خطبہ (۲۳۶)
(٢٣٦) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۳۶)
یَذْكُرُ فِیْهَا اٰلَ مُحَمَّدٍ ﷺ
اس میں آلِ محمد علیہم السلام کا ذکر فرمایا
هُمْ عَیْشُ الْعِلْمِ، وَ مَوْتُ الْجَهْلِ، یُخْبِرُكُمْ حِلْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ، وَ ظَاهِرُهُمْ عَنْۢ بَاطِنِهِمْ، وَصَمْتُهُمْ عَنْ حِكَمِ مَنْطِقِهِمْ.
وہ علم کیلئے باعثِ حیات اور جہالت کیلئے سبب مرگ ہیں۔ ان کا حلم ان کے علم کا اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا اور ان کی خاموشی ان کے کلام کی حکمتوں کا پتہ دیتی ہے۔
لَا یُخَالِفُوْنَ الْحَقَّ وَ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ. هُمْ دَعَآئِمُ الْاِسْلَامِ، وَ وَلَاۗئِجُ الْاِعْتِصَامِ، بِهِمْ عَادَ الْحَقُّ فِیْ نِصَابِهٖ، وَ انْزَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ مُّقَامِهٖ، وَ انْقَطَعَ لِسَانُهٗ عَنْ مَّنْۢبِتِهٖ.
وہ نہ حق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، نہ اس میں اختلاف پیدا کرتے ہیں۔ وہ اسلام کے ستون اور بچاؤ کا ٹھکانا ہیں۔ ان کی وجہ سے حق اپنے اصلی مقام پر پلٹ آیا اور باطل اپنی جگہ سے ہٹ گیا اور اس کی زبان جڑ سے کٹ گئی۔
عَقَلُوا الدِّیْنَ عَقْلَ وِعَایَةٍ وَّ رِعَایَةٍ، لَا عَقْلَ سَمَاعٍ وَّ رِوَایَةٍ. فَاِنَّ رُوَاةَ الْعِلْمِ كَثِیْرٌ، وَ رُعَاتَهٗ قَلِیْلٌ.
انہوں نے دین کو سمجھ کر اور اس پر عمل کر کے اسے پہچانا ہے، نہ صرف نقل و سماعت سے اسے جانا ہے۔ یوں تو علم کے راوی بہت ہیں مگر اس پر عمل پیرا ہو کر اس کی نگہداشت کرنے والے کم ہیں۔