خطبات

خطبہ (۲۱۸)

(٢۱٨) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۲۱۸)

قَالَهٗ بَعْدَ تِلَاوَتِهٖ: ﴿اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ۝ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ۝﴾.

امیر المومنین علیہ السلام نے آیت ﴿اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُۙ۝ حَتّٰی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَؕ۝﴾: ’’تمہیں قوم قبیلے کی کثرت پر اترانے نے غافل کر دیا یہاں تک کہ تم نے قبریں دیکھ ڈالیں‘‘ [۱] کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:

یَا لَهٗ مَرَامًا مَّاۤ اَبْعَدَهٗ! وَ زَوْرًا مَّاۤ اَغْفَلَهٗ! وَ خَطَرًا مَّاۤ اَفْظَعَهٗ! لَقَدِ اسْتَخْلَوْا مِنْهُمْ اَیَّ مُدَّكِرٍ، وَ تَنَاوَشُوْهُمْ مِنْ مَّكَانٍۭ بَعِیْدٍ! اَ فَبِمَصَارِعِ اٰبَآئِهِمْ یَفْخَرُوْنَ! اَمْ بِعَدِیْدِ الْهَلْكٰی یَتَكَاثَرُوْنَ!.

دیکھو تو (ان بوسیدہ ہڈیوں پر فخر کرنے والوں کا) مقصد کتنا دور از عقل ہے! اور یہ قبروں پر آنے والے کتنے غافل و بے خبر ہیں! اور یہ مہم کتنی سخت و دشوار ہے! انہوں نے مرنے والوں کو کیسی کیسی عبرت آموز چیزوں سے خالی سمجھ لیا! اور دور دراز جگہ سے انہیں (سرمایۂ افتخار بنانے کیلئے) لے لیا! کیا یہ اپنے باپ داداؤں کی لاشوں پر فخر کرتے ہیں؟ یا ہلاک کی تعداد سے اپنی کثرت میں اضافہ محسوس کرتے ہیں؟۔

یَرْتَجِعُوْنَ مِنْهُمْ اَجْسَادًا خَوَتْ، وَ حَرَكَاتٍ سَكَنَتْ، وَ لَاَنْ یَّكُوْنُوْا عِبَرًا اَحَقُّ مِنْ اَنْ یَّكُوْنُوْا مُفْتَخَرًا، وَ لَاَنْ یَّهْبِطُوْا بِهِمْ جَنَابَ ذِلَّةٍ اَحْجٰی مِنْ اَنْ یَّقُوْمُوْا بِهِمْ مَقَامَ عِزَّةٍ!.

وہ ہونے والوں ان جسموں کو پلٹانا چاہتے ہیں جو بے روح ہوچکے ہیں اور ان جنبشوں کو لوٹانا چاہتے ہیں جو تھم چکی ہیں۔ وہ سببِ افتخار بننے سے زیادہ سامانِ عبرت بننے کے قابل ہیں۔ ان کی وجہ سے عجز و فروتنی کی جگہ پر اترنا، عزت و سرفرازی کے مقام پر ٹھہرنے سے زیادہ مناسب ہے۔

لَقَدْ نَظَرُوْۤا اِلَیْهِمْ بِاَبْصَارِ الْعَشْوَةِ، وَ ضَرَبُوْا مِنْهُمْ فِیْ غَمْرَةِ جَهَالَةٍ، وَ لَوِ اسْتَنْطَقُوْا عَنْهُمْ عَرَصَاتِ تِلْكَ الدِّیَارِ الْخَاوِیَةِ، وَ الْرُّبُوْعِ الْخَالِیَةِ، لَقَالَتْ: ذَهَبُوْا فِی الْاَرْضِ ضُلَّالًا، وَ ذَهَبْتُمْ فِیْۤ اَعْقَابِهِمْ جُهَّالًا، تَطَؤٗنَ فِیْ هَامِهِمْ، وَ تَسْتَثْبِتُوْنَ فِیْۤ اَجْسَادِهِمْ، وَ تَرْتَعُوْنَ فِیْمَاۤ لَفَظُوْا، وَ تَسْكُنُوْنَ فِیْمَا خَرَّبُوْا، وَ اِنَّمَا الْاَیَّامُ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ بَوَاكٍ وَّ نَوَاۗئِحُ عَلَیْكُمْ.

