خطبات

خطبہ (۲۲۵)

(٢٢٥) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ

خطبہ (۲۲۵)

لِلّٰهِ بِلَآءُ فُلَانٍ، فَقَدْ قَوَّمَ الْاَوَدَ، وَ دَاوَی الْعَمَدَ، خَلَّفَ الْفِتْنَةَ وَ اَقَامَ السُّنَّةَ! ذَهَبَ نَقِیَّ الثَّوْبِ، قَلِیْلَ الْعَیْبِ. اَصَابَ خَیْرَهَا، وَ سَبَقَ شَرَّهَا، اَدّٰۤی اِلَی اللهِ طَاعَتَهٗ، وَ اتَّقَاهُ بِحَقِّهٖ، رَحَلَ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ طُرُقٍ مَّتَشَعِّبَةٍ، لَا یَهْتَدِیْ فِیْهَا الضَّالُّ، وَ لَا یَسْتَیْقِنُ الْمُهْتَدِیْ.

فلاں شخص [۱] کی کارکردگیوں کی جزا اللہ دے! انہوں نے ٹیڑھے پن کو سیدھا کیا، مرض کا چارہ کیا، فتنہ و فساد کو پیچھے چھوڑ گئے، سنت کو قائم کیا، صاف ستھرے دامن اور کم عیبوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے، (دنیا کی) بھلائیوں کو پا لیا اور اُس کی شر انگیزیوں سے آگے بڑھ گئے۔ اللہ کی اطاعت بھی کی اور اس کا پورا پورا خوف بھی کھایا۔ خود چلے گئے اور لوگوں کو ایسے متفرق راستوں میں چھوڑ گئے جن میں گم کردہ راہ راستہ نہیں پا سکتا اور ہدایت یافتہ یقین تک نہیں پہنچ سکتا۔

۱؂ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ لفظ ’’فلاں‘‘ کنایہ ہے حضرتِ عمر سے اور یہ کلمات انہی کی مدح و توصیف میں کہے گئے ہیں، جیسا کہ سیّد رضیؒ کے تحریر کردہ نسخہ نہج البلاغہ میں لفظ ’’فلاں‘‘ کے نیچے انہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا لفظ عمر موجود تھا۔

یہ ہے ابن ابی الحدید کا دعویٰ، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اگر سیّد رضیؒ نے بطور تشریح حضرت عمر کا نام لکھا ہوتا تو جس طرح ان کی دوسری تشریحات موجود ہیں اس تشریح کو بھی موجود ہونا چاہئے تھا اور ان نسخوں میں بھی اس کا وجود ہونا چاہیے تھا کہ جو ان کے نسخہ سے نقل ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ اب بھی موصل میں مستعصم باللہ کے دور کے شُہرہ آفاق خطاط یاقوت المستعصمی کے ہاتھ کا لکھا ہوا قدیم ترین نہج البلاغہ کا نسخہ موجود ہے، مگر سیّد رضی کی اس تشریح کی نشاندہی کسی ایک نے بھی نہیں کی۔ اور اگر ابن ابی الحدید کی اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اسے زائد سے زائد جناب رضیؒ کی ذاتی رائے کہا جا سکتا ہے جسے کسی قوی دلیل کی موجودگی میں بطور مؤید تو پیش کیا جا سکتا ہے مگر مستقلاً اس شخصی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی۔

حیرت ہے کہ ابن ابی الحدید ساتویں ہجری میں سیّد رضیؒ کے ڈھائی سو برس بعد یہ افادہ فرماتے ہیں کہ اس سے حضرت عمر مراد ہیں اور یہ کہ خود سیّد رضیؒ نے اس کی تصریح کر دی تھی، چنانچہ ان کے تتبع میں بعض دوسرے شارحین نے بھی یہی لکھنا شروع کر دیا، لیکن سیّد رضیؒ کے معاصرین میں سے جن لوگوں نے بھی نہج البلاغہ کے متعلق کچھ لکھا ہے ان کی تحریرات میں اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ حالانکہ بحیثیت معاصر ہونے کے سیّد رضیؒ کی تحریر پر انہیں زیادہ مطلع ہونا چاہئے تھا۔ چنانچہ علامہ علی ابن الناصر جو جناب سیّد رضیؒ کے ہم عصر تھے اور انہی کے دور میں نہج البلاغہ کی شرح ’’اعلام نہج البلاغۃ‘‘ کے نام سے لکھتے ہیں وہ اس خطبہ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:

مَدَحَ بَعْضَ اَصْحَابِهٖ بِحُسْنِ السِّيْرَةِ، وَ اَنَّهٗ مَاتَ قَبْلَ الْفِتْنَةِ الَّتِیْ وَقَعَتْ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ – ﷺ.

