خطبہ (۲۲۰)
(٢٢٠) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۲۰)
قَالَهٗ عِنْدَ تِلَاوَتِهٖ: ﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ﴾:
آیت ﴿یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ﴾: ’’اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے پروردگار کریم کے بارے میں دھوکا دیا‘‘ کی تلاوت کے وقت ارشاد فرمایا:
اَدْحَضُ مَسْؤٗلٍ حُجَّةً، وَ اَقْطَعُ مُغْتَرٍّ مَّعْذِرَةً، لَقَدْ اَبْرَحَ جَهَالَةًۢ بِنَفْسِهٖ.
یہ شخص جس سے یہ سوال ہو رہا ہے جواب میں کتنا عاجز اور یہ فریب خوردہ عذر پیش کرنے میں کتنا قاصر ہے! وہ اپنے نفس کو سختی سے جہالت میں ڈالے ہوئے ہے۔
یاۤ اَیُّهَا الْاِنْسَانُ! مَا جَرَّاَكَ عَلٰی ذَنْۢبِكَ، وَ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ، وَ مَاۤ اٰنَسَكَ بِهَلَكَةِ نَفْسِكَ؟ اَمَا مِنْ دَآئِكَ بُلُوْلٌ، اَمْ لَیْسَ مِنْ نَّوْمَتِكَ یَقَظَةٌ؟ اَمَا تَرْحَمُ مِنْ نَّفْسِكَ مَا تَرْحَمُ مِنْ غَیْرِكَ؟ فَلَرُبَّمَا تَرَی الضَّاحِیَ مِنْ حَرِّ الشَّمْسِ فَتُظِلُّهٗ، اَوْ تَرَی الْمُبْتَلٰی بِاَلَمٍ یُّمِضُّ جَسَدَهٗ فَتَبْكِیْ رَحْمَةً لَّهُ!، فَمَا صَبَّرَك عَلٰی دَآئِكَ، وَ جَلَّدَكَ عَلٰی مُصَابِكَ، وَ عَزَّاكَ عَنِ الْبُكَآءِ عَلٰی نَفْسِكَ وَ هِیَ اَعَزُّ الْاَنْفُسِ عَلَیْكَ! وَ كَیْفَ لَا یُوْقِظُكَ خَوْفُ بَیَاتِ نِقْمَةٍ، وَ قَدْ تَوَرَّطْتَ بِمَعَاصِیْهِ مَدَارِجَ سَطَوَاتِهٖ!.
اے انسان! تجھے کس چیز نے گناہ پر دلیر کر دیا ہے؟ اور کس چیز نے تجھے اپنے پروردگار کے بارے میں دھوکا دیا ہے؟ اور کس چیز نے تجھے اپنی تباہی پر مطمئن بنا دیا ہے؟ کیا تیرے مرض کیلئے شفا اور تیرے خواب (غفلت) کیلئے بیداری نہیں ہے؟کیا تجھے اپنے پر اتنا بھی رحم نہیں آتا جتنا دوسروں پر ترس کھاتا ہے؟ بسا اوقات تو جلتی دھوپ میں کسی کو دیکھتا ہے تو اس پر سایہ کر دیتا ہے یا کسی کو درد و کرب میں مبتلا پاتا ہے تو اس پر شفقت کی بنا پر تیرے آنسو نکل پڑتے ہیں، مگر خود اپنے روگ پر کس نے تجھے صبر دلایا ہے؟ اور کس نے تجھے اپنی مصیبتوں پر توانا کر دیا ہے اور خود اپنے اوپر رونے سے تسلی دے دی ہے؟ حالانکہ سب جانوں سے تجھے اپنی جان عزیز ہے اور کیونکر عذاب الٰہی کے رات ہی کو ڈیرے ڈال دینے کا خطرہ تجھے بیدار نہیں رکھتا؟ حالانکہ تو اپنے گناہوں کی بدولت اس کے قہر و تسلط کی راہ میں پڑا ہوا ہے۔
فَتَدَاوَ مِنْ دَآءِ الْفَتْرَةِ فِیْ قَلْبِكَ بِعَزِیْمَةٍ، وَ مِنْ كَرَی الْغَفْلَةِ فِیْ نَاظِرِكَ بِیَقَظَةٍ، وَ كُنْ لِّلّٰهِ مُطِیْعًا، وَ بِذِكْرِهٖۤ اٰنِسًا، وَ تَمَثَّلْ فِیْ حَالِ تَوَلِّیْكَ عَنْهُ اِقْبَالَهٗ عَلَیْكَ، یَدْعُوْكَ اِلٰی عَفْوِهٖ، وَ یَتَغَمَّدُكَ بِفَضْلِهٖ، وَ اَنْتَ مُتَوَلٍّ عَنْهُ اِلٰی غَیْرِهٖ.