انہوں نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے انہیں دیکھا اور ان سے (عبرت لینے کی بجائے) جہالت کے گہراؤ میں اتر پڑے۔ اگر وہ ان کی سر گزشت کو ٹوٹے ہوئے مکانوں اور خالی گھروں کے صحنوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ: وہ گمراہی کی حالت میں زمین کے اندر چلے گئے اور تم بھی بے خبری و جہالت کے عالم میں ان کے عقب میں بڑھے جا رہے ہو، تم ان کی کھوپڑیوں کو روندتے ہو اور ان کے جسموں کی جگہ پر عمارتیں کھڑی کرنا چاہتے ہو، جس چیز کو انہوں نے چھوڑ دیا ہے اس میں چر رہے ہو اور جسے وہ خالی چھوڑ کر چلے گئے ہیں اس میں آ بسے ہو اور یہ دن بھی جو تمہارے اور ان کے درمیان ہیں تم پر رو رہے ہیں اور نوحہ پڑھ رہے ہیں۔

اُولٰٓئِكُمْ سَلَفُ غَایَتِكُمْ، وَ فُرَّاطُ مَنَاهِلِكُمْ، الَّذِیْنَ كَانَتْ لَهُمْ مَقَاوِمُ الْعِزِّ، وَ حَلَبَاتُ الْفَخْرِ، مُلُوْكًا وَّ سُوَقًا، سَلَكُوْا فِیْ بُطُوْنِ الْبَرْزَخِ سَبِیْلًا سُلِّطَتِ الْاَرْضُ عَلَیْهِمْ فِیْهِ، فَاَكَلَتْ مِنْ لُّحُوْمِهِمْ، وَ شَرِبَتْ مِنْ دِمَآئِهِمْ، فَاَصْبَحُوْا فِیْ فَجَوَاتِ قُبُوْرِهِمْ جَمَادًا لَّا یَنْمُوْنَ، وَ ضِمَارًا لَّا یُوْجَدُوْنَ، لَا یُفْزِعُهُمْ وُرُوْدُ الْاَهْوَالِ، وَ لَا یَحْزُنُهُمْ تَنَكُّرُ الْاَحْوَالِ، وَ لَا یَحْفِلُوْنَ بِالرَّوَاجِفِ، وَ لَا یَاْذَنُوْنَ لِلْقَوَاصِفِ،

تمہاری منزل منتہا پر پہلے سے پہنچ جانے والے اور تمہارے سرچشموں پر قبل سے وارد ہونے والے وہی لوگ ہیں جن کیلئے عزت کی منزلیں تھیں اور فخر و سر بلندی کی فراوانی تھی، کچھ تاجدار تھے، کچھ دوسرے درجہ کے بلند منصب، مگر اب تو وہ برزخ کی گہرائیوں میں راہ پیما ہیں کہ جہاں زمین ان پر مسلط کر دی گئی ہے، جس نے ان کا گوشت کھا لیا اور لہو چوس لیا ہے، چنانچہ وہ قبر کے شگافوں میں نشو و نما کھو کر جماد کی صورت میں پڑے ہیں اور یوں نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں کہ (ڈھونڈھے سے) نہیں ملتے۔ نہ پُر ہول خطرات کا آنا انہیں خوفزدہ کرتا ہے، نہ حالات کا انقلاب انہیں اندوہناک بناتا ہے، نہ زلزلوں کی پروا کرتے ہیں، نہ رعد کی کڑک پر کان دھرتے ہیں۔

غُیَّبًا لَّا یُنْتَظَرُوْنَ، وَ شُهُوْدًا لَّا یَحْضُرُوْنَ، وَ اِنَّمَا كَانُوْا جَمِیْعًا فَتَشَتَّتُوْا، وَ اُلَّافًا فَافْتَرَقُوْا، وَ مَا عَنْ طُوْلِ عَهْدِهِمْ، وَ لَا بُعْدِ مَحَلِّهِمْ، عَمِیَتْ اَخْبَارُهُمْ، وَ صَمَّتْ دِیَارُهُمْ، وَ لٰكِنَّهُمْ سُقُوْا كَاْسًا بَدَّلَتْهُمْ بِالنُّطْقِ خَرَسًا، وَ بِالسَّمْعِ صَمَمًا، وَ بِالْحَرَكَاتِ سُكُوْنًا، فَكَاَنَّهُمْ فِی ارْتِجَالِ الصِّفَةِ صَرْعٰی سُبَاتٍ،

