثال پیغمبر ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ جس میں حدیث منسوخ کی طرف بھی اشارہ ہے:

نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ، اَلَا فَزُوْرُوْهَا.

میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا مگر اب تم زیارت کر سکتے ہو۔[۴]

اس میں زیارت قبور کی نہی کو اِذن زیارت قبور سے منسوخ کر دیا ہے۔ تو جن لوگوں نے صرف حدیث منسوخ کو سن رکھا تھا وہ اسی پر عمل پیرا رہے۔

چوتھی قسم کے رواة وہ ہیں کہ جو عدالت سے آراستہ، فہم و ذکا کے مالک، حدیث کے مورد و محل سے آگاہ، ناسخ و منسوخ، خاص و عام، مقید و مطلق سے واقف اور کذب و افترا سے کنارہ کش ہوتے تھے، جو وہ سنتے تھے ان کے حافظہ میں محفوظ رہتا تھا اور اسے صحیح صحیح دوسروں تک پہنچا دیتے تھے۔ انہی کی بیان کردہ احادیث اسلام کا سرمایہ، غل و غش سے پاک اور قابل اعتماد و عمل ہیں۔ خصوصاً وہ سرمایۂ احادیث جو امیر المومنین علیہ السلام سے امانتدار سینوں میں منتقل ہوتا رہا اور قطع و برید اور تحریف و تبدل سے محفوظ رہنے کی وجہ سے اسلام کو صحیح صورت میں پیش کرتا ہے۔ کاش کہ دنیا علم کے ان سرچشموں سے پیغمبر ﷺ کے فیوض حاصل کرتی۔ مگر تاریخ کا یہ افسوسناک باب ہے کہ خوارج و معاندین آل محمدؑ سے تو حدیث لی جاتی ہے اور جہاں سلسلہ روایت میں اہل بیت علیہم السلام کی کسی فرد کا نام آ جاتا ہے تو قلم رک جاتا ہے، چہرے پر شکنیں پڑ جاتی ہیں اور تیور بدل جاتے ہیں۔

[۱]۔ منہاج البراعۃ، ج ۱۴، ص ۲۹۔

[۲]۔ سورۂ بنی اسرائیل، آیت ۱۵۔

[۳]۔ صحیح البخاری، ج ۱، ص ۴۳۲، حدیث ۱۲۲۷۔

[۴]۔ علل الشرائع، ج ۲، ص ۴۳۹۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button