دل کی کوتاہیوں کے روگ کا چارہ عزم راسخ سے، آنکھوں کے خواب غفلت کا مداوا بیداری سے کرو، اللہ کے مطیع و فرمانبردار بنو اور اس کی یاد سے جی لگاؤ۔ ذرا اس حالت کا تصور کرو! وہ تمہاری طرف بڑھ رہا ہے اور تم اس سے منہ پھیرے ہوئے ہو اور وہ تمہیں اپنے دامن عفو میں لینے کیلئے بلا رہا ہے اور اپنے لطف و احسان سے ڈھانپنا چاہتا ہے اور تم ہو کہ اس سے روگرداں ہو کر دوسری طرف رخ کئے ہوئے ہو۔
فَتَعَالٰی مِنْ قَوِیٍّ مَّاۤ اَكْرَمَهٗ! وَ تَوَاضَعْتَ مِنْ ضَعِیْفٍ مَّاۤ اَجْرَاَكَ عَلٰی مَعْصِیَتِهٖ! وَ اَنْتَ فِیْ كَنَفِ سِتْرِهٖ مُقِیْمٌ، وَ فِیْ سَعَةِ فَضْلِهٖ مَتَقَلِّبٌ، فَلَمْ یَمْنَعْكَ فَضْلَهٗ، وَ لَمْ یَهْتِكْ عَنْكَ سِتْرَهٗ، بَلْ لَمْ تَخْلُ مِنْ لُّطْفِهٖ مَطْرَفَ عَیْنٍ فِیْ نِعْمَةٍ یُّحْدِثُهَا لَكَ، اَوْ سَیِّئَةٍ یَّسْتُرُهَا عَلَیْكَ، اَوْ بَلِیَّةٍ یَّصْرِفُهَا عَنْكَ، فَمَا ظَنُّكَ بِهٖۤ لَوْ اَطَعْتَهٗ!.
بلند و برتر ہے وہ خدائے قوی و توانا کہ جو کتنا بڑا کریم ہے اور تو اتنا عاجز و ناتواں اور اتنا پست ہو کر گناہوں پر کتنا جری اور دلیر ہے، حالانکہ اسی کے دامن پناہ میں اقامت گزیں ہے اور اسی کے لطف و احسان کی پہنائیوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اس نے اپنے لطف و کرم کو تجھ سے روکا نہیں اور نہ تیرا پردہ چاک کیا ہے، بلکہ اس کی کسی نعمت میں جو اس نے تیرے لئے خلق کی، یا کسی گناہ میں کہ جس پراس نے پردہ ڈالا، یا کسی مصیبت و ابتلا میں کہ جس کا رخ تجھ سے موڑا، تو اس کے لطف و کرم سے لحظہ بھر کیلئے محروم نہیں ہوا۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب تو اس کی معصیت کرتا ہے تو پھر تیرا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اگر تو اس کی اطاعت کرتا ہوتا۔
وَایْمُ اللهِ! لَوْ اَنَّ هٰذِهِ الصِّفَةَ كَانَتْ فِیْ مُتَّفِقَیْنِ فِی الْقُوَّةِ، مُتَوَازِیَیْنِ فِی الْقُدْرَۃِ، لَكُنْتَ اَوَّلَ حَاكِمٍ عَلٰی نَفْسِكَ بِذَمِیْمِ الْاَخْلَاقِ، وَ مَسَاوِی الْاَعَمْالِ.
خدا کی قسم!اگر یہی رویہ دو ایسے شخصوں میں ہوتا جو قوت و قدرت میں برابر کے ہم پلہ ہوتے (اور ان میں سے ایک تو ہوتا جو بے رخی کرتا اور دوسرا تجھ پر احسان کرتا) تو تُو ہی سب سے پہلے اپنے نفس پر کج خلقی اور بد کرداری کا حکم لگاتا۔
وَ حَقًّا اَقُوْلُ! مَا الدُّنْیَا غَرَّتْكَ، وَ لٰكِنْۢ بِهَا اغْتَرَرْتَ، وَ لَقَدْ كَاشَفَتْكَ الْعِظَاتِ، وَ اٰذَنَتْكَ عَلٰی سَوَآءٍ، وَ لَهِیَ بِمَا تَعِدُكَ مِنْ نُّزُوْلِ الْبَلَآءِ بِجِسْمِكَ، وَ النَّقْصِ فِیْ قُوَّتِكَ، اَصْدَقُ وَ اَوْفٰی مِنْ اَنْ تَكْذِبَكَ، اَوْ تَغُرَّكَ، وَ لَرُبَّ نَاصِحٍ لَّهَا عِنْدَكَ مُتَّهَمٌ، وَ صَادِقٍ مِّنْ خَبَرِهَا مُكَذَّبٌ، وَلَئِنْ تَعَرَّفْتَهَا فِی الدِّیَارِ الْخَاوِیَةِ، وَ الرُّبُوْعِ الْخَالِیَةِ، لَتَجِدَنَّهَا مِنْ حُسْنِ تَذْكِیْرِكَ، وَ بَلَاغِ مَوْعِظَتِكَ، بِمَحَلَّةِ الشَّفِیْقِ عَلَیْكَ، وَ الشَّحِیْحِ بِكَ! وَ لَنِعْمَ دَارُ مَنْ لَّمْ یَرْضَ بِهَا دَارًا، وَ مَحَلُّ مَنْ لَّمْ یُوَطِّنْهَا مَحَلًّا! وَ اِنَّ السُّعَدَآءَ بِالدُّنْیَا غَدًا هُمُ الْهَارِبُوْنَ مِنْهَا الْیَوْمَ.
