خطبہ (۲۱۴)
(٢۱٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۱۴)
خَطَبَهَا بِصِفِّیْنَ
صفین کے موقع پر فرمایا
اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ جَعَلَ اللهُ لِیْ عَلَیْكُمْ حَقًّۢا بِوِلَایَةِ اَمْرِكُمْ، وَ لَكُمْ عَلَیَّ مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِیْ لِیْ عَلَیْكُمْ، فَالْحَقُّ اَوْسَعُ الْاَشْیَآءِ فِی التَّوَاصُفِ، وَ اَضْیَقُهَا فِی التَّنَاصُفِ، لَا یَجْرِیْ لِاَحَدٍ اِلَّا جَرٰی عَلَیْهِ، وَ لَا یَجْرِیْ عَلَیْهِ اِلَّا جَرٰی لَهٗ.
اللہ سبحانہ نے مجھے تمہارے امور کا اختیار دے کر میرا حق تم پر قائم کر دیا ہے اور جس طرح میرا تم پر حق ہے ویسا ہی تمہارا بھی مجھ پر حق ہے۔ یوں تو حق کے بارے میں باہمی اوصاف گنوانے میں بہت وسعت ہے، لیکن آپس میں حق و انصاف کرنے کا دائرہ بہت تنگ ہے۔ دو آدمیوں میں اس کا حق اس پر اسی وقت ہے جب دوسرے کا بھی اس پر حق ہو اور اس کا حق اس پر جب ہی ہوتا ہے جب اس کا حق اس پر بھی ہو۔
وَ لَوْ كَانَ لِاَحَدٍ اَنْ یَّجْرِیَ لَهٗ وَ لَا یَجْرِیَ عَلَیْهِ، لَكَانَ ذٰلِكَ خَالِصًا لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ دُوْنَ خَلْقِهٖ، لِقُدْرَتِهٖ عَلٰی عِبَادِهٖ، وَ لِعَدْلِهٖ فِیْ كُلِّ مَا جَرَتْ عَلَیْهِ صُرُوْفُ قَضَآئِهٖ، وَ لٰكِنَّهٗ جَعَلَ حَقَّهٗ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یُّطِیْعُوْهُ، وَ جَعَلَ جَزَآءَهُمْ عَلَیْهِ مُضَاعَفَةَ الثَّوَابِ تَفَضُّلًا مِّنْهُ، وَ تَوَسُّعًۢا بِمَا هُوَ مِنَ الْمَزِیْدِ اَهْلُهٗ.
اور اگر ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کا حق تو دوسروں پر ہو لیکن اس پر کسی کا حق نہ ہو تو یہ امر ذات باری کیلئے مخصوص ہے نہ اس کی مخلوق کیلئے، کیونکہ وہ اپنے بندوں پر پورا تسلط و اقتدار رکھتا ہے اور اس نے تمام ان چیزوں میں کہ جن پر اس کے فرمانِ قضا جاری ہوئے ہیں، عدل کرتے ہوئے (ہر صاحب حق کا حق دے دیا ہے) اس نے بندوں پر اپنا یہ حق رکھا ہے کہ وہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور اس نے محض اپنے فضل و کرم اور اپنے احسان کو وسعت دینے کی بنا پر کہ جس کا وہ اہل ہے ان کا کئی گنا اجر قرار دیا ہے۔
ثُمَّ جَعَلَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ مِنْ حُقُوْقِهٖ حُقُوْقًا افْتَرَضَهَا لِبَعْضِ النَّاسِ عَلٰی بَعْضٍ، فَجَعَلَهَا تَتَكَافَاُ فِیْ وُجُوْهِهَا، وَ یُوْجِبُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَ لَا یُسْتَوْجَبُ بَعْضُهَاۤ اِلَّا بِبَعْضٍ.
پھر اس نے ان حقوق انسانی کو بھی کہ جنہیں ایک کیلئے دوسرے پر قرار دیا ہے اپنے ہی حقوق میں سے قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابر اتریں اور کچھ ان میں سے کچھ حقوق کا باعث ہوتے ہیں اور اس وقت تک واجب نہیں ہوتے جب تک اس کے مقابلہ میں حقوق ثابت نہ ہو جائیں۔
وَ اَعْظَمُ مَا افْتَرَضَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ مِنْ تِلْكَ الْحُقُوْقِ حَقُّ الْوَالِی عَلَی الرَّعِیَّةِ وَ حَقُّ الرَّعِیَّةِ عَلَی الْوَالِیْ، فَرِیْضَةً فَرَضَهَا اللهُ ـ سُبْحَانَهٗ ـ لِكُلٍّ عَلٰی كُلٍّ، فَجَعَلَهَا نِظَامًا لِّاُلْفَتِهِمْ، وَ عِزًّا لِّدِیْنِهِمْ، فَلَیْسَتْ تَصْلُحُ الرَّعِیَّةُ اِلَّا بِصَلَاحِ الْوُلَاةِ، وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ اِلَّا بِاسْتِقَامَةِ الرَّعِیَّةِ.
اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیت پر اور رعیت کا حکمران پر ہے کہ جسے اللہ نے والی و رعیت میں سے ہر ایک کیلئے فریضہ بنا کر عائد کیا ہے اور اسے ان میں رابطۂ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ رعیت اسی وقت خوشحال رہ سکتی ہے جب حاکم کے طور طریقے درست ہوں اور حاکم بھی اسی وقت صلاح و درستگی سے آراستہ ہو سکتا ہے جب رعیت اس کے احکام کی انجام دہی کیلئے آمادہ ہو۔
فَاِذَاۤ اَدَّتِ الرَّعِیَّةُ اِلَی الْوَالِیْ حَقَّهٗ، وَ اَدَّی الْوَالِیْۤ اِلَیْهَا حَقَّهَا، عَزَّ الْحَقُّ بَیْنَهُمْ، وَ قَامَتْ مَنَاهِجُ الدِّیْنِ، وَ اعْتَدَلَتْ مَعَالِمُ الْعَدْلِ، وَ جَرَتْ عَلٰۤی اَذْلَالِهَا السُّنَنُ، فَصَلَحَ بِذٰلِكَ الزَّمَانُ، وَ طُمِعَ فِیْ بَقَآءِ الدَّوْلَةِ، وَ یَئِسَتْ مَطَامِعُ الْاَعْدَآءِ.
جب رعیت فرمانروا کے حقوق پورے کرے اور فرمانروا رعیت کے حقوق سے عہدہ برآ ہو تو ان میں حق با وقار، دین کی راہیں استوار اور عدل و انصاف کے نشانات برقرار ہو جائیں گے اور پیغمبرؐ کی سنتیں اپنے دھڑے پر چل نکلیں گی اور زمانہ سدھر جائے گا، بقائے سلطنت کے توقعات پیدا ہو جائیں گے اور دشمنوں کی حرص و طمع یاس و ناامیدی سے بدل جائے گی۔
وَ اِذَا غَلَبَتِ الرَّعِیَّةُ وَالِیَهَا، اَوْ اَجْحَفَ الْوَالِیْ بِرَعِیَّتِهٖ، اخْتَلَفَتْ هُنَالِكَ الْكَلِمَةُ، وَ ظَهَرَتْ مَعَالِمُ الْجَوْرِ، وَ كَثُرَ الْاِدْغَالُ فِی الدِّیْنِ، وَ تُرِكَتْ مَحَاجُّ السُّنَنِ، فَعُمِلَ بِالْهَوٰی، وَ عُطِّلَتِ الْاَحْكَامُ، وَ كَثُرَتْ عِلَلُ النُّفُوْسِ، فَلَا یُسْتَوْحَشُ لِعَظِیْمِ حَقٍّ عُطِّلَ، وَ لَا لِعَظِیْمِ بَاطِلٍ فُعِلَ! فَهُنَالِكَ تَذِلُّ الْاَبْرَارُ، وَ تَعِزُّ الْاَشْرَارُ، وَ تَعْظُمُ تَبِعَاتُ اللهِ عِنْدَ الْعِبَادِ.