حضرت نے اپنے اصحاب میں سے ایک ایسے شخص کو حسنِ سیرت کے ساتھ سراہا ہے کہ جو پیغمبر ﷺ کے بعد پیدا ہونے والے فتنہ سے پہلے ہی انتقال کر چکا تھا۔[۱]

اس کی تائید علامہ قطب الدین راوندی متوفی ۵۷۳ ہجری کی شرح نہج البلاغہ سے بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ ابن میثم نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے:

اِنَّمَاۤ اَرَادَ بَعْضَ اَصْحَابِهٖ فِیْ زَمَنِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ مِمَّنْ مَّاتَ قَبْلَ وُقُوْعِ الْفِتَنِ وَ انْتِشَارِهَا. ۔

حضرتؑ نے اس سے زمانہ پیغمبرؐ کے اپنے ایک ایسے ساتھی کو مراد لیا جو فتنہ کے برپا ہونے اور پھیلنے سے پہلے ہی رحلت کر چکا تھا۔[۲]

اگر یہ کلمات حضرتِ عمر کے متعلق ہوتے اور اس کے متعلق کوئی قابلِ اعتماد سند ہوتی تو ابنِ ابی الحدید اس سند و روایت کو درج کرتے اور اس کا ذکر تاریخ میں آتا اور زبانوں پر اس کا چرچا ہوتا، مگر یہاں تو اثباتِ مُدعا کیلئے خود ساختہ قرائن کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ چنانچہ وہ «خَیْرَهَا» و «شَرَّهَا» کی ضمیر کا مرجع ’’خلافت‘‘ کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ کلمات ایسے ہی شخص پر صادق آ سکتے ہیں جو تسلط و اقتدار رکھتا ہو، کیونکہ اقتدار کے بغیر ناممکن ہے کہ سنت کی ترویج اور بدعت کی روک تھام کی جا سکے۔

یہ ہے اس دلیل کا خلاصہ جسے اس مقام پر پیش کیا ہے، حالانکہ اس کی کوئی دلیل نہیں کہ ضمیر کا مرجع ’’خلافت‘‘ ہے، بلکہ وہ ضمیر ’’دنیا‘‘ کی طرف راجع ہو سکتی ہے جو سیاقِ کلام سے مستفاد ہے اور مفادِ عامہ کی حفاظت اور ترویج سنت کیلئے اقتدار کی شرط لگا دینا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دروازہ بند کر دینا ہے، حالانکہ خداوند عالم نے شرطِ اقتدار کے بغیر اُمت کے ایک گروہ پر یہ فریضہ عائد کیا ہے:

﴿وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ‌ؕ﴾

تم میں سے ایک ایسا گروہ ہونا چاہئیے جو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کاموں کا حکم دے اور بُرے کاموں سے روکے۔[۳]

اسی طرح پیغمبر ﷺ سے مروی ہے کہ:

لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَاۤ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى‏.

لوگ جب تک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہیں گے اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے رہیں گے وہ بھلائی پر باقی رہیں گے۔[۴]

یونہی امیر المومنین علیہ السلام اپنی ایک وصیت میں عمومیت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ:

اَقِيْمُوْا هٰذَيْنِ الْعَمُوْدَيْنِ وَ اَوْقِدُوْا هٰذَيْنِ الْمِصْبَاحَيْنِ.