وہ ایسے غائب ہیں کہ جن کا انتظار نہیں کیا جاتا اور ایسے موجود ہیں کہ سامنے نہیں آتے، وہ مل جل کر رہتے تھے جو اَب بکھر گئے ہیں اور آپس میں میل محبت رکھتے تھے جو اَب جدا ہو گئے ہیں۔ ان کے واقعات سے بے خبری اور ان کے گھروں کی خاموشی امتداد زمانہ اور دوری منزل کی وجہ سے نہیں، بلکہ انہیں (موت کا) ایسا ساغر پلا دیا گیا ہے کہ جس نے ان کی گویائی چھین کر انہیں گونگا بنا دیا ہے اور قوت شنوائی سلب کر کے بہرا کر دیا ہے اور ان کی حرکت و جنبش کو سکون و بے حسی سے بدل دیا ہے۔ گویا کہ وہ سرسری نظر میں یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے نیند میں لیٹے ہوئے ہوں۔

جِیْرَانٌ لَّا یَتَاَنَّسُوْنَ، وَ اَحِبَّآءُ لَا یَتَزَاوَرُوْنَ، بَلِیَتْ بَیْنَهُمْ عُرَا التَّعَارُفِ، وَ انْقَطَعَتْ مِنْهُمْ اَسْبَابُ الْاِخَآءِ، فَكُلُّهُمْ وَحِیْدٌ وَّ هُمْ جَمِیْعٌ، وَ بِجَانِبِ الْهَجْرِ وَ هُمْ اَخِلَّآءُ، لَا یَتَعَارَفُوْنَ لِلَیْلٍ صَبَاحًا، وَ لَا لِنَهَارٍ مَّسَآءً.

وہ ایسے ہمسائے ہیں جو ایک دوسرے سے انس و محبت کا لگاؤ نہیں رکھتے اور ایسے دوست ہیں جو آپس میں ملتے ملاتے نہیں۔ ان کے جان پہچان کے رابطے بوسیدہ ہوچکے ہیں اور بھائی بندی کے سلسلے ٹوٹ گئے ہیں۔ وہ ایک ساتھ ہوتے ہوئے پھر اکیلے ہیں اور دوست ہوتے ہوئے پھر علیحدہ اور جدا ہیں۔ یہ لوگ شب ہو تو اس کی صبح سے بے خبر اور دن ہو تو اس کی شام سے ناآشنا ہیں۔

اَیُّ الْجَدِیْدَیْنِ ظَعَنُوْا فِیْهِ كَانَ عَلَیْهِمْ سَرْمَدًا، شَاهَدُوْا مِنْ اَخْطَارِ دَارِهِمْ اَفْظَعَ مِمَّا خَافُوْا، وَ رَاَوْا مِنْ اٰیَاتِهَاۤ اَعْظَمَ مِمَّا قَدَّرُوْا، فَكِلْتَا الْغَایَتَیْنِ مُدَّتْ لَهُمْ اِلٰی مَبَآءَةٍ، فَاتَتْ مَبَالِغَ الْخَوْفِ وَ الرَّجَآءِ. فَلَوْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ بِهَا لَعَیُوْا بِصِفَةِ مَا شَاهَدُوْا وَ مَا عَایَنُوْا.