اور جب رعیت حاکم پر مسلط ہو جائے یا حاکم رعیت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقعہ پر ہر بات میں اختلاف ہو گا، ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے، دین میں مفسدے بڑھ جائیں گے، شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی، خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا، شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے، نفسانی بیماریاں بڑھ جائیں گی اور بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کوئی نہ گھبرائے گا۔ ایسے موقعہ پر نیکو کار ذلیل اور بد کردار باعزت ہو جاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں۔
فَعَلَیْكُمْ بِالتَّنَاصُحِ فِیْ ذٰلِكَ، وَ حُسْنِ التَّعَاوُنِ عَلَیْهِ، فَلَیْسَ اَحَدٌ ـ وَ اِنِ اشْتَدَّ عَلٰی رِضَی اللهِ حِرْصُهٗ، وَ طَالَ فِی الْعَمَلِ اجْتِهَادُهٗ ـ بِبَالِغٍ حَقِیْقَةَ مَا اللهُ اَهْلُهٗ مِنَ الطَّاعَةِ لَهٗ، وَ لٰكِنْ مِّنْ وَاجِبِ حُقُوْقِ اللهِ عَلَی الْعِبَادِ النَّصِیْحَةُ بِمَبْلَغِ جُهْدِهِمْ، وَ التَّعَاوُنُ عَلٰۤی اِقَامَةِ الْحَقِّ بَیْنَهُمْ، وَ لَیْسَ امْرُؤٌـ وَ اِنْ عَظُمَتْ فِی الْحَقِّ مَنْزِلَتُهٗ، وَ تَقَدَّمَتْ فِی الدِّیْنِ فَضِیْلَتُهٗ ـ بِفَوْقِ اَنْ یُّعَانَ عَلٰی مَا حَمَّلَهُ اللهُ مِنْ حَقِّهٖ، وَ لَا امْرُؤٌ ـ وَ اِنْ صَغَّرَتْهُ النُّفُوْسُ، وَ اقْتَحَمَتْهُ الْعُیُوْنُ ـ بِدُوْنِ اَنْ یُّعِیْنَ عَلٰی ذٰلِكَ اَوْ یُعَانَ عَلَیْهِ.
لہٰذا اس حق کی ادائیگی میں ایک دوسرے کو سمجھانا بجھانا اور ایک دوسرے سے بخوبی تعاون کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔ اس لئے کہ کوئی شخص بھی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اس حد تک نہیں پہنچ سکتا کہ جس کا وہ اہل ہے۔ چاہے وہ اس کی خوشنودیوں کو حاصل کرنے کیلئے کتنا ہی حریص ہو اور اس کی عملی کوششیں بھی بڑھی چڑھی ہوئی ہوں۔ پھر بھی اس نے بندوں پر یہ حق واجب قرار دیا ہے کہ وہ مقدور بھر پند و نصیحت کریں اور اپنے درمیان حق کو قائم کرنے کیلئے ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں۔ کوئی شخص بھی اپنے کو اس سے بے نیاز نہیں قرار دے سکتا کہ اللہ نے جس ذمہ داری کا بوجھ اس پر ڈالا ہے اس میں اس کا ہاتھ بٹایا جائے، چاہے وہ حق میں کتنا ہی بلند منزلت کیوں نہ ہو اور دین میں اسے فضیلت و برتری کیوں نہ حاصل ہو اور کوئی شخص اس سے بھی گیا گزرا نہیں کہ حق میں تعاون کرے یا اس کی طرف دست تعاون بڑھایا جائے، چاہے لوگ اسے ذلیل سمجھیں اور اپنی حقارت کی وجہ سے آنکھوں میں نہ جچے۔
فَاَجَابَهٗ ؑ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِهٖ بِكَلَامٍ طَوِیْلٍ، یُكْثِرُ فِیْهِ الثَّنَآءَ عَلَیْهِ، وَ یَذْكُرُ سَمْعَهٗ وَ طَاعَتَهٗ لَهٗ، فَقَالَ ؑ:
اس موقعہ پر آپؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے آپؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک طویل گفتگو کی جس میں حضرتؑ کی بڑی مدح و ثنا کی اور آپؑ کی باتوں پر کان دھرنے اور ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا اقرار کیا تو آپؑ نے فرمایا:
اِنَّ مِنْ حَقِّ مَنْ عَظُمَ جَلَالُ اللهِ فِیْ نَفْسِهٖ، وَ جَلَّ مَوْضِعُهٗ مِنْ قَلْبِهٖ، اَنْ یَّصْغُرَ عِنْدَهٗ ـ لِعِظَمِ ذٰلِكَ ـ كُلُّ مَا سِوَاهُ، وَ اِنَّ اَحَقَّ مَنْ كَانَ كَذٰلِكَ لَمَنْ عَظُمَتْ نِعْمَةُ اللهِ عَلَیْهِ، وَ لَطُفَ اِحْسَانُهٗۤ اِلَیْهِ، فَاِنَّهٗ لَمْ تَعْظُمْ نِعْمَةُ اللهِ عَلٰۤی اَحَدٍ اِلَّا ازْدَادَ حَقُّ اللهِ عَلَیْهِ عِظَمًا.