توحید اور سنت کے ستونوں کو قائم کرو اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھو۔[۵]

ان ارشادات میں کہیں بھی اس طرف اشارہ نہیں کہ اس فریضه کی انجام دہی حکومت و اقتدار کے بغیر نہیں ہو سکتی اور واقعات بھی یہ بتاتے ہیں کہ امرا و سلاطین لشکر و سپاہ اور قوت و طاقت کے باوجود برائیوں کو اس حد تک نہ مٹا سکے اور نیکیوں کو اس قدر رواج نہ دے سکے جس قدر بعض گمنام اور شکستہ حال درویش دل و دماغ پر اپنی روحانیت کا نقش بٹھا کر اخلاقی رفعتوں کو ابھار گئے۔ حالانکہ ان کی پشت پر نہ فوج و سپاہ ہوتی تھی اور نہ بے سر و سامانی کے علاوہ کوئی سر و سامان ہوتا تھا۔ بے شک تسلط و اقتدار سروں کو جھکا سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ دلوں میں نیکی کی راہ بھی پیدا کر سکے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بیشتر اسلامی تاجداروں نے اسلامی خد و خال کو مٹا کر رکھ دیا اور اسلام اپنے بقا و فروغ میں صرف اُن بے نواؤں کا مرہونِ منت رہا جن کی جھولی میں فقر و نامرادی کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تھا۔

اگر اسی پر اصرار ہو کہ اس سے صرف ایک حکمران ہی مراد لیا جا سکتا ہے تو کیوں نہ اس سے حضرتؑ کا کوئی ایسا ساتھی مراد لیا جائے جو کسی صوبہ پر حکمران رہ چکا ہو، جیسے حضرت سلمان فارسی جن کی تجہیز و تکفین کیلئے حضرتؑ مدائن تشریف لے گئے اور بعید نہیں کہ ان کے دفن کرنے کے بعد ان کی زندگی اور آئین

(ابن ابی الحدید نے) آخر میں اثباتِ مدّعا کیلئے طبری کی اس روایت کو پیش کیا ہے:

عَنِ الْمُغِيْرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ بَكَتْهُ ابْنَةُ اَبِیْ حَثْمَۃَ، فَقَالَتْ: وَا عُمَرَاهُ! اَقَامَ الْاَوَدَ، وَ اَبْرَاَ الْعَمَدَ، اَمَاتَ الْفِتَنَ، وَ اَحْيَا السُّنَنَ، خَرَجَ نَقِیَّ الثَّوْبِ، بَرِيْٓـئًا مِّنَ الْعَيْبِ. قَالَ: وَ قَالَ الْمُغِيْرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: لَمَّا دُفِنَ عُمَرُ اَتَيْتُ عَلِيًّا ؑ وَ اَنَا اُحِبُّ اَنْ اَسْمَعَ مِنْهُ فِیْ عُمَرَ شَيْئًا، فَخَرَجَ يَنْفُضُ رَاْسَهٗ وَلِحْيَتَهٗ وَقَدِ اغْتَسَلَ، وَ هُوَ مُلْتَحِفٌۢ بِثَوْبٍ، لَا يَشُكُّ اَنَّ الْاَمْرَ يَصِيْرُ اِلَيْهِ، فَقَالَ: يَرْحَمُ اللّٰهُ ابْنَ الْخَطَّابِ! لَقَدْ صَدَقَتِ ابْنَةُ اَبِیْ حَثْمَةَ، لَقَدْ ذَهَبَ بِخَيْرِهَا، وَ نَجَا مِنْ شَرِّهَا، اَمَا وَاللّٰهِ! مَا قَالَتْ، وَ لٰكِنْ قُوِّلَتْ.