جس رات یا جس دن [۲] میں انہوں نے رخت سفر باندھا ہے وہ ساعت ان پر ہمیشہ اور یکساں رہنے والی ہے۔ انہوں نے منزلِ آخرت کی ہولناکیوں کو اس سے بھی کہیں زیادہ ہولناک پایا جتنا انہیں ڈر تھا اور وہاں کے آثار کو اس سے عظیم تر دیکھا جتنا کہ وہ اندازہ لگاتے تھے۔ (مومنوں اور کافروں کی) منزل انتہا کو جائے بازگشت (دوزخ و جنت) تک پھیلا دیا گیا ہے وہ (کافروں کیلئے) ہر درجہ خوف سے بلند تر اور (مومنوں کیلئے ) ہر درجہ امید سے بالا ترہے۔ اگر وہ بول سکتے ہوتے جب بھی دیکھی ہوئی چیزوں کے بیان سے ان کی زبانیں گنگ ہو جاتیں۔

وَ لَئِنْ عَمِیَتْ اٰثَارُهُمْ، وَ انْقَطَعَتْ اَخْبَارُهُمْ، لَقَدْ رَجَعَتْ فِیْهِمْ اَبْصَارُ الْعِبَرِ، وَ سَمِعَتْ عَنْهُمْ اٰذَانُ الْعُقُوْلِ، وَ تَكَلَّمُوْا مِنْ غَیْرِ جِهَاتِ النُّطْقِ، فَقَالُوْا: كَلَحَتِ الْوُجُوْهُ النَّوَاضِرُ، وَ خَوَتِ الْاَجْسَادُ النَّوَاعِمُ، وَ لَبِسْنَاۤ اَهْدَامَ الْبِلٰی، وَ تَكَآءَدَنَا ضِیْقُ الْمَضْجَعِ، وَ تَوَارَثْنَا الْوَحْشَةَ، وَ تَهَكَّمَتْ عَلَیْنَا الرُّبُوْعُ الصُّمُوْتُ، فَانْمَحَتْ مَحَاسِنُ اَجْسَادِنَا، وَ تَنَكَّرَتْ مَعَارِفُ صُوَرِنَا، وَ طَالَتْ فِیْ مَسَاكِنِ الْوَحْشَةِ اِقَامَتُنَا، وَ لَمْ نَجِدْ مِنْ كَرْبٍ فَرَجًا، وَ لَا مِنْ ضِیْقٍ مُّتَّسَعًا!.

اگرچہ ان کے نشانات مٹ چکے ہیں اور ان کی خبروں کا سلسلہ قطع ہو چکا ہے، لیکن چشم بصیرت انہیں دیکھتی اور گوش عقل و خرد ان کی سنتے ہیں۔ وہ بولے مگر نطق و کلام کے طریقہ پر نہیں، بلکہ انہوں نے زبان حال سے کہا: شگفتہ چہرے بگڑ گئے، نرم و نازک بدن مٹی میں مل گئے اور ہم نے بوسیدہ کفن پہن رکھا ہے اور قبر کی تنگی نے ہمیں عاجز کر دیا ہے، خوف و دہشت کا ایک دوسرے سے ورثہ پایا ہے، ہماری خاموش منزلیں ویران ہو گئیں، ہمارے جسم کی رعنائیاں مٹ گئیں، ہماری جانی پہچانی ہوئی صورتیں بدل گئیں، ان وحشت کدوں میں ہماری مدّت رہائش دراز ہو گئی، نہ بے چینی سے چھٹکارا نصیب ہے، نہ تنگی سے فراخی حاصل ہے۔

فَلَوْ مَثَّلْتَهُمْ بِعَقْلِكَ، اَوْ كُشِفَ عَنْهُمْ مَحْجُوْبُ الْغِطَآءِ لَكَ، وَ قَدِ ارْتَسَخَتْ اَسْمَاعُهُمْ بِالْهَوَامِّ فَاسْتَكَّتْ، وَ اكْتَحَلَتْ اَبْصَارُهُمْ بِالتُّرَابِ فَخَسَفَتْ، وَ تَقَطَّعَتِ الْاَلْسِنَةُ فِیْۤ اَفْوَاهِهِمْ بَعْدَ ذَلَاقَتِهَا، وَ هَمَدَتِ الْقُلُوْبُ فِیْ صُدُوْرِهِمْ بَعْدَ یَقَظَتِهَا، وَ عَاثَ فِیْ كُلِّ جَارِحَةٍ مِّنْهُمْ جَدِیْدُ بِلًی سَمَّجَهَا، وَ سَهَّلَ طُرُقَ الْاٰفَةِ اِلَیْهَا، مُسْتَسْلِمَاتٍ فَلَاۤ اَیْدٍ تَدْفَعُ، وَ لَا قُلُوْبٌ تَجْزَعُ، لَرَاَیْتَ اَشْجَانَ قُلُوْبٍ، وَ اَقْذَآءَ عُیُوْنٍ، لَهُمْ فِیْ كُلِّ فَظَاعَةٍ صِفَةُ حَالٍ لَّا تَنْتَقِلُ، وَ غَمْرَةٌ لَّا تَنْجَلِیْ، وَ كَمْ اَكَلَتِ الْاَرْضُ مِنْ عَزِیْزِ جَسَدٍ، وَ اَنِیْقِ لَوْنٍ، كَانَ فِی الدُّنْیَا غَذِیَّ تَرَفٍ، وَ رَبِیْبَ شَرَفٍ! یَتَعَلَّلُ بِالسُّرُوْرِ فِیْ سَاعَةِ حُزْنِهٖ، وَ یَفْزَعُ اِلَی السَّلْوَةِ اِنْ مُصِیْبَةٌ نَّزَلَتْ بِهٖ، ضَنًّۢا بِغَضَارَةِ عَیْشِهٖ، وَ شَحَاحَةًۢ بِلَهْوِهٖ وَ لَعِبِهٖ!.