سچ کہتا ہوں کہ دنیا نے تجھ کو فریب نہیں دیا بلکہ تو خود (جان بوجھ کر) اس کے فریب میں آیا ہے۔ اس نے تو تیرے سامنے نصیحتوں کو کھول کر رکھ دیا اور تجھے (ہر چیز سے) یکساں طور پر آگاہ کر دیا۔ اس نے جن بلاؤں کے تیرے جسم پر نازل ہونے اور جس کمزوری کے تیرے قویٰ پر طاری ہونے کا وعدہ کیا ہے اس میں راست گو اور ایفائے عہد کرنے والی ہے، بجائے اس کے کہ تجھ سے جھوٹ کہا ہو یا فریب دیا ہو۔ کتنے ہی اس دنیا کے بارے میں سچے نصیحت کرنے والے ہیں جو تیرے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں اور کتنے ہی اس کے حالات کو صحیح صحیح بیان کرنے والے ہیں جو جھٹلائے جاتے ہیں۔ اگر تو ٹوٹے ہوئے گھروں اور سنسان مکانوں سے دنیا کی معرفت حاصل کرے تو تُو انہیں اچھی یاد دہانی اور مؤثر پند دہی کے لحاظ سے بمنزلہ ایک مہربان کے پائے گا کہ جو تیرے (ہلاکتوں میں پڑنے سے) بخل سے کام لیتے ہیں۔ یہ دنیا اس کیلئے اچھا گھر ہے جو اسے گھر سمجھنے پر خوش نہ ہو اور اسی کیلئے اچھی جگہ ہے جو اسے اپنا وطن بنا کر نہ رہے۔ اس دنیا کی وجہ سے سعادت کی منزل پر کل وہی لوگ پہنچیں گے جو آج اس سے گریزاں ہیں۔
اِذَا رَجَفَتِ الرَّاجِفَةُ، وَ حَقَّتْ بِجَلَآئِلِهَا الْقِیٰمَةُ، وَ لَحِقَ بِكُلِّ مَنْسَكٍ اَهْلُهٗ، وَ بِكُلِّ مَعْبُوْدٍ عَبَدَتُهٗ، وَ بِكُلِّ مُطَاعٍ اَهْلُ طَاعَتِهٖ، فَلَمْ یُجْزَ فِیْ عَدْلِهٖ وَ قِسْطِهٖ یَوْمَئِذٍ خَرْقُ بَصَرٍ فِی الْهَوَآءِ، وَ لَا هَمْسُ قَدَمٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا بِحَقِّهٖ، فَكَمْ حُجَّةٍ یَّوْمَ ذَاكَ دَاحِضَةٌ، وَ عَلَآئِقِ عُذْرٍ مُّنْقَطِعَةٌ! فَتَحَرَّ مِنْ اَمْرِكَ مَا یَقُوْمُ بِهٖ عُذْرُكَ، وَ تَثْبُتُ بِهٖ حُجَّتُكَ، وَ خُذْ مَا یَبْقٰی لَكَ مِمَّا لَا تَبْقٰی لَهٗ، وَ تَیَسَّرْ لِسَفَرِكَ، وَ شِمْ بَرْقَ النَّجَاةِ، وَ ارْحَلْ مَطَایَا التَّشْمِیْرِ.
جب زمین زلزلہ میں اور قیامت اپنی ہولناکیوں کے ساتھ آ جائے گی اور ہر عبادت گاہ سے اس کے پجاری، ہر معبود سے اس کے پرستار اور ہر پیشوا سے اس کے مقتدی ملحق ہو جائیں گے تو اس وقت فضا میں شگاف کرنے والی نظر اور زمین میں قدموں کی ہلکی چاپ کا بدلہ بھی اس کی عدالت گستری و انصاف پروری کے پیش نظر حق و انصاف سے پورا پورا دیا جائے گا۔ اس دن کتنی ہی دلیلیں غلط و بے معنی ہو جائیں گی اور عذر و معذرت کے بندھن ٹوٹ جائیں گے۔ تو اب اس چیز کو اختیار کرو جس سے تمہارا عذر قبول اور تمہاری حجت ثابت ہو سکے۔ جس دنیا سے تم نے ہمیشہ بہرہ یاب نہیں ہونا اس سے وہ چیزیں لے لو جو تمہارے لئے ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں۔ اپنے سفر کیلئے تیار رہو، (دنیا کی ظلمتوں میں) نجات کی چمک پر نظر کرو اور جدوجہد کی سواریوں پر پالان کس لو۔