جس شخص کے دل میں جلالِ الٰہی کی عظمت اور قلب میں منزلت خداوندی کی رفعت کا احساس ہو اسے سزاوار ہے کہ اس جلالت و عظمت کے پیش نظر اللہ کے ما سوا ہر چیز کو حقیر جانے اور ایسے لوگوں میں وہ شخص اور بھی اس کا زیادہ اہل ہے کہ جسے اس نے بڑی نعمتیں دی ہوں اور اچھے احسانات کئے ہوں۔ اس لئے کہ جتنی اللہ کی نعمتيں کسی پر بڑی ہوں گی اُتنا ہی اُس پر اللہ کا حق زيادہ ہو گا۔
وَ اِنَّ مِنْ اَسْخَفِ حَالَاتِ الْوُلَاةِ عِنْدَ صَالِحِ النَّاسِ، اَنْ یُّظَنَّ بِهِمْ حُبُّ الْفَخْرِ، وَ یُوْضَعَ اَمْرُهُمْ عَلَی الْكِبْرِ، وَ قَدْ كَرِهْتُ اَنْ یَّكُوْنَ جَالَ فِیْ ظَنِّكُمْ اَنِّیْۤ اُحِبُّ الْاِطْرَآءَ، وَ اسْتِمَاعَ الثَّنَآءِ، وَ لَسْتُ ـ بِحَمْدِ اللهِ ـ كَذٰلِكَ، وَ لَوْ كُنْتُ اُحِبُّ اَنْ یُّقَالَ ذٰلِكَ لَتَرَكْتُهُ انْحِطَاطًا لِلّٰهِ سُبْحَانَهٗ عَنْ تَنَاوُلِ مَا هُوَ اَحَقُّ بِهٖ مِنَ الْعَظَمَةِ وَ الْكِبْرِیَآءِ.
نیک بندوں کے نزديک فرمانرواؤں کی ذلیل ترین صورت حال یہ ہے کہ ان کے متعلق یہ گمان ہونے لگے کہ وہ فخر و سر بلندی کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے حالات کبر و غرور پر محمول ہو سکیں۔ مجھے يہ تک ناگوار معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں اس کا وہم و گمان بھی گزرے کہ میں بڑھ چڑھ کر سراہے جانے یا تعریف سننے کو پسند کرتا ہوں۔ بحمد اللہ! کہ میں ایسا نہیں ہوں اور اگر مجھے اس کی خواہش بھی ہوتی کہ ایسا کہا جائے تو بھی اللہ کے سامنے فروتنی کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا کہ ایسی عظمت و بزرگی کو اپنایا جائے کہ جس کا وہی اہل ہے۔
وَ رُبَّمَا اسْتَحْلَی النَّاسُ الثَّنَآءَ بَعْدَ الْبَلَآءِ، فَلَا تُثْنُوْا عَلَیَّ بِجَمِیْلِ ثَنَآءٍ، لِاِخْرَاجِیْ نَفْسِیْۤ اِلَی اللهِ وَ اِلَیْكُمْ مِنَ التَّقِیَّةِ فِیْ حُقُوْقٍ لَّمْ اَفْرُغْ مِنْ اَدَآئِهَا، وَ فَرَآئِضَ لَا بُدَّ مِنْ اِمْضَآئِهَا، فَلَا تُكَلِّمُوْنِیْ بِمَا تُكَلَّمُ بِهِ الْجَبَابِرَةُ، وَ لَا تَتَحَفَّظُوْا مِنِّیْ بِمَا یُتَحَفَّظُ بِهٖ عِنْدَ اَهْلِ الْبَادِرَةِ، وَ لَا تُخَالِطُوْنِیْ بِالْمُصَانَعَةِ، وَ لَا تَظُنُّوْا بِیَ اسْتِثْقَالًا فِیْ حَقٍّ قِیْلَ لِیْ، وَ لَا الْتِمَاسَ اِعْظَامٍ لِّنَفْسِیْ، فَاِنَّهٗ مَنِ اسْتَثْقَلَ الْحَقَّ اَنْ یُّقَالَ لَهٗۤ اَوِ الْعَدْلَ اَنْ یُّعْرَضَ عَلَیْهِ، كَانَ الْعَمَلُ بِهِمَاۤ اَثْقَلَ عَلَیْهِ.