اب اس عالم میں کہ جب کیڑوں کی وجہ سے ان کے کان سماعت کو کھو کر بہرے ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھیں خاک کا سرمہ لگا کر اندر کو دھنس چکی ہیں اور ان کے منہ میں زبانیں طلاقت و روانی دکھانے کے بعد پارہ پارہ ہو چکی ہیں اور سینوں میں دل چوکنا رہنے کے بعد بے حرکت ہو چکے ہیں اور ان کے ایک ایک عضو کو نت نئی بوسیدگیوں نے تباہ کرکے بد ہیئت بنا دیا ہے اور اس حالت میں کہ وہ (ہر مصیبت سہنے کیلئے) بلا مزاحمت آمادہ ہیں، ان کی طرف آفتوں کا راستہ ہموار کر دیا ہے، نہ کوئی ہاتھ ہے جو ان کا بچاؤ کرے اور نہ (پسیجنے والے ) دل ہیں جو بے چین ہو جائیں، اگر تم اپنی عقلوں میں ان کا نقشہ جماؤ، یا یہ کہ تمہارے سامنے سے ان پر پڑا ہوا پردہ ہٹا دیا جائے تو البتہ تم ان کے دلوں کے اندوہ اور آنکھوں میں پڑے ہوئے خس و خاشاک کو دیکھو گے کہ ان پر شدت و سختی کی ایسی حالت ہے کہ وہ بدلتی نہیں اور ایسی مصیبت و جان کاہی ہے کہ ہٹنے کانام نہیں لیتی اور تمہیں معلوم ہو گا کہ زمین نے کتنے باوقار جسموں اور دلفریب رنگ روپ والوں کو کھا لیا، (جو دنیا میں ناز و نعمت کے پلے اور احترام و شرف کے پرورش یافتہ تھے)، جو رنج کی گھڑیوں میں بھی مسرت انگیز چیزوں سے دل بہلاتے تھے، اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تھی تو اپنے عیش کی تازگیوں پر للچائے رہنے اور کھیل تفریح پر فریفتہ ہونے کی وجہ سے خوش وقتیوں کے سہارے ڈھونڈتے تھے۔