مغیرہ ابن شعبہ سے روایت ہے کہ جب حضرتِ عمرؓ انتقال کر گئے تو بنت ابی حثمہ نے روتے ہوئے کہا کہ: ہائے عمر! تُو وہ تھا جس نے ٹیڑھے پن کو سیدھا کیا، بیماریوں کو دور کیا، فتنوں کو مٹایا اور سنتوں کو زندہ کیا، پاکیزہ دامن اور عیبوں سے بچ کر چل بسا۔ (مؤرخ طبری کہتے ہیں کہ) مغیرہ نے بیان کیا کہ: جب حضرت عمر دفن ہو گئے تو میں حضرت علی علیہ السلام کے پاس آیا اور میں چاہتا تھا کہ آپؑ سے حضرت عمر کے بارے میں کچھ سنوں۔ چنانچہ میرے جانے پر حضرتؑ باہر تشریف لائے اس حالت میں کہ آپؑ غسل فرما کر ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے اور سر اور داڑھی کے بالوں کو جھٹک رہے تھے اور آپؑ کو اس میں کوئی شبہ نہ تھا کہ خلافت آپؑ ہی کی طرف پلٹے گی۔ اس موقع پر آپؑ نے فرمایا: خدا ابن خطاب پر رحم کرے! بنت ابی حثمہ نے سچ کہا ہے کہ وہ خلافت کے فائدے اٹھا گئے اور بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں سے بچ نکلے۔ خدا کی قسم! بنت ابی حثمہ نے کہا نہیں بلکہ اس سے کہلوایا گیا ہے۔ (طبری، ج۳، ص۲۸۵)

اس واقعہ کا راوی مغیرہ ابن شعبہ ہے جس کا اُمِّ جمیل کے ساتھ فعلِ بد کا مرتکب ہونا اور شہادت کے باوجود حضرت عمر کا اُسے حد سے بچا لے جانا اور معاویہ کے حکم سے اس کا کوفہ میں علانیہ امیر المومنین ؑ پر سبّ و شتم کرنا تاریخی مسلمات میں سے ہے۔ اس بنا پر اس کی روایت کا جو وزن ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے اور پھر درایتاً بھی اس روایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ مغیرہ کا یہ کہنا کہ امیر المومنین علیہ السلام کو اپنی خلافت میں کوئی شبہ نہ تھا حقیقت کے خلاف ہے۔ آخر وہ کون سے قرائن تھے جن سے اُس نے یہ اندازہ لگایا؟ جبکہ تاریخی حقائق اس کے سراسر خلاف ہیں اور اگر کسی کی خلافت یقینی تھی تو وہ حضرتِ عثمان تھے۔ چنانچہ عبد الرحمٰن ابن عوف نے شوریٰ کے موقع پر امیر المومنین علیہ السلام سے کہا کہ:

يَا عَلِیُّ! لَا تَجْعَلْ عَلٰى نَفْسِكَ سَبِيْلًا، فَاِنِّیْ قَدْ نَظَرْتُ وَ شَاوَرْتُ النَّاسَ، فَاِذَا هُمْ لَا يَعْدِلُونَ بِعُثْمَانَ.

اے علیؑ! تم اپنے لئے ضرر کی صورت پیدا نہ کرو۔ میں نے دیکھ بھال لیا ہے اور لوگوں سے مشورہ بھی لیا ہے، وہ سب عثمان کو چاہتے ہیں۔ (طبری، ج۳، ص۲۹۷)

چنانچہ حضرتؑ کو خلافت کے نہ ملنے کا پورا یقین تھا، جیسا کہ خطبہ شقشقیہ کے ذیل میں تاریخ طبری سے نقل کیا جا چکا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ارکانِ شوریٰ کے نام دیکھتے ہی عباس ابن عبد المطلب سے فرما دیا تھا کہ: خلافت عثمان کے علاوہ کسی اور کو نہیں مل سکتی، کیونکہ تمام اختیارات عبد الرحمٰن کو سونپ دیے گئے ہیں اور وہ عثمان کے بہنوئی ہوتے ہیں اور سعد ابن ابی وقاص، عبد الرحمٰن کے عزیز و ہم قبیلہ ہیں اور یہ دونوں مل کر خلافت انہی کو دیں گے۔