یوں تو لوگ اکثر اچھی کارکردگی کے بعد مدح و ثنا کو خوشگوار سمجھا کرتے ہیں (لیکن) میری اس پر مدح و ستائش نہ کر و کہ اللہ کی اطاعت اور تمہارے حقوق سے عہدہ برآ ہوا ہوں، کیونکہ ابھی ان حقوق کا ڈر ہے کہ جنہیں پورا کرنے سے میں ابھی فارغ نہیں ہوا اور ان فرائض کا ابھی اندیشہ ہے کہ جن کا نفاذ ضروری ہے۔ مجھ سے ویسی باتیں نہ کیا کرو جیسی جابر و سرکش فرمانرواؤں سے کی جاتی ہیں اور نہ مجھ سے اس طرح بچاؤ کرو جس طرح طیش کھانے والے حاکموں سے بچ بچاؤ کیا جاتا ہے اور مجھ سے اس طرح کا میل جول نہ رکھو جس سے چاپلوسی اور خوشامد کا پہلو نکلتا ہو۔ میرے متعلق یہ گمان نہ کرو کہ میرے سامنے کوئی حق بات کہی جائے گی تو مجھے گراں گزرے گی اور نہ یہ خیال کرو کہ میں یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بڑھا چڑھا دو، کیونکہ جو اپنے سامنے حق کے کہے جانے اور عدل کے پیش کئے جانے کو بھی گراں سمجھتا ہو اُسے حق و انصاف پر عمل کرنا کہیں زیادہ دشوار ہو گا۔
فَلَا تَكُفُّوْا عَنْ مَّقَالَةٍۭ بِحَقٍّ، اَوْ مَشُوْرَةٍۭ بِعَدْلٍ، فَاِنِّیْ لَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ بِفَوْقِ اَنْ اُخْطِئَ، وَ لَاۤ اٰمَنُ ذٰلِكَ مِنْ فِعْلِیْ، اِلَّا اَنْ یَّكْفِیَ اللهُ مِنْ نَّفْسِیْ مَا هُوَ اَمْلَكُ بِهٖ مِنِّیْ، فَاِنَّماۤ اَنَا وَ اَنْتُمْ عَبِیْدٌ مَّمْلُوْكُوْنَ لِرَبٍّ لَّا رَبَّ غَیْرُهٗ، یَمْلِكُ مِنَّا مَا لَا نَمْلِكُ مِنْ اَنْفُسِنَا، وَ اَخْرَجَنَا مِمَّا كُنَّا فِیْهِ اِلٰی مَا صَلَحْنَا عَلَیْهِ، فَاَبْدَلَنَا بَعْدَ الضَّلَالَةِ بِالْهُدٰی، وَ اَعْطَانَا الْبصِیْرَةَ بَعْدَ الْعَمٰی.
تم اپنے کو حق کی بات کہنے اور عدل کا مشورہ دینے سے نہ روکو۔ کیونکہ میں تو اپنے کو اس سے بالا تر نہیں سمجھتا کہ خطا کروں اور نہ اپنے کسی کام کو لغزش سے محفوظ سمجھتا ہوں [۱] ، مگر یہ کہ خدا میرے نفس کو اس سے بچائے کہ جس پر وہ مجھ سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔ ہم اور تم اسی رب کے بے اختیار بندے ہیں کہ جس کے علاوہ کوئی رب نہیں۔ وہ ہم پر اتنا اختیار رکھتا ہے کہ خود ہم اپنے نفسوں پر اتنا اختیار نہیں رکھتے۔ اسی نے ہمیں پہلی حالت سے نکال کر جس میں ہم تھے بہبودی کی راہ پر لگایا اور اسی نے ہماری گمراہی کو ہدایت سے بدلا اور بے بصیرتی کے بعد بصیرت عطا کی۔
۱یہ امر کسی تصریح کا محتاج نہیں ہے کہ عصمت مَلکی اور ہے اور عصمت بشری اور ہے۔ فرشتوں کے معصوم ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ان میں کسی خطا و لغزش کی تحریک ہی پیدا نہیں ہوتی۔ مگر انسان کے معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں بشری تقاضے اور نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں، مگر وہ انہیں روکنے کی ایک قوت خاص رکھتا ہے اور ان سے مغلوب ہو کر کسی خطا کا مرتکب نہیں ہوتا اور اسی قوت کا نام عصمت ہے کہ جو ذاتی خواہشات و جذبات کو ابھرنے نہیں دیتی۔