فَبَیْنَا هُوَ یَضْحَكُ اِلَی الدُّنْیَا وَ تَضْحَكُ اِلَیْهِ فِیْ ظِلِّ عَیْشٍ غَفُوْلٍ، اِذْ وَطِئَ الدَّهْرُ بِهٖ حَسَكَهٗ، وَ نَقَضَتِ الْاَیَّامُ قُوَاهُ، وَ نَظَرَتْ اِلَیْهِ الْحُتُوْفُ مِنْ كَثَبٍ، فَخَالَطَهٗ بَثٌّ لَّا یَعْرِفُهٗ، وَ نَجِیُّ هَمٍّ مَّا كَانَ یَّجِدُهٗ، وَ تَوَلَّدَتْ فِیْهِ فَتَرَاتُ عِلَلٍ، اٰنَسَ مَا كَانَ بِصِحَّتِهٖ، فَفَزِعَ اِلٰی مَا كَانَ عَوَّدَهُ الْاَطِبَّآءُ مِنْ تَسْكِیْنِ الْحَارِّ بِالْقَارِّ، وَ تَحْرِیْكِ الْبَارِدِ بِالْحَارِّ، فَلَمْ یُطْفِئْ بِبَارِدٍ اِلَّا ثَوَّرَ حَرَارَةً، وَ لَا حَرَّكَ بِحَارٍّ اِلَّا هَیَّجَ بُرُوْدَةً، وَ لَا اعْتَدَلَ بِمُمَازِجٍ لِّتِلْكَ الطَّبَآئِعِ اِلَّاۤ اَمَدَّ مِنْهَا كُلَّ ذَاتِ دَآءٍ، حَتّٰی فَتَرَ مُعَلِّلُهٗ، وَ ذَهَلَ مُمَرِّضُهٗ، وَ تَعَایَاۤ اَهْلُهٗ بِصِفَةِ دَآئِهٖ. وَ خَرِسُوْا عَنْ جَوَابِ السَّآئِلِیْنَ عَنْهُ، وَ تَنَازَعُوْا دُوْنَهٗ شَجِیَّ خَبَرٍ یَّكْتُمُوْنَهٗ، فَقَآئِلٌ یَّقُوْلُ: هُوَ لِمَا بِهٖ، وَ مُمَنٍّ لَّهُمْ اِیَابَ عَافِیَتِهٖ، وَ مُصَبِّرٌ لَّهُمْ عَلٰی فَقْدِهٖ، یُذَكِّرُهُمْ اُسَی الْمَاضِیْنَ مِنْ قَبْلِهٖ.

اسی دوران میں کہ وہ غافل و مدہوش کرنے والی زندگی کی چھاؤں میں دنیا کو دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے اور دنیا انہیں دیکھ دیکھ کر قہقہے لگا رہی تھی کہ اچانک زمانہ نے انہیں کانٹوں کی طرح روند دیا اور ان کے سارے زور توڑ دیئے اور قریب ہی سے موت کی نظریں ان پر پڑنے لگیں اور ایسا غم و اندوہ ان پر طاری ہوا کہ جس سے وہ آشنا نہ تھے اور ایسے اندرونی قلق میں مبتلا ہوئے کہ جس سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا اور اس حالت میں کہ وہ صحت سے بہت زیادہ مانوس تھے ان میں مرض کی کمزوریاں پیدا ہو گئیں، تو اب انہوں نے انہی چیزوں کی طرف رجوع کیا جن کا طبیبوں نے انہیں عادی بنا رکھا تھا کہ گرمی کے زور کو سرد دواؤں سے فرو کیا جائے اور سردی کو گرم دواؤں سے ہٹایا جائے، مگر سرد دواؤں نے گرمی کو بجھانے کی بجائے اور بھڑکا دیا اور گرم دواؤں نے ٹھنڈک کو ہٹانے کی بجائے اس کا جوش اور بڑھا دیا اور نہ ان طبیعتوں میں مخلوط ہو نے والی چیزوں سے ان کے مزاج نقطہ اعتدال پر آئے، بلکہ ان چیزوں نے ہر عضو ِماؤف کا آزار اور بڑھا دیا، یہاں تک کہ چارہ گر سست پڑ گئے، تیمار دار (مایوس ہوکر) غفلت برتنے لگے، گھر والے مرض کی حالت بیان کرنے سے عاجز آ گئے اور مزاج پرسی کرنے والوں کے جواب سے خاموشی اختیار کر لی اور اس سے چھپاتے ہوئے اس اند و ہناک خبر کے بارے میں اختلاف رائے کرنے لگے۔ ایک کہنے والا یہ کہتا تھا کہ اس کی حالت جو ہے سو ظاہر ہے اور ایک صحت و تندرستی کے پلٹ آنے کی امید دلاتا تھا اور ایک اس کی (ہونے والی) موت پر انہیں صبر کی تلقین کرتا اور اس سے پہلے گزر جانے والوں کی مصیبتیں انہیں یاد دلاتا تھا۔