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا جذبہ تھا جس نے مغیرہ کے دل میں یہ تڑپ پیدا کی کہ وہ حضرت عمر کے متعلق امیر المومنین علیہ السلام سے کچھ کہلوائے؟ اگر وہ یہ جانتا تھا کہ حضرتؑ ان کے متعلق اچھے خیالات رکھتے ہیں تو ان کے تاثرات کا بھی اندازہ ہو سکتا تھا اور اگر یہ سمجھتا تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام اُن کے متعلق حسنِ ظن نہیں رکھتے تو پوچھنے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا کہ آپؑ جو کچھ فرمائیں اسے اُچھال کر فضا کو ان کے خلاف اور ارکانِ شوریٰ کو ان سے بدظن کیا جائے اور ارکانِ شوریٰ کے نظریات تو اسی سے ظاہر ہیں کہ وہ انتخابِ خلافت میں سیرت شیخین کی پابندی لگا کر شیخین سے اپنی عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان حالات میں جب مغیرہ نے یہ سازش کرنا چاہی تو آپ ؑنے حکایت واقعہ کے طور پر یہ فرمایا: «لَقَدْ ذَهَبَ بِخَيْرِهَا، وَ نَجَا مِنْ شَرِّهَا» ۔ اس جملہ کو مدح و توصیف سے کوئی لگاؤ نہیں۔ یقیناً وہ اپنے دور میں ہر طرح کے فائدے اٹھاتے رہے اور بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں سے ان کا دَور خالی رہا۔

ابنِ ابی الحدید اس روایت کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

وَ هٰذَا كَمَا تَرٰى يَقْوِی الظَّنُّ اَنَّ الْمُرَادَ وَ الْمَعْنٰی بِالْكَلَامِ اِنَّمَا هُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ‏.

اس روایت سے یہ ظن قوی ہو جاتا ہے کہ اس کلام سے مراد و مقصود عمر ابن خطاب ہیں۔[۶]

اگر اس کلام سے وہ کلمات مراد ہیں جو بنت ابی حثمہ نے کہے ہیں کہ جن کے متعلق امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ: یہ اس کے دل کی آواز نہیں بلکہ اس سے کہلوائے گئے ہیں تو بیشک اس سے حضرت عمر مراد ہیں۔ لیکن یہ کہ یہ الفاظ امیر المومنین علیہ السلام نے ان کی مدح میں کہے ہیں تو یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس روایت سے تو صراحتاً یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ الفاظ بنت ابی حثمہ نے کہے تھے۔ خدا جانے کس بنا پر بنت ابی حثمہ کے الفاظ کو درج کر کے یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کی جاتی ہے کہ یہ الفاظ امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت عمر کے بارے میں کہے ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے کسی موقع پر یہ الفاظ کسی کے متعلق کہے ہوں گے اور بنتِ ابی حثمہ نے حضرت عمر کے انتقال پر ان سے ملتے جلتے ہوئے الفاظ کہے تو حضرت علی علیہ السلام کے کلمات کو بھی حضرت عمر کی مدح میں سمجھ لیا گیا، ورنہ عقل اعتزال کے علاوہ کوئی عقل یہ تجویز نہیں کر سکتی کہ بنت ابی حثمہ کے کہے ہوئے الفاظ کو اس کی دلیل قرار دیا جائے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے حضرت عمر کی مدح میں یہ الفاظ فرمائے ہیں۔ کیا خطبہ شقشقیہ کی تصریحات کے بعد یہ توقع ہو سکتی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایسے الفاظ کہے ہوں گے۔ اور پھر غور طلب بات یہ ہے کہ اگر یہ الفاظ حضرت عمر کی رحلت کے موقع پر فرمائے ہوتے تو جب آپؑ شوریٰ کے موقع پر علانیہ سیرتِ شیخین کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو آپؑ سے یہ نہیں کہا جاتا کہ کل تو آپؑ یہ فرما رہے تھے کہ انہوں نے سنت کو قائم کیا اور بدعت کو مٹایا تو جب ان کی سیرت سُنت سے ہمنوا ہے تو پھر سنت کو تسلیم کرنے کے بعد سیرت سے انکار کرنے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟!۔

[۱]۔ اعلام نہج البلاغہ، ص ۱۹۲۔

[۲]۔ شرح نہج البلاغہ، ابن میثم، ج ۴، ص ۹۷۔

[۳]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۰۴۔

[۴]۔ تہذیب الاحکام، ج ۶، ص ۱۸۱۔

[۵]۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۱۴۷۔

[۶]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۲، ص ۵۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

یہ بھی دیکھیں
Close
Back to top button