حضرتؑ کے ارشاد: «فَاِنِّیْ لَسْتُ فِیْ نَفْسِیْ بِفَوْقِ اَنْ اُخْطِئَ» : ’’میں اپنے کو اس سے بالاتر نہیں سمجھتا کہ خطا کروں‘‘، میں انہی بشری تقاضوں اور خواہشوں کی طرف اشارہ ہے اور «اِلَّا اَنْ یَّكْفِیَ اللهُ مِنْ نَّفْسِیْ» : ’’مگر یہ کہ خدا میرے نفس کو اس سے بچائے رہے‘‘ میں عصمت کی طرف اشارہ ہے۔ چنانچہ اسی لب و لہجہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی قرآن میں وارد ہوا ہے کہ ﴿وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِىْۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ؕ﴾[۱]: ’’میں اپنے نفس کو گناہ سے پاک نہیں ٹھہراتا کیونکہ انسان کا نفس گناہ پر بہت ابھارنے والا ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے‘‘، تو جس طرح یہاں پر ﴿اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّيْ۰ۭ﴾ کا جو استثناء ہے اس کی وجہ سے آیت کے پہلے جز و سے آپؑ کی عصمت کے خلاف دلیل نہیں لائی جا سکتی، اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام کے کلام میں «اِلَّا اَنْ یَّكْفِیَ اللهُ مِنْ نَّفْسِیْ» کا جو استثناء ہے اس کے ہوتے ہوئے کلام کے پہلے ٹکڑے سے آپؑ کے غیر معصوم ہو نے پر استدلال نہیں کیا جا سکتا، ورنہ ایک نبی کی عصمت سے بھی انکار کرنا پڑے گا۔
یونہی اس خطبہ کے آخری ٹکڑے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپؑ بعثت رسولؐ سے پہلے دور جاہلیت کے عقائد سے متاثر رہ چکے ہوں گے اور جس طرح دوسروں کا دامن کفر و شرک سے آلودہ رہ چکا تھا اسی طرح آپؑ بھی تاریکی و ضلالت میں رہے ہوں گے، کیونکہ آپؑ پیدائش کے دن سے رہبر عالم کے زیر سایہ پرورش پا رہے تھے اور انہی کی تعلیم و تربیت کے اثرات آپؑ کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ لہٰذا یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ابتدائے عمر سے پیغمبر ﷺ کے نقش قدم پر چلنے والا زندگی کے کسی لمحہ میں ہدایت سے بیگانہ رہا ہو گا۔چنانچہ مسعودی نے تحریر کیا ہے کہ:
اِنَّهٗ لَمْ يُشْرِكْ بِاللّٰهِ شَيْئًا فَيَسْتَاْنِفُ الْاِسْلَامَ، بَلْ كَانَ تَابِعًا لِّلنَّبِیِّ ﷺ فِیْ جَمِيْعِ فِعَالِهٖ، مُقْتَدِيًۢا بِهٖ، وَ بَلَغَ وَ هُوَ عَلٰى ذٰلِكَ.
آپؑ نے کبھی شرک ہی نہیں کیا کہ اس سے الگ ہو کر آپؑ کے اسلام لانے کا سوال پیدا ہو، بلکہ تمام افعال و اعمال میں رسول ﷺ کے تابع اور ان کے پیرو تھے اور اسی حالت اتباع میں آپؑ نے سر حد بلوغ میں قدم رکھا۔
(مروج الذہب، ج۲، ص۳)
اس مقام پر ان لوگوں سے جن کو اللہ نے تاریکی و گمراہی سے راہ راست پر لگایا وہ لوگ مراد ہیں جو آپؑ کے مخاطب تھے۔چنانچہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ:
لَيْسَ هٰذَا اِشَارَةٌ اِلٰى خَاصِّ نَفْسِهٖ ؑ، لِاَنَّهٗ لَمْ يَكُنْ كَافِرًا فَاَسْلَمَ وَ لٰكِنَّهٗ كَلَامٌ يَّقُوْلُهٗ وَ يُشِيْرُ بِهٖۤ اِلَى الْقَوْمِ الَّذِيْنَ يُخَاطِبُهُمْ مِنْ اَفْنَآءِ النَّاسِ.
یہ خود امیر المومنین علیہ السلام کی طرف اشارہ نہیں، کیونکہ وہ کبھی کافر نہیں رہے کہ کفر کے بعد اسلام لاتے، بلکہ لوگوں کی مختلف جماعتیں جو آپؑ کے مخاطب تھیں، ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔[۲]↑
[۱]۔ سورۂ یوسف، آیت ۵۳۔
[۲]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۱، ص ۱۰۸۔