خطبہ (۲۱۵)
(٢۱٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۱۵)
اَللّٰهُمَّ اِنِّیْۤ اَسْتَعْدِیْكَ عَلٰی قُرَیْشٍ، فَاِنَّهُمْ قَدْ قَطَعُوْا رَحِمِیْ، وَ اَكْفَاُوْۤا اِنَآئِیْ، وَ اَجْمَعُوْا عَلٰی مُنَازَعَتِیْ حَقًّا كُنْتُ اَوْلٰی بِهٖ مِنْ غَیْرِیْ، وَ قَالُوْا: اَلَا اِنَّ فِی الْحَقِّ اَنْ تَاْخُذَهٗ، وَ فِی الْحَقِّ اَنْ تُمْنَعَهٗ، فَاصْبِرْ مَغْمُوْمًا، اَوْ مُتْ مُتَاَسِّفًا.
خدایا! میں قریش سے انتقام لینے پر تجھ سے مدد کا خواستگار ہوں، کیونکہ انہوں نے میری قرابت و عزیز داری کے بندھن توڑ دیئے اور میرے ظرف (عزت و حرمت) کو اوندھا کر دیا اور اس حق میں کہ جس کا میں سب سے زیادہ اہل ہوں جھگڑا کرنے کیلئے اِیکا کر لیا اور یہ کہنے لگے کہ یہ بھی حق ہے کہ آپؑ اسے لے لیں اور یہ بھی حق ہے کہ آپؑ کو اس سے روک دیا جائے۔ یا تو غم و حزن کی حالت میں صبر کیجئے یا رنج و اندوہ سے مر جایئے۔
فَنَظَرْتُ فَاِذَا لَیْسَ لِیْ رَافِدٌ،وَ لَا ذَابٌّ وَّ لَا مُسَاعِدٌ، اِلَّا اَهْلَ بَیْتِیْ، َضَنِنْتُ بِهِمْ عَنِ الْمَنِیَّةِ، فَاَغْضَیْتُ عَلَی الْقَذٰی، وَ جَرَعْتُ رِیْقِیْ عَلَی الشَّجَا، وَ صَبَرْتُ مِنْ كَظْمِ الْغَیْظِ عَلٰۤی اَمَرَّ مِنَ الْعَلْقَمِ، وَ اٰلَمَ لِلْقَلْبِ مِنْ حَزِّ الشِّفَارِ.
میں نے نگاہ دوڑائی تو مجھے اپنے اہل بیت علیہم السلام کے سوا نہ کوئی معاون نظر آیا اور نہ کوئی سینہ سپر اور معین دکھائی دیا تو میں نے انہیں موت کے منہ میں دینے سے بخل کیا۔ آنکھوں میں خس و خاشاک تھا مگر میں نے چشم پوشی کی، حلق میں (غم و رنج کے) پھندے تھے مگر میں لعاب دہن نگلتا رہا اور غم و غصہ پی لینے کی وجہ سے ایسے حالات پر صبر کیا جو حنظل (اندرائن) سے زیادہ تلخ اور دل کیلئے چھریوں کے کچوکوں سے زیادہ المناک تھے۔
وَ قَدْ مَضٰی هٰذَا الْكَلَامُ فِیْ اَثْنَآءِ خُطْبَةٍ مُّتَقَدِّمَةٍ، اِلَّاۤ اَنِّیْ كَرَّرْتُهٗ هٰهُنَا لِاخْتِلَافِ الرِّوَایَتَیْنِ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: حضرتؑ کا یہ کلام ایک پہلے خطبہ کے ضمن میں گزر چکا ہے مگر میں نے پھر اس کا اعادہ کیا ہے، چونکہ دونوں روایتوں کی لفظوں میں کچھ فرق ہے۔
[وَ مِنْہُ: فِیْ ذِكْرِ السَّآئِرِیْنَ اِلَی الْبَصْرَةِ لِحَرْبِهٖ ؑ]
[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے جس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو آپؑ سے لڑنے کیلئے بصرہ کی طرف نکل کھڑے ہوئے تھے]
فَقَدِمُوْا عَلٰی عُمَّالِیْ، وَ خُزَّانِ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ الَّذِیْ فِیْ یَدَیَّ، وَ عَلٰۤی اَهْلِ مِصْرٍ، كُلُّهُمْ فِیْ طَاعَتِیْ وَ عَلٰی بَیْعَتِیْ، فَشَتَّتُوْا كَلِمَتَهُمْ، وَ اَفْسَدُوْا عَلَیَّ جَمَاعَتَهُمْ، وَ وَثَبُوْا عَلٰی شِیْعَتِیْ، فَقَتَلُوْا طَآئِفَةً مِّنْهُمْ غَدْرًا، وَ طَآئِفَةٌ عَضُّوْا عَلٰۤی اَسْیَافِهِمْ، فَضَارَبُوْا بِهَا حَتّٰی لَقُوا اللهَ صَادِقِیْنَ.
وہ میرے عاملوں اور مسلمانوں کے اس بیت المال کے خزینہ داروں پر کہ جس کا اختیار میرے ہاتھوں میں تھا اور شہر (بصرہ) کے رہنے والوں پر کہ جو سب کے سب میرے فرمانبردار اور میری بیعت پر برقرار تھے چڑھ دوڑے، چنانچہ انہوں نے ان میں پھوٹ ڈلوا دی اور مجھ پر ان کی یکجہتی کو درہم و برہم کر دیا اور میرے پیروکاروں پر ٹوٹ پڑے اور ان میں سے ایک گروہ کو غداری سے قتل کر دیا۔ (البتہ) ایک گروہ نے شمشیر بکف ہو کر دانتوں کو بھینچ لیا اور ان سے تلواروں کے ساتھ ٹکرائے، یہاں تک کہ وہ سچائی کا جامہ پہنے ہوئے اللہ کے حضور میں پہنچ گئے۔