فَبَیْنَا هُوَ كَذٰلِكَ عَلٰی جَنَاحٍ مِّنْ فِرَاقِ الدُّنْیَا وَ تَرْكِ الْاَحِبَّةِ، اِذْ عَرَضَ لَهٗ عَارِضٌ مِّنْ غُصَصِهٖ، فَتَحَیَّرَتْ نَوَافِذُ فِطْنَتِهٖ، وَ یَبِسَتْ رُطُوْبَةُ لِسَانِهٖ، فَكَمْ مِنْ مُّهِمٍّ مِّنْ جَوَابِهٖ عَرَفَهٗ فَعَیَّ عَنْ رَّدِّهٖ، وَ دُعَآءٍ مُّؤْلِمٍ لِّقَلْبِهٖ سَمِعَهٗ فَتَصَامَّ عَنْهُ، مِنْ كَبِیْرٍ كَانَ یُعَظِّمُهٗ، اَوْ صَغِیْرٍ كَانَ یَرْحَمُهٗ! وَ اِنَّ لِلْمَوْتِ لَغَمَرَاتٍ هِیَ اَفْظَعُ مِنْ اَنْ تُسْتَغْرَقَ بِصِفَةٍ، اَوْ تَعْتَدِلَ عَلٰی عُقُوْلِ اَهْلِ الدُّنْیَا.

اسی اثنا میں کہ وہ دنیا سے جانے اور دوستوں کو چھوڑنے کیلئے پر تول رہا تھا کہ ناگاہ گلو گیر پھندوں میں سے ایک ایسا پھندا اسے لگا کہ اس کے ہوش و حواس پاشان و پریشان ہو گئے اور زبان کی تری خشک ہو گئی اور کتنے ہی مہم سوالات تھے کہ جن کے جواب وہ جانتا تھا، مگر بیان کرنے سے عاجز ہو گیا اور کتنی ہی دلسوز صدائیں اس کے کان سے ٹکرائیں کہ جن کے سننے سے بہرا ہو گیا۔ وہ آواز یا کسی ایسے بزرگ کی ہوتی تھی جس کا یہ بڑا احترام کرتا تھا، یا کسی ایسے خورد سال کی ہوتی تھی جس پر یہ مہربان و شفیق تھا۔ موت کی سختیاں اتنی ہیں کہ مشکل ہے کہ دائرہ بیان میں آ سکیں یا اہل دنیا کی عقلوں کے اندازہ پر پوری اتر سکیں۔

۱؂اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ بنی عبد مناف اور بنی سہم، مال و دولت کی فراوانی اور افراد قبیلہ کی کثرت پر آپس میں تفاخر کرنے لگے اور ہر ایک اپنی کثرت دکھانے کیلئے اپنے مُردوں کو بھی شمار کرنے لگا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہیں مال و اولاد کی کثرت نے غافل کر دیا ہے، یہاں تک کہ تم نے زندوں کے ساتھ مُردوں کو بھی شمار کرنا شروع کر دیا۔

اس آیت کے ایک معنی یہ بھی کہے گئے ہیں کہ: مال و اولاد کی فراوانی نے تمہیں غافل کر دیا ہے، یہاں تک کہ تم مر کر قبروں تک پہنچ گئے۔ مگر امیر المومنین علیہ السلام کے ارشاد سے پہلے معنی کی تائید ہوتی ہے۔

۲؂مطلب یہ ہے کہ جو دن کے وقت مرتے ہیں ان کی نگاہوں میں ہمیشہ دن ہی رہتا ہے اور جو رات کے وقت مرتے ہیں ان کیلئے رات کا اندھیرا نہیں چھٹتا، کیونکہ وہ ایسے مقام پر ہیں کہ جہاں چاند، سورج کی گردش اور شب و روز کا چکر نہیں ہوتا۔ اس مضمون کو ایک شاعر نے اس طرح ادا کیا ہے:

لَا بُدَّ مِنْ يَّوْمٍۭ بِلَا لَيْلَةٍ

اَوْ لَيْلَةٍ تَاْتِیْ بِلَا يَوْمٍ‏

’’پھر اجالی رات کا منظر نہ دیکھے گا یہ دن، صبح کا جلوہ نہ دیکھے گی کبھی شامِ فراق‘‘۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button